محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ نے 30-جمادی ثانیہ- 1434کا خطبہ جمعہ "حقیقی خسارہ"کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے حقیقی خسارہ کے متعلق گفتگو کی اور بتلایا کہ اصل خسارہ اخروی زندگی کا ہے فانی دنیا کا خسارہ کوئی خسارہ نہیں، پھر انہوں نے اللہ کی حصول ِ رضا ئے الہی کیلئے کوشش کرنے کی ترغیب دلائی ، اور کہا کہ اللہ کی نافرمانی اور اسکے حقوق ضائع کرکے اپنے آپ کو واضح خسارہ میں مت ڈالو، پھر انہوں نے خسارے کی متعدد صورتیں ذکر کیں ، اور انکی علامات بھی ذکر کیں تا کہ مسلمان ان سے محفوظ رہ سکیں۔
پہلا خطبہ:
حمد و صلاۃ کے بعد!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو[آل عمران: 102]
زندگی نفع اور نقصان میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسی لئے انسان اپنے آپ کو نقصان سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اور زندگی کے تمام معاملات میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے، کامیاب ہو تو خوش ہوتا ہے اور نقصان ہونے پر غمذدہ بھی ہوجاتا ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ نقصان کڑوا نوالہ ہے، جسکے نتائج تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بعض لوگ تو اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اپنے گریبان اور سینہ کوبی کرتے ہوئے جاہلوں کی سی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ حقیقی خسارہ دنیا کا نہیں ، مال و منصب کا نہیں ، نوکری یا تجارت کا نہیں، حقیقی خسارہ ہمیشہ کی زندگی کا ہے ، دنیا کی زندگی نفع و نقصان کیلئے معیار نہیں ہے کیونکہ دنیا میں کتنے ہی کامیاب لوگ ہیں جو قیامت کے دن خسارے میں ہونگے، فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ اصل میں تو خسارہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارہ میں ڈال دیا۔ دیکھو! یہی بات صریح خسارہ ہے [الزمر: 15]
عقلمندوں کے ہاں فائدہ اور نقصان ایمان کے ساتھ آخرت میں کامیاب ہونے کا نام ہے، جبکہ انسان دنیا میں ہمیشہ خسارہ ہی میں رہتا ہے، چاہے کچھ بھی جمع کرلے، فرمایا: وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ زمانے کی قسم [1] بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے [العصر: 1، 2] پھر اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ لوگوں کو مستثنی قرار دیا اور فرمایا: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے [العصر: 3]جو لوگ ایمان لائے اور دلیل ِایمان کے لئے عمل پیش کرتے ہوئے صبر کیا اور حق راستے پر جمے رہے وہ ہی کامیاب ہیں۔
دینداری میں کمی سب سے بڑا خسارہ ہے، دنیا کا ہر ایک خسارہ دین کے مقابلے میں ہیچ ہے، کیونکہ دینی خسارہ انسان کو آخرت میں تباہی کی جانب دھکیل دیتا ہے۔
دینی خسارہ یا تو شبہ کی بنا پر یا پھر شہوت نفسی کی بنا پر ہوتا ہے،جن کی وجہ سے ارکانِ دین کو انسان ضائع کر بیٹھتا ہے، یا احکام ہی تبدیل کر دیتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا کیا کرتے تھے، (ولا تجعل مصيبتنا في ديننا) اے اللہ ! ہمیں دینی خسارے سے دو چار مت کرنا۔
جس نے اعمال ضائع کردئے، اور نیکیاں کمانے میں سستی کا شکار رہا قیامت کے دن اسکی نیکیوں کا تراوزو ہلکا ہو جائے گا، اعمال کم ہو جائیں گے، برائیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ جن کے پلڑے بھاری نکلے وہی فلاح پائیں گے[7]اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا۔ کیونکہ وہ ہماری آیتوں سے ناانصافی کیا کرتے تھے [الأعراف: 8، 9]
آدم و حواء علیہما السلام کو زمین پر اتارا گیا تو دونوں نے عرض کی: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ '' ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے'' [الأعراف: 23]
خسارہ پانے والوں کی علامات میں : وعدہ خلافی، عہد و پیمان شکنی ، فساد پھیلانا، شہوات عام اور نشر کرناہے، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ اے ایمان والو! اگر تم کافروں کا کہا مانو گے تو وہ تو تمہیں الٹے پاؤں (یعنی اسلام سے) پھیر دیں گے اور تم خسارہ پانے والے بن کر پلٹو گے [آل عمران: 149]
ایسے ہی خسارہ زدہ لوگوں کی عبادات اپنے دنیاوی نفع کے اردگرد گھومتی ہے، انہی کے بارے میں فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسے کچھ فائدہ ہو تو (اسلام سے) مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پڑ جائے تو الٹا پھر جاتا ہے۔ ایسے شخص نے دنیا کا بھی نقصان اٹھایا اور آخرت کا بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ [الحج: 11]
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوش حالی ہو تو اللہ کی عبادت کرتے ہیں، دنیا ہو تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اگر دنیا نہ ملے تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں، نعمتیں ہوں تو عبادت ہے ، تنگی آئے تو ہر چیز سے عاری ہو جاتا ہے، یہ شخص دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ناکام ہوگا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے ہاں مدینہ میں آکر لڑکا پیدا ہوا ، یا گھوڑی بچہ جن دے تو کہہ اٹھتے یہ سچا دین ہے، اور اگر اولاد نہ ہو یا جانوروں میں اضافہ نہ ہوتو کہہ دیتے کہ یہ دین اچھا نہیں ہے" بخاری
خسارے کی ایک علامت قرآن نے بھی بیان کی فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں [المنافقون: 9]
جسکے مال، اولاد، کی وجہ سے عبادت و اطاعت ضائع ہو گئی ، اور اس دھوکے میں رہا کہ یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے، وہ وہم میں ہے ، اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ عیش و عشرت کا راستہ درست راستہ ہے، بیچارے کو یہ علم نہیں کہ جس ڈگر پر وہ چل پڑا ہے یہ ہی خسارے کا راستہ ہے۔
ظلم و زیادتی کرتے ہوئے اپنے بھائی کو قتل کرنے والا بھی خسارے میں ہے، چاہے پر آسائش زندگی گزارے، فرمایا: فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ بالآخر دوسرے کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر ہی لیا چنانچہ اسے مار ڈالا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا [المائدة: 30]
جس نے شیطان کو اپنا دوست بنا کر اپنے شب و روز ، قول و عمل ، مال و دولت سب اسی کے کنٹرول میں دے دئیے وہ بھی خسارے میں ہے: وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو آپ نا سرپرست بنا لیا اس نے صریح نقصان اٹھایا [النساء: 119]
انبیائے کرام اور صالحین نگاہِ بصیرت سے دیکھتے ہوئے لوگوں کو خسارے کی جگہوں سے خبر دار کرتے رہتے ہیں، خاص طور ایسے گناہ جن سے خسارہ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہو، جسےے کہ اللہ تعالی نے ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ اے میری قوم ! بھلا دیکھو ! اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت (نبوت) سے بھی نوازا ہو، پھر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا؟ تم تو میرے نقصان ہی میں اضافہ کر رہے ہو [هود: 63]
خسارے کی ایک ہولناک شکل یہ ہےکہ مسلمان نیکیاں کر کر کے تھکا ہوا ہو لیکن وقت آنے پر نیکیوں کی جمع پونجی ختم ہوجائے، حسرت اس وقت مزید شدت اختیار کر جائے گی جب نیکیاں ختم ہوجائے اور ابھی قرض خواہ باقی ہوں، پھر دوسروں کی برائیاں اٹھا کر اسکے سر کی جائیں گی ، اس وقت یہ انسان انتہائی غمگین ہوگا جب اس خسارے سے بچنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا۔
اسی شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مفلس جانتے ہو کون ہے؟) صحابہ کرام نے کہا: "ہم مفلس اسے کہتے ہیں جسکے پاس روپیہ پیسہ ، مال و دولت نہ ہو" فرمایا: (میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں ، روزے، زکاۃ لے کر آئے گا، لیکن ساتھ میں اس نے کسی کو گالیاں دی ہونگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا، اب اسکی نیکیاں دوسروں میں تقسیم کی جائیں گی، جب ادائیگیوں سے پہلے ہی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو دوسروں کے گناہ اٹھا کر اسکے سر کئے جائےگے، اور آخر کار اسے جہنم میں پھینک دیا جائےگا) مسلم
ایسے ہی وہ بھی خسارہ میں ہے جس نے اللہ سے ملاقات کو بھلا کر اپنی دنیاوی زندگی ہی تک سوچ کو محدود کر کے رکھا، قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے [الأنعام: 31]
آنکھوں کو اشک بار ، دلوں کو دہلا دینے والا خسارہ سنگ دلی اور ضمیر کے مردہ ہونے کی شکل میں سامنے آتا ہے، کہ نہ قرآن دل پر اثر کرے، اور نہ ہی اچھی بات قبول کرے، انہی کے بارے میں فرمایا: لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا ان کے دل تو ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں [الأعراف: 179]
قرآن کی تلاوت نہ کرنابھی خسارہ ہے فرمایا: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا اور سول اللہ کہیں گے'':پروردگار! میری قوم کے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا رکھا تھا۔ [الفرقان: 30]
نمازوں کو ضائع کرنا، یا تاخیر سے ادا کرنا بھی خسارہ ہے فرمانِ رسالت ہے: (جسکی نماز فوت ہوگئی گویا کہ اس کا خاندان اور مال و دولت سب برباد ہوگئے)
فجر کی نماز کے وقت سوئے رہنا اور سورج نکلنے پر ادا کرنا بہت بڑا نقصان ہے اسی کے بارے میں فرمایا: (یہ وہ شخص ہے جسکے دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے) یا فرمایا: (ایک کان میں)
وقت ضائع کرنا بھی خسارہ ہے، کیونکہ وقت کا کوئی نعم البدل نہیں اور ویسے بھی گزرا وقت دوبارہ نہیں آتا، عقلمند انسان اپنے وقت کا خیال کرتے ہوئے دیکھتا ہے کہ اس نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
اور کبھی خسارے کے اثرات پوری امت پر ظاہر ہوتے ہیں، فرمایا: وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا بڑا سخت محاسبہ کیا اور انہیں بری طرح سزا دی[8] چنانچہ انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھ لیا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی تھا۔ [الطلاق: 8، 9]
جس قوم نے منہج الہی سے انحراف کیا، اور مخالفت کی اس قوم میں گناہ اور نافرمانیاں بدکے سانڈ کی طرح ابھرتی ہیں، اللہ اور اسکے رسول کی راہنمائی سے اعراض کرنے کے باعث اس قوم میں آزمائشیں، فقر و فاقہ، ظلم و زیادتی، بے چین زندگی ہی اسکا انجام بنتی ہے، یہ اللہ کا طریقہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا گزشتہ لوگوں میں اللہ کا یہی طریقہ جاری رہا ہے اور آپ اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ [الأحزاب: 62]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
حمدوشکر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بعد!
میں اپنے نفس کو اور آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی[الأحزاب: 70، 71]
یہاں پر ہر عقل مند انسان کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ اپنے آپ کو کیسے خسارے سے بچائے؟ نفع بخش تجارت کہاں ہے؟ قرآن کریم نے ثمر آور اور نفع بخش تجارت کی علامات ذکر کیں ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہو سکتا، یہ اللہ کے ساتھ تجارت ہے، اللہ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (10) تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اے ایمان والو!کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟[10] تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرو۔ اگر تم جان لو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے [الصف: 10، 11]، اور اسی طرح فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے، نماز قائم کرتے، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہوگا۔ [فاطر: 29]
جن لوگوں نے اس تجارت کی پرواہ نہ کی انکے دل حسرت زدہ ہونگے، ناقابلِ تلافی سستی کی بنا پر ان کے دل دہلنے لگے گے، انہی کے بارے میں فرمایا: حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے حتیٰ کہ جب قیامت اچانک انہیں آ لے گی تو کہیں گے:''افسوس اس معاملہ میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ[٣٥] اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے [الأنعام: 31]
یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل پر ایسے رحمت نازل فرما جیسے توں نے ابراہیم پر نازل کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل میں ایسے برکت فرما جیسے توں نے ابراہیم میں کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ! خلفائے اربعہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام آل وصحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنے کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،یا اللہ ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ یا قوی، یا عزیز، یا جبار، اے انتقام لینے والے! ہم تجھ سے تیرے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں، تیرے اسمِ اعظم کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں جس کے ذریعے مانگنے سے توں دعا قبول کرتا ہے، یا اللہ تو ں ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکی حفاظت فرما، یا اللہ! انکی ہمہ قسم کی مدد فرما۔
یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کے پاس کپڑے نہیں؛ انہیں عطا فرما، کھانے کو نہیں ؛ انہیں کھلا، یا اللہ! پاؤن سے ننگے ہیں انہیں پہنا، مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا قویِ، یا جبار، تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! شامی ظالم اور اسکے چیلوں پر قہر نازل فرما، یا اللہ! ان میں پھوٹ ڈال دے، یا اللہ! بربادی انکا مقدر بنا، یا اللہ ! اپنی قدرت کے نظارے دیکھا، یا اللہ! جلد از جلد اپنی قدرت کے نظارے دیکھا، یا اللہ! انکے قدموں تلے زمین سرکا دے، یا اللہ! ان پر سخت عذاب نازل فرما۔
اے اللہ ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکرو کو شکست خوردہ کرنے والے، ان کے وشمن کو شکستِ فاش دے، اور انہیں غالب فرما، یا اللہ ملک شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ ہماری دینی اصلاح فرما تبھی ہم برائیوں سے دور رہ سکتے ہیں، اور ہماری دنیا بھی اچھی بنادے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے کہ وہیں ہم نے لوٹ کر جانا ہے، ہماری زندگیوں کو نیکیوں میں زیادتی کا باعث بنادے، اور موت کو ہر شر سے بچاؤ کا ذریعہ بنادے ۔
یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ ہمیں غلبہ عنائت فرما، ہم پر کسی کو غالب نہ کرنا، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما، یا اللہ ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریوں کو ختم کردے۔
یا اللہ! غمگین مسلمانوں کی غم کشائی فرما، تکلیف زدہ لوگوں کی تکالیف ختم فرما، مقروض لوگوں کے قرض ادا فرما، اور تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلم فوت شدگان کی مغفرت فرما، اور تمام قیدیوں کو رہائی نصیب فرما۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے،
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23] رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201].
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
پہلا خطبہ:
حمد و صلاۃ کے بعد!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو[آل عمران: 102]
زندگی نفع اور نقصان میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسی لئے انسان اپنے آپ کو نقصان سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اور زندگی کے تمام معاملات میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے، کامیاب ہو تو خوش ہوتا ہے اور نقصان ہونے پر غمذدہ بھی ہوجاتا ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ نقصان کڑوا نوالہ ہے، جسکے نتائج تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بعض لوگ تو اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اپنے گریبان اور سینہ کوبی کرتے ہوئے جاہلوں کی سی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ حقیقی خسارہ دنیا کا نہیں ، مال و منصب کا نہیں ، نوکری یا تجارت کا نہیں، حقیقی خسارہ ہمیشہ کی زندگی کا ہے ، دنیا کی زندگی نفع و نقصان کیلئے معیار نہیں ہے کیونکہ دنیا میں کتنے ہی کامیاب لوگ ہیں جو قیامت کے دن خسارے میں ہونگے، فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ اصل میں تو خسارہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارہ میں ڈال دیا۔ دیکھو! یہی بات صریح خسارہ ہے [الزمر: 15]
عقلمندوں کے ہاں فائدہ اور نقصان ایمان کے ساتھ آخرت میں کامیاب ہونے کا نام ہے، جبکہ انسان دنیا میں ہمیشہ خسارہ ہی میں رہتا ہے، چاہے کچھ بھی جمع کرلے، فرمایا: وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ زمانے کی قسم [1] بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے [العصر: 1، 2] پھر اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ لوگوں کو مستثنی قرار دیا اور فرمایا: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے [العصر: 3]جو لوگ ایمان لائے اور دلیل ِایمان کے لئے عمل پیش کرتے ہوئے صبر کیا اور حق راستے پر جمے رہے وہ ہی کامیاب ہیں۔
دینداری میں کمی سب سے بڑا خسارہ ہے، دنیا کا ہر ایک خسارہ دین کے مقابلے میں ہیچ ہے، کیونکہ دینی خسارہ انسان کو آخرت میں تباہی کی جانب دھکیل دیتا ہے۔
دینی خسارہ یا تو شبہ کی بنا پر یا پھر شہوت نفسی کی بنا پر ہوتا ہے،جن کی وجہ سے ارکانِ دین کو انسان ضائع کر بیٹھتا ہے، یا احکام ہی تبدیل کر دیتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا کیا کرتے تھے، (ولا تجعل مصيبتنا في ديننا) اے اللہ ! ہمیں دینی خسارے سے دو چار مت کرنا۔
جس نے اعمال ضائع کردئے، اور نیکیاں کمانے میں سستی کا شکار رہا قیامت کے دن اسکی نیکیوں کا تراوزو ہلکا ہو جائے گا، اعمال کم ہو جائیں گے، برائیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ جن کے پلڑے بھاری نکلے وہی فلاح پائیں گے[7]اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا۔ کیونکہ وہ ہماری آیتوں سے ناانصافی کیا کرتے تھے [الأعراف: 8، 9]
آدم و حواء علیہما السلام کو زمین پر اتارا گیا تو دونوں نے عرض کی: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ '' ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے'' [الأعراف: 23]
خسارہ پانے والوں کی علامات میں : وعدہ خلافی، عہد و پیمان شکنی ، فساد پھیلانا، شہوات عام اور نشر کرناہے، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ اے ایمان والو! اگر تم کافروں کا کہا مانو گے تو وہ تو تمہیں الٹے پاؤں (یعنی اسلام سے) پھیر دیں گے اور تم خسارہ پانے والے بن کر پلٹو گے [آل عمران: 149]
ایسے ہی خسارہ زدہ لوگوں کی عبادات اپنے دنیاوی نفع کے اردگرد گھومتی ہے، انہی کے بارے میں فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسے کچھ فائدہ ہو تو (اسلام سے) مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پڑ جائے تو الٹا پھر جاتا ہے۔ ایسے شخص نے دنیا کا بھی نقصان اٹھایا اور آخرت کا بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ [الحج: 11]
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوش حالی ہو تو اللہ کی عبادت کرتے ہیں، دنیا ہو تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اگر دنیا نہ ملے تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں، نعمتیں ہوں تو عبادت ہے ، تنگی آئے تو ہر چیز سے عاری ہو جاتا ہے، یہ شخص دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ناکام ہوگا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے ہاں مدینہ میں آکر لڑکا پیدا ہوا ، یا گھوڑی بچہ جن دے تو کہہ اٹھتے یہ سچا دین ہے، اور اگر اولاد نہ ہو یا جانوروں میں اضافہ نہ ہوتو کہہ دیتے کہ یہ دین اچھا نہیں ہے" بخاری
خسارے کی ایک علامت قرآن نے بھی بیان کی فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں [المنافقون: 9]
جسکے مال، اولاد، کی وجہ سے عبادت و اطاعت ضائع ہو گئی ، اور اس دھوکے میں رہا کہ یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے، وہ وہم میں ہے ، اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ عیش و عشرت کا راستہ درست راستہ ہے، بیچارے کو یہ علم نہیں کہ جس ڈگر پر وہ چل پڑا ہے یہ ہی خسارے کا راستہ ہے۔
ظلم و زیادتی کرتے ہوئے اپنے بھائی کو قتل کرنے والا بھی خسارے میں ہے، چاہے پر آسائش زندگی گزارے، فرمایا: فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ بالآخر دوسرے کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر ہی لیا چنانچہ اسے مار ڈالا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا [المائدة: 30]
جس نے شیطان کو اپنا دوست بنا کر اپنے شب و روز ، قول و عمل ، مال و دولت سب اسی کے کنٹرول میں دے دئیے وہ بھی خسارے میں ہے: وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو آپ نا سرپرست بنا لیا اس نے صریح نقصان اٹھایا [النساء: 119]
انبیائے کرام اور صالحین نگاہِ بصیرت سے دیکھتے ہوئے لوگوں کو خسارے کی جگہوں سے خبر دار کرتے رہتے ہیں، خاص طور ایسے گناہ جن سے خسارہ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہو، جسےے کہ اللہ تعالی نے ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ اے میری قوم ! بھلا دیکھو ! اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت (نبوت) سے بھی نوازا ہو، پھر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا؟ تم تو میرے نقصان ہی میں اضافہ کر رہے ہو [هود: 63]
خسارے کی ایک ہولناک شکل یہ ہےکہ مسلمان نیکیاں کر کر کے تھکا ہوا ہو لیکن وقت آنے پر نیکیوں کی جمع پونجی ختم ہوجائے، حسرت اس وقت مزید شدت اختیار کر جائے گی جب نیکیاں ختم ہوجائے اور ابھی قرض خواہ باقی ہوں، پھر دوسروں کی برائیاں اٹھا کر اسکے سر کی جائیں گی ، اس وقت یہ انسان انتہائی غمگین ہوگا جب اس خسارے سے بچنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا۔
اسی شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مفلس جانتے ہو کون ہے؟) صحابہ کرام نے کہا: "ہم مفلس اسے کہتے ہیں جسکے پاس روپیہ پیسہ ، مال و دولت نہ ہو" فرمایا: (میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں ، روزے، زکاۃ لے کر آئے گا، لیکن ساتھ میں اس نے کسی کو گالیاں دی ہونگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا، اب اسکی نیکیاں دوسروں میں تقسیم کی جائیں گی، جب ادائیگیوں سے پہلے ہی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو دوسروں کے گناہ اٹھا کر اسکے سر کئے جائےگے، اور آخر کار اسے جہنم میں پھینک دیا جائےگا) مسلم
ایسے ہی وہ بھی خسارہ میں ہے جس نے اللہ سے ملاقات کو بھلا کر اپنی دنیاوی زندگی ہی تک سوچ کو محدود کر کے رکھا، قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے [الأنعام: 31]
آنکھوں کو اشک بار ، دلوں کو دہلا دینے والا خسارہ سنگ دلی اور ضمیر کے مردہ ہونے کی شکل میں سامنے آتا ہے، کہ نہ قرآن دل پر اثر کرے، اور نہ ہی اچھی بات قبول کرے، انہی کے بارے میں فرمایا: لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا ان کے دل تو ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں [الأعراف: 179]
قرآن کی تلاوت نہ کرنابھی خسارہ ہے فرمایا: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا اور سول اللہ کہیں گے'':پروردگار! میری قوم کے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا رکھا تھا۔ [الفرقان: 30]
نمازوں کو ضائع کرنا، یا تاخیر سے ادا کرنا بھی خسارہ ہے فرمانِ رسالت ہے: (جسکی نماز فوت ہوگئی گویا کہ اس کا خاندان اور مال و دولت سب برباد ہوگئے)
فجر کی نماز کے وقت سوئے رہنا اور سورج نکلنے پر ادا کرنا بہت بڑا نقصان ہے اسی کے بارے میں فرمایا: (یہ وہ شخص ہے جسکے دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے) یا فرمایا: (ایک کان میں)
وقت ضائع کرنا بھی خسارہ ہے، کیونکہ وقت کا کوئی نعم البدل نہیں اور ویسے بھی گزرا وقت دوبارہ نہیں آتا، عقلمند انسان اپنے وقت کا خیال کرتے ہوئے دیکھتا ہے کہ اس نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
اور کبھی خسارے کے اثرات پوری امت پر ظاہر ہوتے ہیں، فرمایا: وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا بڑا سخت محاسبہ کیا اور انہیں بری طرح سزا دی[8] چنانچہ انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھ لیا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی تھا۔ [الطلاق: 8، 9]
جس قوم نے منہج الہی سے انحراف کیا، اور مخالفت کی اس قوم میں گناہ اور نافرمانیاں بدکے سانڈ کی طرح ابھرتی ہیں، اللہ اور اسکے رسول کی راہنمائی سے اعراض کرنے کے باعث اس قوم میں آزمائشیں، فقر و فاقہ، ظلم و زیادتی، بے چین زندگی ہی اسکا انجام بنتی ہے، یہ اللہ کا طریقہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا گزشتہ لوگوں میں اللہ کا یہی طریقہ جاری رہا ہے اور آپ اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ [الأحزاب: 62]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
حمدوشکر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بعد!
میں اپنے نفس کو اور آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی[الأحزاب: 70، 71]
یہاں پر ہر عقل مند انسان کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ اپنے آپ کو کیسے خسارے سے بچائے؟ نفع بخش تجارت کہاں ہے؟ قرآن کریم نے ثمر آور اور نفع بخش تجارت کی علامات ذکر کیں ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہو سکتا، یہ اللہ کے ساتھ تجارت ہے، اللہ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (10) تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اے ایمان والو!کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟[10] تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرو۔ اگر تم جان لو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے [الصف: 10، 11]، اور اسی طرح فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے، نماز قائم کرتے، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہوگا۔ [فاطر: 29]
جن لوگوں نے اس تجارت کی پرواہ نہ کی انکے دل حسرت زدہ ہونگے، ناقابلِ تلافی سستی کی بنا پر ان کے دل دہلنے لگے گے، انہی کے بارے میں فرمایا: حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے حتیٰ کہ جب قیامت اچانک انہیں آ لے گی تو کہیں گے:''افسوس اس معاملہ میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ[٣٥] اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے [الأنعام: 31]
یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل پر ایسے رحمت نازل فرما جیسے توں نے ابراہیم پر نازل کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل میں ایسے برکت فرما جیسے توں نے ابراہیم میں کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ! خلفائے اربعہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام آل وصحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنے کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،یا اللہ ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ یا قوی، یا عزیز، یا جبار، اے انتقام لینے والے! ہم تجھ سے تیرے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں، تیرے اسمِ اعظم کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں جس کے ذریعے مانگنے سے توں دعا قبول کرتا ہے، یا اللہ تو ں ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکی حفاظت فرما، یا اللہ! انکی ہمہ قسم کی مدد فرما۔
یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کے پاس کپڑے نہیں؛ انہیں عطا فرما، کھانے کو نہیں ؛ انہیں کھلا، یا اللہ! پاؤن سے ننگے ہیں انہیں پہنا، مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا قویِ، یا جبار، تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! شامی ظالم اور اسکے چیلوں پر قہر نازل فرما، یا اللہ! ان میں پھوٹ ڈال دے، یا اللہ! بربادی انکا مقدر بنا، یا اللہ ! اپنی قدرت کے نظارے دیکھا، یا اللہ! جلد از جلد اپنی قدرت کے نظارے دیکھا، یا اللہ! انکے قدموں تلے زمین سرکا دے، یا اللہ! ان پر سخت عذاب نازل فرما۔
اے اللہ ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکرو کو شکست خوردہ کرنے والے، ان کے وشمن کو شکستِ فاش دے، اور انہیں غالب فرما، یا اللہ ملک شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ ہماری دینی اصلاح فرما تبھی ہم برائیوں سے دور رہ سکتے ہیں، اور ہماری دنیا بھی اچھی بنادے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے کہ وہیں ہم نے لوٹ کر جانا ہے، ہماری زندگیوں کو نیکیوں میں زیادتی کا باعث بنادے، اور موت کو ہر شر سے بچاؤ کا ذریعہ بنادے ۔
یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ ہمیں غلبہ عنائت فرما، ہم پر کسی کو غالب نہ کرنا، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما، یا اللہ ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریوں کو ختم کردے۔
یا اللہ! غمگین مسلمانوں کی غم کشائی فرما، تکلیف زدہ لوگوں کی تکالیف ختم فرما، مقروض لوگوں کے قرض ادا فرما، اور تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلم فوت شدگان کی مغفرت فرما، اور تمام قیدیوں کو رہائی نصیب فرما۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے،
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23] رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201].
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔