السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ دوستوں کو میں نے درج ذیل حدیث مبارکہ پیش کی:
( جمعہ کے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، ان دونوں خطبوں کے درمیان آپ (تھوڑی دیر ) بیٹھتے تھے "
تو دوستوں نے دو سوال کئے کہ:
کیا دونوں خطبوں کی مقدار نصف نصف وقت کی ہوگی؟
اور
خطبوں کے درمیان "تھوڑی دیر" بیٹھنے کی مقدار کا تعین کیسے ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
_________________
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ». قَالَ: كَمَا يَفْعَلُونَ الْيَوْمَ
سيدنا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم جمعہ کے دن ہميشہ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور (ان کے بيچ ميں ) بيٹھتے تھے اور پھر کھڑے ہوتے ،جیسا آج بھی (خطیب ) کرتے ہیں "
(صحیح مسلم )
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ يَقْعُدُ بَيْنَهُمَا»
عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم (جمعہ ميں) دو خطبے ديتے اور دونوں کے بيچ ميں بيٹھتے تھے "
(صحیح بخاری )
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيُذَكِّرُ النَّاسَ» (صحیح مسلم کتاب الجمعہ )
سيدنا جابر بن سمرہ رضي اللہ عنہ نے کہا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم ہميشہ دو خطبے پڑھا کرتے تھے اور ان کے بيچ ميں بيٹھتے تھے اور خطبوں ميں قران مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصيحت کرتے "
ــــــــــــــــــــــ
اس قعدہ کے متعلق شرعی لحاظ سے دو باتیں قابل توجہ ہیں ،
پہلی یہ کہ اسکی حکمت و غرض کیا ہے ؟
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله : " واختلف في حكمتها ، فقيل : للفصل بين الخطبتين ، وقيل : للراحة ، وعلى الأول وهو الأظهر يكفي السكوت بقدرها " انتهى من " فتح الباري " (2/ 406) .
علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ : (دو خطبوں کے درمیان ) اس قعدہ کی حکمت و غرض کیا ہے اس پر اہل علم کے مختلف اقوال ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ قعدہ محض فصل کرنے کیلئے تھا ، جبکہ کچھ دوسرے کہتے ہیں کہ راحت کیلئے وقفہ تھا ، جبکہ پہلا قول زیادہ ظاہر و واضح ہے ، اس قعدہ کا وقت محض ایک سکوت (خامشی )جتنا کافی ہے ؛ فتح الباری
مزید لکھتے ہیں :
وَقَالَ صَاحِبُ الْمُغْنِي لَمْ يُوجِبْهَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّهَا جِلْسَةٌ لَيْسَ فِيهَا ذِكْرٌ مَشْرُوعٌ فَلَمْ تَجِبْ وَقَدَّرَهَا مَنْ قَالَ بِوُجُوبِهَا بِقَدْرِ جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَبِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْإِخْلَاصِ "
یعنی امام ابن قدامہ حنبلی (المغنی ) میں لکھتے ہیں : اکثر اہل علم کے ہاں یہ قعدہ واجب نہیں ، کیونکہ یہ ایک ایسا جلسہ ہے جس میں کوئی ذکر مشروع نہیں ، اسلئے یہ واجب نہیں ، اوراسے واجب کہنے والوں کے ہاں اس جلسہ کی مقدار نماز کے جلسہ استراحت جتنی ہے ، اور سورہ اخلاص پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے اتنی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قعدہ کے متعلق دوسری شق یہ ہے کہ : شرعاً اس کا حکم کیا ہے ؟ کیا یہ سنت ہے ،یا خطبہ کیلئے شرط ہے ؟
الاسلام سوال و جواب پر ایک فتوی میں لکھتے ہیں : اس بابت دو قول ہیں ، پہلا قول اس کے سنت ہونے کا ہے جو جمہور کا ہے ،
اور دوسرا قول اس کے شرط ہونے کا ہے یعنی یہ قعدہ خطبہ کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے ، شافعی فقہ میں اس کا یہی مقام بتایا گیا ہے ؛
اختلف العلماء في حكم جلوس الخطيب بين الخطبتين في الجمعة ، وذلك على قولين :
القول الأول : أن الجلوس بين الخطبتين سنة ، وهو مذهب الجمهور .
القول الثاني : أن الجلوس بين الخطبتين شرط لصحة الخطبة ، وهو المذهب عند الشافعية .
جاء في الموسوعة الفقهية (15/270) : " ذهب الحنفية , وجمهور المالكية , والحنابلة في الصحيح من المذهب إلى أن الجلوس بين خطبتي الجمعة , والعيدين سنة ؛ لما روي عن أبي إسحاق قال : رأيت عليا يخطب على المنبر فلم يجلس حتى فرغ .
ويرى الشافعية وهو رواية عن أحمد أن الجلوس بينهما بطمأنينة شرط من شروط الخطبة ؛ لخبر الصحيحين : ( أنه صلى الله عليه وسلم كان يخطب يوم الجمعة خطبتين يجلس بينهما ) " انتهى .
فعلى مذهب الجمهور إذا لم يجلس الإمام بين الخطبتين ، فإنه يفصل بينهما بسكوت .
قال ابن قدامة رحمه الله : " فإن خطب جالسا لعذرٍ فصل بين الخطبتين بسكتة , وكذلك إن خطب قائما فلم يجلس . قال : ابن عبد البر : ذهب مالك , والعراقيون , وسائر فقهاء الأمصار إلا الشافعي , أن الجلوس بين الخطبتين لا شيء على من تركه " انتهى من " المغني " (2/78) .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
________________________