• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلع اور طلاقِ ثلاثہ کے بعض احکام

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791

ماہنامنہ محدث ،شمارہ: {342 }سال :2010 .جلد :42
فضیلۃ الشیخ صلاح الدین یوسف

اِن دنوں وفاقی شرعی عدالت میں خلع اور طلاق کے حوالے سے درپیش روزمرہ مسائل کے حوالے سے ایک درخواست زیر سماعت ہے جس میں رہنمائی اور مشاورت کے لئے عدالت مذکور نے ایک سوال نامہ گذشتہ دنوں اِدارئہ محدث کو ارسال کیا۔اِدارہ نے یہ سوال نامہ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کردیا، جس پر اُنہوں نے اپنا موقف حسب ِذیل تحریر میں بہ تفصیل درج کیا۔ شرعی عدالت کے سوالات کے جوابات قارئین 'محدث' کے استفادہ کے لئے شائع کیے جارہے ہیں۔ ح م
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:کیا میاں بیوی کے درمیان عدالتی تفریق(بذریعہ خلع)کے بعد میاں بیوی نکاحِ جدید کے ذریعے دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب : اس کا جواب اثبات میں ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو باہم رضا مندی اور نئے نکاح کے ذریعے سے یہ تعلق زوجیت دوبارہ بحال ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں فاضل عدالت نے جو تنقیحات مرتب کی ہیں،ان کی وضاحت بالترتیب حسب ِذیل ہے:
کیاشوہر کو طلاق کے حوالے سے مکمل اور اَٹل اختیارات حاصل ہیں؟
جی ہاں!شوہر کو یہ حق حاصل ہے، لیکن اس حق کا استعمال اسلام کی مجموعی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کی تاکید ہے یعنی اسلام نے مرد کو یہ تلقین کی ہے کہ نکاح کے بعد عورت کے ساتھ حسنِ معاشرت کا اہتمام کرے، حتیٰ کہ اگر اس کو بیوی کی بعض باتیں ناپسند ہوں، تب بھی اس کے ساتھ نباہ کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} (النسائ:۱۹)
''اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو، پھر اگر تم ان کو ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی ڈال دے۔''
اسی بات کو رسول اللہﷺ نے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:
لا یضرك مؤمن مؤمنة،إن کرہ عنھا خُلقًا رضي منھا آخر
''کوئی مؤمن مرد (شوہر)کسی مؤمن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔'' (صحیح مسلم: ۱۴۶۷)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
واستوصوا بالنساء خیرًا، فإنَّ المرأة خلقت من ضلع،وإن أعوج شيء في الضلع أعلاہ، إن ذھبت تقیمه کسرته وإن ترکته لم یزل أعوج، استوصوا بالنساء خیرًا (صحیح مسلم: ۱۴۶۶)
''تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو۔ اس لیے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کرسکو گے) اور اگر تم اِسے چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔'' (اسکے ساتھ نباہ کرنے کا یہی طریقہ ہے)
عورت کے ساتھ نباہ کرنے کے دو اہم اُصول ،مذکورہ دو حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں:
1۔ اس میں جوخوبیاں ہیں، ان پرنظر رکھو اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردو۔
2۔ مرد کے مقابلے میں عورت جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور عقلی و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی فرو تر۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت کی کوتاہیوں پر صبر و ضبط اور حوصلہ و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مردانگی و فرزانگی کے زعم میں عورت کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ عورت تو سیدھی نہیں ہوسکے گی البتہ گھر کے اُجڑنے تک نوبت پہنچ جائے گی۔
بدقسمتی سے عام مسلمانوں میں اِسلامی تعلیمات کا صحیح شعور نہیں ہے، اس لیے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ و اِحساس بھی نہیں ہے اور یوں ایسے گھر امن و سکون کا گہوارہ ہونے کے بجائے ، جہنم کدے بنے ہوئے ہیں۔
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ مرد جہالت کی وجہ سے طلاق دینے کا صحیح اور شرعی طریقہ بھی اختیار نہیں کرتے،جو یہ ہے کہ نباہ کی ساری صورتیں اختیار کرنے کے بعد اگر نباہ ناممکن ہوجائے اور جدائی کے بغیر چارہ نہ ہو تو مرد عورت کے حیض سے پاک ہونے کے بعد اس سے صحبت نہ کرے اور حالت ِطہر میں اسے ایک طلاق دے دے، طلاق کی عدت تین حیض (یا تین مہینے) ہیں۔ ان ایام میں عورت کے لیے حکم ہے کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ (سورۃ الطّلاق) تاکہ اس دوران میں شاید اللہ تعالیٰ صلح ورجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ اگر صلح کی صورت نہیں بنتی اور عدت گزر جاتی ہے تو اب عورت اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے گھر چلی جائے، عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اب کوئی تعلق خاوند سے باقی نہیں رہا، اس لیے خاوند کے گھر رہنے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔
اس طریقۂ طلاق میں جو احسن اور شرعی طریقہ ہے، اس کے بہت سے فوائد ہیں:
ا۔ ہوسکتا ہے طلاق دینے کے بعد خاوند کا دل پسیج جائے، یاتنہائی کا احساس اسے پریشان کرے، یابچوں کے مستقبل کا اِحساس اس کے اندر اپنے فیصلے پرنظرثانی کا احساس پیدا کردے، یا گھریلو اُمور و معاملات کی دشواریاں اس کو سوچنے پر مجبور کردیں، وغیرہ وغیرہ
ب۔اس قسم کی تمام صورتوں میں تمام مکاتب ِفکر کے نزدیک بالاتفاق عدت کے اندر رجو ع کرنا اور عدت گزر جانے کی صورت میں بذریعۂ نکاح جدید دوبارہ تعلق بحال کرنا جائز ہے۔ کسی اور موقع پر اگر وہ پھر طلاق دے دے گا، بشرطیکہ ایک طلاق دے گا، تو پھر بھی بالاتفاق عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے پر نکاحِ جدید کرنا جائز ہوگا۔
ج ۔لیکن اس احسن اور شرعی طریقے کے بجائے، ذرا ذرا سے اشتعال اور معمولی معمولی جھگڑوں پربیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں، پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا بچوں کے مستقبل کا معاملہ سامنے آتا ہے، یا تنہائی کا احساس ستاتا ہے یا بیوی کا پیار اسے یاد آتا ہے تو پھرندامت کے آنسو بہاتا ہے اور علما کے پیچھے پھرتا ہے۔ اَب جن کے دلوں کو تقلیدی جمود نے پتھروں میںتبدیل کردیا ہوا ہے، ان کو ان گھروں کے اُجڑنے کا، بچوں کا مستقبل برباد ہونے اور دیگر معاشرتی قباحتوں اور خرابیوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کی طرف رجوع کرنے والوں کویہی کہتے ہیں: ''اب کیا ہوت، جب چُگ گئیں چڑیاں کھیت''
یا پھربے غیرتی اور لعنتی فعل حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
حالانکہ بیک وقت تین طلاقیں دینا بالاتفاق یکسر ناجائز ہے اور نبی1 نے اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا ہے اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔
بہرحال بات یہ ہورہی تھی کہ مرد کو طلاق دینے کا بلاشبہ مکمل اختیار حاصل ہے جو شریعت اسلامیہ نے اسے عطا کیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد اپنا یہ حق طلاق غیر شرعی، غیر دانش مندانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں جس سے بے شمار گھر برباد ہورہے ہیں اور یہ طریقہ متعدد خرابیوں کا باعث بن رہا ہے۔

چندسال قبل اَخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش اس سلسلے میں شائع ہوئی تھی جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ سفارش بڑی اہم تھی اور ہے، کاش اس پر کوئی قانون سازی ہوسکے اور اس میں ان وکیلوں اور عرضی نویسوں کو بھی قابل سزا قرار دیا جائے جو بیک وقت تین طلاقیں لکھ کر عوام کو دیتے ہیں۔

سوال: کیا بیوی کو حاصل اختیار، بابت خلع بواسطہ قاضی، محدود اور خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:اس سوال کا جواب دینے سے قبل خلع کی حقیقت بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول1) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔
یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔
لیکن یہاں بھی اکثر و بیشتر مردوں کا معاملہ شریعت ِاِسلامیہ کی ہدایات کے خلاف ہی ہوتا ہے بلکہ بہت سے جامد فقہاء و علماء عورت کے اس حق خلع ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ إنا ﷲ وإنا إلیه راجعون،حالانکہ یہ قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ و قویہ کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔
اکثر مرد عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ عدالت میں لے جانا پڑتاہے اور فریقین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود عدالت کے بار بار سمن جاری کرنے کے خاوند عدالت ہی میں حاضر نہیں ہوتا، بالآخر عدالت یک طرفہ فیصلے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ خلع کی ڈگری جاری کرکے عورت کی گلو خلاصی کراتی ہے۔یہاں بھی جامد فقہا یہ موشگافی کرتے ہیں (اللہ ان کو ہدایت دے) کہ خاوند کے طلاق دیئے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ کیا یہ مفتی حضرات یہ چاہتے ہیں کہ ایسی عورت یوں ہی بے یاروومدد گار بیٹھی خون کے آنسو روتی رہے اور کہیں سے اس کی داد رَسی نہ ہو۔
بہرحال فاضل عدالت کے سوال کا جواب یہ ہے کہ عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
سوالC: کیا ایک مجلس کی تین طلاق کو تمام حالات اور بہر صورت تین ہی تصور کیا جائیگا؟
جواب:بلا شبہ مذاہب ِاَربعہ کے فقہا اسے تین طلاقیں ہی شمار کرتے ہیں، لیکن اس پر اِجماع نہیں ہے اور نہ مذاہب ِاَربعہ کا اتفاق اجماع کے مترادف ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دونوں دعوے کرتے ہیں۔
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ1کے زمانے میں، ابوبکر ؓکی خلافت میں اور حضرت عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی د و سالوں تک ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
مسنداحمد میں حضرت رکانہ ؓ کا واقعہ موجود ہے، اُنہوں نے تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ سخت نادم ہوئے۔ رسول اللہ1 کے استفسار پرجب اُنہوں نے یہ بتایا کہ اُنہوں نے یہ طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں تو آپ1 نے اُنہیں رجوع کرنے کی اجازت دے دی، اور اُنہوں نے رجوع کرلیا۔
صحابہ کرام کے دور میں آج تک علما اور فقہا کا ایک عظیم گروہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتا چلا آرہا ہے اور آج بھی متعددعلماے احناف اس مسلک کی صحت کے قائل ہیں اور اپنے ہم مسلک علماے کرام کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ ''طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر جمود نے عوام کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کررکھی ہیں، اس کا حل یہی ہے کہ اہلحدیث کے موقف کواس مسئلے میں اپنایا جائے۔''
علاوہ ازیں فقہ حنفی میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اگرتو طلاق دینے والے کی نیت صرف طلاق دینے کی تھی، تین طلاق کی نیت نہیں تھی، تو اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل، علمائے احناف کے ایک طلاق ہونے کے فتاویٰ اور دیگر مباحث کے لیے راقم کی کتاب ملاحظہ فرمائیں، جس کا نام ہے :
ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل
مشاہیر اُمت اور متعدد علمائے احناف کی نظر میں
اس کا ایک نسخہ فاضل عدالت کے ملاحظہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ الشریعۃگوجرانوالہ کے شمارہ بابت جولائی ۲۰۱۰ء میں مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم، کراچی کا ایک فتویٰ 'مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار کرنے' کا شائع ہوا ہے اور اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ مخصوص حالات میں اس مسلک کو اختیار کرنا جائز ہے۔
سوالD: کیا حکومت ِوقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تین طلاق کے بعد خاوند کی طرف سے حلالہ کی شکل میں جو حیلہ اختیار کیا جاتا ہے، اُس کے تدارک کے لیے کوئی قدم اُٹھائے۔
جواب: یقینا ایک اسلامی حکومت کو یہ اختیار ہی نہیں بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ حرام کاری کی اس صورت کا سد ِباب کرے جو مذہب کے نام پر جاری ہے۔ رسول اللہ1 نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوںپرلعنت فرمائی ہے:0لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ9 (جامع ترمذی:۱۱۱۹)
دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ ﷺ (تفسیر ابن کثیر :زیرآیة فإن طلقھا فلا تحل له من بعد... الآیة)
''ہم رسول اللہ کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو 'زنا' سمجھتے تھے۔''
اور حضرت عمرؓ نے فرمایا:
لا أوتي بمحلل ولا محلل له إلا رجمتھما (تفسیر ابن کثیرتحت آیت ِ مذکور)
''حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میںدونوں کو رجم کردوں گا۔''
جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو حکومت ِوقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں، سزا تجویز کرے۔
سوالE: بدنیتی پر مبنی حیلہ بابت حلالہ پر عمل پیرا شخص کو سزاے رجم کی مناسبت سے حضرت عمرؓ سے منسوب قول کی صحیح تشریح کیا ہے؟
جواب: حضرت عمرؓ کے اس قول کی صحیح تشریح یہی ہے کہ اس حلالے کو حرام قرار دے کر اس پر حد ِزنا نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔اسکے علاوہ اسکی کوئی اور تشریح نہیں ہے۔
سوالF: اگر مذکورہ بالا اُمور جرم کے زمرے میں آتے ہیں تو کیا حکومت ِوقت ان جرائم کے لیے کوئی سزا مقرر کرسکتی ہے؟
جواب:مذکورہ بالا اُمور یقیناجرم ہیں اور حکومت کو ان کے سد ِباب کے لیے ضرور سزا مقرر کرنا چاہئے۔
سوالG: کیا حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں موجود طلاق سے متعلق اَحکام کی روشنی میں بوقت ِطلاق گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دے؟
جواب:اگر ایسا کرنا ممکن ہو توگواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا جائے، لیکن راقم کے خیال میں ایسا کرنا بظاہر نہایت مشکل ہے، کیونکہ بالعموم طلاق اشتعال اور غصے میں دی جاتی ہے اور اکثر گھر میں سوائے بیوی یا بچوں کے کوئی نہیں ہوتا اور قوم کی جو اَخلاقی حالت ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، اس میں اس طرح جھوٹ کا دروازہ کھلنے کا بہت امکان ہے۔
اس کے بجائے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور وکیلوں اور عرائض نویسوں کے لیے بھی سزا تجویز کی جائے تاکہ وہ طلاق نامہ لکھتے وقت صرف ایک طلاق ہی لکھیں اور یہ پوچھ کر لکھیں کہ بیوی کس حالت میں ہے؟ اور پھر وہ مسئلے کی وضاحت کرکے اس کو کہیں کہ جب بیوی کے ایامِ طہر ختم ہوجائیں اور وہ پاک ہوجائے تو پھر اس سے صحبت کیے بغیر ہمارے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آنا۔
اس طرح کی قانون سازی اور اس پر پوری سختی سے عمل در آمدسے اور اس کو صحیح طریقے سے مشتہر کرنے سے پچاس فیصد سے زیادہ طلاق دینے کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے بلکہ راقم کے خیال میں ۸۰ فیصد اِمکانات کم ہوجائیں گے۔ بشرطیکہ حکومت مخلص ہو اور سختی سے اس قانون پر عمل درآمد کراسکے۔اوریہ وقت کی ایک نہایت اہم ضرورت بھی ہے۔
حکومت لاکھوں نہیں کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہے ،اس قانون کی بھی وہ اَخبارات اور ٹی وی وغیرہ پر پبلسٹی کرے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوجائیں اور آئندہ کے لیے محتاط ہوجائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں طلاق دہندہ اور عرضی نویس وکیل دونوں کوسزا دینے میں کوئی نرمی اور رو رعایت سے کام نہ لے۔
ھٰذا ما عندي واﷲ أعلم بالصواب!
 
Last edited:

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔السلام علیکم
بھائی کیا خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی یہ تین مجالس میں ؟
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
خلع اور طلاقِ ثلاثہ کے بعض احکام
ماہنامنہ محدث ،شمارہ: {342 }سال :2010 .جلد :42
صلاح الدین یوسف
اِن دنوں وفاقی شرعی عدالت میں خلع اور طلاق کے حوالے سے درپیش روزمرہ مسائل کے حوالے سے ایک درخواست زیر سماعت ہے جس میں رہنمائی اور مشاورت کے لئے عدالت مذکور نے ایک سوال نامہ گذشتہ دنوں اِدارئہ محدث کو ارسال کیا۔اِدارہ نے یہ سوال نامہ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف  کی خدمت میں پیش کردیا، جس پر اُنہوں نے اپنا موقف حسب ِذیل تحریر میں بہ تفصیل درج کیا۔ شرعی عدالت کے سوالات کے جوابات قارئین 'محدث' کے استفادہ کے لئے شائع کیے جارہے ہیں۔ ح م
سوال:کیا میاں بیوی کے درمیان عدالتی تفریق(بذریعہ خلع)کے بعد میاں بیوی نکاحِ جدید کے ذریعے دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے ہیں؟
جواب : اس کا جواب اثبات میں ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو باہم رضا مندی اور نئے نکاح کے ذریعے سے یہ تعلق زوجیت دوبارہ بحال ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں فاضل عدالت نے جو تنقیحات مرتب کی ہیں،ان کی وضاحت بالترتیب حسب ِذیل ہے:
کیاشوہر کو طلاق کے حوالے سے مکمل اور اَٹل اختیارات حاصل ہیں؟
جی ہاں!شوہر کو یہ حق حاصل ہے، لیکن اس حق کا استعمال اسلام کی مجموعی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کی تاکید ہے یعنی اسلام نے مرد کو یہ تلقین کی ہے کہ نکاح کے بعد عورت کے ساتھ حسنِ معاشرت کا اہتمام کرے، حتیٰ کہ اگر اس کو بیوی کی بعض باتیں ناپسند ہوں، تب بھی اس کے ساتھ نباہ کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} (النسائ:۱۹)
''اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو، پھر اگر تم ان کو ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی ڈال دے۔''
اسی بات کو رسول اللہ1 نے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:
لا یضرك مؤمن مؤمنة،إن کرہ عنھا خُلقًا رضي منھا آخر
''کوئی مؤمن مرد (شوہر)کسی مؤمن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔'' (صحیح مسلم: ۱۴۶۷)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ1 نے فرمایا:
واستوصوا بالنساء خیرًا، فإنَّ المرأة خلقت من ضلع،وإن أعوج شيء في الضلع أعلاہ، إن ذھبت تقیمه کسرته وإن ترکته لم یزل أعوج، استوصوا بالنساء خیرًا (صحیح مسلم: ۱۴۶۶)
''تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو۔ اس لیے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کرسکو گے) اور اگر تم اِسے چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔'' (اسکے ساتھ نباہ کرنے کا یہی طریقہ ہے)
عورت کے ساتھ نباہ کرنے کے دو اہم اُصول ،مذکورہ دو حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں:
a اس میں جوخوبیاں ہیں، ان پرنظر رکھو اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردو۔
b مرد کے مقابلے میں عورت جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور عقلی و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی فرو تر۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت کی کوتاہیوں پر صبر و ضبط اور حوصلہ و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مردانگی و فرزانگی کے زعم میں عورت کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ عورت تو سیدھی نہیں ہوسکے گی البتہ گھر کے اُجڑنے تک نوبت پہنچ جائے گی۔
بدقسمتی سے عام مسلمانوں میں اِسلامی تعلیمات کا صحیح شعور نہیں ہے، اس لیے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ و اِحساس بھی نہیں ہے اور یوں ایسے گھر امن و سکون کا گہوارہ ہونے کے بجائے ، جہنم کدے بنے ہوئے ہیں۔
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ مرد جہالت کی وجہ سے طلاق دینے کا صحیح اور شرعی طریقہ بھی اختیار نہیں کرتے،جو یہ ہے کہ نباہ کی ساری صورتیں اختیار کرنے کے بعد اگر نباہ ناممکن ہوجائے اور جدائی کے بغیر چارہ نہ ہو تو مرد عورت کے حیض سے پاک ہونے کے بعد اس سے صحبت نہ کرے اور حالت ِطہر میں اسے ایک طلاق دے دے، طلاق کی عدت تین حیض (یا تین مہینے) ہیں۔ ان ایام میں عورت کے لیے حکم ہے کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ (سورۃ الطّلاق) تاکہ اس دوران میں شاید اللہ تعالیٰ صلح ورجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ اگر صلح کی صورت نہیں بنتی اور عدت گزر جاتی ہے تو اب عورت اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے گھر چلی جائے، عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اب کوئی تعلق خاوند سے باقی نہیں رہا، اس لیے خاوند کے گھر رہنے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔
اس طریقۂ طلاق میں جو احسن اور شرعی طریقہ ہے، اس کے بہت سے فوائد ہیں:
é ہوسکتا ہے طلاق دینے کے بعد خاوند کا دل پسیج جائے، یاتنہائی کا احساس اسے پریشان کرے، یابچوں کے مستقبل کا اِحساس اس کے اندر اپنے فیصلے پرنظرثانی کا احساس پیدا کردے، یا گھریلو اُمور و معاملات کی دشواریاں اس کو سوچنے پر مجبور کردیں، وغیرہ وغیرہ
éاس قسم کی تمام صورتوں میں تمام مکاتب ِفکر کے نزدیک بالاتفاق عدت کے اندر رجو ع کرنا اور عدت گزر جانے کی صورت میں بذریعۂ نکاح جدید دوبارہ تعلق بحال کرنا جائز ہے۔ کسی اور موقع پر اگر وہ پھر طلاق دے دے گا، بشرطیکہ ایک طلاق دے گا، تو پھر بھی بالاتفاق عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے پر نکاحِ جدید کرنا جائز ہوگا۔
éلیکن اس احسن اور شرعی طریقے کے بجائے، ذرا ذرا سے اشتعال اور معمولی معمولی جھگڑوں پربیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں، پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا بچوں کے مستقبل کا معاملہ سامنے آتا ہے، یا تنہائی کا احساس ستاتا ہے یا بیوی کا پیار اسے یاد آتا ہے تو پھرندامت کے آنسو بہاتا ہے اور علما کے پیچھے پھرتا ہے۔ اَب جن کے دلوں کو تقلیدی جمود نے پتھروں میںتبدیل کردیا ہوا ہے، ان کو ان گھروں کے اُجڑنے کا، بچوں کا مستقبل برباد ہونے اور دیگر معاشرتی قباحتوں اور خرابیوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کی طرف رجوع کرنے والوں کویہی کہتے ہیں: ''اب کیا ہوت، جب چُگ گئیں چڑیاں کھیت''
یا پھربے غیرتی اور لعنتی فعل حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
حالانکہ بیک وقت تین طلاقیں دینا بالاتفاق یکسر ناجائز ہے اور نبی1 نے اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا ہے اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔
بہرحال بات یہ ہورہی تھی کہ مرد کو طلاق دینے کا بلاشبہ مکمل اختیار حاصل ہے جو شریعت اسلامیہ نے اسے عطا کیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد اپنا یہ حق طلاق غیر شرعی، غیر دانش مندانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں جس سے بے شمار گھر برباد ہورہے ہیں اور یہ طریقہ متعدد خرابیوں کا باعث بن رہا ہے۔
چندسال قبل اَخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش اس سلسلے میں شائع ہوئی تھی جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ سفارش بڑی اہم تھی اور ہے، کاش اس پر کوئی قانون سازی ہوسکے اور اس میں ان وکیلوں اور عرضی نویسوں کو بھی قابل سزا قرار دیا جائے جو بیک وقت تین طلاقیں لکھ کر عوام کو دیتے ہیں۔
سوالB: کیا بیوی کو حاصل اختیار، بابت خلع بواسطہ قاضی، محدود اور خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے ؟
جواب:اس سوال کا جواب دینے سے قبل خلع کی حقیقت بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول1) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔
یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔
لیکن یہاں بھی اکثر و بیشتر مردوں کا معاملہ شریعت ِاِسلامیہ کی ہدایات کے خلاف ہی ہوتا ہے بلکہ بہت سے جامد فقہاء و علماء عورت کے اس حق خلع ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ إنا ﷲ وإنا إلیه راجعون،حالانکہ یہ قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ و قویہ کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔
اکثر مرد عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ عدالت میں لے جانا پڑتاہے اور فریقین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود عدالت کے بار بار سمن جاری کرنے کے خاوند عدالت ہی میں حاضر نہیں ہوتا، بالآخر عدالت یک طرفہ فیصلے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ خلع کی ڈگری جاری کرکے عورت کی گلو خلاصی کراتی ہے۔یہاں بھی جامد فقہا یہ موشگافی کرتے ہیں (اللہ ان کو ہدایت دے) کہ خاوند کے طلاق دیئے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ کیا یہ مفتی حضرات یہ چاہتے ہیں کہ ایسی عورت یوں ہی بے یاروومدد گار بیٹھی خون کے آنسو روتی رہے اور کہیں سے اس کی داد رَسی نہ ہو۔
بہرحال فاضل عدالت کے سوال کا جواب یہ ہے کہ عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
سوالC: کیا ایک مجلس کی تین طلاق کو تمام حالات اور بہر صورت تین ہی تصور کیا جائیگا؟
جواب:بلا شبہ مذاہب ِاَربعہ کے فقہا اسے تین طلاقیں ہی شمار کرتے ہیں، لیکن اس پر اِجماع نہیں ہے اور نہ مذاہب ِاَربعہ کا اتفاق اجماع کے مترادف ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دونوں دعوے کرتے ہیں۔
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ1کے زمانے میں، ابوبکر ؓکی خلافت میں اور حضرت عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی د و سالوں تک ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
مسنداحمد میں حضرت رکانہ ؓ کا واقعہ موجود ہے، اُنہوں نے تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ سخت نادم ہوئے۔ رسول اللہ1 کے استفسار پرجب اُنہوں نے یہ بتایا کہ اُنہوں نے یہ طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں تو آپ1 نے اُنہیں رجوع کرنے کی اجازت دے دی، اور اُنہوں نے رجوع کرلیا۔
صحابہ کرام کے دور میں آج تک علما اور فقہا کا ایک عظیم گروہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتا چلا آرہا ہے اور آج بھی متعددعلماے احناف اس مسلک کی صحت کے قائل ہیں اور اپنے ہم مسلک علماے کرام کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ ''طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر جمود نے عوام کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کررکھی ہیں، اس کا حل یہی ہے کہ اہلحدیث کے موقف کواس مسئلے میں اپنایا جائے۔''
علاوہ ازیں فقہ حنفی میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اگرتو طلاق دینے والے کی نیت صرف طلاق دینے کی تھی، تین طلاق کی نیت نہیں تھی، تو اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل، علمائے احناف کے ایک طلاق ہونے کے فتاویٰ اور دیگر مباحث کے لیے راقم کی کتاب ملاحظہ فرمائیں، جس کا نام ہے :
ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل
مشاہیر اُمت اور متعدد علمائے احناف کی نظر میں
اس کا ایک نسخہ فاضل عدالت کے ملاحظہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ الشریعۃگوجرانوالہ کے شمارہ بابت جولائی ۲۰۱۰ء میں مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم، کراچی کا ایک فتویٰ 'مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار کرنے' کا شائع ہوا ہے اور اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ مخصوص حالات میں اس مسلک کو اختیار کرنا جائز ہے۔
سوالD: کیا حکومت ِوقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تین طلاق کے بعد خاوند کی طرف سے حلالہ کی شکل میں جو حیلہ اختیار کیا جاتا ہے، اُس کے تدارک کے لیے کوئی قدم اُٹھائے۔
جواب: یقینا ایک اسلامی حکومت کو یہ اختیار ہی نہیں بلکہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ حرام کاری کی اس صورت کا سد ِباب کرے جو مذہب کے نام پر جاری ہے۔ رسول اللہ1 نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوںپرلعنت فرمائی ہے:0لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ9 (جامع ترمذی:۱۱۱۹)
دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ ﷺ (تفسیر ابن کثیر :زیرآیة فإن طلقھا فلا تحل له من بعد... الآیة)
''ہم رسول اللہ کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو 'زنا' سمجھتے تھے۔''
اور حضرت عمرؓ نے فرمایا:
لا أوتي بمحلل ولا محلل له إلا رجمتھما (تفسیر ابن کثیرتحت آیت ِ مذکور)
''حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میںدونوں کو رجم کردوں گا۔''
جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو حکومت ِوقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں، سزا تجویز کرے۔
سوالE: بدنیتی پر مبنی حیلہ بابت حلالہ پر عمل پیرا شخص کو سزاے رجم کی مناسبت سے حضرت عمرؓ سے منسوب قول کی صحیح تشریح کیا ہے؟
جواب: حضرت عمرؓ کے اس قول کی صحیح تشریح یہی ہے کہ اس حلالے کو حرام قرار دے کر اس پر حد ِزنا نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔اسکے علاوہ اسکی کوئی اور تشریح نہیں ہے۔
سوالF: اگر مذکورہ بالا اُمور جرم کے زمرے میں آتے ہیں تو کیا حکومت ِوقت ان جرائم کے لیے کوئی سزا مقرر کرسکتی ہے؟
جواب:مذکورہ بالا اُمور یقیناجرم ہیں اور حکومت کو ان کے سد ِباب کے لیے ضرور سزا مقرر کرنا چاہئے۔
سوالG: کیا حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں موجود طلاق سے متعلق اَحکام کی روشنی میں بوقت ِطلاق گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دے؟
جواب:اگر ایسا کرنا ممکن ہو توگواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا جائے، لیکن راقم کے خیال میں ایسا کرنا بظاہر نہایت مشکل ہے، کیونکہ بالعموم طلاق اشتعال اور غصے میں دی جاتی ہے اور اکثر گھر میں سوائے بیوی یا بچوں کے کوئی نہیں ہوتا اور قوم کی جو اَخلاقی حالت ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، اس میں اس طرح جھوٹ کا دروازہ کھلنے کا بہت امکان ہے۔
اس کے بجائے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور وکیلوں اور عرائض نویسوں کے لیے بھی سزا تجویز کی جائے تاکہ وہ طلاق نامہ لکھتے وقت صرف ایک طلاق ہی لکھیں اور یہ پوچھ کر لکھیں کہ بیوی کس حالت میں ہے؟ اور پھر وہ مسئلے کی وضاحت کرکے اس کو کہیں کہ جب بیوی کے ایامِ طہر ختم ہوجائیں اور وہ پاک ہوجائے تو پھر اس سے صحبت کیے بغیر ہمارے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آنا۔
اس طرح کی قانون سازی اور اس پر پوری سختی سے عمل در آمدسے اور اس کو صحیح طریقے سے مشتہر کرنے سے پچاس فیصد سے زیادہ طلاق دینے کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے بلکہ راقم کے خیال میں ۸۰ فیصد اِمکانات کم ہوجائیں گے۔ بشرطیکہ حکومت مخلص ہو اور سختی سے اس قانون پر عمل درآمد کراسکے۔اوریہ وقت کی ایک نہایت اہم ضرورت بھی ہے۔
حکومت لاکھوں نہیں کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہے ،اس قانون کی بھی وہ اَخبارات اور ٹی وی وغیرہ پر پبلسٹی کرے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوجائیں اور آئندہ کے لیے محتاط ہوجائیں اور خلاف ورزی کی صورت میںطلاق دہندہ اور عرضی نویس وکیل دونوں کوسزا دینے میں کوئی نرمی اور رو رعایت سے کام نہ لے۔ ھٰذا ما عندي واﷲ أعلم بالصواب!
؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔السلام علیکم
بھائی کیا خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی یہ تین مجالس میں ؟
محترم بھائی !
خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی ؛
کیونکہ اس میں رجوع نہیں ہوتا
سنن ابوداود ، باب في الخلع
باب: خلع کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر : 2227
عن عمرة بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، ‏‏‏‏أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية، ‏‏‏‏أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏من هذه "‏‏.‏ فقالت أنا حبيبة بنت سهل ‏.‏ قال "‏ما شأنك "‏‏.‏ قالت لا أنا ولا ثابت بن قيس ‏.‏ لزوجها فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏هذه حبيبة بنت سهل "‏‏.‏ وذكرت ما شاء الله أن تذكر وقالت حبيبة يا رسول الله كل ما أعطاني عندي ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس "‏خذ منها "‏‏.‏ فأخذ منها وجلست هي في أهلها ‏‘‘‏( قال الشيخ الألباني: صحيح )

عمرہ بنت عبدالرحمٰن، حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ یہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے جانے لگے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے پوچھا ”کیا بات ہے؟“ کہنے لگی میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں! یعنی اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں) پھر جب سیدنا ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”حبیبہ بنت سہل آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے مجھ سے بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو کچھ انہوں نے مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا ”اس سے وصول کر لو۔“ چنانچہ انہوں نے مال لے لیا اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے ہاں بیٹھ رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏‏‏‏عن عائشة، ‏‏‏‏أن حبيبة بنت سهل، ‏‏‏‏كانت عند ثابت بن قيس بن شماس فضربها فكسر بعضها فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الصبح فاشتكته إليه فدعا النبي صلى الله عليه وسلم ثابتا فقال "‏خذ بعض مالها وفارقها "‏‏.‏ فقال ويصلح ذلك يا رسول الله قال "‏نعم "‏‏.‏ قال فإني أصدقتها حديقتين وهما بيدها فقال النبي صلى الله عليه وسلم "‏خذهما ففارقها "‏‏.‏ ففعل ‏.
(سنن ابوداود ، باب في الخلع ۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حبیبہ بنت سہل، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس کی زوجیت میں تھی تو ثابت نے اس کو مارا اور اس کا کچھ توڑ بھی دیا، تب وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور شوہر کی شکایت کی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلایا اور فرمایا ”اس سے کچھ مال لے لو اور اس کو علیحدہ کر دو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ صحیح ہے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں۔“ انہوں نے کہا: میں نے اس کو مہر میں دو باغ دیے ہیں اور وہ اسی کے قبضے میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ دونوں لے لو اور اسے علیحدہ کر دو۔“ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] خلع وقت حاجت اور معقول ضرورت کے تحت مشروع ہوگا ورنہ نفاق شمار کیا جائے گا ، ارشاد نبوی ہے {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد } ۔
[۲] خلع کے لئے وقت و عدد کی وہ شرطیں نہیں ہیں جو طلاق کے لئے ہیں ، یعنی خلع حالت حیض میں ہوسکتا ہے اور ایک سے زائد بار بھی ہو سکتا ہے ۔
[۳] خلع کے بعد عورت پر عدت صرف ایک حیض ہوگی اور اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا بلکہ بصورت اتفاق عقد جدید ضروری ہے ۔

[۴] خلع میں بہتر تو یہ ہے کہ شوہر مہر سے زیادہ واپس نہ لے البتہ جائز ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بلا کسی معاوضہ کے چھوڑ دے ۔
[۵] شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ عورت کو تنگ کرے کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہو ، تاکہ مہر وغیرہ معاف کرائے ۔
[6]خلع کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاملہ میاں بیوی کی موافقت سے ہو ، کسی فریق کو مجبور نہ کیا جائے ۔
http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=1242
 

حاتم علی

مبتدی
شمولیت
اگست 27، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
2
السلامُ علیکم ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ خلع کی عدت کتنی ہے ؟ اکثر سُننے میں یہی آتا ہے کہ عدت ایک حیض ہے، تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک حیض عموما کتنی مدت ہوتی ہے دنوں میں؟
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
محترم بھائی !
خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی ؛
کیونکہ اس میں رجوع نہیں ہوتا
سنن ابوداود ، باب في الخلع
باب: خلع کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر : 2227
عن عمرة بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، ‏‏‏‏أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية، ‏‏‏‏أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏من هذه "‏‏.‏ فقالت أنا حبيبة بنت سهل ‏.‏ قال "‏ما شأنك "‏‏.‏ قالت لا أنا ولا ثابت بن قيس ‏.‏ لزوجها فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏هذه حبيبة بنت سهل "‏‏.‏ وذكرت ما شاء الله أن تذكر وقالت حبيبة يا رسول الله كل ما أعطاني عندي ‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس "‏خذ منها "‏‏.‏ فأخذ منها وجلست هي في أهلها ‏‘‘‏( قال الشيخ الألباني: صحيح )

عمرہ بنت عبدالرحمٰن، حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ یہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے جانے لگے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے پوچھا ”کیا بات ہے؟“ کہنے لگی میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں! یعنی اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں) پھر جب سیدنا ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”حبیبہ بنت سہل آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے مجھ سے بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو کچھ انہوں نے مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا ”اس سے وصول کر لو۔“ چنانچہ انہوں نے مال لے لیا اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے ہاں بیٹھ رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏‏‏‏عن عائشة، ‏‏‏‏أن حبيبة بنت سهل، ‏‏‏‏كانت عند ثابت بن قيس بن شماس فضربها فكسر بعضها فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الصبح فاشتكته إليه فدعا النبي صلى الله عليه وسلم ثابتا فقال "‏خذ بعض مالها وفارقها "‏‏.‏ فقال ويصلح ذلك يا رسول الله قال "‏نعم "‏‏.‏ قال فإني أصدقتها حديقتين وهما بيدها فقال النبي صلى الله عليه وسلم "‏خذهما ففارقها "‏‏.‏ ففعل ‏.
(سنن ابوداود ، باب في الخلع ۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حبیبہ بنت سہل، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس کی زوجیت میں تھی تو ثابت نے اس کو مارا اور اس کا کچھ توڑ بھی دیا، تب وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور شوہر کی شکایت کی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلایا اور فرمایا ”اس سے کچھ مال لے لو اور اس کو علیحدہ کر دو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ صحیح ہے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں۔“ انہوں نے کہا: میں نے اس کو مہر میں دو باغ دیے ہیں اور وہ اسی کے قبضے میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ دونوں لے لو اور اسے علیحدہ کر دو۔“ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] خلع وقت حاجت اور معقول ضرورت کے تحت مشروع ہوگا ورنہ نفاق شمار کیا جائے گا ، ارشاد نبوی ہے {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد } ۔
[۲] خلع کے لئے وقت و عدد کی وہ شرطیں نہیں ہیں جو طلاق کے لئے ہیں ، یعنی خلع حالت حیض میں ہوسکتا ہے اور ایک سے زائد بار بھی ہو سکتا ہے ۔
[۳] خلع کے بعد عورت پر عدت صرف ایک حیض ہوگی اور اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا بلکہ بصورت اتفاق عقد جدید ضروری ہے ۔

[۴] خلع میں بہتر تو یہ ہے کہ شوہر مہر سے زیادہ واپس نہ لے البتہ جائز ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بلا کسی معاوضہ کے چھوڑ دے ۔
[۵] شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ عورت کو تنگ کرے کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہو ، تاکہ مہر وغیرہ معاف کرائے ۔
[6]خلع کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاملہ میاں بیوی کی موافقت سے ہو ، کسی فریق کو مجبور نہ کیا جائے ۔
http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=1242
بہت بہت شکریہ بھائی
اللہ سبحان و تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے
اور آپ کے علم و عمل اور عزت میں برکت عطا فرمائے آمین یارب العلمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلامُ علیکم ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ خلع کی عدت کتنی ہے ؟ اکثر سُننے میں یہی آتا ہے کہ عدت ایک حیض ہے، تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک حیض عموما کتنی مدت ہوتی ہے دنوں میں؟
خلع کی مدت ایک حیض ہے یعنی:
  1. خلع اگر حالت حیض میں لیا گیا ہو تو عدت اگلے حیض کے اختتام تک کی مدت (جو تقریباً ایک ماہ ہوگی) کے مساوی ہوگی
  2. خلع اگر حالت طہر میں لیا گیا ہو تو عدت کی مدت اگلے حیض کے اختتام تک ہوگی۔ یہ مدت چند دنوں پر بھی محیط ہوسکتی ہے۔
نوٹ: جواب میں کمی بیشی کی صورت میں اہل علم سے تصحیح کی درخواست ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اگرعورت خود خلع طلب کرے تو کیا اس پر بھی عدت ہوگی ؟

الحمد للہ :

1 - خلع اصل میں بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔

2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اوریا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :

{ اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو } الاحزاب ( 49 ) ۔

3 - اورخلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :

خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جوحکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :

پہلا:

یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔

امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اورربیع بنت معوذ اوران کے چچا جوکبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اوران کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔

لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :

انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔

اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔

اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔

دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 196 / 197 ) ۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :

خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :

پہلا :

یہ کہ خاوند کواس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔

دوسرا :

اس کی تعداد تین ہے توتین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔

تیسرا :

اس میں عدت تین حیض ہیں ۔

تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پرحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/5163
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
خلع کی مدت ایک حیض ہے یعنی:
  1. خلع اگر حالت حیض میں لیا گیا ہو تو عدت اگلے حیض کے اختتام تک کی مدت (جو تقریباً ایک ماہ ہوگی) کے مساوی ہوگی
  2. خلع اگر حالت طہر میں لیا گیا ہو تو عدت کی مدت اگلے حیض کے اختتام تک ہوگی۔ یہ مدت چند دنوں پر بھی محیط ہوسکتی ہے۔
نوٹ: جواب میں کمی بیشی کی صورت میں اہل علم سے تصحیح کی درخواست ہے ۔
اس کا جواب میں اپنی طرف سے دینے کی بجائے ( موقع الإسلام سؤال وجواب ) کے ایک فتوی کے اقتباس سے پیش کرتا ہوں ؛

ويصح الخلع ، ولو كانت حائضا ؛ لأن الخلع لا يكون إلا بطلب من المرأة لما يلحقها من سوء عشرة زوجها، فجاز وقوعه حال الحيض لإزالة الضرر.
قال ابن قدامة رحمه الله ، أيضا : " ولا بأس بالخلع في الحيض والطهر الذي أصابها فيه ; لأن المنع من الطلاق في الحيض من أجل الضرر الذي يلحقها بطول العدة , والخلع لإزالة الضرر الذي يلحقها بسوء العشرة والمقام مع من تكرهه وتبغضه , وذلك أعظم من ضرر طول العدة , فجاز دفع أعلاهما بأدناهما , ولذلك لم يسأل النبي صلى الله عليه وسلم المختلعة عن حالها, ولأن ضرر تطويل العدة عليها, والخلع يحصل بسؤالها, فيكون ذلك رضاء منها به , ودليلاً على رجحان مصلحتها فيه " انتهى من " المغني" (7/247) .

وقال البغوي رحمه الله في تفسيره : " والخلع في حال الحيض ، أو في طهر جامعها فيه : لا يكون بدعياً ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أذن لثابت بن قيس في مخالعة زوجته من غير أن يعرف حالها ، ولولا جوازه في جميع الأحوال لأشبه أن يتعرف الحال " .
انتهى من "معالم التنزيل"(8/148) .

وجاء في " الموسوعة الفقهية" (8/326) : " ذهب جمهور الفقهاء - الحنفية والشافعية والحنابلة - إلى جواز الخلع في زمن الحيض لإطلاق قوله تعالى : ( فلا جناح عليهما فيما افتدت به ) ولحاجتها إلى الخلاص بالمفارقة حيث افتدت بالمال .
وذهب المالكية في المشهور عندهم إلى منع الخلع في الحيض " انتهى.
وينظر أيضاً "بدائع الصنائع" (3/96) و"التاج والإكليل شرح مختصر خليل" (5/304) و"مغني المحتاج" (4/498).

إذا تقرر جواز الخلع حال الحيض ، لم تخرج المختلعة من عدتها بطهرها من الحيضة التي وقع الخلع في أثنائها ، بل لا بد من أن تحيض حيضة أخرى ، ثم تطهر وتغتسل وبذلك تنقضي عدتها ؛ لأن الحيضة التي وقع الخلع فيها حيضة غير كاملة ، والعدة إنما يكون بحيضة كاملة.
قال ابن قدامة رحمه الله : " الحيضة التي تطلق فيها , لا تحسب من عدتها ، بغير خلاف بين أهل العلم ; لأن الله تعالى أمر بثلاثة قروء , فتناول ثلاثة كاملة , والتي طلق فيها لم يبق منها ما تتم به مع اثنتين ثلاثة كاملة , فلا يعتد بها.." انتهى من " المغني " (8/102) .
والله أعلم .


موقع الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عربی عبارت دو باتیں بتائی گئی ہیں؛؛
ایک یہ کہ : حالت حیض میں ’’ خلع ‘‘ ہو سکتا ہے ، یعنی حالت حیض میں خلع دینا جائز ہے ،
دوسری بات یہ کہ ::
لم تخرج المختلعة من عدتها بطهرها من الحيضة التي وقع الخلع في أثنائها ، بل لا بد من أن تحيض حيضة أخرى
ثم تطهر وتغتسل وبذلك تنقضي عدتها‘‘

جس حیض میں خلع واقع ہوئی ، اس حیض سے پاک ہونے پر عدت سے نہیں نکلے گی ،بلکہ اس سے اگلا حیض آنے کے بعد جب پاک ہوگی ،
اس وقت اس کی عدت مکمل ہوگی؛
 
Top