تیسرا دور: دوسری صدی ہجری : یہ دور دوسری صدی ہجری سے ہمارے دور تک محیط ہے۔صحابہ وتابعین نے علوم القرآن کی بنیاد رکھ کر مزید فکرو عمل کی راہیں کھولیں۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری میں علوم ِ قرآن کی تدوین پر سب سے زیادہ کام قرآن کے خاص خاص موضوع اور مختلف مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصانیف کے سلسلے سے شروع ہوا۔ ہر موضوع پر بلند پایہ ائمہ نے اپنی نگارشات پیش کیں۔جن میں اسباب نزول، غریب قرآن ، ناسخ ومنسوخ، علم قراء ت، متشابہ قرآن ، اعراب و معانی قرآن اور علم تفسیر پر لاتعداد کتب تھیں۔
کتب حدیث میںآپﷺ کی تفسیر یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفاسیر، بذریعہ روایات معمولی جگہ پاسکیں۔ اس لئے علماء تفسیر نے علم التفسیر پر لکھنا شروع کیا۔جن میں کسی ایک سورۃ کی ہو یا چند آیات کی یا مکمل قرآن مجید کی تفسیر تھی۔ان تفاسیر میں ضمناً مباحث علوم ِ قرآن بھی آگئے۔ کچھ علماء کے تفسیری نکات بھی مروی ہیںان میں امام شعبہ بن الحجاج البصری رحمہ اللہ ، امام مالک بن انس رحمہ اللہ ، امام حجاز سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ، امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ اور یگانہ روز گار مجاہد امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ شامل ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف تفسیری موضوع کو اختیار کیا اور اس پر بہت کچھ لکھا ۔ ان میں سرفہرست امام محمد بن جریرالطبری رحمہ اللہ (م: ۳۱۰ھ) ہی نظر آتے ہیں جن کی تفسیر ’’جامِع البیانِ عَنْ تأوِیلِ آيِ الْقُرْآنِ‘‘ تفسیر بالماثور میں ایک وقیع اور عمدہ کتاب ہے۔
اسباب نزول پر ایک کتاب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد، سیدنا عکرمہ مولیٰ ابن عباس رحمہ اللہ (م: ۱۰۷ھ) نے لکھی۔علم القراء ت پر حسن بصری رحمہ اللہ (م:۱۱۰ھ) نے اور غریب القرآن پر عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (م: ۱۱۴ھ) نے اور الناسخ والمنسوخ پر قتادہ بن دعامہ السدوسی (م:۱۱۷ھ) نے کتب لکھیں۔ ابان بن تغلب (متوفی:۱۵۱ھ) نے بھی قرآن کے غریب الفاظ کو جمع کیا اور غریب القرآن کتاب تصنیف کی۔ اس صدی میں مشہور مفسر اور فقیہ خراسان مقاتل بن سلیمان (متوفی :۱۵۰ھ) اور علامہ حسین بن واقد المروزی (متوفی: ۱۵۷ھ) نے قرآن کے ناسخ و منسوخ پر قلم اٹھایا اور کتاب لکھی۔ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عیسیٰ (متوفی: ۱۶۰ھ) نے غریب القرآن پر چھ جلدوں پر مشتمل نہایت جامع کتاب لکھی۔ نقط مصاحف پر امام لغت خلیل بن احمد بصری (متوفی:۱۷۰ھ) نے کتاب لکھی۔ قراء ت کے موضوع پر أبو عمرو بن العلاء نے کتاب القراء ت تصنیف کی۔امام ابو الحسن بن حمزہ کسائی (متوفی:۱۸۹ھ) نے بھی سب سے پہلے متشابہ آیات پر کتاب عِلْمُ آیٰاتِ الْمُتَشَابِھَات لکھی۔ اعراب و معانی قرآن پر سب سے پہلے ابو عبیدہ معمر بن المثنی نے لکھا۔
تیسری صدی ہجری : اس صدی میںعلم القراء ت اور الناسخ والمنسوخ پر ابو عبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ (متوفی :۲۲۴ھ) نے کتب لکھیں۔ اعراب و معانی قرآن پر بھی جامع کتاب ان کی ہے۔امام علی بن المدینی (م: ۲۳۴ھ) نے اسباب النزول اور ابن قتیبۃ (م:۲۷۶ھ) نے تأویل مشکل القرآن اور تفسیر غریب القرآن پر کتب لکھیں۔ تیسری صدی ہجری کے اختتام پر مشہور نحوی محمد بن یزید الواسطی (م:۳۰۶ھ) نے إعْجَازُ الْقُرآن في نظمہ کے نام سے قرآن کے اعجاز پرکتاب تصنیف کی جو بہت مشہور ہے۔
الغرض تیسری صدی ہجری تک قرآن کے مختلف علوم پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور پھر اس میں ترقی ہوتی گئی۔ اگرچہ ابتدائی دور کی اکثر تصانیف آج ناپید ہیں لیکن وہ کتب جو عہد قریب میں لکھی گئیں ان میں بہت سا سرمایہ ان کتب کا آگیا ہے۔ علوم ِ قرآن پر کام آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن ابتدا ئی تین صدیوں کی تصنیفات کا مقابلہ بعد کی کتب نہیں کرسکتیں۔
یہ تو تھی ایک مختصر تاریخ جس میں بتدریج ایک ایک موضوع پرعلمی و فکری آراء آتی گئیں جنہیں بعد میں یکجا کرکے علوم القرآن کا عنوان دیا گیا۔ ایک رائے یہی ہے کہ لفظ علوم القرآن کاسب سے پہلے استعمال محمد بن خلف بن المرزبان (۳۰۹ھ) نے الحاوی فی علوم القرآن رکھ کر کیا۔
چوتھی صدی ہجری میں بھی اکثر علماء نے علوم القرآن پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ جن میں:
۱۔ ابوبکر محمد بن قاسم الانباری (م:۳۲۸ھ)عجائب علوم القرآن کے مصنف ہیں۔ اپنی اس کتاب میں فضائل قرآن، حروف سبعہ، کتابت المصاحف، تعداد سور، آیات اور کلمات جیسے مباحث پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
۲۔ المحتزن في علوم القرآن امام ابو الحسن الاشعری (م: ۳۲۴ھ) کی یہ خاصی ضخیم تصنیف ہے جو علوم القرآن کے مختلف مباحث پر مشتمل ہے۔ (الدیباج: ۱۹۵)
۳۔ ابوبکر السجستانی (م:۳۳۰ھ) ’’ غریب القرآن‘‘کے مؤلف ہیں۔ اس کتاب کی تالیف پر انہوں نے اور ان کے استاد ابوبکر بن الانباری نے پندرہ سال صرف کئے۔
۴۔ ابو محمد القصاب محمد بن علی الکرخی (م:۳۶۰ھ) کی تألیف ’’نکت القرآن‘‘ہے۔ اس میں قرآن مجید کے مختلف علوم، احکام اور اختلافی نکات کی وضاحت کی گئی ہے۔
۵۔ ابوعبید اللہ بن جرو اسدی (م: ۳۸۷ھ) نے الأمدفی علوم القرآن اور محمد بن علی الادفوی (۳۸۸ھ) نے کتاب الاستغناء فی علوم القرآن تصنیف کیں۔
یہی سلسلہ پانچویں صدی ہجری میں بھی جاری رہا۔ جس میں سب سے پہلی عمدہ اور جامع مرتب کتاب جو منظر عام پر آئی وہ علی بن ابراہیم الحوفی (م:۴۳۰ھ) کی تھی۔ جس کا نام انہوں نے’’البرھان في علوم القرآن‘‘رکھا۔ اسی طرح انہوں نے ’’إعراب القرآن‘‘نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی (حسن المحاضرۃ :۲؍۲۲۸)۔ بعد کی صدیوں میں اعراب القرآن پر بہت سی کتب لکھی گئیں۔ جن میں امام ابو عمرو الدانی (متوفی:۴۴۴ھ) کی تصنیف لاجواب ٹھہری۔ جس کا نام ’’التیسیر فی القرائات السبع‘‘اور ’’الحکم فی النقط‘‘ہے۔دسویں صدی ہجری کے آغاز میں سابقہ تمام علوم قرآنی کی ایک جامع و شامل کتاب لکھنے کا شرف امام جلال الدین سیوطی (متوفی:۹۶۱ھ) کو حاصل ہوا۔ جس کا نام انہوں نے ’’الاتقان في علوم القرآن‘‘ رکھا۔
چودھویں صدی ہجری میں بہت سے علماء نے علوم قرآن پر کام کیا۔ جن میں جمال الدین القاسمی (م:۱۳۳۰ھ) کی کتاب ’’محاسن التاویل‘‘ محمد عبد العظیم الزرقانی کی کتاب’’مناھل العرفان‘‘، مصطفی صادق الرافعی کی کتاب ’’إعجاز القرآن‘‘، سید قطب کی کتاب ’’التصویر الفني في القرآن‘‘اور عبد اللہ دراز کی کتاب ’’ النباء العظیم‘‘قرآنی مکتبہ میں ایک عظیم اضافہ ہیں۔