محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والے حکم میں برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اجتہادی غلطی پرہوتے ہیں ،بعض ایسے ہوتے ہیں جو جاہل اورلاعلم ہونے کے باعث معذور ٹھہرتے ہیں ،بعض ظالم اور بعض منافق وزندیق ہوتے ہیں اوربعض مشرک اورگمراہ۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ احکام ہیں:حکم کے لحاظ سے سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والوں کی اقسام
1۔مجتہدمخطی:
ارشاد ربانی ہے :
﴿ وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ۰ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِہِمْ شٰہِدِيْنَ۷۸ۤۙ فَفَہَّمْنٰہَا سُلَيْمٰنَ۰ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ (الانبیاء :۷۸،۷۹)
''اور یاد کیجئے جب دائود اور سلیمان ایک کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جسے دوسرے لوگوں کی بکریاں چر گئیں تھیں اور جب وہ فیصلہ کر رہے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اس وقت ہم نے سلیمان کو صحیح فیصلہ سمجھا دیاجب کہ ہم نے قوت فیصلہ اور علم سب کو عطا کیا تھا۔''
جب ایک کھیتی کا مالک دائود؈ اور سلیمان ؈ کے پاس فیصلہ کرانے آیا جس کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں داخل ہو گئیں اور اس کی فصل کو اجاڑ دیا۔دائود؈ نے فیصلہ کیاکہ تمام بکریاں کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کے مالک نے کوتاہی سے کام لیاسلیمان ؈ نے اس جھگڑے میں حق کے مطابق فیصلہ سنایا کہ بکریوں کے مالک اپنی بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کر دیں وہ ان کے دودھ اوراون سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کے مالک کھیت میں اس وقت تک کام کریں جب تک کھیتی اپنی پہلی حالت میں نہ آجائے۔جب کھیتی اپنی پہلی حالت میں آجائے تو دونوں ایک دوسرے کا مال لوٹا کر اپنا اپنا مال لے لیں ۔ (حاکم۲۔۵۸۸بحوالہ تفسیرابن کثیر)
یہ فیصلہ سلیمان ؈ کے کمال فہم پر دلالت کرتا ہے۔اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حاکم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو کبھی اس کا فیصلہ حق کے مطابق ہوتا ہے اور کبھی اس سے خطا ہو جاتی ہے۔اگر کوشش کے باوجود فیصلے میں خطا ہو جائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں۔
امام ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
''اللہ تعالیٰ نے دونوں انبیاء کی تعریف وثنا بیان کی ہے کہ دونوں کو علم وحکمت سے نوازا گیا تھا مگر اس مسئلہ میں درست فہم سلیمان ؈ کا تھا۔اسی طرح علماء میں سے کسی کو درست فہم حاصل نہ ہونا اُس عالم کی مذمت کو لازم نہیں کرتا ۔''(مجموع الفتاویٰ:ج:۳۳،ص:۲۹)
صحابہ کرام؇ نے بھی بعض اوقات اپنے کئی اجتہادات میں غلطی کھائی جیسے ایک صحابی نے امیر کی اطاعت کے وجوب سے استدلال کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو آگ میں کودنے کا حکم دے سکتا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں
رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن حذافہ انصاری کی سپہ سالاری میں ایک لشکر بھیجا اوراہل لشکر کو حکم دیا کہ اپنے سپہ سالارکی اطاعت کریں ۔راستہ میں سپہ سالار کو کسی بات پرغصہ آگیا ۔اس نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا ۔پھرآگ جلائی ۔ سپہ سالار نے کہا اس آگ میں داخل ہوجائو۔بعض لوگوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کیا اوربعض نے انکارکیا اوردوسروں کو بھی تعمیل کرنے سے روکتے رہے اورکہا کہ ہم آگ ہی سے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ۔اس بحث میں آگ ٹھنڈی ہوگئی۔اورسپہ سالارکا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا ۔جب یہ خبررسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایااگرتم آگ میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے اورفرمایااطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے ۔(بخاری ،۴۳۴۰۔مسلم،ح۔ ۱۸۴۰)