• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود : تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

حضرت عبد اللہ بن مسعود : تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے

اکثر مقامات پر بعض مخصوص اعتراضات بار بار کیا جاتے ہیں ، میں نے یہ سوچا کہ ان اعتراضات پر الگ الگ تھریڈ بنا کر مذاکرہ کیا جائے ۔
اسی سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے
لیکن ان کا مکمل قول جو مختلف کتب میں آیا ہے کچھ یوں ہے


حدثنا سليمان بن أحمد ثنا محمد بن النضر ثنا معاوية بن عمرو ثنا زائدة عن الأعمش عن سلمة بن كهيل عن أبي الأحوص عن عبدالله قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر فإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة
حلية الأولياء ج:1 ص:136

130 أخبرنا محمد بن عبد الرحمن ثنا أحمد بن محمد بن ابي شيبة ثنا علي بن اشكاب الكبير ثنا أبو بدر شجاع عن سليمان بن مهران عن سلمة بن كهيل عن أبي الأحوص عن عبد الله قال ألا لا يقلدن أحدكم دينه رجلا إن آمن آمن وإن كفر كفر فإن كنتم لا بد مقتدين فبالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة
شرح أصول اعتقاد أهل السنة (1/93)

وعن عبدالله بن مسعود قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
مجمع الزوائد ج:1 ص:180

8764 حدثنا محمد بن النضر الأزدي ثنا معاوية بن عمرو ثنا زائدة عن الأعمش عن سلمة بن كهيل عن أبي الأحوص عن عبد الله قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة
المعجم الكبير ج:9 ص:152

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ثنا أبو الأحوص القاضي ثنا محمد بن كثير المصيصي ثنا الأوزاعي حدثني عبدة بن أبي لبابة أن بن مسعود رضي الله عنه قال ألا لا يقلدن رجل رجلا دينه فإن آمن آمن وإن كفر كفر فإن كان مقلدا لا محالة فليقلد الميت ويترك الحي فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة
سنن البيهقي الكبرى ج:10 ص:116


ان سب میں ایک ہی بات ہے وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں
اب دیکھ لیں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا پورا قول کیا ہے اور مقلدین سے نفرت دلانے کے لئیے صرف پہلا جملہ ذکر کیا جاتا ہے
تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے
اب جو بات حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تقلید کے متعلق کہ رہے ہیں وہ احناف کے موقف کے عین مطابق ہے
1- حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسی تقلید سے منع کر رہیے ہیں جس میں جس کی تقلید کی جارہی ہے اگر وہ کفر کی بات کرے تو اس کے مقلدین بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے کفر کریں ۔
ایسی تقلید کے احناف بھی مخالف ہیں
2- وہاں ایک آدمی ( رجل ) کی تقلید کی بات ہے
احناف تقلید شخصی میں ایک مسلک کی تقلید کرتے ہیں نا کہ ایک مخصوص شخص کی تقلید
اگر آپ کہیں کہ احناف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید شخصی کرتے ہیں تو مجھے ایک حنفی دکھادیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کی ہو
3- حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مردہ افراد کی تقلید سے منع نہیں کیا بلکہ اس کے جواز کا ذکر کیا ہے ، احناف جن فقہاء کی تقلید کرتے ہیں وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں
تو اس کا واضح مطلب ہے کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں اس کی ممانعت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول ثابت نہیں ہوتی
نوٹ ؛ یہ تھریڈ میں نے صرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی تشریح کے لئيے بنایا ہے صرف اسی حوالہ سے بات کریں باقی معاملات براہ مہربانی یہاں نا لائیں تاکہ بحث غلط ملط نہ ہو
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
امام الائمہ الحافظ الکبیر ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفی 311ھ) فرماتے ہیں کہ:

"جب نبی ﷺ کی صحیح حدیث آجائے گی اس کے مقابلے میں کسی شخص کی کوئی بات قابل التفات و اتباع نہیں ہوگی۔ "

(معرفہ علوم الحدیث للحاکم النیسابوری ص 84 ، دوسرا نسخہ ص 286 ح:190 وإسنادہ صحیح)

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
امام الحکم بن عتیبہ رحمہ اللہ (متوفی 115ھ) فرماتے ہیں کہ:

"نبی کریم ﷺ (فداہ ابی و امی و روحی) کے علاوہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی ایسا نہیں کہ جس کیبات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو۔ صرف آپ ﷺ ہی (ایسی بابرکت اور پاکیزہ) شخصیت ہیں جن کی ہر بات لی جائے گی۔"

(جامع البیان العلم و فضلہ91/2، دوسرا نسخہ112/2، تیسرا نسخہ181/2 و إسنادہ حسن لذاتہ)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
امام الحکم بن عتیبہ رحمہ اللہ (متوفی 115ھ) فرماتے ہیں کہ:
"نبی کریم ﷺ (فداہ ابی و امی و روحی) کے علاوہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی ایسا نہیں کہ جس کیبات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو۔ صرف آپ ﷺ ہی (ایسی بابرکت اور پاکیزہ) شخصیت ہیں جن کی ہر بات لی جائے گی۔"
(جامع البیان العلم و فضلہ91/2، دوسرا نسخہ112/2، تیسرا نسخہ181/2 و إسنادہ حسن لذاتہ)
آپ نے صحیح کہا لیکن یہ تھریڈ صرف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے حوالہ سے ہے کہ ان کا قول احناف کے موقف سے ٹکراتا ہے یہ نہیں ؟
گذارش ہے صرف اسی تعلق سے کچھ علمی گذراشات کرنی ہیں تو کریں موضوع سے غیر متعلق تھریڈ پیش نہ کریں
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
آپ نے صحیح کہا لیکن یہ تھریڈ صرف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے حوالہ سے ہے کہ ان کا قول احناف کے موقف سے ٹکراتا ہے یہ نہیں ؟
گذارش ہے صرف اسی تعلق سے کچھ علمی گذراشات کرنی ہیں تو کریں موضوع سے غیر متعلق تھریڈ پیش نہ کریں
جزاک اللہ خیرا



سوال نمبر1: فتوى نمبر:8571

س 1: تشہد میں شخص كو كيا كہتا؟: "السلام عليك ايها النبی" یا " السلام على النبی" اس لئے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه نے كہا کہ: ہم نبی صلى الله عليه وسلم کی وفات سے پہلے "السلام عليك ايها النبی"، اور آپ کی وفات کے بعد "السلام على النبي" کہتے تهے؟

ج 1: صحيح یہ ہے کہ نماز پڑهنے والا تشہد میں "السلام عليك ايها النبی ورحمة الله وبركاته" کہتا ہے، اس لئے کہ احادیث سے یہی ثابت ہے،
( جلد کا نمبر 7; صفحہ 11)

اور اس سلسلے میں جو حضرت ابن مسعود رضی الله عنه سے روایت کی گئی ہے اگر وہ صحیح ہے تو وہ خود کہنے والا کا اجتہاد ہے، صحیح احادیث سے اس کا کوئی تعارض نہیں ہے، اور اگر مان لیا جائے کہ تشہد کا حکم آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد بدل جاتا تو آپ اس کو صحابہ کے سامنے ضرور بیان کرتے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


میرے بھائی یہاں پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل احناف کے موقف سے ٹکراتا ہے -

اس بارے میں آپ کیا کہے گے ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرے بھائی یہاں پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل احناف کے موقف سے ٹکراتا ہے -

اس بارے میں آپ کیا کہے گے ؟
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تقلید سے متعلق قول اس لئیے نہیں پیش کیا کہ اس سے میں تقلید کا اثبات کر رہا ہوں ۔ بلکہ میں یہ کہ رہا ہوں کہ آپ حضرات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تقلید سے متعلق آدھا قول پیش کرکے کہتے ہیں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تقلید سے منع کیا اور احناف بھی تقلید کرتے ہیں
میں نے اوپر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مکمل قول نقل کرکے یہ ثابت کیا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جس تقلید سے منع کیا وہ احناف والی تقلید نہیں۔ میری پوسٹ دوبارہ لیں ۔ میں نے تقلید کے اثبات کے لئیے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نہیں پیش کیا ۔ بلکہ آپ جو تقلید کی مذمت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا آدھا قول پیش کرتے ہیں اس کا قول کا بقایا حصہ پیش کرکے ثابت کیا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جس تقلید سے منع کر رہے ہیں وہ احناف میں موجود نہیں
موضوع سے غیر متعلق امور نہ چھیڑیں ۔
تشھد میں آپ حضرات کی طرح احناف بھی "السلام عليك ايها النبی" ہی پڑھتے ہیں ۔ صرف موضوع سے متعلق اعتراض پیش کریں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ان سب میں ایک ہی بات ہے وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں
اب دیکھ لیں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا پورا قول کیا ہے اور مقلدین سے نفرت دلانے کے لئیے صرف پہلا جملہ ذکر کیا جاتا ہے
تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے
اب جو بات حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تقلید کے متعلق کہ رہے ہیں وہ احناف کے موقف کے عین مطابق ہے
1- حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسی تقلید سے منع کر رہیے ہیں جس میں جس کی تقلید کی جارہی ہے اگر وہ کفر کی بات کرے تو اس کے مقلدین بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے کفر کریں ۔
ایسی تقلید کے احناف بھی مخالف ہیں
معذرت کے ساتھ۔ ایسی تقلید کے احناف فقط کہنے کی حد تک ہی مخالف ہیں۔
ورنہ دیکھ لیجئے احناف ہی تو ہیں جو غیراللہ کو پکارتے ہیں۔ کچھ پرانے دیوبندی علماء بھی اور حالیہ بریلوی عوام و علماء سب۔
اگر یہ قبول نہیں کرتے ، تو یہ فرمائیے کہ ذمی شاتم والے مسئلے میں کیوں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول کو اختیار کیا گیا ہے؟؟؟ دلائل کی بنا پر ؟ جی نہیں۔

نعم نفس المؤمن تمیل لیٰ قول المخالف فی مسئلة السب لکن تباعنا للمذہب واجب۔ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق ٥/١١٥)
ہاں! مؤمن کا دل تو اس گالی والے مسئلہ میں قولِ مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن مذہب (فقہ حنفی) کی اتباع کرنا ہمارے لئے واجب ہے)

پھر جب تقلید ہی کریں گے تو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ کفر کا معاملہ ہے اور یہ کفر کا معاملہ نہیں ہے؟ کیا تحقیق کریں گے ہر ہر مسئلے میں؟ تاکہ چھان پھٹک کر فقط ایمان کے معاملات میں تقلید کی جائے اور جہاں کوئی کفریہ بات ہو تو اس کی تقلید نہ کی جائے؟؟

یہ تو ہوئی ایک بات۔

دوسری بات یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول تو ایک انتہا کو ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی تم میں سے کوئی دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ وہ ایمان لائے تو یہ ایمان لائے اور وہ کفر کرے تو یہ کفر کرے۔

آپ یہ فرما دیجئے کہ اسی قول میں اگر ایمان و کفر کو حلال و حرام سے بدل دیا جائے یعنی تم میں سے کوئی دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ وہ حلال کہے تو یہ حلال سمجھے اور وہ حرام کہے تو اسے حرام سمجھے۔۔۔ تو آپ کے خیال سے یہ جملہ غلط ہو جائے گا؟

اور کیا تقلیدی جمود میں گرفتار، دور حاضر کے گروہوں میں حرام و حلال کے اور کفر و ایمان کے اختلافات ہیں یا نہیں؟ حالانکہ ائمہ تو ان گروہوں کے سب ہی ایمان والے اور متقی ہی تھے۔ بلکہ بارہ ائمہ کی پیروی کرنے والوں کے تو ائمہ کے نام بھی آپ کے اماموں سے بہت بڑے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہی نرے گمراہ کے گمراہ؟ اور آپ جا کر کہیں ان سے کہ امام کے کہنے سے کفر کو ایمان اور ایمان کو کفر نہ سمجھو تو وہ سب بھی انکار ہی کریں گے۔ کون ہے جو کہے کہ میرا امام کافر ہو جائے گا تو میں بھی کافر ہو جاؤں گا۔ زبان سے کوئی نہیں کہتا، عملاً شیطان نے اسی راہ پر سب کو لگایا ہوا ہے، الا ماشاءاللہ۔

حلال و حرام بھی چھوڑئیے۔ اسی قول میں سنت و بدعت کو لے لیجئے کہ امام یا عالم کے کہنے سے بدعت کو سنت اور سنت کو بدعت قرار دینے والا مقلد کیا حق پر ہوگا؟

ہرگز نہیں۔

لہٰذا اس قول کا ماحصل یہی ہے کہ چاہے معاملہ انتہا کا ہو، یعنی کفر و ایمان کا، یا حرام و حلال کی بات ہو، یا سنت و بدعت ہی ہوں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق ہم میں سے کسی کو دین میں کسی آدمی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ یہاں عموم ہے۔ مقلدین کے لئے بھی اور مجتہدین کے لئے بھی۔ چاہے مجتہد اعظم ہوں اور چاہے مقلد غبی ترین جاہل ہی ہو، دین میں کسی آدمی کی تقلید کریں گے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی مخالفت کر کے ہی کر سکیں گے۔
اور دوسری جگہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والے قول میں خصوص ہے کہ عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید نہیں کرنا۔ یعنی امام ہدایت کی بات کرے تب بھی بلا دلیل قبول نہیں کرنا ہے اور اگر امام یا عالم سنت کو بدعت، بدعت کو سنت بتلائے، حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہے، ایمان لائے یا کفر کرے، ہمیں بہرحال اس کی تقلید نہیں کرنی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہوں یا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہوں، دونوں کے اقوال سے یہی کچھ ثابت ہوتا ہے۔

2- وہاں ایک آدمی ( رجل ) کی تقلید کی بات ہے
احناف تقلید شخصی میں ایک مسلک کی تقلید کرتے ہیں نا کہ ایک مخصوص شخص کی تقلید
اگر آپ کہیں کہ احناف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید شخصی کرتے ہیں تو مجھے ایک حنفی دکھادیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کی ہو
آپ اس قول میں یہ دکھا دیجئے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عالم کی ہر ہر قول میں تقلید سے منع کیا ہے، یا کسی بھی قول میں تقلید سے منع کیا ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ چاہے ایک مسئلے میں ہی سہی، جب ہم کسی عالم کی بلا دلیل (یا دلیل کے خلاف، بوجہ اختلاف تعریف التقلید) بات پر آمنا و صدقنا کہیں گے تو ہم حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کی مخالفت ہی کریں گے۔
آپ نے فرمایا کہ اس قول میں ایک آدمی (رجل) کی تقلید کی بات ہو رہی ہے، تو عرض ہے کہ آپ فرما دیجئے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ کون لوگ تھے، وہ کون سا گروہ تھا، جو کسی ایک عالم کے ہر ہر قول میں اس کی تقلید کرتا تھا، کہ جس کی مخالفت کی ضرورت پیش آئی ہو؟
یہی فرما دیجئے کہ آج تک ایسا کوئی گروہ امت میں پیدا ہوا ہے جو کسی ایک شخص ، امام یا عالم یا رجل کی ہر ہر قول میں تقلید کرتا رہا ہو؟؟
اگر ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تو ایسے اقوال کا محل بدلنے کے لئے یہ تاویل پیش کرنا بجائے خود غلط ہے۔
یا تو اسے اکثر پر لاگو سمجھئے کہ ایک امام یا عالم کی اکثر باتوں کو بلا دلیل قبول کر لینا بھی تقلید شخصی، تقلید رجل، شخصیت پرستی وغیرہ ہے۔ چاہے بعض مسائل میں ان کی بات کو دیگر وجوہات سے رد بھی کر دیا گیا ہو۔
یا پھر اسے فی نفسہ مسائل شریعت پر لاگو سمجھئے کہ کسی بھی شرعی معاملہ میں دلائل کو چھوڑ کر کسی اور کی پیروی کرنا تقلید رجل ہے۔ اب چاہے سترہ مسائل میں آپ امام زفر کے قول کو اختیار کریں تو ان سترہ مسائل میں آپ امام زفر کی تقلید شخصی کر رہے ہوں گے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے خلاف ہے۔
چاہے کچھ فیصد مسائل میں فتویٰ امام صاحب کے بجائے صاحبین میں سے کسی کے قول پر دیں گے تو ان مسائل میں تقلید شخصی صاحبین میں سے کسی کی ہو رہی ہوگی۔
جب تک تقلید چھوڑ کر کتاب و سنت کو مسئلہ یا فتویٰ کی اصل نہیں بنائیں گے تقلید شخصی ہی میں گرفتار رہیں گے۔ تقلید مسلکی کی دور جدید کی اصطلاح سے خود کو تسلی دینا مقصود ہو تو بصد شوق۔ لیکن اسے علمی مجالس میں تاریخی حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں تو بہرحال کچھ خیال کرنا چاہئے۔



3- حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مردہ افراد کی تقلید سے منع نہیں کیا بلکہ اس کے جواز کا ذکر کیا ہے ، احناف جن فقہاء کی تقلید کرتے ہیں وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں
تو اس کا واضح مطلب ہے کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں اس کی ممانعت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول ثابت نہیں ہوتی
اس پر یہاں کچھ بات ہو چکی ہے۔ اسے وہیں ڈسکس کر لیجئے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
معذرت کے ساتھ۔ ایسی تقلید کے احناف فقط کہنے کی حد تک ہی مخالف ہیں۔
ورنہ دیکھ لیجئے احناف ہی تو ہیں جو غیراللہ کو پکارتے ہیں۔ کچھ پرانے دیوبندی علماء بھی اور حالیہ بریلوی عوام و علماء سب۔
اگر یہ قبول نہیں کرتے ، تو یہ فرمائیے کہ ذمی شاتم والے مسئلے میں کیوں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول کو اختیار کیا گیا ہے؟؟؟ دلائل کی بنا پر ؟ جی نہیں۔
نعم نفس المؤمن تمیل لیٰ قول المخالف فی مسئلة السب لکن تباعنا للمذہب واجب۔ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق ٥/١١٥)
ہاں! مؤمن کا دل تو اس گالی والے مسئلہ میں قولِ مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن مذہب (فقہ حنفی) کی اتباع کرنا ہمارے لئے واجب ہے)
۔
اولا
محترم آپ نے تقلید کی رد میں مضمون تو لکھا لیکن خود تقلید کربیٹھے
جو اعتراض کسی نے کیا آپ نے بغیر تحقیق کیے اسے آگے پیش کردیا۔
مجھے نہیں معلوم آپ نے یہ اعتراض کہاں سے لیا گيا ہوگا لیکن ایک سائٹ جس پر اعتراض موجود ہے اس کا لنک یہ ہے
http://www.siratulhuda.com/forum/threads/ائمہ-اربعہ-اور-منہج-اہل-حدیث.7227/
آپ کے کاپی پیسٹ کرنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے عربی عبارت ٹائپنگ کی غلطی کی ہے وہی غلطی اس سائٹ پر بھی ہے
تمیل لی قول المخالف نہیں بلکہ تمیل الی قول المخالف
اسی طرح
لکن تباعنا للمذہب نہیں لکن اتباعنا للمذہب
ثانیا
مجھے یقین واثق ہے کہ آپ نے اصل کتاب کی طرف مراجعت نہیں کی ہو گی ، جہاں پر زین الدین بن ابراھیم نے مذکورہ کلمہ کہے ہیں وہاں پر یہ بھی منقول ہے کہ ابن الھمام حنفی نے اسی مسئلہ پر تحقیق کی ہے اور حنفی مذھب سے اختلاف کیا ہے
اب زین الدین بن ابراھیم نے ترجمانی کی ہے یا ابن الھمام نے ۔
آپ نے کہا زین الدین نے حنفی مسلک کی ترجمانی کی ہے (اسی لئیے تو آپ ان کے قول کو نقل کرکے حنفی مسئلہ پر اعتراض کیا ہے) تو اس بات کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے اور ابن الھمام نے حنفی مسلک کی ترجمانی نہیں کی تو آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
اگر آپ ابن الھمام کے عمل کو حنفی مسلک قرار دیتے ہیں تو پھر آپ کے اعتراض کے عمارت ڈھیر ہوجاتی ہے ۔
جب دو حنفی علماء کے عمل ایک ہی سطر میں لکھے ہوئے ہیں تو آپ کس طرح ایک عالم کے طرز عمل کو حنفی مسلک قرار دے رہیں اور دوسرے عالم کے طرز عمل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

(نوٹ : ابن نجیم کے قول کی مناسب تشریح بھی ہے لیکن فی الحال وہ ہمارا موضوع نہیں)
پھر جب تقلید ہی کریں گے تو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ کفر کا معاملہ ہے اور یہ کفر کا معاملہ نہیں ہے؟ کیا تحقیق کریں گے ہر ہر مسئلے میں؟ تاکہ چھان پھٹک کر فقط ایمان کے معاملات میں تقلید کی جائے اور جہاں کوئی کفریہ بات ہو تو اس کی تقلید نہ کی جائے؟؟
ایمان اور کفر کی امور بہت وضاحت کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں ، تقلید کی ضرورت اعمال میں پڑتی ہے کیوں کہ کئی اعمال کے بارے میں صراحت کے ساتھ کچھ منقول نہیں ہوتا
ویسے ایک الزامی سوال میں بھی پوچھ سکتا ہوں کہ آپ حضرات ائمہ کے اقوال کو چھوڑ کر ہر ایک کو قران و حدیث پر چلنے کو کہتے ہیں میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک عامی کسی کی تحقیق کی تقلید نہ کرتے ہوئے ایک حدیث کے متعلق کیسے جان سکتا ہے یہ حدیث صحیح ہے اور منسوخ بھی نہیں
یہ تو ہوئی ایک بات۔
دوسری بات یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول تو ایک انتہا کو ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی تم میں سے کوئی دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ وہ ایمان لائے تو یہ ایمان لائے اور وہ کفر کرے تو یہ کفر کرے۔
آپ یہ فرما دیجئے کہ اسی قول میں اگر ایمان و کفر کو حلال و حرام سے بدل دیا جائے یعنی تم میں سے کوئی دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ وہ حلال کہے تو یہ حلال سمجھے اور وہ حرام کہے تو اسے حرام سمجھے۔۔۔ تو آپ کے خیال سے یہ جملہ غلط ہو جائے گا؟
اور کیا تقلیدی جمود میں گرفتار، دور حاضر کے گروہوں میں حرام و حلال کے اور کفر و ایمان کے اختلافات ہیں یا نہیں؟ حالانکہ ائمہ تو ان گروہوں کے سب ہی ایمان والے اور متقی ہی تھے۔ بلکہ بارہ ائمہ کی پیروی کرنے والوں کے تو ائمہ کے نام بھی آپ کے اماموں سے بہت بڑے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہی نرے گمراہ کے گمراہ؟ اور آپ جا کر کہیں ان سے کہ امام کے کہنے سے کفر کو ایمان اور ایمان کو کفر نہ سمجھو تو وہ سب بھی انکار ہی کریں گے۔ کون ہے جو کہے کہ میرا امام کافر ہو جائے گا تو میں بھی کافر ہو جاؤں گا۔ زبان سے کوئی نہیں کہتا، عملاً شیطان نے اسی راہ پر سب کو لگایا ہوا ہے، الا ماشاءاللہ۔
حلال و حرام بھی چھوڑئیے۔ اسی قول میں سنت و بدعت کو لے لیجئے کہ امام یا عالم کے کہنے سے بدعت کو سنت اور سنت کو بدعت قرار دینے والا مقلد کیا حق پر ہوگا؟
ہرگز نہیں۔
اگر کوئی حلال و حرام کو جانتے ہوئے بھی اپنے امام کہنے پر حرام کو حلال کہتا ہے تو ایسا عمل قابل مذمت ہے بلکہ یہ امام کو شارع بنانے کے مترادف ہے اور امام کو شارع سمجھنے کی مذمت احناف نے بھی کی ہے
لہٰذا اس قول کا ماحصل یہی ہے کہ چاہے معاملہ انتہا کا ہو، یعنی کفر و ایمان کا، یا حرام و حلال کی بات ہو، یا سنت و بدعت ہی ہوں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق ہم میں سے کسی کو دین میں کسی آدمی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ یہاں عموم ہے۔ مقلدین کے لئے بھی اور مجتہدین کے لئے بھی۔ چاہے مجتہد اعظم ہوں اور چاہے مقلد غبی ترین جاہل ہی ہو، دین میں کسی آدمی کی تقلید کریں گے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی مخالفت کر کے ہی کر سکیں گے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرد واحد کی تقلید سے منع کیا ہے اور ہم فرد واحد کی تقلید نہیں کرتے ۔ یہ بات بار بار ثابت کی جاچکی ہے ۔ کیا آپ ثبوت دے سکتے ہیں احناف جزوی یا کلی طور پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (فرد واحد) کی تقلید کرتے ہیں اور کسی جماعت کی تقلید نہیں کرتے
اس پر یہاں کچھ بات ہو چکی ہے۔ اسے وہیں ڈسکس کر لیجئے۔
وہاں اس لئیے ڈسکس نہیں کیا کیوں کہ وہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں صرف زندہ فرد کی بات کی گئی ہے اور مردہ افراد کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ۔ اس لئیے یہیں ڈسکس کر ہا ہوں
پہلی بات یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی رو سے، جب کوئی چارہ نہ ہو تو، دنیا سے رخصت ہو جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید کی اجازت دی گئی ہے، جب کہ آپ صحابہ کی تقلید نہیں کرتے۔ اور صحابی کا قول، جب تک دلائل اس کے خلاف نہ ہوں، بذات خود حجت ہوتا ہے۔جبکہ دیگر ائمہ جن کی تقلید کی دعوت دی جاتی ہے ان کا قول نہ صرف یہ کہ حجت نہیں، بلکہ خود انہی ائمہ سے تقلید کے خلاف اقوال مروی ہیں۔
اولا
تقلید ہوتی ہی تب جو کوئي چارہ نہ ہو ، مثلا ایک شخص اجتھادی صفات سے متصف نہیں تو وہ اجتھاد کرکے مسئلہ کو قران و حدیث سے نہیں نکال سکتا اس لئيے مجبورا وہ تقلید ہی کرے گا ہم بھی تقلید بصورت مجبوری کے قائل ہیں
ثانیا
ہم نے کب کہا ا‏ئمہ کے اقوال شرعیت میں حجت ہیں جب تقلید کی تعریف بیان کی جاتی ہے تو وہاں کہا جاتا ہے ایسے فرد کی تقلید کرنا جس کا قول شرعی حجت نہیں
دوسری بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر زندہ اور مردہ عالم میں فرق کیا ہے، کہ ایک کی تقلید تو ناجائز ہو اور دوسرے کی بالکل حق؟
تو غور کرنے سے ایک دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
پہلا فرق تو یہ کہ زندہ عالم کا فتنے میں پڑنے کا چانس ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی گمراہی دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ جبکہ مردے کا معاملہ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے کہ اس کی موت ایمان پر ہوئی یا گمراہی پر۔
بلکل درست
دوسرا فرق یہ کہ ہر قسم کے مردے کی تقلید بھی درست نہیں۔ کیونکہ صحابہ کرام جو وفات پا چکے ہیں، ان کے لئے کلھم عدول اور رضی اللہ عنہم و رضو عنہ کی بشارت ان کے ایمان پر خاتمے کی ناقابل تردید دلیل ہے۔کیا یہی دلیل ہر مردہ عالم کے بارے میں موجود ہے؟؟؟
آپ کہ رہے ہیں کہ ہر قسم کے مردے کی تقلید درست نہیں ۔
جب کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں
فليقلد الميت
ف+لام تاکید+ صیغہ امر
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بحالت مجبوری مردے افراد کی تقلید پر اصرار کر رہیں ہیں اور آپ کہ رہے کہ مردہ افراد کی تقلید جائز نہیں آپ دونوں اقوال میں تطبیق کیسے کریں گے
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مردے کی تقلید کی بات تب ہے جب کوئی چارہ نہ ہو، یعنی عمومی حالات میں یہ بھی منع ہی ہے۔
میں بھی یہی کہ رہا ہوں کہ تقلید ہوتی ہی تب جو کوئي چارہ نہ ہو ، مثلا ایک شخص اجتھادی صفات سے متصف نہیں تو وہ اجتھاد کرکے مسئلہ کو قران و حدیث سے نہیں نکال سکتا اس لئيے مجبورا وہ تقلید ہی کرے گا ہم بھی تقلید بصورت مجبوری کے قائل ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اولا
محترم آپ نے تقلید کی رد میں مضمون تو لکھا لیکن خود تقلید کربیٹھے
جو اعتراض کسی نے کیا آپ نے بغیر تحقیق کیے اسے آگے پیش کردیا۔
مجھے نہیں معلوم آپ نے یہ اعتراض کہاں سے لیا گيا ہوگا لیکن ایک سائٹ جس پر اعتراض موجود ہے اس کا لنک یہ ہے
http://www.siratulhuda.com/forum/threads/ائمہ-اربعہ-اور-منہج-اہل-حدیث.7227/
آپ کے کاپی پیسٹ کرنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے عربی عبارت ٹائپنگ کی غلطی کی ہے وہی غلطی اس سائٹ پر بھی ہے
تمیل لی قول المخالف نہیں بلکہ تمیل الی قول المخالف
اسی طرح
لکن تباعنا للمذہب نہیں لکن اتباعنا للمذہب
ثانیا
مجھے یقین واثق ہے کہ آپ نے اصل کتاب کی طرف مراجعت نہیں کی ہو گی ، جہاں پر زین الدین بن ابراھیم نے مذکورہ کلمہ کہے ہیں وہاں پر یہ بھی منقول ہے کہ ابن الھمام حنفی نے اسی مسئلہ پر تحقیق کی ہے اور حنفی مذھب سے اختلاف کیا ہے
اب زین الدین بن ابراھیم نے ترجمانی کی ہے یا ابن الھمام نے ۔
آپ نے کہا زین الدین نے حنفی مسلک کی ترجمانی کی ہے (اسی لئیے تو آپ ان کے قول کو نقل کرکے حنفی مسئلہ پر اعتراض کیا ہے) تو اس بات کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے اور ابن الھمام نے حنفی مسلک کی ترجمانی نہیں کی تو آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
اگر آپ ابن الھمام کے عمل کو حنفی مسلک قرار دیتے ہیں تو پھر آپ کے اعتراض کے عمارت ڈھیر ہوجاتی ہے ۔
جب دو حنفی علماء کے عمل ایک ہی سطر میں لکھے ہوئے ہیں تو آپ کس طرح ایک عالم کے طرز عمل کو حنفی مسلک قرار دے رہیں اور دوسرے عالم کے طرز عمل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

(نوٹ : ابن نجیم کے قول کی مناسب تشریح بھی ہے لیکن فی الحال وہ ہمارا موضوع نہیں)

ایمان اور کفر کی امور بہت وضاحت کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں ، تقلید کی ضرورت اعمال میں پڑتی ہے کیوں کہ کئی اعمال کے بارے میں صراحت کے ساتھ کچھ منقول نہیں ہوتا
ویسے ایک الزامی سوال میں بھی پوچھ سکتا ہوں کہ آپ حضرات ائمہ کے اقوال کو چھوڑ کر ہر ایک کو قران و حدیث پر چلنے کو کہتے ہیں میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک عامی کسی کی تحقیق کی تقلید نہ کرتے ہوئے ایک حدیث کے متعلق کیسے جان سکتا ہے یہ حدیث صحیح ہے اور منسوخ بھی نہیں

اگر کوئی حلال و حرام کو جانتے ہوئے بھی اپنے امام کہنے پر حرام کو حلال کہتا ہے تو ایسا عمل قابل مذمت ہے بلکہ یہ امام کو شارع بنانے کے مترادف ہے اور امام کو شارع سمجھنے کی مذمت احناف نے بھی کی ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرد واحد کی تقلید سے منع کیا ہے اور ہم فرد واحد کی تقلید نہیں کرتے ۔ یہ بات بار بار ثابت کی جاچکی ہے ۔ کیا آپ ثبوت دے سکتے ہیں احناف جزوی یا کلی طور پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (فرد واحد) کی تقلید کرتے ہیں اور کسی جماعت کی تقلید نہیں کرتے

وہاں اس لئیے ڈسکس نہیں کیا کیوں کہ وہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں صرف زندہ فرد کی بات کی گئی ہے اور مردہ افراد کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ۔ اس لئیے یہیں ڈسکس کر ہا ہوں

اولا
تقلید ہوتی ہی تب جو کوئي چارہ نہ ہو ، مثلا ایک شخص اجتھادی صفات سے متصف نہیں تو وہ اجتھاد کرکے مسئلہ کو قران و حدیث سے نہیں نکال سکتا اس لئيے مجبورا وہ تقلید ہی کرے گا ہم بھی تقلید بصورت مجبوری کے قائل ہیں
ثانیا
ہم نے کب کہا ا‏ئمہ کے اقوال شرعیت میں حجت ہیں جب تقلید کی تعریف بیان کی جاتی ہے تو وہاں کہا جاتا ہے ایسے فرد کی تقلید کرنا جس کا قول شرعی حجت نہیں

بلکل درست

آپ کہ رہے ہیں کہ ہر قسم کے مردے کی تقلید درست نہیں ۔
جب کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں
فليقلد الميت
ف+لام تاکید+ صیغہ امر
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بحالت مجبوری مردے افراد کی تقلید پر اصرار کر رہیں ہیں اور آپ کہ رہے کہ مردہ افراد کی تقلید جائز نہیں آپ دونوں اقوال میں تطبیق کیسے کریں گے

میں بھی یہی کہ رہا ہوں کہ تقلید ہوتی ہی تب جو کوئي چارہ نہ ہو ، مثلا ایک شخص اجتھادی صفات سے متصف نہیں تو وہ اجتھاد کرکے مسئلہ کو قران و حدیث سے نہیں نکال سکتا اس لئيے مجبورا وہ تقلید ہی کرے گا ہم بھی تقلید بصورت مجبوری کے قائل ہیں


تلمیذ بھائی کچھ یہاں بھی ارشاد فرما کر ہمارے علم میں اضافہ کر دیں
 
Top