• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(( خلیفہ بلا فصل ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ))(حصہ:5) ((حضرت ابوبکر وعلی رضی اللّٰہ عنھما کا باہمی تعلق،حقائق کی روشنی میں ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( خلیفہ بلا فصل کون اور کیون ؟! ))

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور


خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ حضرت ابوبکر وعلی رضی اللّٰہ عنھما کا باہمی تعلق،حقائق کی روشنی میں :

♻ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی بیعت کے حوالے سے ذکر کردہ سابقہ روایات سے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا موقف بالکل واضح ہے۔ وہ خلیفہ اول کو برحق خلیفہ تسلیم کرتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ ان کے درمیان کسی طرح کی نفرت و کدورت کا تصور بھی نہ تھا۔ بلکہ پہلے سے بڑھ کر ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔ اس بات کی مزید تائید اور وضاحت کے لیے ذیل میں کچھ اور آثار و اقوال بھی ذکر کیے جاتے ہیں:

♻ ١۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند دن بعد ہی ایک روز حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نماز عصر پڑھا کر جا رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ راستے میں حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے انھیں بلا کر کندھوں پر اٹھا لیا اور مزاحًا کہنے لگے: میرے والد تم پر قربان ہوں! تم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو، علی رضی اللّٰہ عنہ سے تو تمھاری مشابہت ہی نہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کی یہ بات سن کر سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ بھی مسکرانے لگے۔(صحیح البخاری:٣٥٤٢ و أحمد بن حنبل، المسند:٤٠)

♻ ٢۔ رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے بڑا فتنہ مرتدین کا تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تدفین کے بعد سب سے پہلے لشکر اسامہ روانہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی مرتدین کی سرکوبی کے لیے لشکر تشکیل دیا۔ اس لشکر میں خود سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ بھی شریک ہوئے۔سیدنا ابوبکر رضی اسلامی فوج کے ساتھ ساتھ تلوار لہراتے جا رہے تھے۔ جب ذی القصہ مقام پر پہنچے

♻ تو سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ نے سبحان ﷲ کہا اور صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہنے لگے: اے خلیفہ رسول! آپ کدھر جا رہے ہیں؟ جو رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے روز فرمایا تھا، میں بھی آپ سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ اپنی تلوار نیچے کر لیں، ہم آپ کی فکر میں پریشانی سے دو چار نہ ہوں۔ آپ واپس مدینہ چلے جائیں۔ ﷲ کی قسم! اگر آپ کے مبتلائے تکلیف ہونے سے ہمیں پریشانی لاحق ہوئی تو پھر آپ کے بعد اسلام کبھی سنبھل نہیں پائے گا۔

♻ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کے مشورے پر حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ مدینہ پلٹ گئے،(ابن کثیر، البدایۃ والنہایہ:22/7و ابن الاثیر، الکامل:422،421/2) سبحان ﷲ! سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ تو اسلام کی سلامتی سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کی سلامتی سے وابستہ بتا رہے ہیں، جبکہ بعض لوگوں کی طرف سے انھیں باہمی حریف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

♻ ٣۔ سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی بیعت کیے جانے کے بعد لوگوں کو بیعت ختم کرنے کا اختیار بھی دیا۔ لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سمیت کسی نے ان کی بیعت نہیں توڑی۔ تین دن تک حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ خطاب میں کہتے رہے: اے لوگو! میں اس ذمہ داری کا بارِ گراں اٹھانے سے قاصر ہوں۔ جس کسی کی بیعت کرنا چاہتے ہو کر لو۔ تین دن تک کوئی کھڑا نہ ہوا۔

♻ آخر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ بھی بیعت ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ اعلان کرنے کے لیے:((وَاللّٰہِ لَا نُقِیْلُکَ وَلَا نَسْتَقِیْلُکَ أَبَدًا، قَدَّمَکَ رَسُولُ اﷲِا تُصَلِّی بِالنَّاسِ فَمَنْ ذَا یُؤَخِّرُکَ؟))(أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:151،132/1و الآجری، الشریعہ،ص:573)"ﷲ کی قسم! ہم نہ تو آپ کی بیعت ختم کریں گے اور نہ کبھی بیعت سے مستعفی ہونے کا آپ سے مطالبہ کریں گے۔ آپ کو رسول ﷲ رضی اللّٰہ عنہ نے نماز کے لیے لوگوں کا امام مقرر فرمایا ہے، اب اس (امامتِ کبریٰ) سے بھلا آپ کو کون ہٹا سکتا ہے؟

♻ ٤۔ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کی موجودگی ہی میں نہیں، بلکہ اپنے دورِ خلافت میں بھی انھیں امت کا افضل ترین فرد قرار دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ دورانِ خطاب پہلے پوچھا کرتے: کیا میں تمھیں ایسی شخصیت کے بارے میں نہ بتاؤں جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ کے بعد اس امت کے افضل ترین فرد ہیں؟

♻ پھر خود ہی بتایا کرتے کہ وہ ابوبکر ہیں۔ اس کے بعد پھر پوچھا کرتے: کیا میں ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کے بعد اس امت کی افضل ترین ہستی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ کہہ کر خود ہی بتا دیتے کہ وہ عمر رضی اللّٰہ عنہ ہیں۔( أحمد بن حنبل، المسند:٨٣٣ و الطبرانی، المعجم الکبیر:١٧٧) سبحان ﷲ! کس قدر پاک باز ہستیاں تھیں، کسی کے بارے میں کوئی حسد اور کینہ نہ تھا۔ ایک دوسرے کے فضائل و مناقب کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ نمود و نمائش اور حرص و ہوس سے یہ ہستیاں یکسر پاک تھیں۔

♻ ٥۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہاں تک اعلان کروا رکھا تھا کہ جو بھی مجھے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنھما پر فضیلت دے گا میں اسے بطورِ سزا بہتان طراز جتنے کوڑے لگاؤں گا۔(ابن أبی عاصم، کتاب السنہ: 1219و أحمد بن حنبل، فصائل الصحابہ:294،83/1)

♻ ایسے بیسیوں دلائل ہیں جن سے خلفائے اربعہ کی باہمی محبت و ہمدردی اور خیر خواہی کا واضح پتہ چلتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں کوئی عداوت و مخالفت نہ تھی۔ اگر کسی کو دوسرے پر تحفظات ہوتے بھی تو اس کا فوراً اظہار کر کے ختم کر لیتے۔ وہ دل و جان سے ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔
 
Top