• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکم کے لحاظ سے سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والوں کی اقسام۔۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حکم کے لحاظ سے سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والوں کی اقسام
سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والے حکم میں برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اجتہادی غلطی پرہوتے ہیں ،بعض ایسے ہوتے ہیں جو جاہل اورلاعلم ہونے کے باعث معذور ٹھہرتے ہیں ،بعض ظالم اور بعض منافق وزندیق ہوتے ہیں اوربعض مشرک اورگمراہ۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ احکام ہیں:

1۔مجتہدمخطی:
ارشاد ربانی ہے :

﴿ وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ۝۰ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِہِمْ شٰہِدِيْنَ۝۷۸ۤۙ فَفَہَّمْنٰہَا سُلَيْمٰنَ۝۰ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ (الانبیاء :۷۸،۷۹)
''اور یاد کیجئے جب دائود اور سلیمان ایک کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جسے دوسرے لوگوں کی بکریاں چر گئیں تھیں اور جب وہ فیصلہ کر رہے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اس وقت ہم نے سلیمان کو صحیح فیصلہ سمجھا دیاجب کہ ہم نے قوت فیصلہ اور علم سب کو عطا کیا تھا۔''

جب ایک کھیتی کا مالک دائود؈ اور سلیمان ؈ کے پاس فیصلہ کرانے آیا جس کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں داخل ہو گئیں اور اس کی فصل کو اجاڑ دیا۔دائود؈ نے فیصلہ کیاکہ تمام بکریاں کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کے مالک نے کوتاہی سے کام لیاسلیمان ؈ نے اس جھگڑے میں حق کے مطابق فیصلہ سنایا کہ بکریوں کے مالک اپنی بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کر دیں وہ ان کے دودھ اوراون سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کے مالک کھیت میں اس وقت تک کام کریں جب تک کھیتی اپنی پہلی حالت میں نہ آجائے۔جب کھیتی اپنی پہلی حالت میں آجائے تو دونوں ایک دوسرے کا مال لوٹا کر اپنا اپنا مال لے لیں ۔ (حاکم۲۔۵۸۸بحوالہ تفسیرابن کثیر)

یہ فیصلہ سلیمان ؈ کے کمال فہم پر دلالت کرتا ہے۔اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حاکم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو کبھی اس کا فیصلہ حق کے مطابق ہوتا ہے اور کبھی اس سے خطا ہو جاتی ہے۔اگر کوشش کے باوجود فیصلے میں خطا ہو جائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں۔

امام ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
''اللہ تعالیٰ نے دونوں انبیاء کی تعریف وثنا بیان کی ہے کہ دونوں کو علم وحکمت سے نوازا گیا تھا مگر اس مسئلہ میں درست فہم سلیمان ؈ کا تھا۔اسی طرح علماء میں سے کسی کو درست فہم حاصل نہ ہونا اُس عالم کی مذمت کو لازم نہیں کرتا ۔''(مجموع الفتاویٰ:ج:۳۳،ص:۲۹)

صحابہ کرام؇ نے بھی بعض اوقات اپنے کئی اجتہادات میں غلطی کھائی جیسے ایک صحابی نے امیر کی اطاعت کے وجوب سے استدلال کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو آگ میں کودنے کا حکم دے سکتا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں

رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن حذافہ انصاری؄ کی سپہ سالاری میں ایک لشکر بھیجا اوراہل لشکر کو حکم دیا کہ اپنے سپہ سالارکی اطاعت کریں ۔راستہ میں سپہ سالار کو کسی بات پرغصہ آگیا ۔اس نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا ۔پھرآگ جلائی ۔ سپہ سالار نے کہا اس آگ میں داخل ہوجائو۔بعض لوگوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کیا اوربعض نے انکارکیا اوردوسروں کو بھی تعمیل کرنے سے روکتے رہے اورکہا کہ ہم آگ ہی سے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ۔اس بحث میں آگ ٹھنڈی ہوگئی۔اورسپہ سالارکا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا ۔جب یہ خبررسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایااگرتم آگ میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے اورفرمایااطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے ۔(بخاری ،۴۳۴۰۔مسلم،ح۔ ۱۸۴۰)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
((اعتقاد الفرقۃ الناجیۃ ھیی الفرقۃ التیی وصفھا النبیی ﷺ بالنجاۃ حیث قال: ((تفترق أمتی علی ثلاث وسبعین فرقۃ، اثنتان وسبعون في النار وواحدۃ في الجنۃ، وھي ما کان علی مثل ما أنا علیہ الیوم وأصحابي)) فھذا الاعتقادھوالمأثور عن النبی ﷺ وأصحابہ رضی اللہ عنھم، وھم ومن اتبعھم الفرقۃ الناجیۃ......ولیس کل من خالف في شيء من ھذا الاعتقاد یجب أن یکون ھالکاًفان المنازع قد یکون مجتھدًامخطئًایغفراللہ خطأہ،وقد لا یکون بلغہ في ذلک من العلم ماتقوم بہ علیہ الحجۃ،وقدیکون لہ من الحسنات ما یمحواللہ بہ سیئاتہ، واذاکانت ألفاظ الوعید المتناولۃ لہ لا یجب أن یدخل فیھاالمتأول، والقانت، وذوالحسنات الماحیۃ،والمغفورلہ وغیر ذٰلک: فھذا أولیٰ))
''فرقہ ناجیہ کے عقائد اسی فرقہ کے عقائد ہیں جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺنے نجات کی پیشینگوئی کی تھی ......یہ عقائد نبی اکرم ﷺاور آپ کے صحابہ کرام ؇ سے ماثور ہیں اوریہ حضرات اور ان کے پیچھے چلنے والے ہی فرقہ ناجیہ ہیں ۔مگر ہر اس شخص کا جو ان عقائدمیںسے کسی بات کی مخالفت کرتا ہے لازمی طور پر ہلاکت میں پڑنا ضروری نہیں، کیونکہ مخالف بسااوقات اجتہاد کی بناپر غلطی کرتا ہے اور ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے یا بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ایسی بات کاعلم نہ ہوا ہوجس سے اس پر حجت قائم ہوسکے ،یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کی برائیوں کو مٹانے کے قابل ہوجائیں ۔جب ایسی صورت ہے کہ کسی وعید کے الفاظ کی زد میں آنے کے باوجود ایک تاویل کرنے والا،خوف اور خشوع رکھنے والا شخص جس کے گناہ اس کی نیکیوں سے مٹ سکتے ہوں جو قابل مغفرت ہو،اس کاوعید میں لازمی اور قطعی طور پر داخل ہونا ضروری نہیں ہے تو ایسا شخص تو ان سے اولی ہے ۔''(مجموع الفتاویٰ :ج۳ ص۱۷۹)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
2۔جاہل قابل عذر
ارشاد ربانی ہے :
﴿ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ ﴾(بنی اسراۗء یل :۱۵)
'' اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیجیں۔''

ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ کو سجدہ کیا جبکہ ان کو معلوم نہ تھا کہ غیر اللہ کوسجدہ تعظیمی بھی حرام ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:

سیدنامعاذ؄ شام سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو معاذ نے نبی اکرم ﷺ کو سجدہ کیا آپ نے پوچھا اے معاذ یہ کیا ہے ؟معاذ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں شام سے آیا اور میں نے وہاں لوگوں کو دیکھا جو اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے تھے ۔میرا دل چاہا کہ میں بھی آپ کو سجدہ کروں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ایسا نہ کرو اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔(ابن ماجۃ: ۱۸۵۳)

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
((فمن کان قد آمن باللہ ورسولہ، ولم یعلم بعض ماجاء بہ الرسول، فلم یؤمن بہ تفصیلا:اماأنہ لم یسمعہ، أو سمعہ من طریق لا یجب التصدیق بھا، أواعتقد معنیٰ اَخر لنوع من التأویل الذي یعذر بہ۔ فھذا قد جعل فیہ من الایمان باللہ وبرسولہ، ما یوجب أن یثیبہ اللہ علیہ۔ وما لم یؤمن بہ فلم تقم علیہ الحجۃ التي یکفر مخالفھا))
''چنانچہ وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ایمان لاچکا ہے مگر بعض ایسے امورکا اسے علم نہیں ہوا جنہیں اللہ کے رسولﷺ لے کے آئے ہیں۔ اس بناپر وہ ان امور کے ساتھ ایمان مفصل نہ لاسکا ،یا تو اس نے ان کے بارے میں سن ہی نہیں رکھا اگر سنا ہے تو ناقابل اعتماد ذریعہ سے ،یا پھر وہ کسی ایسی تاویل وغیرہ کی بناء پر جو قابل عذر ہے کسی اور مطلب ومعنی کا اعتقاد رکھتا ہے ،تو ایسا شخص اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان والا ہے جس پر اللہ کی طرف سے ثواب کا مستحق ہے اور جن باتوں کے ساتھ وہ ایمان نہیں لاسکا تو اس سلسلے میں اس پر وہ حجت قائم نہیں ہوئی جس کا مخالف کافر قرار پاتا ہے۔(مجموع الفتاویٰ،ج ۱۲:ص:۴۹۴)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
''ظلم ''اور ''عدوان'' کے مرتکب
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

((ومن أھل البدع من یکون فیہ ایمان باطنًا وظاھرًا،لکن فیہ جھل وظلم حتٰی أخطأ ما أخطأ من السنۃ ،فھذا لیس بکافر ولامنافق ، ثم قد یکون منہ عدوان وظلم یکون بہ فاسقًا أوعاصیًا،وقد یکون مخطئًا متأولاً مغفورًا لہ خطؤہ، وقد یکون مع ذلک معہ من الایمان والتقویٰ ما یکون معہ من ولایۃ اللہ بقدر ایمانہ وتقواہ))
''بدعات کے حاملین میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میںباطناً اور ظاہراً ایمان ہوتا ہے مگر جہل اور ظلم کی بناپر مذہب سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ایسا شخص نہ تو کافر ہے اور نہ ہی منافق ، اس کا ظلم وعدوان ،ہوسکتا ہے اس درجے کا ہو کہ اس کی بناپر زیادہ سے زیادہ فاسق یا عاصی (نافرمان)ٹھہرتا ہو،اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایمان اور تقوی اس حد تک ہو کہ اپنے ایمان اور تقوی کے بقدر اللہ کے ساتھ اس کی دوستی ووفاداری اور وابستگی کا رشتہ ہنوز قائم ہو''(مجموع الفتاویٰ،ج۳ص۳۵۴)

حجاج بن یوسف ایک ظالم حکمران تھا ۔حجاج بن یوسف نے صحابی رسول عبداللہ بن زبیر؄ کو شہید کیا اور ان کی لاش کو مدینہ کی ایک گھاٹی کے ایک درخت سے لٹکا دیا ۔قریشی اور دوسرے لوگ اس کو دیکھتے ہوئے گزرتے تھے ۔جب سیدنا عبداللہ بن عمر ؄ اس کے پاس سے گزرے تو کھڑے ہو کر فرمایا:

السلام علیک ابا خبیب،السلام علیک ابا خبیب،السلام علیک ابا خبیب۔اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے پہلے بھی روکتا تھا ۔اللہ کی قسم میں نے آپ کی طرح روزہ دار رات کو بندگی کرنے والا اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا... سیدنا ابن عمر؄ کے جانے کے بعد جب حجاج کو اس کلام کی اطلاع ملی تو اس نے عبداللہ بن زبیر؄ کی نعش اس گھاٹی سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھینکوا دی۔پھر عبداللہ کی والدہ ابو بکر ؄ کی لخت جگر ام المومنین عائشہ صدیقہ کی بہن سیدہ اسما ء ؅کی طرف آدمی بھیج کر ان کو بلوایا۔انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ اگر تم نہیں آئو گی تو میں تیری طرف ایسے آدمی کو بھیجوں گا ' جو تجھے بالوں سے کھینچتا ہوا میرے پاس لائے گا۔سیدہ اسماء ؅نے کہا اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہیں آئوں گی' چاہے تو میری طرف ایسے آدمی کو بھیج جو مجھے بالوں سے کھینچتا ہوا لائے ، حجاج جوتیاں پہن کر اکڑتا ہوا سیدہ اسماء؅کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ آپ نے جواب دیا تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اس نے تیری آخرت خراب کر دی اور سن مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو عبداللہ کو دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہتا ہے اللہ کی قسم میں دو کمر بندوں والی ہوں ایک کمر بند سے تو میں نے رسول اللہ اور ابوبکر؄ کا کھانا باندھا تھا اور دوسرا کمر بند وہی تھا کہ جس کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے اور سن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی ۔راوی کہتے ہیں کہ حجاج اٹھ کھڑا ہوا اورسیدہ اسماء؅کو کوئی جواب نہیں دیا۔(مسلم:۲۵۴۵)

لیکن اس ظلم کے باوجود صحابہ کرام؇ نے اسے مسلمان سمجھا اور اس کے پیچھے نمازیں تک ادا کیں۔

سیدنا حذیفہ ؄ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا'' میرے بعد ایسے امراء ہوں گے جو میری ہدایت سے راہنمائی حاصل نہ کریں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے جسموں میں شیطان کے دل ہو ں گے ۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں کیا کروں اگر اس زمانہ کو پائوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا امیر کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ تیری پیٹھ پر مارا جائے یا تیرا مال غصب کر لیا جائے پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔(مسلم:۱۸۴۷)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
5۔منافق
سنت کی مخالفت کرنے والوں میں منافق بھی ہوتے ہیں یہ لوگ ظاہر میں اسلام کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے کفر کو باطن میں چھپاتے ہیں ۔ اس لیے یہ کافروں سے بھی زیادہ بدبخت ہیں۔ منافق یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے :

﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۝۱۴۵ۙ﴾ (النساء:۱۴۵)
''یہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور آپ انکا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔''

یہ منافق دین اسلام سے خارج اور مستقل جہنمی ہیں مگر دنیا میں ان کو مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ ظاہراً اسلام اور خیر کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر اپنے کفر کا انکار کر دیتے ہیں :

﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَہُمْ جُنَّۃً ﴾ (المنافقون:۲)
''انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے''

سیدنازید بن ارقم؄ سے روایت ہے کہ ایک جہاد کے سفر میں میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان (صحابہ) پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ یہ بھاگ جائیں اور جب ہم (مدینہ) لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا ' ذلیل(صحابہ ) کو باہر نکال دے گا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا تو آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم نے ایسا نہیں کہا ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جھوٹا سمجھا اور ان کو سچا جانا۔مجھے اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کسی بات کا اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا ۔ میں اپنے گھر میں بیٹھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون نازل فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا : اے زید! اللہ نے تیری تصدیق کر دی ۔''(بخاری:۴۹۰۱)

سیدنا عمر فاروق؄ نے عرض کیا :یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں تو آپ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔''(بخاری :۴۹۰۵)

مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر ذوالخویصرہ التمیمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔(بخاری:۴۶۶۷)اے محمد انصاف کرو۔ (بخاری:۶۱۶۳) یا رسول اللہﷺ اللہ سے ڈرو۔آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو کیا میں روئے زمین پر اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا نہیں ہوں؟ خالد بن ولید ؄ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اس کی گردن نہ مار دوں آپ نے فرمایا نہیں ممکن ہے وہ نماز پڑھتا ہو۔(یعنی ظاہری اسلام کی وجہ سے قتل کا مستحق نہ ہو)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خالد بن ولید؄ نے عرض کیا کہ بہت سے ایسے نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں ۔(یعنی منافق ہوتے ہیں)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں کے دل کریدنے اور ان کے پیٹ چاک (کر کے دلی حالت معلوم) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔(بخاری :۴۳۵۱۔مسلم :۱۰۶۴)

ہمیں لوگوں کے ظاہر کو دیکھنا ہے اگر وہ ظاہر میں شرک و کفر کا انکار کرتے ہیں اگرچہ ان کو دلوں میں کفر پایا جاتا ہے تو ہم ظاہر کی وجہ سے ان کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کریں گے اور انہیں مسلمانوں والے حقوق دیں گے۔ البتہ آخرت میں یہ لوگ کفار کے ساتھ جہنم میں جمع کر دئیے جائیں گے۔

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
((ھذامع العلم بأن کثیراً من المبتدعۃ منافقون النفاق الأکبر، واولئک کفارفي الدرک الأسفل من النار، فماأکثر ما یوجد في الرافضۃ والجھمیۃ ونحوھم زنادقۃ منافقون،بل أصل ھذہ البدع ھو من المنافقین الزنادقۃ،ممن یکون أصل زندقتہ عن الصابئین والمشرکین، فھؤلاء کفار في الباطن ،ومن علم حالہ فھو کافرفي الظاھرأیضًا))
[ بہت سے اہل بدعت منافقین ہوتے ہیں ،ان کانفاق بھی نفاق اکبر ہوتا ہے ،اور یہ لوگ کفا ر ہیں اور جہنم میں درک اسفل ان کا ٹھکانہ ہے ۔روافض اورجہمیہ وغیرہ ایسے فرقوںمیں زندیق اور منافقین بہت ہی کثرت سے موجود ہیں ۔بلکہ بدعت کا اصل منبع ہیں' جن کی زندیقیت کے ڈانڈے صائبین اورمشرکین سے جاملتے ہیں لہٰذا ایسے لوگ باطن میں کفار ہوتے ہیں اور جب ان کے اس حال کا علم ہوجائے(یعنی وہ اپنے کفر و شرک کا کھلم کھلا اظہار کر دیں ) تو پھر ظاہر میں بھی وہ کافر ہی قرار دیئے جائیں گے ] (مجموع الفتاویٰ،ج۱۲ص ۴۹۷)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خالد بن ولید؄ نے عرض کیا کہ بہت سے ایسے نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں ۔(یعنی منافق ہوتے ہیں)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں کے دل کریدنے اور ان کے پیٹ چاک (کر کے دلی حالت معلوم) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔(بخاری :۴۳۵۱۔مسلم :۱۰۶۴)

ہمیں لوگوں کے ظاہر کو دیکھنا ہے اگر وہ ظاہر میں شرک و کفر کا انکار کرتے ہیں اگرچہ ان کو دلوں میں کفر پایا جاتا ہے تو ہم ظاہر کی وجہ سے ان کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کریں گے اور انہیں مسلمانوں والے حقوق دیں گے۔ البتہ آخرت میں یہ لوگ کفار کے ساتھ جہنم میں جمع کر دئیے جائیں گے۔

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
((ھذامع العلم بأن کثیراً من المبتدعۃ منافقون النفاق الأکبر، واولئک کفارفي الدرک الأسفل من النار، فماأکثر ما یوجد في الرافضۃ والجھمیۃ ونحوھم زنادقۃ منافقون،بل أصل ھذہ البدع ھو من المنافقین الزنادقۃ،ممن یکون أصل زندقتہ عن الصابئین والمشرکین، فھؤلاء کفار في الباطن ،ومن علم حالہ فھو کافرفي الظاھرأیضًا))
[ بہت سے اہل بدعت منافقین ہوتے ہیں ،ان کانفاق بھی نفاق اکبر ہوتا ہے ،اور یہ لوگ کفا ر ہیں اور جہنم میں درک اسفل ان کا ٹھکانہ ہے ۔روافض اورجہمیہ وغیرہ ایسے فرقوںمیں زندیق اور منافقین بہت ہی کثرت سے موجود ہیں ۔بلکہ بدعت کا اصل منبع ہیں' جن کی زندیقیت کے ڈانڈے صائبین اورمشرکین سے جاملتے ہیں لہٰذا ایسے لوگ باطن میں کفار ہوتے ہیں اور جب ان کے اس حال کا علم ہوجائے(یعنی وہ اپنے کفر و شرک کا کھلم کھلا اظہار کر دیں ) تو پھر ظاہر میں بھی وہ کافر ہی قرار دیئے جائیں گے ] (مجموع الفتاویٰ،ج۱۲ص ۴۹۷)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
6۔مشرکین
سیدناثوبان ؄ سے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا کہ ''قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جا ملے اور میری امت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کریں'' ]ترمذی: 2219، برقانی نے صحیح کہا]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

(فمن اعتقد في بشر أنہ الہ، أودعا میتًا، أوطلب منہ الرزق والنصر والھدایۃ، وتوکل علیہ أو سجد لہ، فانہ یستاب، فان تاب والا ضربت عنقہ۔ ومن فضَّل أحداً من(المشایخ)علی النبي ﷺ أواعتقد أن أحد یستغنیی عن طاعۃ رسول اللہ ﷺ: استیب ،فان تاب والا ضربت عنقہ۔ وکذالک من اعتقد أن احدًا من(أولیاء اللہ )یکون مع محمد ﷺ کما کان الخضر مع موسیٰ ؈، فانہ یستتاب، فان تاب والا ضربت عنقہ۔۔ ومحمد ﷺ مبعوث الیٰ جمیع الثقلین: انسھم وجنھم،فمن اعتقد أنہ یسوغ لأحد الخروج عن شریعتہ وطاعتہ فھو کافر یجب قتلہ)
[کسی بشر کے بارے میں جو شخص اللہ ہونے کا اعتقاد رکھے یا کسی مردے سے دعا کرے یا اس سے رزق، نصرت یا ہدایت کا طلب گار ہو،اس پر توکل کرے یا اس کو سجدہ کرے، توایسے شخص سے توبہ کرائی جائے گی اگر کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن تن سے جدا کردی جائیگی ۔ جو شخص مشائخ میں سے کسی کی نبی اکرمﷺ پر افضلیت کا قائل ہو یا یہ اعتقاد رکھے کہ کوئی شخص رسول اکرمﷺ کی اطاعت سے مستغنی وبے نیاز ہے ،اس سے بھی توبہ کرائی جائے گی ورنہ اس کی بھی گردن ماری جائے گی اسی طرح جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ اولیاء میں سے کسی کی حیثیت نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایسی ہے جیسے موسیٰ کے ساتھ خضر، تو ایسے شخص کو بھی توبہ کرانی چاہیے ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے ...محمدﷺجن و انس کے تمام افراد کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اس لئے جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ کوئی بھی شخص آپ کی شریعت اور اطاعت سے خروج کا مجاز ہے توایسے اعتقاد کا حامل کافر ہے اور اس کا قتل واجب ہے] (مجموع الفتاویٰ،ج۳ص ۴۲۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مزید فرماتے ہیں :
(وھؤلاءالذین یزعم أحدھم أنہ یراہ أي اللہ سبحانہ وتعالیٰ بعیني رأسہ في الدنیا ھم ضُلاَّل کما تقدم،فان ضمواالیٰ ذلک أنھم یرونہ في بعض الأشخاص:أماالصالحین،أوبعض المردان،أوبعض الملوک وغیرھم،عظم ضلالھم وکفرھم ،وکانوحینئذ أضل من النصاریٰ الذین یزعمون أنھم رأوہ في صورۃ عیسیٰ ابن مریم۔
بل ھم أضل من أتباع الدجال الذي یکون في آخرالزمان ،ویقول للناس انا ربکم!۔۔۔
وھؤلاء قد یسمون (الحلولیۃ)و(الاتحادیۃ)وھم صنفان:
٭(قوم) یخصونہ بالحلول أوالاتحاد في بعض الأشیاء، کما یقولہ النصاریٰ في المسیح ؈ ،والغالیۃ في علی رضي اللہ عنہ ونحوہ،وقوم في أنواع من المشائخ، وقوم في بعض الملوک،وقوم في بعض الصور الجمیلۃ،الیٰ غیر ذلک من الاقوال التي ھی شر من مقالۃ النصاریٰ۔
٭و(صنف)یعمون فیقولون بحلولہ واتحادہ في جمیع الموجودات۔
حتی الکلاب والخنازیر والنجاسات وغیرہا۔کما یقول ذلک قوم من الجھمیۃ ومن تبعھم من الاتحادیۃ: کأصحاب ابن عربي،وابن سبعین ، وابن الفارض والتلمساني، والبلیاني، وغیرھم۔۔فھؤلاء (الضلال الکفار) الذین یزعم أحدھم أنہ یری ربہ بعینیہ۔وربما زعم أنہ جالسہ وحادثہ أوضاجعہ!وربمایعین أحدھم آدمیَّاًاماشخصا أوصبیًّا أوغیر ذلک ویزعم أنہ کلمھم، ویستتابون فان تابوا والاضربت أعناقھم وکانوا کفارًا،اذھم أکفر من الیھود والنصاریٰ۔۔
ھذا أکفر من الغالیۃ الذین یزعمون أن علیًّا رضي اللہ عنہ ،أوغیرہ من أھل الییت ھواللہ، وھؤلاء ھم الزنادقۃ الذین حرقھم علي رضي اللہ عنہ بالنار))

[اور یہ لوگ بھی جو بزعم خویش ،اللہ تعالیٰ کا دیدار اسی دنیا میں کرتے ہیں ،مذکورہ اصناف کی طرح ہی گمراہ ہیں ،پھر اگر اس کے ساتھ و ہ یہ بھی شامل کریں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار وہ بعض اشخاص کی صورت میں کرتے ہیں ...یہ اشخاص صالحین ہوں جن ہو یا بادشاہ یاکوئی دوسرا ...توایسی صورت میں ان کی گمراہی اور کفر دوچند بلکہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔اور ایسی صورت میں یہ لوگ ان عیسائیوں سے بھی زیادہ گمراہ اور بدتر ٹھہرتے ہیں جو عیسیٰ ابن مریم ؈ کی صورت میں دیدار الٰہی کا اعتقاد رکھتے ہیں بلکہ یہ توپیروان دجال سے بھی زیادہ گمراہ ہیں جو کہ آخر زمانے میں ظاہر ہوگا اور لوگوں کو کہے گا میں تمہارا رب ہوں...یہ لوگ بسا اوقات حلولیہ اور اتحادیہ ایسے ناموں سے یاد کئے جاتے ۔ان کی دواصناف ہیں :

ایک گروہ تو ایسا ہے جو خاص چیزوں یا اشخاص کی بابت ہی اللہ تعالیٰ کے حلول یااتحاد کا اعتقاد رکھتا ہے مثلاً عیسائی عیسیٰ ؈ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں یا غالی فرقے سیدنا علی؄ کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں کچھ لوگ ایک خاص مرتبے پر فائز اولیاء اورمشائخ کے بارے میں ،بعض لوگ خاص بادشاہوں میں ،بعض کچھ حسین وجمیل صورتوں میں یا اسی طرح کی دیگر اشیاء یا اشخاص کے بارے میں ایسی باتوں کے قائل ہیں جو کہ عیسائیوں کے مذہب سے کہیں بدتر ہیں ۔جبکہ دوسرا گروہ اس کو عام سمجھتا ہے چنانچہ یہ لوگ اللہ رب العزت کی نسبت حلول واتحادکا عقیدہ تمام موجودات حتی کہ کتوں،سوؤروں اورنجاستوں تک کی بابت رکھتے ہیں جیسا کہ جہمیہ کا ایک گروہ اور اتحادیہ میں سے ان کے ہم عقیدہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ،مثال کے طور پر ابن عربی اور اس کے حاشیہ بردار ابن سبعین،ابن الفارض،تلمسانی ،بلیانی اور اس طرح کے بہت سے لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے۔یہ گمراہ اور کافر لوگ ہیں جو بزعم خویش اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھتے بلکہ اس کے ہم نشین، ہم کلام اور ہم بستر تک بھی ہوتے رہتے ہیں (معاذ اللہ)بسااوقات کسی شخص ،بچے یا کسی کو متعین کرکے اس کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا دعویٰ کرتے ہیں ایسے لوگوں سے توبہ کرانی چاہیے ،کرلیں تودرست ورنہ ان کی گردنیں اڑادینی چاہئیں کیونکہ یہ کافر ہیں بلکہ ایسے لوگ یہود ونصاریٰ سے بڑے کافر ہیں...یہ ان غالیوں سے بھی بڑے کافر ہیں جوسیدنا علی؄ یا کسی دیگر اہل بیت کے بارے میں عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی اللہ ہیں ۔یہی وہ زنادقہ تھے جن کو سیدنا علی؄ نے آگ میں جلا کے راکھ کیا تھا] (مجموع الفتاویٰ ،ج۳ ص ۳۹۱-۳۹۴)
 
Top