• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

''خوارج'' ۔ اہل سنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
''خوارج''
وہ سب سے پہلا فرقہ ہے جس نے گمراہی اختیار کی ۔یہ لوگ بہت زیادہ عبادت اور قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ ظاہراًان کا مقصد قرآن مجید کی اتباع تھا مگرقرآن کے مفہوم کی بے جا تاویلات کرتے تھے اور اپنی رائے کو مقدم رکھتے تھے انہوں نے سنت اور فہم صحابہ کو کوئی اہمیت نہ دی قرآن مجید کی آیت کامفہوم سمجھا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔جنہوں نے اس آیت کو ان سے مختلف انداز میں سمجھا انہیں کافر قرار دیا اور انہیں قتل کیا۔ حالانکہ صحابہ کرام؇ کافہم ان کے فہم سے بہتر تھا۔ اور جو کچھ صحابہ کرام؇ نے سمجھا تھاوہی حق تھا ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہ اترے گا۔ یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔اگر میں انہیں پائوں تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں'' (بخاری ۳۳۴۴۔مسلم ۱۰۶۴)

عبیداللہ بن ابی رافع؄ سے روایت ہے کہ'' خارجیوں نے کہا : لا حکم الا للہ۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے ۔ علی؄ نے فرمایا'' یہ کلمہ حق سے باطل مفہوم اخذ کر رہے ہیں''(مسلم ۱۰۶۶)

''خوارج'' لا حکم الا للہ کہہ کر علی اور معاویہ؆اور ان کے مومن ساتھیوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے رہے تھےگویا کلمہ حق سے ایک باطل مفہوم لے رہے تھے۔

ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
''خوارج'' سیدنا علی؄ اور سیدنا معاویہ؄ وغیرہ صحابہ کرام کو کافر کہتے تھے۔ ان پر سب و شتم کرتے اورا نہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ مگر صحابہ کرام انہیں کافر اور مشرک قرار نہیں دیتے تھے۔ خوارج کی شدت کا اندازہ کیجئے کہ سیدنا علی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک اونچی آواز سے کہتا ہے '' لئن اشرکت لیحبطن عملک''( اگر آپ شرک کریں گے تو آپ کے اعمال برباد ہو جائیں گے، یعنی اس نے یہ کہا کہ آپ مشرک ہیں اور آپ کی یہ نمازیں کسی کام کی نہیں ہیں)

سیدنا علی؄ نے نماز ہی میں فرمایا'' فاصبر ان وعد اللہ حق'' صبر کرو اللہ کا وعدہ حق ہے۔ (طبری،ج:۵،ص:۵۴،حاکم،ج:۳،ص:۱۴۶)

ان کے بارے میں صحیح بخاری میں منقول ہے کہ
'' لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ فاینما لقیتموھم فاقتلوھم۔''
ان کا ایمان ان کے نرخرے سے آگے نہیں بڑھے گا ، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ تم انہیں جہاں پاؤ قتل کر دو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ کرام نے ان کو فرمان نبوی کے مطابق قتل کیا۔ مگر مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں کا سا معاملہ ان کے ساتھ نہیں کیا۔ ان کے اموال کی حرمت کو بھی تسلیم کیا اور اس کو تقسیم نہیں کیا۔

بلکہ سیدناعلی؄ سےپوچھا گیا:امشرکون ھم؟ قال: من الشرک فروا،قیل فمنافقون؟قال ان المنافقین لا یذکرون اللہ الا قلیلا قیل:فما ھم؟ قال :قوم بغوا علینا فقاتلنا ھم''

'' کہ کیا وہ مشرک ہیں سیدنا علی؄ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔ کہا گیا کیاوہ منافق ہیں؟ فرمایا: منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں (مگر یہ ایسے نہیں،بڑے عبادت گزار ہیں) پوچھا گیا یہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا: انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے ۔''(ابن ابی شیبہ رقم۳۷۹۴۲، بیہقی،ج:۸،ص:۱۷۴)

بلکہ سیدنا علی؄ نے اپنے قاتل عبدالرحمن بن عمرو بن ملجم الحمیری کے بارے میں فرمایا:

''لا تقتلوا الرجل فان برئت فالجروح قصاص وان مت فاقتلوہ'' کہ اسے قتل نہ کرنا اگر میں صحت یاب ہو گیا تو زخموں کا بدلہ لیا جائے اور اگر فوت ہو گیا تو پھر قصاص میں قتل کر دینا۔(ابن ابی شیبہ،بیہقی وغیرہ)
لہٰذا جب صحابہ کرام نے انہیں اتنے جرائم کے باوجود کافر قرار نہیں دیا تو شرک اور کفر صریح کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے جرم کی وجہ سے کسی کو کافر و مشرک کہنا اور انہیں خارج از ملت قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟(مقالات تربیت :ص ۱۹۲،۱۹۱)

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب خوارج کے ان مظالم کے باوجود ہمارے آئمہ نے عدل سے کام لیتے ہوئے انہیں کافر نہیں کہا تو ہمیں بھی کسی گروہ کو کافر اس بنیاد پر نہیں کہنا چاہیے کہ اس نے ہمارے علمائے کرام کو شہید کیا یا ہمارے مال کو لوٹا یا ہماری مساجد پر قبضہ کیا یا آگ لگائی،ہمیں عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا ہے ،صرف اسے ہی کافر کہنا ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہو کیونکہ تکفیر حکم شرعی ہے۔

امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

''خوارج ''کے ساتھ نبی کریمﷺ نے قتال کرنے کا حکم دیا اورامیر المؤمنین علی بن ابی طالب؄ نے ان کے ساتھ عملاً قتال کیا ۔

خوارج کے ساتھ قتال پر صحابہ ،تابعین اور ان کے بعد آنے والے متفق تھے ۔ (لیکن اس کے باوجود )سیدناعلی ،سیدناسعد بن ابی وقاص اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ؇ نے انہیں کافر قرار نہیں دیا اور انہیں مسلمان ہی سمجھا......یہ لوگ کہ جن کی گمراہی نص اور اجماع کے ذریعے ثابت ہے نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کے ساتھ قتال کا بھی حکم دیا ہے جب یہ کافر قرارنہیں دیے گئے تو پھر اُن اختلاف کرنے والے گروہوں کی تکفیر کیسے درست ہو گی جن پرایسے مسائل میں حق مشتبہ ہوا ہے کہ جن مسائل میں ان سے زیادہ علم والوں نے بھی غلطی کھائی ہے ؟...''(مجموع الفتاویٰ :جلد۳ص۲۸۲)

امام ابن تیمیہ نے غیر کفریہ بدعت کی طرف دعوت دینے والے کی تکفیر کرنے کو غلط قرار دیا ہے ۔اس بات کی دلیل کے طور پر خوارج کو پیش کیا ہے جو اپنی بدعت کو سب سے زیادہ ظاہر کرنے والے بلکہ اس کی اساس پر قتال کرنے والے تھے مگر اس کے باوجود سیدنا علی اور دیگر صحابہ نے ان کی تکفیر نہیں کی 'بلکہ انہیں ظالم اور حد سے نکلے ہوئے مسلمان قرار دیا۔ (مجموع الفتاویٰ:جلد۷،ص۲۱۷ )
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
البتہ'' خوارج'' میں بھی بعض ایسے گروہ موجود تھے جنہیں علمائے کرام نے کافر اور اسلام سے خارج قرار دیا ۔

امام ابو منصور بغدادی نے خوارج کے دو فرقوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک یزید بن ابی انیسہ خارجی کے پیروکار تھے جس نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ عجمیوں میں ایک رسول بھیجے گا جس پرکتاب نازل فرمائے گا اور وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا ۔ ان کا ایک فرقہ میمونیہ نے سورت یوسف کے قرآن ہونے کا یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسی سورت قرآن کس طرح ہو سکتی ہے جس میں داستان محبت بیان کی گئی ہو (الفرق بین الفرق بحوالہ اسلامی مذاہب)
 
Top