• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسین بن علی کا استاذ عبد الرحمن بن یزید بن جابر یا عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ؟؟

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
السلام علیکم

شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتاب انوار الصحیفہ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک مشہور حدیث کی سند پر کلام پایا جبکہ اس حدیث کے بہت سے شواہد بھی موجود ہیں اور اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ حدیث یہ ہے

1636 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ - يَعْنِي - بَلِيتَ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ» سنن ابن ماجہ

شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ جس راوی کا نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ لکھا ہے وہ اصل میں ابن تمیم ہے جو کہ ضعیف ہے
انوار الصحیفہ کی عبارت ؛؛ صفحہ نمبر ۴۷
عبد الرحمن بن یزید ھو ابن تمیمۛ؛ غیر ابن جابر؛ کما حققہ البخاری و ابو داود و ابن اخی حسین الجعفی وغیرھم؛ انظر النھایة فی الفتن والملاحم بتحقیقی ﴿۵۴۵﴾ وعلل ابن رجب ﴿ص ۴٦۵۔۴٦۷﴾ وھو ضعیف ﴿تقریب؛۴۰۴۰﴾ واخطاٴ من زعم باٴنہ ابن جابر
۔ ابن تمیم کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ابن تمیم کو کچھ لوگوں نے ابن جابر سمجھ لیا ہے۔ لیکن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ کا ترجمہ بھی کتب میں موجود ہے اور یہ ثقہ راوی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہاں شیخ صاحب صاحب کو وہم ہو گیا ہے ہا ان کی بات صحیح ہے؟؟
جزاک اللہ خیراً
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
میری عربی بہت اچھی نہیں ہے لیکن جتنا میں نے تلاش کیا ہے اس کے مطابق شیخ زبیر کی تحقیق راجح ہے۔۔ انشاء اللہ

حسین بن علی الجعفی کے متعلق اور خاص طور پر اس حدیث کے متعلق یہ تحقیق ہے
وأمَّا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ: فَإِنَّهُ رَوَى عن عبد الرحمن بْنِ يزيدَ بنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَث، عَنْ أَوْس بْنِ أَوْس، عن النَّبيِّ (ص) فِي يومِ الجُمُعة أَنَّهُ قَالَ: «أَفْضَلُ الأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعةِ، فِيهِ الصَّعْقَةُ، وفِيهِ النَّفْخَةُ» ، وَفِيهِ كَذَا، وَهُوَ حديثٌ مُنْكَرٌ، لا أعلَمُ أحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ حُسَيْن الْجُعْفِيِّ. (علل الحدیث لابن ابی حاتم۔1/152)
وأمَّا عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم: فَهُوَ ضعيفُ الحديث، وعبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابرٍ ثقةٌ» . اهـ.
قال الحافظ ابن حجر : «فإنْ أُبْدِلَ راوٍ ضعيفٌ براوٍ ثقة، وتبيَّن الوهَمُ فيه؛ استلزَمَ القدحَ في المتن أيضًا - إنْ لم يكنْ له طريقٌ أخرى صحيحة - ومِنْ أغمضِ ذلك: أن يكونَ الضعيفُ موافقًا للثقة في نعته "النكت" (2/747-748)

ذكر ابن رجب في "شرح علل الترمذي" (2/681) هذا الحديث وقال: «قالت طائفة: هو حديث منكر، وحسين الجعفي سمع من عبد الرحمن بن يزيد بن تميم الشامي، وروى عنه أحاديث منكرة فغلط في نسبته. وممن ذكر ذلك: البخاري، وأبو زرعة، وأبو حاتم، وأبو داود، وابن حبان، وغيرهم. وأنكر ذلك آخرون وقالوا: الذي سمع منه حسين هو ابن جابر» .وقال الحافظ ابن حجر في "النكت الظراف" (2/3-4) : «ذكر البخاري وأبو حاتم، وتبعهما ابن حبان: أن حسين بن علي الجعفي غلط في عبد الرحمن بن يزيد ابن تميم [كذا وصوابه: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر] ، كما جرى لأبي أسامة فيه، وأن هذا الحديث عن "ابن تميم" لا عن "ابن جابر". ولا يكون [أي قول هؤلاء] صحيحًا، وردَّ ذلك الدارقطني [أيضًا] ، فخصَّ أبا أسامة [أي دون حسين بن علي الجعفي] بالغلط فيه»

واللہ اعلم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ» قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ - يَقُولُونَ: بَلِيتَ -؟ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ» [سنن أبي داود 1/ 275 رقم1047 ، ابن ماجہ رقم 1636 واخرجہ غیرواحد من ھذا الطریق ]۔
سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» (دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں۔“
یہ حدیث ضعیف ہے ، محققین نے اس کے اندرچارعلتیں بتلائی ہیں۔

  1. حسین بن علی کاتفرد۔
  2. سندومتن میں نکارت۔
  3. ابن يزيدکا ابوالاشعث سے عدم سماع۔
  4. حسین بن علی کا اپنے استاذ کے بیان میں وہم ۔


پہلی دو علتوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے :بيان أوهام الألباني في تحقيقه لكتاب فضل الصلاة على النبي کاضمیمہ۔
تیسری علت کا تذکرہ ابن القیم نے جلاء الأفهام ص 46 پر کیاہے۔
چھوتھی علت کی صراحت متقدمین میں سے محدثین وناقدین کی اکثریت وبڑی جماعت نے کی ہے۔

ہمارے نزیک چوتھی علت ہی راجح ہے ۔
یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے رواۃ میں حسین بن علی کو اپنے استاذ کا نام بتانے میں وہم ہواہے ۔
چنانچہ موصوف نے یہاں اپنے استاذ کا نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر بتلایا ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے اورصحیح یہ ہے کہ اس سند میں ان کے استاذ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہیں۔

اس بات کے دلائل درج ذیل ہیں:

پہلی دلیل:
عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابر شامی ہیں اوراہل شام میں سے کسی ایک نے بھی ان سے یہ روایت نقل نہیں کی ہے۔
دوسری دلیل:
حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ کوفی ہیں اورکوفی جس عبدُالرحمنِ بنُ يزيد سے روایت کرتے ہیں وہ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہے نہ کہ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر۔
تیسری دلیل:
حُسَيْنُ بْنُ عَلی کی جومرویات عبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر سے ہیں ان میں بہت نکارت ہے حالانکہ حُسَيْنُ بْنُ عَلی اورعبدُالرحمنِ بنُ يزيدبن جابر دونوں ثقہ ہیں اوران کی جانب سے نکارت کا امکان نہیں ہے لہٰذا لازمی طورپریہاں کوئی اورضعیف راوی ہے اوروہ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم ہے اوریہی نکارت کاذمہ دارہے۔

ان دلائل کی بنیاد پر جلیل القدرمحدثین اورچوٹی کے محدثین کی بڑی جماعت نے مذکورہ روایت کوضعیف کہا ہے اوراس کی سند میں موجود عبدُالرحمنِ بنُ يزيد کو عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم قراردیاہے۔

ان محدثین میں سے چند کے حوالے ملاحظہ ہوں:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
عبد الرحمن بن يزيد بن تميم السلمي: يُعد في الشاميين، عن مكحول مُرسل، روى عنه الوليد بن مسلم، عنده مناكير، روى عنه أهل الكوفة: أبو أسامة وحسين الجعفي، فقَالوا: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر[الضعفاء للبخاري ص: 85]۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب میں کہا:
وَأما أهل الْكُوفَة فرووا عَن عبد الرَّحْمَن بن يزِيد بن جَابر وَهُوَ بن يزِيد بن تَمِيم لَيْسَ بِابْن جَابر وَابْن تَمِيم مُنكر الحَدِيث[التاريخ الأوسط للبخاري: 2/ 117]۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ للہ سے نقل کیا:
أَهْلُ الْكُوفَةِ يَرْووُنَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ , وَإِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ , وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَهُوَ بِأَحَادِيثِهِ أَشْبَهُ مِنْهُ بِأَحَادِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ[العلل الكبير للترمذي ص: 392]۔

أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عبد الرحمن بنُ يَزِيدَ بنِ جَابِر لا أعلَمُ أحَدًا مِنْ أهلِ العراقِ يُحَدِّثُ عَنْهُ، والذي عِنْدِي: أنَّ الذي يروي عَنْهُ أَبُو أُسَامَةَ وحُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ واحدٌ، وهو عبدُالرحمنِ بنُ يَزِيدَ بنِ تَمِيم؛ لأنَّ أبا أسامة روى عن عبد الرحمن بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ خمسةَ أحاديثَ - أو ستةَ أحاديث - منكرة، لا يَحْتمِلُ أن يُحَدِّثَ عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابرٍ مِثْلَهُ ، ولا أعلَمُ أحدًا مِنْ أهلِ الشامِ روى عَنِ ابْنِ جَابِر مِنْ هذه الأحاديث شَيْءً .وأمَّا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ: فَإِنَّهُ رَوَى عن عبد الرحمن بْنِ يزيدَ بنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الأَشْعَث، عَنْ أَوْس بْنِ أَوْس، عن النَّبيِّ (ص) فِي يومِ الجُمُعة أَنَّهُ قَالَ: «أَفْضَلُ الأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعةِ، فِيهِ الصَّعْقَةُ، وفِيهِ النَّفْخَةُ» ، وَفِيهِ كَذَا، وَهُوَ حديثٌ مُنْكَرٌ، لا أعلَمُ أحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ حُسَيْن الْجُعْفِيِّ.وأمَّا عبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ تَمِيم: فَهُوَ ضعيفُ الحديث، وعبدُالرحمنِ بنُ يزيدَ بنِ جابرٍ ثقةٌ»[علل الحديث لابن أبي حاتم 1/ 152]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
وإنما هو بن تميم وقد روى عنه الكوفيون أبو أسامة وحسين الجعفي وذووهما[المجروحين لابن حبان: 2/ 55]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
روى الكوفيين أحاديث عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ووهموا في ذلك، فالحمل عليهم في تلك الأحاديث ولم يكن ابن تميم ثقة، وإلى تلك الأحاديث أشار عمرو بن علي، وأما ابن جابر فليس في حديثه منكر، والله أعلم.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/ 471]۔

امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وكذلك روى حسين الحعفي عن ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم حديث (( أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة ... )) الحديث ، فقالت طائفة : (( هو حديث منكر ، وحسين الجعفي سمع من عبد الرحمن بن يزيد بن تميم الشامي ، وروى عه أحاديث منكرة فغلط في نسبته )) [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 398]۔

ان کے علاوہ اوربھی متعدد محدثین کی یہی تحقیق ہے۔

اہل کوفہ کی غلطی پر ایک زبردست دلیل


امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وممار وى أبو أسامة عن ابن جابر عن إسماعيل بن عبيد الله عن أبي صالح الأشعري عن أبي هريرة حديث : (( الحمى حظ المؤمن من النار )) . ورواه من الشاميين أبو المغيرة عن ابن تميم عن إسماعيل بهذا الإسناد ، فقوي بذلك أن أبا أسامة إنما رواه عن ابن تميم . [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 397]۔

غورفرمائیں کہ ایک طریق سے روایت ہے جسے جب ابواسامہ کوفی روایت کرتے ہیں تو عبدالرحمان بن یزید بن جابر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ، لیکن جب اسی روایت کو اسی طریق سے ابوالمغیرہ روایت کرتے ہیں تو وہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ، یہ اختلاف اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ بعض اہل کوفہ نے عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کو عبدالرحمان بن یزید بن جابر سمجھ لیا ۔

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمان بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم ہے اوریہ ضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام ابن قيم رحمه الله کے موقف کاجائزہ


امام ابن قيم رحمه الله نے مذکورہ علت کاجواب دیا ہے لیکن کوئی مضبوط بات نہیں پیش کرسکے چنانچہ:

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
وجواب هذا التعليل من وجوه:أحدها: أن حسين بن علي الجعفي قد صرح بسماعه له من عبد الرحمن بن يزيد بن جابر. قال: ابن حبان في صحيحه: حدثنا ابن خزيمة, حدثنا أبو كريب, حدثنا حسين بن علي, حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر, فصرح بالسماع منه.وقولهم: إنه ظن أنه ابن جابر وإنما هو ابن تميم, فغلط في اسم جده بعيد, فإنه لم يكن يشتبه على حسين هذا بهذا, مع نقده وعلمه بهما وسماعه منهما.[جلاء الأفهام 3/ 42]۔

عرض ہے کہ سماع کی صراحت سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حسين بن علي کوفی کو اپنے استاذ کا نام بتلانے میں وہم نہیں ہوا ہے ۔
یہ جواب اس وقت درست ہوتا جب محدثین نے اصلا انقطاع کو دلیل بنایا ہوتا ایسی صورت میں سماع کا ثبوت پیش کرنا مفید ہوتا ، لیکن ناقدین نے اصلا انقطاع کی جرح نہیں کی ہے بلکہ استاذ کا نام بتانے میں وہم کی بات کہی ہے لہٰذا ایسی صورت وہ عن سے روایت کریں یا سماع کی صراحت کریں بہرصورت یہ الزام باقی رہے گا کہ انہوں نے اپنے استاذ کا نام بتانے میں غلطی کی ہے۔

ابن قیم دوسرا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما رواية حسين الجعفي, عن ابن جابر, فقد ذكره شيخنا في التهذيب, وقال: روى عنه حسين بن علي الجعفي, وأبو أسامة حماد بن أسامة إن كان محفوظاً. فجزم برواية حسين عن ابن جابر وشك في رواية حماد.[جلاء الأفهام 3/ 44] ۔

عرض ہے کہ یہ بھی علت کا جواب نہیں ہے بلکہ یہاں محض امام مزی کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا کہ انہوں نے حسين بن علي الکوفی کو عبدالرحمن بن یزید بن جابر کا استاذ بتلایاہے۔
اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مزی عبدالرحمن بن یزید بن جابر ہی کو حسين بن علي الکوفی کا استاذ سمجھتے ہیں بس ، لیکن اس سے ناقدین کی علت کا جواب فراہم نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ مذکورہ عبارت سے امام مزی رحمہ اللہ کا یہ موقف اخذ کرنا بھی محل نظر ہے کیونکہ امام مزی رحمہ کا معمول یہ ہے کہ وہ ظاہری سند دیکھ کر استاتذہ اورشاگردوں کی فہرست دیتے ہیں گرچہ سند میں انقطاع موجود ہو اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ جِيفَةٍ بِاللَّيْلِ حِمَارٍ بِالنَّهَارِ عَالِمٍ بِأَمْرِ الدُّنْيَا جَاهِلٍ بِأَمْرِ الْآخِرَةِ" [صحيح ابن حبان1/ 274]۔

اس روایت میں سعیدبن ابی ھند ابوہریرہ سے روایت کررہے اوریہ دیکھ کرلگتاہے کہ سعیدبن ابی ھند، ابوہریرہ کے شاگرد ہیں۔
چنانچہ اسی سب امام مزی نے سعید کے اساتذہ میں ابوہریرہ کا تذکرہ کیا ہے اسی طرح ابوہریرہ کے شاگردوں میں سعید کا ذکر کیا ہے۔

لیکن حقیت میں سعیدبن ابی ھند، ابوہریرہ کے شاگرد نہیں ہے کیونکہ ان کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہیں چنانچہ:

أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
سَعِيدُ بْنُ أَبِي هَنْدٍ لَمْ يَلْقَ أَبَا هُرَيْرَةَ[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 75]۔

غورفرمائیں کہ اس انقطاع کے باوجود امام مزی رحمہ اللہ نے شاگردوں میں تذکرہ کردیا اس سے معلوم ہوا کہ امام مزی رحمہ اللہ ظاہر سند دیکھ کر اساتذہ و تلامذہ کی فہرست دیتے ہیں، واللہ اعلم۔

بہرحال اگریہ تسلیم بھی کرلیں کہ امام مزی اپنا یہ موقف ہوتا تو پھر دیگر متقدمین اورچوٹی کے ناقدین کے بالمقابل امام مزی رحمہ اللہ کی بات غیر مسموع ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
علامہ البانی رحمہ اللہ کے موقف کا جائزہ


علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأعله بعض المتقدمين بما لا يقدح كما فصله ابن القيم في : " جلاء الأفهام في الصلاة على خير الأنام[إرواء الغليل 1/ 35]۔

عرض ہے کہ جب علامہ البانی رحمہ اللہ کے بقول متقدمین نے اسے معلول کہا ہے تو پھر متاخرین کی بے وزن بات کون سنتاہے ۔
رہی ابن القیم رحمہ اللہ کی تحقیق تو اس کا جائزہ اوپر پیش کیا جاچکا ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
وهذه علة واهية كما ترى؛ لأن الجعفي ثقة اتفاقاً؛ فكيف يجوز تخطئته لمجرد عدم العلم بأن أحداً من العراقيين لم يحدِّث عن ابن جابر؟! وما المانع من أن يكون الجعفي العرافي قد سمع من ابن جابر حين لزل هذا البصرة قبل أن يتحول إلى دمشق، كما جاء في ترجمته؟! وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم. [صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 215]۔

عرض ہے ابن جابر سے اہل کوفہ کی عدم روایت ،محض یہی چیز علت کی بنیاد نہیں ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرمارہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ ابن جابر سے اہل شام میں سے بھی کوئی بھی یہ روایت نقل کررہا ہے۔
حتی کہ ان کے مشہور شامی تلامذہ بھی اس روایت سے ناواقف ہیں ۔
مزید برآں یہ کہ اس طریق سے آنے والی روایت نکارت سے پر ہوتی ہے اورابن جابر کے طریق میں یہ عیب نہیں ۔
اس کے علاوہ اوربھی دیگر قرائن ہیں جن کی تفصیل اوپر پیش کی گئی ۔
نیز متقدمین ناقدین کی ایک بڑی جماعت اس علت کے بیان پرمتفق ہے ۔
یہ تمام باتین اورقرائن اس بات سے یقینا مانع ہیں کہ حسین بن علی کوفی نے ابن جابرسے سناہے۔

علامہ موصوف نے اخیرمیں کہا:
وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم. [صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 215]۔
یعنی : کسی حدیث کو بیان کرنے میں ثقہ کا منفرد ہونا قادح نہیں ہے الا یہ کہ اس کی غلطی ثابت ہوجائے، جیساکہ معروف بات ہے۔
عرض ہے کہ زیربحث روایت میں ثقہ کی غلطی قرائن وشواہد سے ثابت ہوچکی ہے اسی لئے چوٹی کے ناقدین سے اسے معلول کہا ، ورنہ یہ موٹی سی اورمعروف بات کی ثقہ کا تفرد موجب قدح نہیں ہے اس کاعلم ان حفاظ محدثین کو بھی بخوبی تھا ۔


خلاصہ کلام


مذکورہ روایت کو متقدمین اورائمہ ناقدین نے ضعیف قراردیا ہے اوریہی راجح ہے۔

نوٹ:
یادرہے کہ یہ بات قرآن وحدیث کے دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی۔
 
Top