• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت ِ علیؓ:

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خلافت ِ علیؓ:

خلافت ِ علیؓ: عربی زبان ولہجہ کی حفاظت اور قراءت قرآن میں لحن سے بچاؤ اور صحیح نطق کے لئے چند پیشگی اقدامات اٹھانے پر سیدناعلیؓ بھی مجبورہوئے۔آپؓ نے أبو الاسود الدؤلی کو بعض بنیادی اصولوں کی رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید کے اعراب سمجھائے۔ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دؤلی نے نقط مصاحف پر ایک مختصر رسالہ لکھا۔ جو علم اعراب القرآن کا نقطئہ آغاز تھاجس کے مؤسس سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
تدریس و تعلیم کے ذریعے بھی علوم قرآن کو صحابہ کرامؓ نے عام کیا ان میں خلفاء اربعہؓ، عبد اللہ بن عباسؓ ، عبد اللہ بن مسعودؓ، زیدبن ثابتؓ، ابوموسیٰ اشعری ؓاور عبد اللہ بن زبیرؓ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔ مزید ان کے چند لائق شاگردوں نے ان کی چھوڑی اس وراثت کو خوب اشاعت دی یہ سب تابعین تھے۔ ان میں سرفہرست ابن المسیبؒ، مجاہدؒ، عطاءؒ، عکرمہؒ، قتادہؒ، حسن بصریؒ، سعید بن جبیرؒاورزید بن اسلمؒ ہیں۔عہد تابعین میں پہلی تفسیر سعیدؒ بن جبیر نے لکھی۔ ان کے بعد ابو العالیہ رفیع ؒبن مہران الریاحی نے قرآن کی تفسیر لکھی۔ یہ دونوں حضرات عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگرد ہیں۔مجاہد نے بھی تفسیر ابن عباس کی روایت کی جو انہی کے مدرسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔علقمہ بن قیس ، مسروق بن الاجدع، قتادۃ بن دعامۃ، عمرو بن شرحبیل اور ابوعبد الرحمن السلمی کا تعلق کوفہ سے تھا یہ سبھی مدرسہ ابن ؓمسعود سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور مدینہ منورہ میں ابی ؓبن کعب کا مدرسہ بھی اپنے قابل شاگردوں سے معمور ہے جن میںابو العالیہ الریاحی اور محمد بن کعب القرظی ہیں جنہوں نے سیدناابی کے مدرسہ کو فروغ دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تیسرا دور: دوسری صدی ہجری : یہ دور دوسری صدی ہجری سے ہمارے دور تک محیط ہے۔صحابہ وتابعین نے علوم القرآن کی بنیاد رکھ کر مزید فکرو عمل کی راہیں کھولیں۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری میں علوم ِ قرآن کی تدوین پر سب سے زیادہ کام قرآن کے خاص خاص موضوع اور مختلف مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصانیف کے سلسلے سے شروع ہوا۔ ہر موضوع پر بلند پایہ ائمہ نے اپنی نگارشات پیش کیں۔جن میں اسباب نزول، غریب قرآن ، ناسخ ومنسوخ، علم قراء ت، متشابہ قرآن ، اعراب و معانی قرآن اور علم تفسیر پر لاتعداد کتب تھیں۔

کتب حدیث میںآپﷺ کی تفسیر یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفاسیر، بذریعہ روایات معمولی جگہ پاسکیں۔ اس لئے علماء تفسیر نے علم التفسیر پر لکھنا شروع کیا۔جن میں کسی ایک سورۃ کی ہو یا چند آیات کی یا مکمل قرآن مجید کی تفسیر تھی۔ان تفاسیر میں ضمناً مباحث علوم ِ قرآن بھی آگئے۔ کچھ علماء کے تفسیری نکات بھی مروی ہیںان میں امام شعبہ بن الحجاج البصری رحمہ اللہ ، امام مالک بن انس رحمہ اللہ ، امام حجاز سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ، امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ اور یگانہ روز گار مجاہد امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ شامل ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف تفسیری موضوع کو اختیار کیا اور اس پر بہت کچھ لکھا ۔ ان میں سرفہرست امام محمد بن جریرالطبری رحمہ اللہ (م: ۳۱۰ھ) ہی نظر آتے ہیں جن کی تفسیر ’’جامِع البیانِ عَنْ تأوِیلِ آيِ الْقُرْآنِ‘‘ تفسیر بالماثور میں ایک وقیع اور عمدہ کتاب ہے۔

اسباب نزول پر ایک کتاب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد، سیدنا عکرمہ مولیٰ ابن عباس رحمہ اللہ (م: ۱۰۷ھ) نے لکھی۔علم القراء ت پر حسن بصری رحمہ اللہ (م:۱۱۰ھ) نے اور غریب القرآن پر عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (م: ۱۱۴ھ) نے اور الناسخ والمنسوخ پر قتادہ بن دعامہ السدوسی (م:۱۱۷ھ) نے کتب لکھیں۔ ابان بن تغلب (متوفی:۱۵۱ھ) نے بھی قرآن کے غریب الفاظ کو جمع کیا اور غریب القرآن کتاب تصنیف کی۔ اس صدی میں مشہور مفسر اور فقیہ خراسان مقاتل بن سلیمان (متوفی :۱۵۰ھ) اور علامہ حسین بن واقد المروزی (متوفی: ۱۵۷ھ) نے قرآن کے ناسخ و منسوخ پر قلم اٹھایا اور کتاب لکھی۔ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عیسیٰ (متوفی: ۱۶۰ھ) نے غریب القرآن پر چھ جلدوں پر مشتمل نہایت جامع کتاب لکھی۔ نقط مصاحف پر امام لغت خلیل بن احمد بصری (متوفی:۱۷۰ھ) نے کتاب لکھی۔ قراء ت کے موضوع پر أبو عمرو بن العلاء نے کتاب القراء ت تصنیف کی۔امام ابو الحسن بن حمزہ کسائی (متوفی:۱۸۹ھ) نے بھی سب سے پہلے متشابہ آیات پر کتاب عِلْمُ آیٰاتِ الْمُتَشَابِھَات لکھی۔ اعراب و معانی قرآن پر سب سے پہلے ابو عبیدہ معمر بن المثنی نے لکھا۔

تیسری صدی ہجری : اس صدی میںعلم القراء ت اور الناسخ والمنسوخ پر ابو عبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ (متوفی :۲۲۴ھ) نے کتب لکھیں۔ اعراب و معانی قرآن پر بھی جامع کتاب ان کی ہے۔امام علی بن المدینی (م: ۲۳۴ھ) نے اسباب النزول اور ابن قتیبۃ (م:۲۷۶ھ) نے تأویل مشکل القرآن اور تفسیر غریب القرآن پر کتب لکھیں۔ تیسری صدی ہجری کے اختتام پر مشہور نحوی محمد بن یزید الواسطی (م:۳۰۶ھ) نے إعْجَازُ الْقُرآن في نظمہ کے نام سے قرآن کے اعجاز پرکتاب تصنیف کی جو بہت مشہور ہے۔

الغرض تیسری صدی ہجری تک قرآن کے مختلف علوم پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور پھر اس میں ترقی ہوتی گئی۔ اگرچہ ابتدائی دور کی اکثر تصانیف آج ناپید ہیں لیکن وہ کتب جو عہد قریب میں لکھی گئیں ان میں بہت سا سرمایہ ان کتب کا آگیا ہے۔ علوم ِ قرآن پر کام آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن ابتدا ئی تین صدیوں کی تصنیفات کا مقابلہ بعد کی کتب نہیں کرسکتیں۔

یہ تو تھی ایک مختصر تاریخ جس میں بتدریج ایک ایک موضوع پرعلمی و فکری آراء آتی گئیں جنہیں بعد میں یکجا کرکے علوم القرآن کا عنوان دیا گیا۔ ایک رائے یہی ہے کہ لفظ علوم القرآن کاسب سے پہلے استعمال محمد بن خلف بن المرزبان (۳۰۹ھ) نے الحاوی فی علوم القرآن رکھ کر کیا۔

چوتھی صدی ہجری میں بھی اکثر علماء نے علوم القرآن پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ جن میں:
۱۔ ابوبکر محمد بن قاسم الانباری (م:۳۲۸ھ)عجائب علوم القرآن کے مصنف ہیں۔ اپنی اس کتاب میں فضائل قرآن، حروف سبعہ، کتابت المصاحف، تعداد سور، آیات اور کلمات جیسے مباحث پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
۲۔ المحتزن في علوم القرآن امام ابو الحسن الاشعری (م: ۳۲۴ھ) کی یہ خاصی ضخیم تصنیف ہے جو علوم القرآن کے مختلف مباحث پر مشتمل ہے۔ (الدیباج: ۱۹۵)
۳۔ ابوبکر السجستانی (م:۳۳۰ھ) ’’ غریب القرآن‘‘کے مؤلف ہیں۔ اس کتاب کی تالیف پر انہوں نے اور ان کے استاد ابوبکر بن الانباری نے پندرہ سال صرف کئے۔
۴۔ ابو محمد القصاب محمد بن علی الکرخی (م:۳۶۰ھ) کی تألیف ’’نکت القرآن‘‘ہے۔ اس میں قرآن مجید کے مختلف علوم، احکام اور اختلافی نکات کی وضاحت کی گئی ہے۔
۵۔ ابوعبید اللہ بن جرو اسدی (م: ۳۸۷ھ) نے الأمدفی علوم القرآن اور محمد بن علی الادفوی (۳۸۸ھ) نے کتاب الاستغناء فی علوم القرآن تصنیف کیں۔


یہی سلسلہ پانچویں صدی ہجری میں بھی جاری رہا۔ جس میں سب سے پہلی عمدہ اور جامع مرتب کتاب جو منظر عام پر آئی وہ علی بن ابراہیم الحوفی (م:۴۳۰ھ) کی تھی۔ جس کا نام انہوں نے’’البرھان في علوم القرآن‘‘رکھا۔ اسی طرح انہوں نے ’’إعراب القرآن‘‘نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی (حسن المحاضرۃ :۲؍۲۲۸)۔ بعد کی صدیوں میں اعراب القرآن پر بہت سی کتب لکھی گئیں۔ جن میں امام ابو عمرو الدانی (متوفی:۴۴۴ھ) کی تصنیف لاجواب ٹھہری۔ جس کا نام ’التیسیر فی القرائات السبع‘‘اور ’’الحکم فی النقط‘‘ہے۔دسویں صدی ہجری کے آغاز میں سابقہ تمام علوم قرآنی کی ایک جامع و شامل کتاب لکھنے کا شرف امام جلال الدین سیوطی (متوفی:۹۶۱ھ) کو حاصل ہوا۔ جس کا نام انہوں نے ’الاتقان في علوم القرآن‘رکھا۔

چودھویں صدی ہجری میں بہت سے علماء نے علوم قرآن پر کام کیا۔ جن میں جمال الدین القاسمی (م:۱۳۳۰ھ) کی کتاب ’’محاسن التاویل‘‘ محمد عبد العظیم الزرقانی کی کتاب’’مناھل العرفان‘‘، مصطفی صادق الرافعی کی کتاب ’’إعجاز القرآن‘‘، سید قطب کی کتاب ’التصویر الفني في القرآن‘اور عبد اللہ دراز کی کتاب ’’ النباء العظیم‘‘قرآنی مکتبہ میں ایک عظیم اضافہ ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مضامین قرآن : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (۱۱۱۵ھ؁-۱۱۷۶ھ؁) نے اصول تفسیر کے ضمن میں بعض علوم کا خلاصہ مضامین قرآن کے نام سے اپنی معروف کتاب الفوز الکبیر میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے کل چار ابواب ہیں۔ جن میں علوم القرآن اور مطالعہ قرآن کے مختلف پہلوؤں پر ایک جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔الفوز الکبیر کے پہلے باب میں قرآن مجید کے مضامین کو شاہ صاحب نے پانچ علوم میں تقسیم کیا ہے۔جو ان کے نزدیک قرآن مجید کا لب لباب ہیں۔ یہ علوم انہیں کے متعین کردہ ہیں جودرج ذیل ہیں:
۱۔ احکام۔
۲۔ مخاصمات یعنی علم مناظرہ۔
۳۔ تذکیر بآلاء اللہ۔ نعمتوں کے ذریعے یاددہانی
۴۔ تذکیر بأیام اللہ۔ گذشتہ واقعات کے ذریعے یاددہانی
۵۔ علم تذکیر بالموت ومابعد الموت۔( موت یا بعد ازموت پیش آنے والی حالتوں کے ذریعے یاددہانی)


احکام: احکام کے بارے میں وہ پہلی اہم بات یہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ ملت ابراہیمی پر مبعوث ہوئے۔اس لئے اس ملت کے احکام اور طریقوں کو باقی رکھا گیاہے۔ قرآن مجید نے اس ضمن میں بعض احکام کی چھان پھٹک بھی کی اور بعض کی اصلاح کرکے ملت ابراہیمی کو اصل صورت میں پیش کیا۔

قرآنی احکام کے ذیل میں اوامر و نواہی بھی آتے ہیں۔جن میں کچھ مجمل ہیں جن کی تفصیل جناب رسالت مآب ﷺ پر چھوڑ دی گئی۔ مثلاً: قرآن مجید کا حکم ہے۔ أقیموا الصلاۃ نماز قائم کرو۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کی وضاحت عمل اور قول دونوں سے کر دی۔ اسی طرح روزہ، زکوٰۃ، طہارت وغیرہ کے احکام بھی ہیں۔قرآن کے بعض احکام عام طرز خطاب میں اور بعض اشارۃً ہیں۔ مثلاً: مومنوں کے کام کی تعریف کردی تو حکم دیا کہ اس قسم کے کام کرنے چاہئیں۔ {لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۝۶۱} (الصافات:۶۱) اورمنافقوں کو اگر کسی بات پر توبیخ کی تو اشارہ یہ دیا کہ مسلمان ایسے کاموں سے بچ کر رہیں۔
 
Top