• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا حاجی محمد خالدرحمہ اللہ

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے بڑے محترم اور نیک بزرگ جو ہر کسی کو بہت زیاہ دعائیں دیتے تھے ،خصوصا جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ کے بڑی دعائین کرتے تھے ،اور اللہ تعالی سے اس قدر ڈرنے والے تھے جب بھی کسی سے ملتے تو فرمایا کرتے تھے کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی میری آخرت درست فرمائے ،مولانا عبدالوہاب روپڑی حفظہ اللہ خطاب میں بیان فرما رہے تھے کہ مرحوم میرے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں میرے علم کے مطابق انھوں نے کبھی تہجد بھی نہیں چھوڑی رات کو جب بھی تہجد ٹائم ان کی مسجد میں پہنچتے تو میں انھیں تہجد پڑھتے ہوئے پایا ہے اور دینی طلبائ اور علمائ کے بڑے قدر دان تھے راقم الحروف جب ان سے ملنے کے جاتا تو دیکھتے ہی بڑی محبت سے فرماتے ماشائ اللہ شیخ ابراہیم قمی صاحب تشریف لے آئے وہ مجھے پیار سے ابراہیم قمی کہا کرتے تھے اور محترم قاری محمد ادریس ثاقب حفظہ اللہ مدیر جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندہیاں اوتاڑ قصور سے بہت محبت کیا کرتے تھے
مرحوم کے فرزند ارجمند حضرت مولانا حکیم عبدالروف حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں تہجد کے ٹائم بیدار ہوا تو دیکھتا ہوں کہ والد محترم اونچی آواز میں دعائیں کر رہے ہیں کہ اے اللہ قاری ادریس صاحب کے مدرسے کی تمام ضرورتیں پوری فرما اور قاری صاحب نابینا آدمی اسے کسی چیز کی کمی نہ آئے ۔
گندہیاں گاوں کے قاری ادریس صاحب پہلے اہلحدیث ہیں جب لوگ انھیں تکلیفیں دیتے مولانا مولانا حاجی خالد رحمہ اللہ قاری صاحب کو حوصلہ دیتے اور نصیحتیں کرتے کہ قاری صاحب حق قبول کرنے میں تکلیفیں ضرور آتی ہیں اور ڈٹ جانا ہے دیکھنا کچھ بھی نہیں ہو گا
اور ان کی حوصلہ افزائی اور دعائیں تھی کہ آج اسی گندھیاں اوتاڑ میں ایک عظیم جامعہ ،محمد بن اسمعیل البخاری اہلحدیث کے نام سے موجود ہے اس جگہ جب ایک جھوپڑی محترم قاردی ادریس صاحب نے بنائی تو سوچا کہ لوگ یہاں آکر نماز شروع کریں تو افتتاحی جمعۃ المبارک کا خطبہ محترم حاجی خالد رحمہ اللہ نے ہی پڑھایا تھا
اور چند سالوں بعد جب قاری ادریس صاحب کا ارادہ مدرسہ بنانے کا ہوا تو اس کا سنگ بنیا د بھی ہمارے ممدوح مولانا خالد رحمہ اللہ نے رکھا ۔اور یہ بڑا اللہ تعالی کی رحمت پھر مولانا مرحوم کی دعاوں اور قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ کے خلوص کا نتیجہ ہے جو بھی اس جامعہ کو دیکھتا ہے تو بڑا حیران ہوتا ہے کہ جنگل میں منگل کا مصداق ہے ،اس وقت جامعہ میں دو سو سے زیادہ بیرونی طلبائ زیر تعلیم ہیں اور تیرہ اساتذہ دن رات دینی اور عصری تعلیم بچوں کو دے رہے چھ سال کے قلیل عرصہ میں درس نظامی کی دو کلا سیں فارغ التحصیل ہو چکی ہیں اس سال تیسری کلاس فارغ ہو گی ان شائ اللہ ۔
دینی تعلیم :
ہمارے ممدوح جامعہ محمدیہ گوجرانوالا کے فارغ التحصیل تھے اور انھیں شرف حاصل ہے کہ وہ حضرت محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے صحیح بخاری اور کئی دوسری کتب ان سے پڑھیں ۔
راقم جب اپنی کتاب (نصیحتیں میرے اسلاف کی )رہا تھا تو مولا مرحوم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اپنے استاد گوندلوی صاحب کی کچھ نصیحتیں بیان کریں میں انھیں اپنی کتاب میں لکھنا چاہتا ہوں تو انھوں نے مجھے بیان کیں جو میں اپنی قیمتی کتاب (نصیحتیں میرے اسلاف کی )میں مرحوم کا نام لکھ کر درج کی ہیں
مولانا خالد رحمہ اللہ جب بھی گوندلوی رحمہ اللہ کا نام لیتے تو انتہائی احترام سے اور بڑےپیارے انداز میں فرماتے حضرت الاستاد حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ۔
اولاد :
مولانا مرحوم تین بیٹے ہیں
مولانا حکیم عبدالروف حفظہ اللہ ،عرصہ دس سال سے مسجد کا سارا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں خطبہ جمعہ ،امامت ،بچوں کو ناظرہ قرآن اور ترجمہ قرآن پڑھا تے ہیں اور ان کی اہلیہ محترمہ بچیوں کو ناظرہ قرآن اور ترجمۃ پڑھانے میں مصروف ہیں اس کے ساتھ عبدالروف صاحب گورنمنٹ ہائی سکول اٹھارہ چک میں ٹیچر بھی ہیں اور حکمت میں بھی مہارت تامہ رکھتے ہیں جو انھیں اپنے والد محترم سے وراثت میں ملی اور بڑی دور دور سے ان کے ان کے عقیدت مند لوگ ان سے ہی اپنا علاج کرواتے ہیں ،قابل ذکر بات یہ ہے جب بھی کوئی عالم دین یا دینی طالب علم ان کے پاس آتا تو اس کو دوائی بالکل فری دیتے ہیں اور کوئی روپے دینے کی کوشش بھی کرے تو اس سے نہیں لیتے اور جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندہیاں اوتاڑ کے تمام طلبائ ادھر سے ہی دوائی لیتے ہیں مگر آج تک انھوں نے کسی سے پیسے نہیں لئے وہ علمائ اور دینی طلبائ کی بڑی قدر کرتے ہیں یہ بھی وصف انھوں اپنے والد محترم سے حاصل کیا ہے ۔ اور اعلی اخلاق کے مالک ہیں نڈر اور علمی خطیب ہیں تحقیقی جمعہ پڑھاتے ہیں احناف اور شیعہ کا گھڑ ہے ان کا گاوں لیکن کبھی بھی دینی معاملات میں مداہنت نہیں کی ۔دو ٹوک جواب دیتے ہیں کئی بار پولیس آئی کبھی پرواہ نہیں کی ۔اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے اور انھیں اپنے والد محترم کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین
۲:ڈاکٹر عبدالرحیم حفظہ اللہ
انتہائی قابل تعریف ہیں اس وقت شیخ زاہد ہسپتال میں ایم بی بی ایس میں سپیشلسٹ کر رہے ہیں اور دینی علوم سے گہری واقفیت رکھتے ہیں وسیع المطالعہ شخص ہیں اور اعلی اخلاق کے مالک ہیں ایک بہت اہم دینی کام کر رہے ہیں ہماری دعا ہے کہ وہ کام جلد از جلد پایا تکمیل کو پہنچے اور ان کے والد محترم کے صدقہ جاریہ بنے ۔
۳:تیسرا بیٹا بی اے کر رہا ہے اور بڑی اچھی صفات کا حامل ہے
بیٹیاں :مولانا مرحوم کی چار بیٹیاں ہیں
اللہ تعالی ان کی اولاد کی حفاظت فرمائے اور انھیں اپنے والد محترم کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین
دینی خدمات
مولانا مرحوم پنتالیس سال سے اٹھارہ چک نزد بھوئے آصل ،کوٹرادہاکشن میں امامت و خطابت بچوں قرآن مجید پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے اور ادھر ہپی اللہ کو پیارے ہوئے اور مستقل رہائش ادھر ہی بنائی اور اس سے پہلے مسجد قدس اہلحدیث المعروف مولانا شریف الہ بادی والی مسجد ٹھینگ موڑ میں کئی سال اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور کچھ عرصہ سولہ چک برکی میں بھی جمعہ کا خطبہ دیتے رہے ۔تقریبا دس سال سے بیمار تھے تو ان کے بیٹے مولانا حکیم عبدالروف حفظہ اللہ فاضل جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن مرکز الدعوۃ مرید کے میں پڑھا رہے تھے تو جماعت اٹھارہ چک نے انھیں مجبور کیا کہ آپ کے والد محترم کافی بیمار ہیں تو آکر سارا کام سنبھالیں اس وجہ سے انھوں نے مرکز الدعوۃ مرید کے سے تدریسی سلسلہ ختم کے اپنے والد محترم کی زیر نگرانی مسجد کا تمام نظام سنبھال لیا اور اب تک بڑے احسن انداز سے جاری ہے


مولانا خالد مریض کی حالت میں :
تقریبا دس سال سے مسلسل بیمار تھے اس دوران کئی بیماریوں نے حملہ کیا آخر آنکھوں کی بے نائی بھی جاتی رہی اور فالج ہو گیا لمبا عرصہ کینسر میں بھی مبتلا رہے ۔
اللہ رب العزت انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔
غم خوار :ابن بشیر الحسینوی
 
Top