Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
خطبہ حرم مکی
السلام علیکم کی اہمیت
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ اما بعد:
آپ نے حسب معمول اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام سے خطبے کا آغاز کیا اور تمام ایمان والوں کو نیکی اور تقویٰ کی ترغیب دی پھر آپ نے فرمایا امت اسلامیہ کو چاہیے کہ امن و سلامتی قائم کر کے امتیازی اسلامی خصوصیات کا بول بالا کریں اور اسلام کا پیغام دینے والے اہل ایمان اور بندگان خدا کے دل جیت لیں اپنے اور غیروں کے احترام میں باہمی محبت پیدا کرنے کا لحاظ رکھیں۔ اور چاہیے کہ ہمیشہ خود اپنے محاسبے کا خیال رکھیں، خود احتسابی سے آپ کی آپ کے دین سے وابستگی باقی رہے گی اور ان شاءاللہ اور پختہ ہوتی جائے گی۔ امن سلامتی اسلام کی پہچان ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسروں سے ملتے وقت سلام کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی مسلمان دوسرے مسلمان بھائی سے ملتا ہے تو وہ گفتگو کا آغاز السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے کرتا ہے اور سلام کا جواب دینا ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی پر حق ہے۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( حق المسلم علی المسلم خمس۔ خمس تجب للمسلم علی اخیہ۔ ردالسلام، وتشمیت العاطس، واجابۃ الدعوۃ وعیادۃ المریض، واتباع الجنائز )) ( صحیح مسلم، کتاب السلام حدیث: 2162 ) ” مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ ( 1 ) سلام کا جواب دینا ( 2 ) چھینکنے والے کی چھینک کا جواب ( یرحمک اللہ کہہ کر ) دینا۔ ( 3 ) دعوت کو قبول کرنا ( 4 ) بیمار کی تیمارداری کرنا۔ ( 5) نماز جنازہ پڑھنا۔ “
یہ حق ضرور اداکرنا چاہیے۔ سلام کا جواب دینا حقوق العباد میں سے ایک ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( والذی نفسی بیدہ! لا تدخلوا الجنۃ حتی تُومنوا، ولا تومنوا حتیٰ تحابوا، افلا ادلکم علی امر اذا فعلتموہ تحاببتم: افشوا السلام بینکم )) ( سنن ابی داود، کتاب الادب، حدیث: 5193 ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم مومن نہ بنو ( ایمان نہ لاؤ ) اور تم اس وقت تک ایماندار نہیں بن سکتے جب تک تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس سے تمہارے درمیان محبت اور بھائی چارہ بڑھے، صحابہ نے فرمایا جی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” سلام عام کرو۔ “ سلام محبت کی علامت ہے اس سے دل صاف ہو جاتے ہیں۔ نب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( وتقرا السلام علی من عرفت وعلی من لم تعرف )) ( صحیح البخاری، کتاب الاستئذان، حدیث:6236 ) ” کہ سلام کیا کرو جس کو جانتے ہو اور جس کو نہیں جانتے ہو اس کو بھی۔ “
اس سے دوسرے کے لیے احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ سلام جنت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ جنت میں بھی اہل ایمان کا سلام یہی سلام ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تحیتھم یوم یلقونہ سلم ( الاحزاب: 44 )
اور فرمایا:
دعوٰھم فیھا سبحنک اللھم وتحیتھم فیھا سلم ( یونس10: 10 )
سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ان اللہ ھو السلام )) ( صحیح البخاری، حدیث:6230 ) ” یعنی اللہ تعالیٰ کا نام ” السلام “ ہے۔ “
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سلام عام کر دیں یہ بات پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے سلام کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
سلٰم قولا من رب رحیم ( یسٓ36: 57 )
کہ سلامتی ہو رب رحیم کی تم پر۔ اس سے بڑھ کر سلام کا اور کیا درجہ ہو سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جنت کے فرشتے بھی اہل جنت کو داخل ہوتے وقت اور خوش آمدید کہتے وقت سلام کہا کریں گے۔
قرآن پاک میں ہے:
وقال لھم خزنتھا سلم علیکم طبتم فادخلوھا خٰلدین ( الزمر: 73 )
” اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔ “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے، سلام کے بغیر سوال کرنے والے کا جواب نہ دیا جائے، جب ملاقات ہو تو پہلے سلام ہی کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ بچوں کو بھی سلام کیا کرتے تھے۔
حدیث پاک میں ہے:
(( عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ : انہ مر علی صبیان فسلم علیھم وقال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یفعلہ )) ( صحیح البخاری، حدیث: 6247 )
” حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کہا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے یعنی بچوں کو سلام فرمایا کرتے تھے۔ “
ہاتھ اور سر کے اشارے سے سلام کرنا درست نہیں ہوتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودی ہاتھ اور سر کے اشارے سے سلام کرتے ہیں تم ان کی مخالفت کرو۔ “ انسان اگر دور ہو تب بھی اس کو اشارے کے ساتھ منہ سے سلام کہنا ضروری ہے، آواز اس تک نہ پہنچتی ہو سلام تو پہنچتا ہے، سلام کی جگہ اھلا وسھلا ومرحبا یا خوش آمدید کہنا درست نہیں، چنانچہ چاہیے کہ تمام اہل اسلام اہل ایمان سلام کو اپنی خصوصیات میں شامل کریں۔ آخر میں دعائیہ کلمات پر جمعۃ المبارک کا اختتام کیا۔
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 6
جلد نمبر 39 23 تا 29 محرم الحرام 1429 ھ 2 فروری تا 8 فروری 2008 ء
فضیلۃ الشیخ صالح بن حمید (امام کعبہ)