محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي " أنت مني وأنا منك ". وقال عمر توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنه راض.
حدیث نمبر: 3701
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لأعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه " قال فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها فلما أصبح الناس، غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو أن يعطاها فقال " أين علي بن أبي طالب ". فقالوا يشتكي عينيه يا رسول الله. قال " فأرسلوا إليه فأتوني به ". فلما جاء بصق في عينيه، ودعا له، فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية. فقال علي يا رسول الله أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا فقال " انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من أن يكون لك حمر النعم ".
حدیث نمبر: 3702
حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة، قال كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر وكان به رمد فقال أنا أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج علي فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم، فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لأعطين الراية ـ أو ليأخذن الراية ـ غدا رجلا يحبه الله ورسوله ـ أو قال يحب الله ورسوله ـ يفتح الله عليه ". فإذا نحن بعلي وما نرجوه، فقالوا هذا علي. فأعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم ففتح الله عليه.
حدیث نمبر: 3703
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه، أن رجلا، جاء إلى سهل بن سعد فقال هذا فلان ـ لأمير المدينة ـ يدعو عليا عند المنبر. قال فيقول ماذا قال يقول له أبو تراب. فضحك قال والله ما سماه إلا النبي صلى الله عليه وسلم، وما كان له اسم أحب إليه منه. فاستطعمت الحديث سهلا، وقلت يا أبا عباس كيف قال دخل علي على فاطمة ثم خرج فاضطجع في المسجد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أين ابن عمك ". قالت في المسجد. فخرج إليه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره، وخلص التراب إلى ظهره، فجعل يمسح التراب عن ظهره فيقول " اجلس يا أبا تراب ". مرتين.
حدیث نمبر: 3704
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا حسين، عن زائدة، عن أبي حصين، عن سعد بن عبيدة، قال جاء رجل إلى ابن عمر، فسأله عن عثمان، ، فذكر عن محاسن، عمله، قال لعل ذاك يسوؤك. قال نعم. قال فأرغم الله بأنفك. ثم سأله عن علي، فذكر محاسن عمله قال هو ذاك، بيته أوسط بيوت النبي صلى الله عليه وسلم. ثم قال لعل ذاك يسوؤك. قال أجل. قال فأرغم الله بأنفك، انطلق فاجهد على جهدك.
حدیث نمبر: 3705
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت ابن أبي ليلى، قال حدثنا علي، أن فاطمة، عليها السلام شكت ما تلقى من أثر الرحا، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم سبى، فانطلقت فلم تجده، فوجدت عائشة، فأخبرتها، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته عائشة بمجيء فاطمة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم إلينا، وقد أخذنا مضاجعنا، فذهبت لأقوم فقال " على مكانكما ". فقعد بيننا حتى وجدت برد قدميه على صدري وقال " ألا أعلمكما خيرا مما سألتماني إذا أخذتما مضاجعكما تكبرا أربعا وثلاثين، وتسبحا ثلاثا وثلاثين، وتحمدا ثلاثة وثلاثين، فهو خير لكما من خادم ".
حدیث نمبر: 3706
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، قال سمعت إبراهيم بن سعد، عن أبيه، قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي " أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ".
حدیث نمبر: 3707
حدثنا علي بن الجعد، أخبرنا شعبة، عن أيوب، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال اقضوا كما كنتم تقضون، فإني أكره الاختلاف حتى يكون للناس جماعة، أو أموت كما مات أصحابي. فكان ابن سيرين يرى أن عامة ما يروى على علي الكذب.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔
حدیث نمبر: 3701
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لأعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه " قال فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها فلما أصبح الناس، غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو أن يعطاها فقال " أين علي بن أبي طالب ". فقالوا يشتكي عينيه يا رسول الله. قال " فأرسلوا إليه فأتوني به ". فلما جاء بصق في عينيه، ودعا له، فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية. فقال علي يا رسول الله أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا فقال " انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من أن يكون لك حمر النعم ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی علم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئیے علم کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب حضرات (جو سرکردہ تھے) حاضر ہوئے، سب کو امید تھی کہ علم انہیں ہی ملے گا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوا لو، جب وہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، اس سے انہیں ایسی شفاء حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھا ہی نہیں، چنانچہ آپ نے علم انہیں کو عنایت فرمایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں (یعنی مسلمان بن جائیں) آپ نے فرمایا: ابھی یوں ہی چلتے رہو، جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاو کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق واجب ہیں، خدا کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کی دولت) سے بہتر ہے۔
حدیث نمبر: 3702
حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة، قال كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر وكان به رمد فقال أنا أتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج علي فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم، فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لأعطين الراية ـ أو ليأخذن الراية ـ غدا رجلا يحبه الله ورسوله ـ أو قال يحب الله ورسوله ـ يفتح الله عليه ". فإذا نحن بعلي وما نرجوه، فقالوا هذا علي. فأعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم ففتح الله عليه.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بوجہ آنکھ دکھنے کے نہیں آ سکے تھے، پھر انہوں نے سوچا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہو سکوں! چنانچہ گھر سے نکلے اور آپ کے لشکر سے جا ملے، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں ایک ایسے شخص کو علم دوں گا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ کل) ایک ایسا شخص علم کو لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت ہے یا آپ نے یہ فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائے گا، اتفاق سے حضرت علی رضی اللہ عنہ آ گئے، حالانکہ ان کے آنے کی ہمیں امید نہیں تھی لوگوں نے بتایا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم انہیں دے دیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرا دیا۔
حدیث نمبر: 3703
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه، أن رجلا، جاء إلى سهل بن سعد فقال هذا فلان ـ لأمير المدينة ـ يدعو عليا عند المنبر. قال فيقول ماذا قال يقول له أبو تراب. فضحك قال والله ما سماه إلا النبي صلى الله عليه وسلم، وما كان له اسم أحب إليه منه. فاستطعمت الحديث سهلا، وقلت يا أبا عباس كيف قال دخل علي على فاطمة ثم خرج فاضطجع في المسجد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أين ابن عمك ". قالت في المسجد. فخرج إليه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره، وخلص التراب إلى ظهره، فجعل يمسح التراب عن ظهره فيقول " اجلس يا أبا تراب ". مرتين.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر حضرت سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
حدیث نمبر: 3704
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا حسين، عن زائدة، عن أبي حصين، عن سعد بن عبيدة، قال جاء رجل إلى ابن عمر، فسأله عن عثمان، ، فذكر عن محاسن، عمله، قال لعل ذاك يسوؤك. قال نعم. قال فأرغم الله بأنفك. ثم سأله عن علي، فذكر محاسن عمله قال هو ذاك، بيته أوسط بيوت النبي صلى الله عليه وسلم. ثم قال لعل ذاك يسوؤك. قال أجل. قال فأرغم الله بأنفك، انطلق فاجهد على جهدك.
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے، ان سے زائدۃ نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے محاسن کا ذکر کیا، پھر کہا کہ شاید یہ باتیں تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا جی ہاں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے پھر اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، انہوں نے ان کے بھی محاسن ذکر کئے اور کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نہایت عمدہ گھرانہ ہے، پھر کہا شاید یہ باتیں بھی تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا کہ جی ہاں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے، جا، اور میرا جو بگاڑنا چاہے بگاڑ لینا، کچھ کمی نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 3705
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت ابن أبي ليلى، قال حدثنا علي، أن فاطمة، عليها السلام شكت ما تلقى من أثر الرحا، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم سبى، فانطلقت فلم تجده، فوجدت عائشة، فأخبرتها، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته عائشة بمجيء فاطمة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم إلينا، وقد أخذنا مضاجعنا، فذهبت لأقوم فقال " على مكانكما ". فقعد بيننا حتى وجدت برد قدميه على صدري وقال " ألا أعلمكما خيرا مما سألتماني إذا أخذتما مضاجعكما تكبرا أربعا وثلاثين، وتسبحا ثلاثا وثلاثين، وتحمدا ثلاثة وثلاثين، فهو خير لكما من خادم ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے سنا، کہا ہم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاؤں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی،۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہترہے۔
حدیث نمبر: 3706
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، قال سمعت إبراهيم بن سعد، عن أبيه، قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي " أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔
حدیث نمبر: 3707
حدثنا علي بن الجعد، أخبرنا شعبة، عن أيوب، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال اقضوا كما كنتم تقضون، فإني أكره الاختلاف حتى يكون للناس جماعة، أو أموت كما مات أصحابي. فكان ابن سيرين يرى أن عامة ما يروى على علي الكذب.
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن سیرین نے، انہیں عبیدہ نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عراق والوں سے کہا کہ جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے اب بھی کیا کرو کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اس وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں، ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ عام لوگ (روافض) جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعا جھوٹی ہیں۔
صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی