• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت لقمان کون تھے؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کا تہ۔
قرآن مجید میں ایک سورت "لقمان" کے نام سے ہے ۔جس میں حضرت لقمان کے نصائح کا بھی تذکرہ ہے۔حضرت لقمان کی دانائی اور حکمت کے متعلق بہت سی باتیں مشہور ہیں۔
لیکن مجھے مستند طور پر معلومات مطلوب ہے کہ،
کیا حضرت لقمان پیغمبر تھے؟
ان کا دور کونسا تھا؟ ان کے حوالے سے کسی حدیث یا کوئی مستند معلومات ہیں؟
کوئی علم رکھتا ہو تو شئیر کر دیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کا تہ۔
قرآن مجید میں ایک سورت "لقمان" کے نام سے ہے ۔جس میں حضرت لقمان کے نصائح کا بھی تذکرہ ہے۔حضرت لقمان کی دانائی اور حکمت کے متعلق بہت سی باتیں مشہور ہیں۔
لیکن مجھے مستند طور پر معلومات مطلوب ہے کہ،
کیا حضرت لقمان پیغمبر تھے؟
ان کا دور کونسا تھا؟ ان کے حوالے سے کسی حدیث یا کوئی مستند معلومات ہیں؟
کوئی علم رکھتا ہو تو شئیر کر دیں۔
حضرت خضر علیہ السلام اللہ تعالی کے نبی ہیں یہی جمہور علماء کرام کا مذہب ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے بعض نے کہا کہ آپ ولی ہیں بعض نے کہا کہ آپ نبی ہیں اور بعض کا قول ہے کہ آپ فرشتہ ہیں مگر جمہور علماء کرام نے کہا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں۔
الجامع الاحکام القرآن ج : 10، ص : 391، مطبوع دار الفکر بيروت
البحر المحيط ج : 7، ص : 204،
النکت والعيون ج : 6، ص : 325، مؤسس الکتب الثقافيه بيروت
تدبر القرآن ج : 6، ص : 606، مطبوعه فاران فاؤنديشن لاهور
معارف القرآن ج : 5، ص : 612، مطبوعه اداره المعارف کراچی
حضرت لقمان علیہ السلام اللہ تعالی کے ولی ہیں یہی جمہور علما کرام کا مختار مذہب ہے۔
حضرت لقمان علیہ السلام کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے بعض نے آپ کو نبی کہا اور بعض نے ولی کہا ہے۔ مگر جمہور علماء کا قول ہے کہ آپ ولی ہیں، آپ پر نبوت اور حکمت دونوں پیش کی گئی اور آپ کو ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کو کہا گیا تو آپ نے نبوت کو چھوڑ دیا اور حکمت کو اختیار کر لیا۔ لہذا آپ ولی ہیں نبی نہیں۔
تفسیر امام ابن ابی حاتم حديث رقم : 17530
الفردوس بماثور الخطاب حديث رقم : 5384
تاريخ دمشق الکبير ج : 19، ص : 62، حديث رقم : 4139
تفسير الثعالبی، ج : 4، ص : 319
الجامع الاحکام القرآن، جز : 14، ص : 55 تا 57
تفسير ابن کثير، ج : 3، ص : 31
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کا تہ۔
قرآن مجید میں ایک سورت "لقمان" کے نام سے ہے ۔جس میں حضرت لقمان کے نصائح کا بھی تذکرہ ہے۔حضرت لقمان کی دانائی اور حکمت کے متعلق بہت سی باتیں مشہور ہیں۔
لیکن مجھے مستند طور پر معلومات مطلوب ہے کہ،
کیا حضرت لقمان پیغمبر تھے؟
ان کا دور کونسا تھا؟ ان کے حوالے سے کسی حدیث یا کوئی مستند معلومات ہیں؟
کوئی علم رکھتا ہو تو شئیر کر دیں۔
قرآن مجید سے حکیم لقمان نامی ایک شخصیت کا وجود ثابت ہے جسے اللہ نے حکمت عطاکی اور کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ قرآن مجید کی ایک سورۃ کا نام سورۃ لقمان ہے جس میں حکیم لقمان کے نسب اور خاندان کی بابت تو کوئی ذکر نہیں کیا گیا البتہ اس میں حکیم لقمان کے حکیمانہ معقولات کا تذکرہ ضرور ہے۔تاہم قدیم تواریخ اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ اس نام کا ایک شخص سرزمین عرب پر موجود تھا البتہ اس کی شخصیت اور نسب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قصص القرآن میں حکیم لقمان کا زمانہ 3,000قبل مسیح قرار دیا گیا ہے لیکن بعض مفسرین ومورخین انہیں حضرت دائود علیہ السلام کا مصاحب بتاتے ہیں اس طرح ان کا زمانہ 1,100قبل مسیح کے لگ بھگ بنتا ہے۔ بہرطور اہل عرب ان کے حالات اور خاندان ونسب سے متعلق اختلاف کے باوجود لقمان یا حکیم لقمان کو ایک مشہور شخصیت تسلیم کرتے ہیں اور صحیفہ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاریخ قدیم میں لقمان نام کی ایک اور شخصیت کا پتا چلتا ہے جو عادثانیہ میں ایک نیک بادشاہ گزرا ہے اور خالص عرب نژاد ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر اور سہیلی جیسے مستند مورخین کی رائے ہے کہ مشہور لقمان حکیم، افریقی النسل تھے اور عرب میں ان کی آمد بحیثیت غلام ہوئی تھی۔ ابن کثیر کے بقول لقمان نبی نہیں تھے اور نہ ان پر وحی نازل ہوئی۔ قرآن مجید کی کسی سورت میں بھی ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں جو لقمان کے نبی یا رسول ہونے پر دلالت کرتا ہو۔ البتہ ابن اسحاق نے وہب بن منبہ کی روایت سے حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ''وہ نبی تھے، مگر رسول نہیں تھے'' لیکن بیشتر علمائے سیر، ابن اسحاق کے اس قول سے اتفاق نہیں کرتے۔ روض الانف اور تفسیر ابن کثیر میں لقمان کا شجرہ نسب لقمان بن عنقایا ثارابن سندون درج ہے۔ ان کتب کے مطابق وہ سوڈان کے نوبی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پستہ قد، بھاری بدن، سیاہ رنگ، ہونٹ موٹے اور ہاتھ پیر بھدے تھے مگر وہ بلا کے نیک، عابد وزاہد، صاحب حکمت اور دانا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ تاریخ ابن کثیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ لقمان نجاری کا پیشہ کرتے تھے البتہ سعید بن مسیب کے بقول لقمان، مصری سوڈانی تھے اور ان کے ہونٹ بہت موٹے تھے۔ اللہ نے انہیں اگرچہ نبوت عطا نہیں کی مگر حکمت ودانائی سے وافر حصہ دیا۔ عبدالرحمن بن حرملہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک حبشی سعید بن مسیب کے پاس آنکلا اور کچھ سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ تو اس بات سے دل گیر نہ ہوکہ کالا حبشی ہے اس لیے کہ سوڈانیوں میں تین آدمی دنیا کے بہترین انسان ہوئے ہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام مہجع اور لقمان حکیم جو سوڈانی نوبی تھے اور ان کے ہونٹ بہت موٹے اور بھدے تھے۔ مشہور مورخ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ لقمان حکیم، عرب کے مشہور قبیلہ عاد یعنی عرب بائدہ کی نسل سے تھے اور غلام نہیں بلکہ بادشاہ تھے۔ وہب بن منبہ کا کہنا ہے کہ جب شداد بن عاد کا انتقال ہوا تو حکمت اس کے بھائی لقمان کو ملی اور اللہ نے لقمان کو وہ چیز عطا فرمائی جو اس زمانے کے انسانوں میں سے کسی کو نہیں عطا کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سوانسانوں کے برابر ادراک وحاسہ عطا فرمایا تھا اور وہ اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ طویل قامت تھے۔ وہب یہ بھی کہتے ہیں کہ لقمان بن عاد کا نسب ملطاط بن سلک بن وائل بن حمیر تھا اور وہ نبی تھے لیکن رسول نہیں۔ ارض القرآن کے مصنف بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ لقمان حکیم اور لقمان بادشاہ ایک ہی شخصیت ہے اور وہ عادثانیہ کے نیک بادشاہوں میں اور بہت بڑے حکیم و دانا تھے اور عرب میں لقمان کے نام سے جو صحیفہ منسوب تھا وہ انہی لقمان عاد کا ہے۔

قصص القرآن میں سورۃ لقمان کی آیت 12تا 19کا جوترجمہ درج ہے۔ اس کے مطابق لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی ہیں ان میں ان باتوں پر زور دیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسن واخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ازراہ غرور منہ موڑ لیا جائے۔ اور نہ خدا کی زمین پر اکڑ کر چلو۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مغرور اور اکڑنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ہمیشہ رفتار میں میانہ روی قائم رہنی چاہیے اور آواز گفتگو میں نرم رکھو اس لیے کہ چیخنا چلانا انسانوں کا کام نہیں۔ اگر کرخت اور بے وجہ بلند آواز پسندیدہ چیز ہوتی تو گدھے کی آواز قابل ستائش سمجھی جاتی حالانکہ اس کی آواز بدترین آواز شمارہوتی ہے۔اس کے علاوہ نصیحت کی کہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرانا -شرک ظلم عظیم ہے-

قصص القرآن کے مصنف کہتے ہیں کہ حکیم لقمان اگر غلام ہوتے تو اپنے بیٹے غلام زادے کو یہ نصیحت نہ کرتے۔ اس لیے کہ غرور ونخوت ،خودبینی وشیخی، کرختگی وخشونت ایسے اوصاف ہیں جو بادشاہوں، شاہ زادوں ،متمول وصاحب اقتدار انسانوں کے اندر ہی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مصنف نے اس امر سے بھی اتفاق کیا ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بادشاہ ایک ہی شخصیت ہے اور وہ عاد ثانیہ کے پیغمبر حضرت ہود کے پیرو تھے۔ وہ حبشی الاصل نہیں بلکہ عربی النسل تھے۔ (ذوالفقار ارشد گیلانی کی کتاب ''قصص الانبیاء'' ناشر: علم دوست پبلی کیشنز،لاہور)
 
Top