امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ» قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ - يَقُولُونَ: بَلِيتَ -؟ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ» [سنن أبي داود 1/ 275 رقم1047 ، ابن ماجہ رقم 1636 واخرجہ غیرواحد من ھذا الطریق ]۔
سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» (دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں۔“
یہ حدیث ضعیف ہے ، محققین نے اس کے اندرچارعلتیں بتلائی ہیں۔
- حسین بن علی کاتفرد۔
- سندومتن میں نکارت۔
- ابن يزيدکا ابوالاشعث سے عدم سماع۔
- حسین بن علی کا اپنے استاذ کے بیان میں وہم ۔
پہلی دو علتوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے :بيان أوهام الألباني في تحقيقه لكتاب فضل الصلاة على النبي کاضمیمہ۔
تیسری علت کا تذکرہ ابن القیم نے جلاء الأفهام ص 46 پر کیاہے۔
چھوتھی علت کی صراحت متقدمین میں سے محدثین وناقدین کی اکثریت وبڑی جماعت نے کی ہے۔
ہمارے نزیک چوتھی علت ہی راجح ہے ۔
یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے رواۃ میں حسین بن علی کو اپنے استاذ کا نام بتانے میں وہم ہواہے ۔
چنانچہ موصوف نے یہاں اپنے استاذ کا نام
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر بتلایا ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے اورصحیح یہ ہے کہ اس سند میں ان کے استاذ
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہیں۔
اس بات کے دلائل درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل:
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابر شامی ہیں اوراہل شام میں سے کسی ایک نے بھی ان سے یہ روایت نقل نہیں کی ہے۔
دوسری دلیل:
حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ کوفی ہیں اورکوفی جس
عبدُالرحمنِ بنُ يزيد سے روایت کرتے ہیں وہ
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہے نہ کہ
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر۔
تیسری دلیل:
حُسَيْنُ بْنُ عَلی کی جومرویات
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر سے ہیں ان میں بہت نکارت ہے حالانکہ
حُسَيْنُ بْنُ عَلی اور
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر دونوں ثقہ ہیں اوران کی جانب سے نکارت کا امکان نہیں ہے لہٰذا لازمی طورپریہاں کوئی اورضعیف راوی ہے اوروہ
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہے اوریہی نکارت کاذمہ دارہے۔
ان دلائل کی بنیاد پر جلیل القدرمحدثین اورچوٹی کے محدثین کی بڑی جماعت نے مذکورہ روایت کوضعیف کہا ہے اوراس کی سند میں موجود
عبدُالرحمنِ بنُ يزيد کو
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم قراردیاہے۔
ان محدثین میں سے چند کے حوالے ملاحظہ ہوں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
عبد الرحمن بن يزيد بن تميم السلمي: يُعد في الشاميين، عن مكحول مُرسل، روى عنه الوليد بن مسلم، عنده مناكير، روى عنه أهل الكوفة: أبو أسامة وحسين الجعفي، فقَالوا: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر[الضعفاء للبخاري ص: 85]۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب میں کہا:
وَأما أهل الْكُوفَة فرووا عَن عبد الرَّحْمَن بن يزِيد بن جَابر وَهُوَ بن يزِيد بن تَمِيم لَيْسَ بِابْن جَابر وَابْن تَمِيم مُنكر الحَدِيث[التاريخ الأوسط للبخاري: 2/ 117]۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ للہ سے نقل کیا:
أَهْلُ الْكُوفَةِ يَرْووُنَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ , وَإِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ , وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَهُوَ بِأَحَادِيثِهِ أَشْبَهُ مِنْهُ بِأَحَادِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ[العلل الكبير للترمذي ص: 392]۔
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عبد الرحمن بنُ يَزِيدَ بنِ جَابِر لا أعلَمُ أحَدًا مِنْ أهلِ العراقِ يُحَدِّثُ عَنْهُ، والذي عِنْدِي: أنَّ الذي يروي عَنْهُ أَبُو أُسَامَةَ وحُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ واحدٌ، وهو عبدُالرحمنِ بنُ يَزِيدَ بنِ تَمِيم؛ لأنَّ أبا أسامة روى عن عبد الرحمن بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ خمسةَ أحاديثَ - أو ستةَ أحاديث - منكرة، لا يَحْتمِلُ أن يُحَدِّثَ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابرٍ مِثْلَهُ ، ولا أعلَمُ أحدًا مِنْ أهلِ الشامِ روى عَنِ ابْنِ جَابِر مِنْ هذه الأحاديث شَيْءً .وأمَّا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ: فَإِنَّهُ رَوَى عن عبد الرحمن بْنِ يزيدَ بنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَث، عَنْ أَوْس بْنِ أَوْس، عن النَّبيِّ (ص) فِي يومِ الجُمُعة أَنَّهُ قَالَ: «أَفْضَلُ الأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعةِ، فِيهِ الصَّعْقَةُ، وفِيهِ النَّفْخَةُ» ، وَفِيهِ كَذَا، وَهُوَ حديثٌ مُنْكَرٌ، لا أعلَمُ أحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ حُسَيْن الْجُعْفِيِّ.وأمَّا عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم: فَهُوَ ضعيفُ الحديث، وعبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابرٍ ثقةٌ»[علل الحديث لابن أبي حاتم 1/ 152]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
وإنما هو بن تميم وقد روى عنه الكوفيون أبو أسامة وحسين الجعفي وذووهما[المجروحين لابن حبان: 2/ 55]۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
روى الكوفيين أحاديث عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ووهموا في ذلك، فالحمل عليهم في تلك الأحاديث ولم يكن ابن تميم ثقة، وإلى تلك الأحاديث أشار عمرو بن علي، وأما ابن جابر فليس في حديثه منكر، والله أعلم.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/ 471]۔
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وكذلك روى حسين الحعفي عن ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم حديث (( أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة ... )) الحديث ، فقالت طائفة : (( هو حديث منكر ، وحسين الجعفي سمع من عبد الرحمن بن يزيد بن تميم الشامي ، وروى عه أحاديث منكرة فغلط في نسبته )) [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 398]۔
ان کے علاوہ اوربھی متعدد محدثین کی یہی تحقیق ہے۔
اہل کوفہ کی غلطی پر ایک زبردست دلیل
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وممار وى أبو أسامة عن ابن جابر عن إسماعيل بن عبيد الله عن أبي صالح الأشعري عن أبي هريرة حديث : (( الحمى حظ المؤمن من النار )) . ورواه من الشاميين أبو المغيرة عن ابن تميم عن إسماعيل بهذا الإسناد ، فقوي بذلك أن أبا أسامة إنما رواه عن ابن تميم . [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 397]۔
غورفرمائیں کہ ایک طریق سے روایت ہے جسے جب ابواسامہ کوفی روایت کرتے ہیں تو عبدالرحمان بن یزید بن جابر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ، لیکن جب اسی روایت کو اسی طریق سے ابوالمغیرہ روایت کرتے ہیں تو وہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ، یہ اختلاف اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ بعض اہل کوفہ نے عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کو عبدالرحمان بن یزید بن جابر سمجھ لیا ۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمان بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم ہے اوریہ ضعیف ہے۔