• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت مجدد الف ثانی کا جہاد

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
حضرت مجدد الف ثانی کا جہاد
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ٩٧١ھ میں مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں تولد ہوئے۔ تقریباً چالیس سال کی عمر میں انہیں بطور مجدد کے تسلیم کیا گیا جبکہ اکبر کی بادشاہت ابھی قائم تھی اور آ یندہ چار سال تک بھی باقی رہی۔ ان کی جوانی کے دن اکبر کی شہنشاہیت کے عروج زرین سے متصل رہا۔ اکبر نے اپنے رتنوں کی مدد سے ایک نئے دین ، دین الہٰی کی بنیاد ڈالی جو کہ اپنے دور کے متعدد ادیان اور عقائد کا ملغوبہ تھا ۔ جس میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کے دین کی مرکزیت اس نعرہ میں تھی کہ لا الہٰ الا اللہ۔ اکبر خلیفة اللہ۔ محمد ۖ رسول اللہ کے الفاظ کو اس نے اس لیے نکال دیا کہ اس کی رائے میں وہ نام ہزار سال کے بعد اب متروک ہوگیا ہے۔ اس کے دین میں دن میں چار مرتبہ سورج کی پوجا ہوتی تھی۔ عقیدہ تناسخ یا آواگون مذہب کا ایک لازمی حصہ تھا، عورتوں کے حجاب کو ختم کردیا گیا ، داڑھی رکھنا ممنوع ہو گیا تھا ، شراب کو حلال کردیا گیا تھا ، اسی طرح سود اور جوا کو بھی حلال جگہ عطا کردی گئی تھی۔ طوائف کے پیشہ کو با عزت طور پر بحال کر دیا گیا۔ شیر ، بھالو ، کتے اور بلی کاگوشت بھی حلال قرار پایا ۔ مگر گائے، بکری، اونٹ اور بھینس کا گوشت حرام ہوگیا۔ مساجد کو شہید کر کے ان کی جگہ مندروں کی تعمیر کی گئی۔ عربی زبان ، قرآن و حدیث کی تعلیم ممنوع قرار دی گئی۔ جنہوں نے احتجاج کیا انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ رمضان کے روزوں کا مذاق اڑایا گیا یہاں تک کہ روزہ داروں کو قتل کر دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ شہنشاہ کے آگے حاضر ہو کر زمین کو بوسہ دینا احترام شاہی کے طور پر لازمی قرار پایا۔
من حیث المجموعی حضرت مجدد کو کئی فتنوں سے بہ یک وقت سامنا کر نا پڑا جن میں اول شہنشاہ اکبر، دوئم دنیا کے پروردہ علمائ، سوئم رافضی یعنی شیعہ مسلم ، اور آخر اً ہندو ، جین ، عیسائی، پارسی شامل تھے۔ تصوف حقیقی کی شکل ہر قسم کی ضلالت گمراہی اور بدعات سے بگاڑ دی گئی تھی۔ ان کو ان تمام چیزوں کے خلاف آواز اٹھانے اور جہاد کر نے کی پاداش میں پہلے اکبر نے اور پھر بعد میں اس کے بیٹے جہانگیر نے، جو ١٠١٤ ھ میں ٣٨ سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور بائیس برس حکومت کی، طویل مدت تک انہیں قید میں رکھا۔ جہانگیر نے آخر میں آکر توبہ کر لی تھی اور حضرت مجدد کے پیرو کاروں میں شامل ہوگیا تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی نے مندرجہ ذیل مسائل پر بڑا سخت موقف اختیار کیا:
١۔شیعہ مسلمانوں کا عقیدئہ امامت اسلام کی شریعت کا حصہ نہیں ہے۔
٢۔حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی بزرگی ان کی خلافت کے تسلسل کے مطابق ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ' نے خود فرمایا: جو یہ کہے میں ابوبکر و عمر سے افضل ہوں تو میں اسے کوڑے لگائوں گا ایسے جیسے کہ چوروں اور فریبیوں کو لگتے ہیں۔ اسی لیے جو یہ کہے کہ حضرت علی حضرت ابو بکر سے افضل ہیں وہ جماعت اہل سنت سے خارج ہے۔
٣۔اللہ کی ذات کے ساتھ حلول اور اتحاد انتہائی نا پسندیدہ اقوال ہیں اور بڑی ضلالت اور گمراہی ہے۔
٤۔وحدت الوجود اور ہمہ اوست کی جو تحریک ابن عربی نے پیش کی تھی وہ عام لوگوں کی فہم و دانش کی گرفت میں نہیں آئی۔ یہ الفاظ حالت سُکر یعنی مدہوشی میںکہے گئے تھے جس کو کم فہم لوگوں نے اتحاد اور حلول سے تعبیر کیا اور بہت سی ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہوکر اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام تخلیق زمین و آسمان درخت شجر پتھر سب کو خدا بنا دیا۔
٥۔پیغمبر یہ بتانے کے لیے بھیجے گئے تھے کہ اللہ کی تمام تخلیقات غیر اللہ ہے۔ اللہ ان تمام سے بلند و بالا ہے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ جو یہ نہ مانے وہ زندیق ہے، ملحد ہے۔ ممکن کو واجب جاننا، تخلیق کو خالق سمجھنا، ممکن کی صفات اور کار کردگی کو اور اللہ کی صفات کو اللہ کی ذات سے بدل دینا ، اللہ کی اپنی حقیقت کو نہ ماننے کے برابر ہے۔
٦۔یہ عقیدہ کہ مخلوق اللہ کا عین ہے یا اس کا اللہ کے ساتھ الحاق ہو جائے گا ، غلط اور باطل ہے۔ اس دنیا یا کائنات کی کوئی چیز اللہ سے مماثلت نہیں رکھتی۔ وہ ان تمام چیزوں سے ورا ء الوراء ہے۔
٧۔کسی بھی لغو باتیں کرنے والے صوفی کے سحر میں گرفتار مت ہو جائو۔ وحدت الوجود اور ہمہ اوست کہنے والے مشائخ کے نعرہ کا مطلب تھا کہ مخلوق کے اندر اللہ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی طاقت کا اظہار ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا وجود اصل وجود ہے باقی سب کا وجود ظلّی ہے، ممکن ہے، عارضی ہے ۔ ہمہ اوست کا مطلب یہ ہے کہ اس خالق کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی اپنی حقیقت نہیں ہے۔ ہمہ اوست سے مقصد ہمہ از اوست یعنی سب اسی سے ہے کہنے کا تھا۔
٨۔منصور حلا ج نے کہا : انا الحق یعنی میں حق ہوں۔ بایزید بسطامی نے نعرہ لگایا : سبحانی ما اعظم شأنی یعنی میری بڑائی ہو، کیسی عظیم شان ہے میری۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: لوائی أرفع من لوائِ محمد یعنی میرا جھنڈا محمد ۖ کے جھنڈے سے اونچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے شریعت میںاسلام اور کفر موجود ہے، اسی طرح طریقت میں بھی اسلام اور کفر ہے۔ دونوں صورتوں میں اسلام ارفع و اعلیٰ ہے اور کفر قابل حقارت و زندقہ ہے۔ اللہ کے ساتھ جَمْعْ یا الحاق طریقت میں بھی کفر ہے۔ جَمْع کے مقام پر حق اور باطل محو ہو جاتے ہیں کیونکہ طالب کو صرف اپنے محبوب کی خوبصورتی ہی نظر آتی ہے، خواہ وہ اسے اچھائی کے آئینہ میں دیکھے یا برائی کے۔ اس کے لیے یہ سب توحید کے ہی روپ ہو جاتے ہیں۔ اور یوں وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں برابری رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سب ہی درست راستہ پر ہیں۔ کبھی کبھی وہ گمان کرتا ہے کہ ان سب کا وجود خد ا بطور الظاہر ہی کا اظہار ہے، اور پھر عبد اور معبود میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ یہ سب مقا مِ جَمْعْ سے متعلق ہے۔ طریقت میں یہ کفر ہے اور یہ سُکر یا بدتمیزی کے برابر ہے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر ان کے شطحیات کا لفظی مطلب لینے کی بجائے وہ مطلب سمجھنا چاہئے جو شریعت میں قابل قبول ہو۔ انا الحق کا مطلب پھر یہ ہو جائے گا کہ میں موجود نہیں ہوں بلکہ صرف اللہ موجود ہے۔ اگر ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو کہ حق کے لوگ ہیں تو یہ ان کے لیے آب حیات ہے ، اور اگر یہ الفاظ گمراہ حضرات استعمال کریں تو یہ ان کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ با لکل ایسے ہی جیسے سمندر کے دو حصہ ہو جانا بنی اسرائیل کے لیے رحمت اور فرعونیوں کے لیے قیامت تھا۔ در حقیقت اصحاب حق سُکر کی حالت میں بھی شریعت کو ذرہ برابر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مگر اصحاب باطل سُکر کا بہانہ کر کے لغویات بکتے رہتے ہیں۔
٩۔بعض صوفی نے وحدت الوجود اور ہمہ اوست کا درست مطلب سمجھے بغیر اس پر عمل کیا ، جس کے نتیجے میں انہوں نے کفر کو پھیلایا۔
١٠۔اللہ کسی کے ساتھ الحاق نہیں کرتا۔ جب صوفی کہتا ہے کہ ایک کامل فقیر کو فنا حاصل ہوتی ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ اس کے نز دیک اللہ کے ماسوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ یک جان ہو گیا ہے۔
١١۔اگر کوئی ظاہر کو چھوڑ دے اور اپنے باطن کو مزین کرنے کی بات کرے تو وہ ملحد ہے۔ اگر اس کو کچھ کامیابی مل جائے تو وہ استدراج (دھوکہ) ہوگا۔ باطنی حالت اسی وقت بہتر ہو سکتی ہے جب وہ ظاہری حالت کو سنوار لے گا۔
١٢۔صرف علمائِ اہل سنت والجماعت کا اجتہاد درست ہے، بقیہ سب غلط اور سُکر ہے۔ وہ صوفیا جو اللہ سے الحاق کے لیے پورا زور صرف کرتے ہیں اور شریعت کو پامال کرتے ہیں، بے حقیقت ہیں۔ یونانی اور ہندو فلاسفہ نے ایسا کرنے کی کوشش کی اور وہ دھوکہ میں جا گرے۔
١٣۔سماع اور آلاتِ موسیقی اور رقص دل بستگی کا سامان ہیں اور کسی بھی فقیہ نے انہیں جائز نہیں کہا۔ صوفیوں کا جائز یا ناجائز عمل کوئی معنی نہیں رکھتا۔
١٤۔شریعتِ محمدی ۖ ہی طریقت ہے۔ وہ معرفت جو اس راہ میں ملے وہ قابل قبول ہے، اور اس کے علاوہ سب ناجائز اور نقصان دہ ہے۔
بشکریا الواقعہ
 
Top