محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبيتی حفظہ اللہ نے 14 ربیع الثانی 1435کا خطبہ جمعہ "حکمت۔۔ مفہوم ،فضائل، اسلوب"کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے حکمت کا مفہوم اور فضائل قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کئے، اسی طرح انہوں نے موجود وقت میں اجتماعی اور انفرادی طور پر حکمت سے لیس ہونےپر زور دیا۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں،جس نے اپنے بندوں پر علم وحکمت انعام کی، اور ہر بھلائی و نعمت پر اسی کا ثناء خواں اور شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، اس نے اپنے بندوں کو بھلائی کا راستہ بتلایا، اور عذاب کا حقدار بننے سے خبردار کیا، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی نے انکی ہر آزمائش کو نوازش میں بدل دیا،اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل پر، اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے جو کہ صاحبِ فضل و دانش تھے۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔ [آل عمران: 102]
فرمانِ باری تعالی: يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وہ جسے چاہتا ہے حکمت عنائت کرتا ہے، اور جسے حکمت مل جائے! یقینا اسے بہت سی بھلائی عطاد کردی گئی[البقرة: 269]
"حکمت" علم نافع، فہمِ دین ، صوابدید ، درست ذہنی سمت کا نام ہے، "حکمت "اچھی سوچ، عمدہ رائے، ذہنِ ثاقب، اور بار آور فیصلے کو ہی کہتے ہیں۔
"حکمت " سے آراستہ ہوکر حکمت کے مفہوم کا مجسمہ بن کر پیش ہونا بہت بلند ہدف ہے جسکو پانے کا ہر دانشور خواب دیکھتا ہے، صاحبِ حکمت شخص تمام معاملات کو انکا حقیقی مقام دیتا ہے، مثبت اقدام کی جگہ پر مثبت قدم اٹھاتا ہے، اور جہاں منفی پہلو ہو وہاں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، خرابی و خلل اور نتائج اپنی دور رس بصیرت کے باعث وقت سے پہلے ہی معلوم کر لیتا ہے۔
حکیم (صاحبِ حکمت) لوگوں کی علامات میں ، اعتدال پسند سوچ، روشن آگہی، محکم جذبات، متوازن جوش شامل ہیں، حکیم شخص اپنے آپ کو خوب پہچانتا ہے، وہ اپنے آپ کو وقعت سے نہیں بڑھاتا؛ کیونکہ یہی تکبر اور غرور ہے، اور نہ ہی حقیقت سے نیچے گراتا ہے؛ کیونکہ یہی حقارت و تذلیل ہے۔
حکیم و دانا شخص لوگوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں انکا مرتبہ دیتا ہے، اگر کوئی غلطی ہو بھی جائے تو خود ہی انکے لئے عذر تلاش کرلیتا ہے، اور انکے بارے میں شفقت سے کام لیتے ہوئے حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
جو شخص اللہ کیلئے خالص ہوجائے حکمت اس کے اقوال و افعال سے چھلکنے لگتی ہے، اللہ تعالی اسکی زبان کو صحیح سمت میں گامزن کردیتا ہے، اور دنیا وی بیماریوں کے بارے میں بصیرت نوازتے ہوئے انکا علاج بھی عطا کردیتا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی حکیم فتنوں میں پھنس جائے تو انکے یقین کی وجہ سے پکے سچے لوگوں کی اللہ تعالی راہنمائی فرماتا ہے، جسکی وجہ انکے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں حق انکی زبانوں پر جاری ہونے لگتا ہے۔
بسا اوقات شخصی مفاد، اور دنیاوی لالچ کی وجہ سے حکمت کا مفہوم اور عملی طور طریقے میں غلط فہمی بھی آجاتی ہے، جسکی وجہ سے "حکمت "کے نام پر اصول و ضوابط پر سمجھوتہ بازی شروع ہوجاتی ہے۔ ہماری امت کو آج حکمت کی اشد ضرورت ہے، ورنہ امت اسلامیہ کی ہوا اکھڑ جائےگی اور شان وشوکت جاتی رہے گی۔
کسی بھی صورت میں حکمت و دانائی کتاب و سنت کی روشنی اور اسلامی اقدار سے باہر نہیں جاسکتی، ہمارے رب کی صفت حکیم ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ حکمت سے بھر دیا گیا تھا، حکمت سیکھانا آپکی ذمہ داری تھی، بلکہ آپکے سارے کام حکمت کی اعلی مثال ہیں۔
چنانچہ ایک آدمی نے ٹھونگیں مار کر نماز ادا کی تو اسے دوبارہ ادا کرنے کا حکم دیا، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ نماز کے دوران آپکی پشت مبارک پر چڑھ گئے انہیں کچھ نہیں کہا، صلح حدیبیہ کیلئے معاہدہ کرلیا، لیکن جس نے مسلمانوں کی مذمت کی اسکا خون رائیگاں قرار دے دیا، اور یہ بھی فرمایا: (اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اسکا ہاتھ کاٹ دیتا)
چنانچہ اصل میں حکمت یہ ہے کہ نرمی کی جگہ نرمی، اور سختی کی جگہ سختی کا استعمال کیا جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے بھی حکمت سے کام لیتے، اور انکے حالات کا خیال کرتے، چنانچہ استفسار کرنے پر سائل کی حالت و کیفیت کے مطابق ہی جواب دیتے، جیسے ایک دیہاتی شخص نے آپ سے آکر فرائض کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے بتلا دئیے، تو پھر اس نے کہا: کیا مجھ پر اسکے علاوہ بھی فرائض ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں، اسکے علاوہ سب نفل ہیں)
منافقین کے بارے میں اپنے زندگی کے آخر تک صبرکیا ، لیکن ساتھ ساتھ انکی علامات بتا کرے انکے بارے میں خبردار کرتے رہے، صرف اس لئے کہ اتحاد بھی باقی رہے، اور باطل بھی واضح ہوجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زنا کی اجازت طلب کرنے والے نوجوان کے ساتھ مکالمہ حکمت سے بھر پور ہے، آپ نے اسے ڈانٹا اور نہ شرزنش کی، بلکہ اچھے انداز میں اس سے مباحثہ کیا، اسکی عقل، ضمیر اور جذبات کو مخاطب کیا، حتی کہ جب وہ الٹے قدمو ں واپس ہوا تو یکسر بدل چکا تھا۔
دعوت کے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کھل کر سامنے آتی ہے، کہ آپ نے اصلاح اور تبلیغ سے ابتداء کی، مسجد بنائی، بھائی چارہ کروایا، تکالیف پر صبر کیا، اللہ کی دعوت دیتے ہوئے آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
کفر کے سرغنہ اور قریشی سربراہان کے ساتھ بات چیت اور گفتگو میں بھی آپکا اسلوب حکمت سے بھر پور ہوتا تھا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حکمت و دانائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اتنی جوبن پر ہوتی ہے، کہ کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا انکار تک کردیا، لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سمجھایا اور حق بات واضح کی۔
اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کا دور شروع ہوا تو سب لوگوں کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کیلئے قائل کردیا، اور سب مسلمان آپ پر متفق ہوگئے۔
اس سے پہلے بھی حکمت عملی کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو قوت اور جلا بخشی ، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کے اعلانِ اسلام کے بعد ہی مسجد الحرام میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔
لقمان حکیم نے بھی اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے حکمت بھرا انداز اپنایا، اور نرم الفاظ، پیار وگفتار سے بات کی، جسے اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا:
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (16) يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ بیٹا! اگرکوئی رائی کے دانے کے برابر چیز کسی چٹان کے اندر ہو، آسمان و زمین[الغرض کہیں بھی ہو] اللہ تعالی اسے نکال لائے گا، بیشک اللہ تعالی بہت باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے، [16] بیٹا! نمازیں قائم کرو، نیکی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور [اس کارِ خیر میں] ملنے والی تکالیف پر صبر کرو، یقینی بات ہے کہ یہ پختہ عزائم میں سے ہے۔ [لقمان: 16، 17] یہ ایسی نصیحت ہے جس میں بنیادی علم، تفصیلی نصیحت، عقیدہ، امر و نہی سب کچھ سادے پیرائے میں بغیر کسی تکلف کے موجود ہے۔
امام احمد بھی خلق قرآن کے مسئلہ میں کلمہ حق پر حکمت و دانائی کی وجہ ڈٹے رہے، اور ماریں کھا لیں، آپ کہا کرتے تھے: "اگر عالم بھی بچنے کیلئے [خلق قرآن کا ]قائل ہوجائے، اور جاہل تو ہے ہی جاہل؛ پھر حق کب عیاں ہوگا؟!"
حکمت کا تقاضا ہے کہ ترجیحات کو بھی ترتیب دی جائے، پہلے سب سے اہم پھر اسکے بعد اس سے کم کو ترجیح دی جائے، چنانچہ پہلے عقیدہ، پھر عبادات، اور آخر میں اخلاقیات، فرائض کو نوافل پر مقدم کیا جائے، ٹکراؤ کے وقت ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کردیا جائے، ایسے ہی ازالہ فساد کو حصول مفاد پر مقدم کیا جائے گا، اسی طرح ترجیحات کو نافذ العمل کرنے کیلئے بتدریج چلنا بھی حکمت اور عقلمندی کا حصہ ہے؛ اسی لئے قرآن مجید کا نزول قسط وار ہوا۔
حکمت کا تقاضا ہے کہ قوت اور کمزوری کے حالات میں فرق کیا جائے، امن اور جنگی حالات میں امتیاز رکھیں، یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنے کیلئے نہیں گرایا، کیونکہ لوگوں کی اکثریت ابھی نو مسلم تھی۔
حق کا اعتراف کرنے والے کیلئے اچھے انداز سے نصیحت ، جبکہ متلاشیانِ حق کیساتھ اچھے انداز سے علمی مباحثہ حکمت کا درجہ رکھتا ہے، بسا اوقات حکمت سخت لہجے ، تادیبی کاروائی ، اور حکمران کی جانب سے جابر اور ظالموں پر اقامتِ حدود کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
کسی بھی چیز کے متعلق رائے قائم کرتے ہوئے افراط و تفریط کے درمیان میانہ روی اختیار کرنا عین حکمت ہے۔
جس وقت جذبات کا غلبہ ہو، فرطِ جوش پایا جائے تو حکمت کھسکنے لگتی ہے اور افراط وتفریط اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔
انسان حکمت کی پٹری سے اسوقت اتر جاتا ہے جب خواہشات اور جہالت چھانے لگے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ خواہشات کے پیچھے مت لگ جانا، کہیں تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا نہ دیں۔ [ص: 26]
یا اہل علم و حکمت اور صوابدید رکھنے والے افراد سےالگ تھلگ رہنے لگے تو بھی حکمت کا دامن چھوٹنے لگتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بھیٹریا ریوڑ سے الگ چرنے والی بکری کو ہی ہاتھ ڈالتا ہے)
بالکل اسی طرح انسان حالات کے بارے میں جلد بازی، غصیلی حالت میں فیصلے کرنے پر یا متعدد حادثات کی وجہ سے حالات کا صحیح تصور نہیں کرپاتا، یا پھر دشمنوں کی چال بازیوں کو در خور اعتناء نہیں جانتا، اور حکمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
دانش مندافراد کے ہاں متفقہ طور پر حکمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اتحادِ امت کیلئے کام کیا جائے، ان تمام راستوں کو بند کردیا جائے جن کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو یا امت کا شیرازہ بکھرتا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اور آپس میں تنازعات مت کھڑے کرو، ورنہ ناکام ہوجاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، [اختلافات کو تنازعات کا باعث نہ بناؤ بلکہ]ان پر صبر کرو، یقینا اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[الأنفال: 46]
اڑتی پھڑتی خبروں کے بارے میں تحقیق و تاکید کرنا حکمت ہی کا حصہ ہے، اس بارے میں منہج ربانی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ اے ایمان والو!اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لیکر آئے تو اسکی تحقیق کر لو، کہیں[اسکی غلط خبر کی بنا پر ]تم کسی قوم کے خلاف جہالت کی وجہ سے [قدم اٹھا لو]اور بعد میں تمہیں اپنی کارستانی پر پشیمانی اٹھانی پڑے۔ [الحجرات: 6]
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ کہیں آپکو سبکی میں نہ ڈال دیں[الروم: 60]کیونکہ ہر آئی گئی بات کے پیچھے لگ جانا حکمت کے منافی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے تحقیق و تاکید کا حکم دینے کے بعد فرمایا: وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ یہ جان لو کہ رسول اللہ تمہارے درمیان ہوتے ہوئے اگر اکثر معاملات میں تمہارے پیچھے چلنے لگیں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے۔[الحجرات: 7] یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افواہوں کی تاکید کئے بغیر انکے ارادوں کی تعمیل کیلئے تیار ہوجائیں ، تو ان ہی لوگوں کو مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سنجیدگی سے کام کرنا، اور اپنی اللہ داد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا بھی حکمت ہے؛ اسی لئے احادیث میں فرمایا: (دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہے)، (طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر بھی ہے اور اللہ کے ہاں زیادہ محبوب بھی)
میڈیا نفاذِ حکمت کیلئے عملی میدان ہے، اسکے لئے میڈیا کو چاہئے کہ اسلامی منہج پر قائم رہے، تعمیری گفتگو کی جائے، عالیشان اہداف ہوں، اچھے پروگرام پیش کئے جائیں، اور صاف ستھری فکر پیش کریں ۔
حکمت کے تحت جدید آلات کو صحیح معنوں میں استعمال کرنے کیلئے ، محدود وقت میں اچھی ویب سائٹس پر اچھے پروگرامز سے استفادہ کیا جائےتا کہ ہم انکے خطرات سے بچاؤ کیلئے اپنی اولاد اور دین کے اردگرد حفاظتی حصار قائم کرسکیں۔
حکمت کا تقاضا ہے کہ گھریلو معاملات میں اسلامی احکامات کا خیا ل کیا جائے، ہر قسم کے خاندانی مسئلے کے گرد اسلامی تعلیمات کا گھیراؤ تنگ کردیں، اور گھریلو مسائل کو لوگوں کے سامنے مت لیکر آئیں، اگر کوئی پریشانی پیدا ہو جائے تو مکمل تحمل ، بصیرت اور آگہی کی بنیاد پر اسکا سامنا کریں، تا کہ ہمارے گھرانے ٹھوس بنیادوں پر قائم و دائم رہیں۔
حکمت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ مال کو صحیح جگہ پر خرچ کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا نہ رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی سارے کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے [الإسراء: 29]
مالی طور پر مستحکم ہونے کیلئے مال خرچ کرنا بھی حکمت ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ :(ایک آدمی چٹیل میدان میں سے گزر رہا تھا، کہ بادل میں ایک آواز سنی: "فلاں کے باغ کو پانی لگاؤ"تو وہ بادل ایک طرف ہو لیا، اور ایک پتھریلی زمین پر جا کر برس پڑا، اتنے میں یہ سارا پانی ایک کھالے میں جمع ہو کر ایک سمت میں بہنے لگا، وہ پانی کے پیچھے پیچھے گیا تو ایک آدمی کو دیکھا وہ اپنے باغ میں کھڑا اپنے بیلچے سے پانی لگا رہا تھا، تو اس نے کہا: اللہ کے بندے! آپکا کیا نام ہے؟ تو اس نے کہا: فلاں ، - وہی نام بتلایا جو اس نے بادل سے سنا تھا- پھر وہ پوچھنے لگا: اللہ کے بندے! تمہیں میرے نام سے کیاغرض؟ تو اس نے جواب دیا : جس بادل کی بارش کا پانی تم لگا رہے ہو، اس بادل میں میں نے تمہارا نام سنا تھا کہ فلاں کے باغ کو پانی لگاؤ، تو تم اس میں کیا کرتے ہو؟ تو اس نے کہا: چلو اگر تم یہ بات کرتے ہو تو بتا دیتا ہوں، میں اسکی آمدنی کے تین حصے کرتا ہوں، اور ایک تہائی صدقہ کردیتا ہوں، اور ایک تہائی میں اور میرے گھر والے استعمال کرتے ہیں، اور ایک تہائی دوبارہ اسی میں لگا دیتا ہوں) مسلم
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جسکی نعمتوں سے خوشیاں مکمل ہوتی ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہےساری مخلوقات کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ نے نیکیاں کرنے کی خوب ترغیب دلائی، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی اور رحمت نازل فرمائے۔
حمدو ثناء اور درود و سلام کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71]
حکمت کا ملکہ بڑھانے کیلئے غور و فکر اچھا ذریعہ ہے، جو کہ بہت بڑی عبادت بھی ہے، جبکہ حد سے زیادہ کھانا غور و فکر کیلئے زہرِ قاتل ، اور اعضاء کیلئے سستی کا باعث ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے جسم بھاری، اورعقل ماند پڑ جاتی ہے، اسی طرح نیند کا غلبہ بھی ہوتا ہے، اور عبادت میں سستی آجاتی ہے"
دانشوری، اور روشن سوچ کا تقاضاہے کہ دانا و حکیم ، نیک و متقی ، اہل علم ودانش ، اور ادب وفقہ کی مجالس کو اپنایا جائے، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اپنے رب کے راستے کی طرح حکمت اور اچھے وعظ کے ذریعے دعوت دو، اور اچھے انداز کیساتھ ان سے مجادلہ [مباحثہ]کرو۔ [النحل: 125]
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
یا اللہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمتی و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے توں نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت کے سوالی ہیں، اور تیری ناراضگی و جہنم سے پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور غنی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کردے۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوراہ بنا دے۔
یا اللہ! جو ہمارے خلاف یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط سوچ رکھے اسے اپنی ہی جان کے لالے پڑ جائیں، اور اسکی مکاریوں کو اسی کے خلاف موڑ دے، اے دعاؤں کو وسننے والے!
یا اللہ! تیرے کلمے کی سر بلندی کیلئے لڑنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! انکے دلوں کو مضبوط بنا دے، انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما دے، اور انہیں یکسو کردے، انکے نشانوں کو درست فرما، اور انہیں تیرے اور اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اسکو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب اور تیری شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق دے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے، اگر اب توں ہمارے گناہوں کو نہ بخشےاور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارے میں چلے جائیں گے۔ [الأعراف: 23]
یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، مریضوں کو شفایاب فرما، قیدیوں کو رہا فرما، ہمارے معاملات کی باگ ڈور سنبھال ، اور ہماری غم کشائی فرمادے، یا رب العالمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23] رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10]
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔
لنک