• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی نامہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
تیسرا نظریہ:
’’بعض سر پھرےاور عقل کے بیری لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت نہیں ہے اور اس دعویٰ پر ان کی دلیل یہ ہے کہ جنتی مرد بے ریش ہوں گےلہٰذا اگر واقعی داڑھی خوبصورتی کی علامت ہوتی تو جنت میں بھی مرد کو داڑھی عطا کی جاتی۔‘‘
اس نامعقول نظریے کا جواب یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار زمانے ، حالات اور قوموں کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ زمانہ نبوی ﷺ اور اس سے قبل بھی داڑھی مرد کی اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی کی واحد علامات تھیں اور مرد اور عورت کے سراپے میں سب سے نمایاں چیز جسے دلکشی اور خوبصورتی سے تعبیر کیا جاسکتا تھا بالترتیب داڑھی اور سر کے بال ہی تھے۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے: ’’ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب‘‘ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کیلئے جن کی داڑھیاں ہوں مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے ساتھ خوبصورتی بخشی۔ ( مسند الفردوس ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488)
اس حدیث کی اسنادی حیثیت چاہے کمزور ہو یا موضوع لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ پہلے زمانوں میں جب انسان کسی حد تک فطرت پسند تھا عورت کے لمبے بال اور مرد کی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔ اب چونکہ اللہ نے اپنے رسول کو کامل بنایا تھا اور ہر اچھے وصف اور ہر اس چیز سے دل کھول کر نوازا تھا جسے اس زمانے اور ماحول میں مرد کے لئے خوبصورتی سمجھا جاتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ بھی داڑھی والے تھے اور یہ داڑھی مکمل طور پر خوبصورت تھی اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں تھی جو بدنما لگے لہٰذا نبی کریم ﷺ کی داڑھی گھنی تھی کیونکہ ہلکی داڑھی خوبصورتی سے خارج سمجھی جاتی ہے اسی طرح داڑھی کی لمبائی بھی معتدل تھی کیونکہ حد سے لمبی داڑھی خوبصورت معلوم نہیں ہوتی اسکے علاوہ داڑھی کالی تھی کیونکہ سفید داڑھی خوبصورتی کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چالیس سال کی عمر میں کافی حد تک داڑھی سفید ہوجاتی ہے لیکن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا اور وفات تک نبی ﷺ کے اتنے بال ہی سفید تھے جو دیکھنے پر نظر بھی نہیں آتے تھے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ کے سراپے میں ہر چیز محض خوبصورت نہیں بلکہ معیاری خوبصورتی کی حامل تھی۔ یاد رہے کہ اگر زمانہ نبوت یا عرب کے ماحول میں داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے رسول کو داڑھی عطا نہ فرماتا کیونکہ رسول و نبی کو مرجع خلائق بنانے کے لئے اس سے ہر وہ چیز دور کردی جاتی ہے جو اس کی شخصیت میں کوئی عیب پیدا کرنے کا سبب بنےاور اس کی شخصیت ایسی بنا دی جاتی ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خوبصورتی سے متاثر ہوکرلوگ ان کی جانب کچھے چلے آئیں ۔ اس نقطہ کے بعد کہ نبی و رسول کو ہر چیز اعلیٰ،معیاری اور خوبصورت عطا کی جاتی ہے پھر چاہے وہ خاندان ہو، سراپا ہو یا عادتیں ہر وصف میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی والے اس لئے تھے کہ اس وقت مرد کے لئے خوبصورتی کا اعلیٰ معیارداڑھی والا ہوناہی تھا۔اب چونکہ ایک مسلمان ہر چیز میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتا ہے اور ہر اس چیز سے محبت رکھنا اسکے ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے رسول ﷺ کو پسند اور مرغوب تھی اس لئے قیامت تک ایک مسلمان مرد کے لئے داڑھی خوبصورتی ہی کی علامت رہے گی۔اب رہی یہ بات کہ جنت میں مرد کیوں بے ریش ہوگا تو عرض ہے کہ زمانے اور حالات کے لحاظ سے اس وقت خوبصورتی کے معیار کو تبدیل کردیا جائےگا جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ سونے کے زیوارت سے لدے پھندے ہوتے تھےجس میں سونے اور ہیرے جواہرات کے ہار، ہاتھوں میں کنگن اور کانوں میں بالے اور کئی قسم کے دوسرے زیورات شامل ہوتے تھے کیونکہ ان زمانوں یا قوموں میں یہ مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت تھی لیکن جب اسلام آیا اور سونے کو مرد پر حرام قرار دیا گیا اور زیورات عورتوں کی مشابہت کی بنا پر مردوں کے لئے ممنوع ہوئے تو اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمان مردوں کے لئے خوبصورتی کا معیار تبدیل ہوگیا ۔ اب ایک مسلمان مرد کی نظر میں سونے کے زیورات پہنے ہوا مرد انتہائی بدصورت ، بدنمااور کریہہ صورت قرار پائے گا لیکن چونکہ خوبصورتی اور بدصورتی کا یہ معیار جنت میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں مرد کو سونے کے زیورات اور ریشم پہنایا جائے گا اس لئے جنت میں یہ چیزیں بدصورتی کے معیار سے تبدیل ہوکر خوبصورتی کی نشانی و علامت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس بارے میں اگر کوئی کچھ کہنا ہی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہے لیکن جنت میں بے ریش ہونا مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص دنیا میں داڑھی صاف کرواکر خود کو خوبصورت سمجھتا ہے کیونکہ جنت میں بھی داڑھی نہ ہوگی تو وہ نہ صرف احمق ہے بلکہ زبان حال سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر طعن کرنے والا بھی ہے کیونکہ وہ داڑھی منڈا ہوکر خود کو خوبصورت سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر اور نظریے میں نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک خوبصورت نہیں تھا کیونکہ وہ گھنی اور بڑی داڑھی والے تھے۔ کوئی لاکھ انکار کرکے لیکن ایسے نظریے کا نتیجہ تو یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
داڑھی کو خوبصورتی کے معیار سے خارج کرنے کے لئے جنتی مرد کی مثال پیش کرنا دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں رکھتاکیونکہ جنتی مرد کے جسم پر سرے سے کوئی بال ہی نہیں ہوگانہ مونچھیں ،نہ داڑھی ، نہ زیرناف اور بغل کے بال اور نہ ہی ہاتھوں ،پیروں اور سینے پر کسی قسم کا کوئی بال لہٰذا مخصوص کرکے یہ کہنا کہ جنتی مرد بغیر داڑھی کا ہوگا غلط ہے کیونکہ جنتی مردمکمل بے ریش ہوگا جس میں دیگر بالوں کے ساتھ ساتھ داڑھی بھی خودبخود شامل ہے۔یہ تو جنتی مرد کی خصوصیت ہے لیکن اگر ہم ایک بالغ مرد کے لئے دنیاوی خوبصورتی کے معیار پر نظر ڈالیں تو خواتین اور لڑکیاں ایسے مردوں کو بالکل پسند نہیں کرتیں جن کے جسم پر کوئی بال ہی نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں آدمی مرد کم اور عورت زیادہ لگتا ہے کیونکہ جسم پر بالوں کا بالکل پایا نہ جانا خاص زنانہ خوبصورتی ہے اور ظاہر ہے اسی چیز کامردوں میں پایا جانا بدصورتی کی علامت ہے۔پس معاملہ صاف ہے کہ مردوں کے لئے دنیا میں بال ہونا صنف مخالف کی نظر میں خوبصورتی کی علامت ہے جبکہ آخرت میں اس کی خوبصورتی میں بال شامل نہیں ہوں گے۔یا یوں کہہ لیں کہ اللہ جنت میں انسانوں کی فطرت کو تبدیل کردے گا وہاں بغیر بالوں والا مرد خوبصورت سمجھا جائے گا جبکہ دنیا میں بالوں والے مرد کو خوبصورت، حسین، پرکشش اور وجیہہ سمجھا جاتا ہے۔یہ صرف معیار حسن کی تبدیلی کی بات ہے جو زماں و مکاں کے لحاظ سے بدل جائے گی۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں جنتی مرد کے لئے ’’امرد‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ایسا نابالغ لڑکا جس کے جسم پر ابھی قدرتی طور پر بال ہی نہ اگیں ہوں۔ ملاحظہ ہو: ’’عن أبی هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم أهل الجنة جرد مرد کحلی لايفنی شبابهم ولا تبلی ثيابهم.‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جنتی بغیر بال کے ’’امرد‘‘وسرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے۔(سنن الترمذی، ابواب صفۃ الجنۃ، رقم الحدیث: 2539)
یاد رہے کہ مخصوص حالات میں’’امرد‘‘ کا حکم عورتوں والا ہوتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے میں مردوں سےزیادہ عورتوں کے قریب ہوتا ہےاورایک بالغ مرد خوبصورت’’امرد‘‘ کی جانب اسی طرح کشش اور رغبت محسوس کرتا ہے جیسے ایک عورت یا لڑکی کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ قوم لوط میں امرد پرستی رائج تھی یعنی ایک ایسے لڑکے سے بدفعلی کی جاتی تھی جس کے جسم پر ابھی بال نہ اگے ہوں اور جیسے ہی وہ اس عمر کو پہنچتا جب اسکے داڑھی مونچھیں اور بدن پر بال آنے لگتے تو اس سے کنارہ کش ہوکر اسے چھوڑ دیا جاتاتھا ۔چناچہ عورتوں کی جانب رغبت اور میلان رکھنے والاآج کون سا بالغ مرد ایسا ہے جو ایسی صفات کو پسند کرتا ہو جس کی وجہ سے عورتوں سے زیادہ مرد اس کی طرف راغب ہونے لگیں۔ لہٰذا ایک بالغ مرد کے لئے امرد جیسا ہونا نہ صرف ایک عیب ہے بلکہ امرد کا طعنہ بھی اس کے لئے گالی ہے۔ایک امرد یا لونڈے کو ہمارا معاشرہ کس بری نظر سے دیکھتا ہے اس کا اندازہ ہمارے شعراءسے لگا لیجئے جنھوں نے عورت کی طرح امرد کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ نمونے کے طور پر بڑے اور نامور شعراء کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جو لونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے (آبرو شاہ مبارک)

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا (میر تقی میر)

کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ (میر تقی میر)

امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا (حیدر علی آتش)

یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو (قائم چاندپوری)

لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی (مصحفی غلام ہمدانی)

گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے (میر تقی میر)

باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا (میر تقی میر)
پس دنیا میں ایک مرد کے لئے امرد جیسا ہونا بدصورتی اور طعن ہے جبکہ جنت میں امرد ہونا اس کے لئے خوبصورتی ہوگی۔ کسی چیز یا چہرے میں خوبصورتی محسوس ہونا انسانی سوچ کی بنا پر ہوتا ہے معاشرہ ، ماحول اور دین جس چیز کو خوبصورتی کہتا ہے انسانی ذہن اسے تسلیم کرلیتا ہے پھر اس سے ہٹ کر نظر آنے والی کوئی بھی چیز یا چہرہ اسے بدصورت نظر آنے لگتا ہے اگر یہ سوچ بدل جائے تو خوبصورتی کا نظریہ بھی خودبخود بدل جاتا ہے۔ چناچہ اصل بات یہی ہے کہ خوبصورتی کا معیار دنیا میں کچھ اور ہے اور آخرت میں کچھ اور ہوگا لہٰذا دنیاوی حسن کے معیار کا تقابل جنت کے معیار حسن کے ساتھ کرنا عقلی اور نقلی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔
روایات میں چار انبیاء کرام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی جنت میں بھی داڑھیاں ہوں گی ان میں آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام شامل ہیں۔لیکن یہ تمام روایات موضوع درجے کی ہیں۔ ان کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی ان روایات کو گھڑا ہے ان کے نزدیک داڑھی کے بغیر مرد کا تصور یقیناًمشکل رہاہوگا اور ان کو یہ بات ہضم کرنا دشوار ہوگا کہ جنت میں مرد اس چیزسے محروم ہوگا جومرد کو مرد بناتی ہے اور اس کا سب سے بڑا حسن ہے چونکہ ان کے زمانے اور ماحول میں مرد داڑھی کے بغیر انتہائی بدصورت بلکہ نامرد سمجھا جاتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی ذہنی تسلی کے لئے ایسی احادیث گھڑ دیں جس کے مطابق انبیاء دنیا میں بھی داڑھی والے تھے اور آخرت میں داڑھی والے ہی ہوں گے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں داڑھی فطرتاً خوبصورتی کی علامت ہے۔ اب اگر کسی نے اس سے ہٹ کر کوئی غیر فطری خوبصورتی کا معیار بنالیا ہے تو وہ اس کا قصور ہے۔اب تو فطرت سے بغاوت کرنے والے مغربی مرد نے بھی داڑھی رکھنا شروع کردی ہے او ر وہاں کی خواتین بھی داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں لیکن ہمارا مسلمان بھائی فطرت سے بغاوت کی طرف مائل ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ داڑھی خوبصورتی ہے یا نہیں اس کا تمام تر انحصار آپ کے طے کردہ معیار اور انتخاب پر ہے۔ اگر تو آپ کا معیار وہی ہے جو فطرت کی باغی مغربی اقوام کا ہے تو پھرداڑھی بدصورتی کی علامت ہے۔ اور اگر آپ کا انتخاب دین فطر ت ہے تو پھر داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی واحد علامت ہے اس کے بغیر دنیا کا حسین ترین مرد بھی بدصورت ہے اور اس کے ساتھ ایک بدصورت مرد بھی کسی حد تک خوبصورت ہوجاتا ہے کیونکہ داڑھی صرف دین نہیں بلکہ فطرت بھی ہےاور فطرت خوبصورتی کا دوسرا نام ہے۔اس کے بجائے غیر فطری چیزوں میں حسن صرف اس کو نظر آسکتا ہے جس کے دین میں بگاڑ ہو، جس کی شخصیت میں تضاد ہو جو بیک وقت اسلام اور کفر دونوں کو پسند کرتا ہواس طرح کہ بعض چیزوں میں اس کا رجحان اور میلان کفریہ نظریات کی طرف ہو اور بعض باتیں اسے دین اسلام کی پسند آتی ہوں یا پھرکفر میں اس کی رغبت بمقابلہ اسلام زیادہ ہو جیسا کہ آج کل کے مسلمانوں کی حالت ہےکہ زبانی دعویٰ تو ایمان اور اسلام کا کرتے ہیں لیکن رہن سہن، لباس،زبان، عادات و اطوار میں مغرب کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا دعویٰ تو اسلامی ہے لیکن سوچ کافرانہ ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو جو زبان سے مسلمان اور سوچ سے کافر ہے اپنی سوچ وفکر کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے داڑھی میں حسن اور خوبصورتی نظر آسکے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ‘‘ ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی ......اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا: ’’ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُم‘‘ وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
توجہ فرمائیں کہ فرشتوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی داڑھی کی فرضیت کا اطلاق ان کی ذات پر ہوتا ہے اس کے باوجود بعد سیدنا جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں آئے تو ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے اگر وہ داڑھی کے بغیر ہوتے تو صحابہ کو برا محسوس ہوتا کیونکہ انہوں نے مرد کو داڑھی کے بغیر تصور ہی نہیں کیا تھا جبکہ خود رسول اللہ ﷺ کو داڑھی منڈے چہروں سے نفرت تھی۔ نبی ﷺ حسن اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے جیسا کہ اللہ رب العالمین کے متعلق آیا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تو اگر داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو داڑھی منڈے چہروں سے نبی ﷺ کو نفرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔نبی ﷺ کی یہ نفرت ہی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ نبی ﷺ کے نزدیک بھی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔
جب عذاب اور خوشخبری کا پیغام لے کر فرشتے انسانی شکل میں لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو ان کے چہروں پر داڑھی نہیں تھی کیونکہ وہ ایسے لڑکوں کے بھیس میں تھے جن کے قدرتی طور پر ابھی داڑھی مونچھوں کے بال نہیں اگے تھے۔ لیکن اگر وہ نوعمر لڑکوں کے بجائے مرد کے روپ میں ہوتے تو یقیناًان کے چہروں پر بھی داڑھی ہوتی کیونکہ لوط علیہ السلام بھی مرد تھے اور داڑھی والے تھےاور یہ تو سوچنا بھی گستاخی ہے کہ لوط علیہ السلام کے چہرے پر ایک ایسی چیز تھی یعنی داڑھی جو خوبصورتی کی علامت نہیں تھی۔ بدصورت چیزوں اور ادنیٰ اخلاق اور برے اور ہلکے اطوار کا انبیاء کی شخصیات میں کوئی دخل نہیں۔پس ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے کیونکہ ہر نبی داڑھی والا تھا۔اس بحث کے اختتام پر اپنے ثبوت دعویٰ کے حق میں ایک صریح حدیث ہدیہ قارئین ہے:
چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مجوسی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس نے اپنی داڑھی مونڈی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ماہذا؟‘‘ یہ کیا ہیئت کذائی ہے؟ اس نے کہا: ’’هذا ديننا ‘‘یہ ہمارا دین ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’لكن فى ديننا ان نحفى الشوارب وان نعفی اللحية‘‘ لیکن ہمارے دین میں ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔"(بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور، شمارہ نمبر6، جلدنمبر12، اپریل 1982ء)
یہاں واضح طور پر نبی مکرم ﷺ نے داڑھی منڈے چہرے کو بدصورت چہرہ قرار دیا ہے جس کا مخالف مفہوم داڑھی والے چہرے کا خوبصورت ہونا ہے۔پس اللہ کے رسول ﷺ کے اپنے الفاظ سے ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی جبکہ داڑھی نہ ہونا بد صورتی کی علامت اور معیارہے۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کا بیان کردہ معیار حسن پسند نہیں تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔لیکن اپنی چاہت کو فوقیت دینے اور اپنی مرضی کو مقدم کرنے والے شخص کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی پسند نہ صرف نبی ﷺ کی پسند سے الگ ہے بلکہ اللہ کی پسند کے بھی مخالف ہے کیونکہ داڑھی علامت جمال ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ حدیث میں اسےمرد کے حسن اور خوبصورتی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسکی براہ راست نسبت اللہ رب العالمین کی جانب کی گئی ہے،لہٰذا جب اللہ ہی نے داڑھی کو مرد کی زینت بنایا ہے تو داڑھی کے خوبصورتی کی علامت اور نشان ہونے پر کیا کلام باقی رہ جاتا ہے۔ چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کا حسن عطا کیا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملائکہ کی تسبیح میں ایک کلمہ یہ بھی ہے ......’’سبحان من زين الرجال باللحىٰ‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کا حسن عطا کیا۔(ماہنامہ محدث،لاہور،شمارہ نمبر6، جلد12،اپریل 1982ء)
اسی طرح مولانا قاری محمد طیب دیوبندی رقمطراز ہیں: ملائکہ علیہم السّلام کی ایک لاتعداد جماعت کی تسبیح ہی حدیث نبوی میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’سبحان من زیّن الرّجال باللحّی وزیّن النساء بالقرون والذّوائب‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھیوں سے زینت دی اور عورتوں کو مینڈھیوں اور چوٹیوں سے زینت بخشی۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ،صفحہ 39)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
چوتھا نظریہ:
’’ چونکہ عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ داڑھی کی احادیث کے بنیادی راوی ہیں اور ان کا اپنا عمل یک مشت کے بعد داڑھی کے اضافی بالوں کوکاٹ دینا ہےاس لئے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی کے بارے میں حکم نبوی ﷺ کہ اسے بڑھاؤ ، اس کے حال پر چھوڑ دو اور اسے پورا کرو وغیرہ کا صحیح اور اصل مفہوم اور اس حکم کی توضیح و تشریح یہی ہےکہ داڑھی کو ایک مشت کے بعد تراش لیا جائے اور اگر نبی کریمﷺ کے حکم کا مقصد داڑھی کو نہ کاٹنا ہوتا تو احادیث کے راویان کا اپنا عمل ہرگز داڑھی کو کاٹنا نہ ہوتا۔‘‘
دست بدست عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ نے داڑھی کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ مطلقاً حکم فرمایا کہ داڑھی بڑھاؤ ۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ صحابی کا عمل و فعل اللہ کے رسول ﷺ کے مطلق حکم کی حدبندی کرسکتا ہے یا شریعت کا کوئی عام حکم بعض صحابہ کے عمل سے خاص ہوسکتا ہے توفعل صحابی کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی مکرم ﷺ کے حکم داڑھی بڑھاؤ کا مطلب ہوگا کہ داڑھی کو ایک مشت تک بڑھاؤ اس سے زیادہ نہیں۔ اسکے بعد کسی بھی مسلمان کے لئے اس شرعی حکم سے تجاوز کرتے ہوئے ایک مشت سے لمبی داڑھی رکھنا حرام، ناجائز اور شریعت کی مخالفت ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو حرام کہتے ہیں۔ اس سے اظہر من الشمس ہے کہ علمائے کرام کا وہ طبقہ جو لمبی داڑھی کے افضل ہونےاور ایک مشت داڑھی کے جواز کا قائل ہے وہ بعض صحابہ کے داڑھی کٹوانے کے عمل کو داڑھی کی مرفوع احادیث کی شرح و تفسیر کے طور پر پیش نہیں کرتا بلکہ داڑھی کا اصل اصول اور حکم داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینے کا ہی سمجھتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم اسی بات پر دلالت کرتا ہےالبتہ ایک قبضہ کے بعد داڑھی کٹوانے والے کو صحابی رسول کے اجتہاد کی رعایت کرتے ہوئے غلط نہیں کہتا بلکہ اس کی گنجائش اور جوازکو تسلیم کرتا ہے۔
جو بھی شخص مذکورہ بالا نظریے کا حامل ہے اصولی طور پر اس کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا ہی فرض اور واجب ہے اور داڑھی کاقبضہ سے کم یا زیادہ رکھنا حرام ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے کسی عالم کا ایسا نظریہ نہیں ہے ۔ اور ہمارے علماء کاناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو اس مسئلہ میں غلط قرار دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عالم ایسا نظریہ نہیں رکھتا لہٰذا اس نظریے کو علماء نے مجموعی طور پر رد کردیا ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی داڑھی کٹوا کر اپنی روایت کردہ احادیث کا مفہوم بیان کرنے کی عملی کوشش کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ایک الگ حکم کا درجہ رکھتی ہے جبکہ ان کے ذاتی فعل کا حکم الگ درجہ کا ہے جسے زیادہ سے زیادہ ان کا اجتہاد کہا جاسکتا ہے حدیث کی وضاحت یا تشریح تو بالکل نہیں۔پس معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص ایک قبضہ سے زائد داڑھی رکھنے کو جائز سمجھتا ہے تو اس کا یہ نظریہ کہ صحابی نے اپنے فعل سے داڑھی والی حدیث کی تشریح کی ہے خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔حیرت ہے ان اشخاص پر جو بیک وقت دونوں نظریے رکھ کر خود کو دوسروں کو بے وقوف بنا رہے ہیں جبکہ متذکرہ بالانظریہ رکھنے سے زائد از مشت داڑھی حرام ہوجاتی ہے جبکہ لمبی داڑھی کے جوا ز سے یہ نظریہ از خود مردود ہوجاتا ہے۔

پانچواں نظریہ:
’’ متذکرہ بالا نظریے سے متصل اور ملتا جلتا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ چونکہ راوی اپنی روایت کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتا ہے اس لئے داڑھی کی احادیث کے راویان صحابہ کا اپنی داڑھی کو کاٹنا ثابت کرتا ہے کہ داڑھی کا اصل حکم اسے لا محدود حد تک یا قدرتی لمبائی تک بڑھنے دینا نہیں بلکہ یک مشت مقدار تک کاٹ ڈالنا ہے۔اور صحابہ نے اپنی روایت کردہ داڑھی کی احادیث سے یہی سمجھا ہے۔‘‘
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے لیکن یہاں یہ اصول لاگو نہیں ہوتا کیونکہ عبداللہ بن عمر ہوں یا کوئی دوسرا صحابی جس جس نے بھی داڑھی کے متعلق احادیث روایت کی ہیں ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے عمل سے داڑھی والی حدیث کا مفہوم ادا کیا ہے۔ ان صحابہ کےذاتی عمل کو حدیث کی توضیح و تشریح میں پیش کرنا بعض علماء کا اپنا اجتہاد ہے جو کہ محل نظر ہے۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ صحابہ کا داڑھی کاٹنے کا عمل تو روایات میں ملتا ہے لیکن ان میں سے کسی کا ایساکوئی ایک قول بھی دستیاب نہیں جس میں انہوں نے خود اپنے اس عمل کوداڑھی والی حدیث کے مفہوم سے جوڑا ہو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے عمل کا تعلق اگرداڑھی والی حدیث سے نہیں تو پھر کس سے ہے؟ اس سوال کا جواب پہلے بھی دیا جاچکا ہےاور مکرر عرض ہے کہ ان صحابہ کا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا تعلق مناسک حج کے ساتھ ہے۔الشیخ شاہ فیض حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کا عمل صرف دو تین صحابہ کا ہے وہ بھی قرائن کی روشنی میں مخصوص پس منظر میں ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 369)
یہ مخصوص پس منظر حج یاعمرے کا موقع ہے جیسا کہ مبشر احسن وانی المدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ابن عمررضی اللہ عنہ سے حج میں یہ مروی ہے کہ وہ ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹ دیتے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے سر کے حلق اور قصر پر قیاس کرکے داڑھی کا بھی قصر کرتے تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 362)
ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مثلاً: سیدنا عبداللہ بن عمر کے بارے میں صحیح بخاری میں آتا ہے کہ وہ حج کے موقع پر قبضہ سے زائد داڑھی کٹا دیا کرتے تھے: ’’أنَّہُ كَانَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ‘‘ تو اس حدیث مبارکہ سے محض اتنا علم ہوتا ہےکہ حج و عمرہ کے موقع پر آپ زائد از قبضہ داڑھی کٹا دیا کرتے تھے اوربعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ حج کے مناسک میں سمجھتے ہوئے ایسا کرتے تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 333)
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کاٹنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فاروق رفیع حفظہ اللہ سپرد قلم کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اس فعل کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مُحَلِّقِینَ رُؤُسَکُمْ وَ مُقَصِّرِینَ کی تفسیر کے ساتھ ہےکہ وہ حج کے مناسک میں’’محلقین‘‘سے سر کا منڈوانااور تقصیر سے داڑھی کاٹنا مراد لیتے ہیں۔ (داڑھی اور خضاب، صفحہ 59)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
چھٹا نظریہ:
کالانعام عوام الناس کا ایک قبضہ داڑھی کے ماپ کا بھی اپنا ہی طریقہ اور نظریہ ہےجبکہ داڑھی کو ایک مشت ناپنے کے لئے کہاں سے قبضہ میں لینا چاہیے اس بارے میں اکثر لوگ لا علمی کا شکار ہیں چناچہ اس مقصد کے لئے کچھ حضرات داڑھی کو ٹھوڈی سے پکڑ تے ہیں اور کچھ تو ہونٹ کے نیچے سے پکڑ کر داڑھی کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ آدھی مشت یا اس سے بھی کم داڑھی کو ایک مشت سمجھ بیٹھتے ہیں۔
عرض ہے کہ لوگ ایک مشت داڑھی کا تصور جن صحابہ سے لیتے ہیں ایک مشت لمبائی کا تصور بھی انہیں سے لینا پڑے گا وگرنہ داڑھی کو ایک مشت کے بعد کاٹ لینے پر بعض صحابہ کا عمل بطور دلیل پیش کرنا اور ایک مشت کی لمبائی اپنی مرضی کی مقرر کرلینا صحابہ کی اتباع نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی کہلائے گا۔چناچہ ابن عبدالبررحمہ اللہ جناب نافع سے روایت کرتے ہیں: ’’کان ابن عمر یقبض ھکذا ویاخذ مافضل عن القبضۃ و یضع یدہ عندالذقن‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ اس طرح (داڑھی کی) مٹھی بھرتے تھے، جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ، اور وہ اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے قریب رکھتے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن عبدالبر، ۱۳۵/ ۴، سندہ صحیح)
ماضی میں جو اہل علم ایک قبضہ سے زائد داڑھی کاٹنے کے جواز کے قائل رہے ہیں انہوں نے سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ کے داڑھی ماپنے کےاس عمل کو معیار قرار دیا ہے۔ حافظ عمران الہٰی صاحب لکھتے ہیں: مشت کی تفصیل یہ ہے کہ ٹھوڈی کو چھوڑ کر داڑھی کو درمیانے سائز کی مشت میں اس طرح پکڑا جائے کہ ہاتھ کی انگلیاں ٹھوڈی سے مس نہ ہوں، نہ مٹھی کو زور سے بھینچا جائے کیوں کہ مٹھی چھوٹی ہوجاتی ہے اور نہ ہی داڑھی کو کھینچا جائے، اس طرح مشت میں آئے ہوئے بالوں کے بعد جو بال بچ جائیں ان کو کاٹ دیا جائے، سلف سے یہی ثابت ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 229)
اس کلام بحث سے ایک نکتہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ ایک مشت داڑھی شریعت کا منشاء یا مرضی نہیں ہے کیونکہ ایک مشت داڑھی اگر کوئی شرعی یا دینی حکم ہوتا تو داڑھی کی مقدارایک مشت کی تفصیل ، کیفیت اور حدود اربعہ یعنی کہاں سے کہاں تک ہوگی ، اس طرح کی تمام تر معلومات کسی صحابی کے بجائے رسول اللہ ﷺ کی زبانی ہم تک پہنچتیں لیکن زبان رسالت کا اس ضمن میں خاموش رہنا یہ بتاتا ہے کہ ایک مشت داڑھی بعض صحابہ کا اپنا ذاتی اجتہاد تھا جس کی پیروی امت پر ضروری نہیں ہے جبکہ اللہ کے رسول ﷺکی اطاعت ضرورفرض و واجب ہے اور نبی ﷺ کی اتباع داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے میں ہے۔

ساتواں نظریہ:
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ چونکہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم ومحدث تھے اس لئے ان کا حلقہ ادارت بہت بڑا اور وسیع ہے اور داڑھی کے متعلق ان کا جو جداگانہ نظریہ تھا اس کو درست سمجھنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کے بالوں کو تراشنا ضروری ہے۔ یہ نظریہ تین وجوہات کی بنا پر مردود ہے اوّل یہ کہ اس کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں نبی کریم ﷺ کا حکم ’’اعفاء اللحیۃ‘‘ بے معنی ہوجاتا ہے، دوم اسے علمائے اہل سنت نے متفقہ طور پررد کردیا ہے اور سوم یہی نظریہ اہل تشیع کا بھی ہے بلکہ وہ اس میں علامہ ناصر الدین البانی سے زیادہ شدید ہیں ۔
شیخ پروفیسر ریحان معظم ہاشمی لکھتے ہیں: علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے کو واجب کہتے ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ165)
ناصر الدین البانی کے اسی موقف کا رد کرتے ہوئے ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں: اور جو صحابہ کرام مکمل داڑھیاں رکھتے تھے تو ان کے عمل سے مرفوع روایات کی تائید ہوتی ہے۔ ہماری رائے جواز کی ہے،[تاہم محدث الالبانی اور احناف کا موقف درست نہیں]۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 158)
علامہ البانی کی طرح ہی امام طبری کا نظریہ اور موقف بھی یہی تھا۔ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام طبری رحمہ اللہ نے کہا: داڑھی کا مطلقاً بڑھاناممنوع ہے اور اس کا کاٹناواجب ہے۔(نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، جلدثانی عاشر(۱۲)، صفحہ413)
بعینہ یہی موقف اور مذہب اہل تشیع کا بھی ہے کہ ان کے یہاں بھی ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنا واجب ہے اور نہ کاٹنے کی صورت میں مسلمان گناہ گار ہوگا۔ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: جتنی داڑھی ایک مٹھی سے زائد ہو وہ آگ میں پڑے گی(یہ حدیث امامیہ سے منقول ہے)۔(لغات الحدیث، جلد سوم، مادہ ’’ق‘‘، صفحہ 10)
اسی طرح ایک اور مقام پر رقمطراز ہیں: مازاد بقبضۃ ففی النار۔(یہ اہل شیعہ کی روایت ہے) یعنی جو داڑھی ایک مشت سے زائد ہو وہ دوزخ میں جلے گی۔ (لغات الحدیث، جلد چہارم، مادہ ’’ن‘‘، صفحہ 156)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں شیعہ افکار و نظریات کی چھاپ بہت گہری ہے اکثر اہل سنت یہ بھی نہیں جانتے کہ جن مسائل و نظریات کو وہ اپنے مذہب کا سمجھ کر انہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں وہ مسائل یا توبراہ راست شیعہ مذہب کے ہیں یا پھر کسی نہ کسی صورت میں وہ شیعت سے اخذ شدہ یا مستعار ہیں۔ پس داڑھی کے متعلق عام عوام کا جو ذہن ہے کہ یہ فرض نہیں اور اگر بطور سنت بھی رکھی جائے تو ایک مشت ہی اس کا اصل حکم ہے ۔ اس ذہن کو بنانے میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ علامہ البانی وامام طبری جیسے اہل سنت علماء کا بھی پورا پورا کردار ہے جبکہ یہ سوچ اور ذہن سراسر غیر اسلامی ہے۔ نصوص کے مطابق داڑھی رکھنا اور قدرتی لمبائی تک بڑھانا فرض و واجب ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
آٹھواں نظریہ:
بعض الناس ان لوگوں پر جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ذاتی فعل کو شرعی طور پر اہمیت نہیں دیتے اور داڑھی رکھنے کے نبی ﷺ کے ظاہری حکم پر عمل کو ضروری سمجھتے ہیں اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اس فکر کے حامل علماء سے بہت لمبی داڑھی کے کاٹنے کا سوال کیا جاتا ہے تو وہ اس کی اجازت دیتے ہیں تو اس وقت ان علماء کا داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینے کا حکم اور فتویٰ کہاں چلا جاتا ہے ؟ یوں یہ معترضین داڑھی کاٹنے کے اپنے نظریے کو درست بتانے کے لئے مخالف علماء کے فتویٰ میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب خاص حالت میں داڑھی کاٹنے کا جواز تسلیم کرلیا گیا تو عام حالت میں داڑھی کاٹنے کا جواز خودبخود پیدا ہوجاتا ہے۔حافظ عمران الہٰی رقمطرا زہیں: ہم نے متعدد ایسے علماء کو سنا اور پڑھا ہے جو کہتے ہیں کہ مشت سے زائد تو دور کی بات ہے داڑھی کا ایک بال کاٹنا بھی حرام ہے، اگر ان سے پوچھا جائے کہ ایک شخص کی داڑھی اتنی لمبی ہے کہ رانوں تک چلی جاتی ہے، کیا وہ شخص داڑھی کٹوا سکتا ہے؟ تو وہ جواب میں لکھ دیتے ہیں کہ ایسا شخص داڑھی کٹواسکتاہے.....ان سے میرا یہ سوال ہے کہ جب آپ کے بقول داڑھی کو مطلق چھوڑدینا چاہیے تو اب یہ جواز کہاں سے پیدا ہوگیا، جب آپ یہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ نے داڑھی کو کبھی نہیں چھیڑا، اور اس کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے، اب آپ لمبی داڑھی کو کاٹنے کی اجازت دے رہے ہیں، حالاں کہ بقول آپ کے اس نص پر عمل اسی صورت میں ہوگاجب داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، چاہے وہ گھٹنوں اور پائوں تک چلی جائے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 240،241)
راقم السطور کا دعویٰ ہے کہ حافظ عمران صاحب نے بنفس نفیس اپنی پوری زندگی کوئی ایک ایسا شخص نہیں دیکھا ہوگا جس کی داڑھی گھٹنوں، رانوں اور پاؤ ں تک چلی گئی ہو وگرنہ وہ اس کا ضرور بالضرور تذکرہ کرتے گویا کہ انہوں نے اپنا اعتراض ایک فرضی حالت پر قائم کیا ہےجو کہ حقیقت میں کبھی پیش ہی نہیں آئی۔ عرض ہے کہ اس طرح کے فرضی سوالات کرکے اعتراض اٹھانا اہل الرائے کا وطیرہ ہے حاملین کتاب و سنت کویہ طریقہ زیب نہیں دیتا۔بہرکیف مسئلہ یوں ہے کہ کسی بھی معاملے کا عمومی حکم خصوصی حکم سے مختلف اور الگ ہوتا ہےچونکہ رسول اللہ ﷺ سے اپنی داڑھی تراشنےیا امت کو ترشوانے کی اجازت دینے کا کوئی ثبوت موجود نہیں لہٰذا ایک مسلمان کے لئے عام حکم یہی ہے کہ وہ داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دے یا اسے اتنا بڑھائے کہ وہ اپنی قدرتی لمبائی تک پہنچ جائے۔اب رہا اس فرضی شخص کا معاملہ کہ جس کی داڑھی حدیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے اس کے پیروں تک پہنچ گئی ہو تو ایسے شخص کو علماء کرام اتنی داڑھی کاٹنے کی اجازت دیتے ہیں جس سے داڑھی مناسب لمبائی تک پہنچ جائے کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق عموم سے نہیں بلکہ خاص اور استثنائی حالات کے ساتھ ہے کیونکہ بالفرض اتنی لمبی داڑھی والا اگر کوئی شخص ہوا بھی تو وہ لاکھوں کروڑوں میں ایک ہوگاچناچہ اس کا حکم بھی عام نہیں بلکہ خاص ہوگا اور وہ عمومی حکم سے مستثنیٰ ہوگا۔پھر ایسے نادر شخص کے بارے میں علماء کےفتویٰ کی حیثیت بھی خالص اجتہادی ہوگی کیونکہ باوجود داڑھی کو اسکے حال چھوڑ دینے کےحکم کے، شریعت نے ایسے شخص کے بارے میں کوئی راہنمائی نہیں کی جس کی داڑھی بڑھتے بڑھتے تمام معقول حدود پار کرجائے۔ راقم کی کوتاہ نظر میں اس کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتیں ہیں ایک تو یہ کہ قدرتی طور پر ممکن ہی نہیں کہ داڑھی طوالت کی اس حد کو پہنچ جائے اس لئے شارع نے اس مسئلہ کا حل پیش نہیں کیا اور دوسرا اس کی حیثیت استثنائی ہے اس لئے اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ عرض ہے کہ شریعت صر ف ان مسائل کا حل پیش کرتی ہے جس کا تعلق زیادہ افراد کے ساتھ ہو جبکہ کوئی ایسا مسئلہ جو ہزاروں اور لاکھوں اشخاص میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ ہی پیش آسکتا ہو اس بارے میں شریعت خاموش رہتی ہے اورپھر یہ معاملہ خود بخود اجتہاد کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اب چونکہ ایسی لمبی داڑھی والے نادر شخص کو کسی حد تک داڑھی کاٹنے کی اجازت دے دینا علماء کا اجتہاد ہے اس لئے اس سے اصل حکم کہ داڑھی کو معاف کردوپر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اصل حکم اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کیونکہ اس کاتعلق عموم سے ہےاور استثنائی حکم کی حیثیت الگ ہے وہ اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔بھلا لاکھوں کروڑوں میں سے کسی ایک شخص کو پیش آنے والے معاملے کا حکم وہ کیسے ہوسکتا ہے جو ہر عام و خاص شخص کو پیش آنے والے حکم کا ہے؟ مطلب یہ کہ حافظ عمران الہٰی کا اپنے مخالف علماء کانادر اور نایاب حالت میں داڑھی کاٹنے کی اجازت دینے کواور عام حالات میں داڑھی نہ کاٹنے کے ان کے حکم کوان کاتضاد بنا کر پیش کرنا سراسر غلط اور ان کی کم فہمی پر مبنی ہے۔
اپنے مخالف پر اعتراض کرنا نہایت ہی سہل اور آسان ہے جبکہ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی طرف نظر کرنا حد درجہ مشکل کام ہے۔ یہاں حافظ عمران الہٰی صاحب بڑے مزے سے اپنے مخالف کے موقف کو متضاد ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ اس باب میں وہ خود بھی تضادات وتناقضات کا شکا ر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں حافظ عمران الہٰی کے موقف و نظریے کا ایک تضاد:
حافظ صاحب پہلے تو یہ فرما رہے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ہم خیال صحابہ کا داڑھی تراشنے کا عمل خود ان کی روایت کردہ احادیث کی بنیاد پر تھا وہ داڑھی کٹوانے کے اپنے فعل سے اپنی روایت کردہ احادیث کی تشریح و مفہوم بیان کررہے تھےاور بتا رہے تھے کہ حدیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم اسے بڑھاتے ہی رہنا نہیں بلکہ ایک مشت تک بڑھانا ہے۔ حافظ عمران الہٰی لکھتے ہیں: ہمارے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام (ابن عمر، ابن عباس، ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین) اور تابعین عظام جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہے اور وہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے، وہ یک مشت داڑھی سے زائد داڑھی کے کٹانے کو جائز سمجھتے تھے، حالانکہ ان چاروں نے رسول اللہ ﷺ سے داڑھی کی حدیث بیان کی ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 197)
حافظ عمران الہٰی مزید ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کو حرام قرار دینا بدعت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی معتدل تھی ، اس لئے آپ کو داڑھی کٹانے کی ضرورت پیش نہ آئی اور سلف صالحین مشت سے زائد داڑھی کٹاتے تھے ، ان کے نزدیک توفیر،ایفا، اعفاوغیرہ کے معنی ایک مشت داڑھی بڑھانے کے تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت،صفحہ 168،169)
مطلب یہ کہ ان صاحبان کے نزدیک جب یک مشت سے زائد داڑھی کو تراشنے سے منع کرنا بدعت ہے تو ایک مٹھی داڑھی رکھنا اور اس سے زائد کو کاٹ دیناسنت ہے نیزبعض صحابہ کے داڑھی کو ایک مشت کے بعد کاٹ ڈالنے کی بنیادی دلیل داڑھی کی انہیں کی روایت کردہ وہ احادیث ہیں جن میں داڑھی کو چھوڑ دینے معاف کردینے بڑھانے اور لٹکانے کا حکم ہے لہٰذا یہ ان صحابہ کی طرف سے مرفوع احادیث کے حکم پر کامل عمل ہے۔یہاں پر مسئلہ یہ ہےکہ صحابہ جن احادیث کے راوی ہیں ان میں داڑھی بڑھانے کا صاف صاف ذکر ہے جبکہ روایان حدیث داڑھی کاٹ رہے ہیں اس لئے حافظ عمران الہٰی کی جانب سے صحابہ کااپنی ہی روایات کے حکم کے خلاف عمل کو ان روایات کا اصل منشا اور مقصد سمجھنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اگر صحابہ بظاہر اپنی ہی روایت کردہ احادیث کے خلاف کررہے ہیں کیونکہ بقول حافظ عمران الہٰی صاحب صحابہ توفیر اور اعفاء وغیرہ کے معنی ہی ایک مشت لمبائی تک محدود سمجھتے تھے تو یہ بنیادی طور پر اجتہاد ہےکیونکہ جب ایسے کسی معنی کے بیان سے حدیث خاموش ہے تو اپنے عمل سے خاص معنی بیان کرنا ہی اجتہاد اور اجتہاد کی ایک قسم ہے۔پس یہاں تو حافظ عمران الہٰی دعویٰ کررہے ہیں کہ صحابہ احادیث کے معنی میں اجتہاد کرتے ہوئے داڑھی کو کاٹتے اور تراشتے تھے لیکن دوسرے ہی مقام پر اس اجتہاد کاصاف انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان کے اس عمل میں ایک تحدید ہے اور وہ تحدید یک مشت ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں ان کی اپنی من مانی یا اجتہاد نہیں ہے بلکہ انھوں نے یہ کام کسی نص کو سامنے رکھ کر کیا ہے، اگر یہ ان کی اپنی من مانی یا اجتہاد ہوتا تو اس میں افراط و تفریط ضرور ہوتا۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 241)
عرض ہے کہ کسی مسئلہ میں نص کی موجودگی میں اجتہاد مردودہے کیونکہ اجتہاد کی اصل ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے جب نص موجود نہ ہو۔ اور اگرکسی مسئلہ میں اجتہاد کو درست مانا جائے تو یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس مسئلہ میں اجتہاد کیا گیا ہے اس میں نص موجود نہیں تھی۔ حافظ عمران الہٰی صاحب کا تضاد یہ ہے کہ ایک جانب وہ داڑھی کاٹنے کو صحابہ کا اجتہاد قرار دے رہے ہیں اور دوسری جانب اس مسئلہ میں نص کی موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں جبکہ نص کی موجودگی میں اجتہاد اور اجتہاد کی صورت میں نص کا دعویٰ باطل ہے۔اور حافظ عمران صاحب اپنے تناقضات کے بجائے دوسروں کے تضادات کی تلاش میں ہیں تاکہ دلیل سے نہ سہی دوسروں کے تضاد سے ہی ان کا مسئلہ و دعویٰ ثابت ہوجائے۔
اس مسئلہ کی وضاحت میں مزید عرض ہے کہ بہت لمبی داڑھی والے کو علماء کا کسی حد تک داڑھی کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمانا بلادلیل نہیں ہے جیسا کہ حافظ عمران الہٰی سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر علماء کو حدف تنقید بناتے ہیں بلکہ اسکے لئے علمائے کرام قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہیں۔ شیخ موہب الرحیم حفظہ اللہ لکھتے ہیں: يُرِيْدُ اللّـٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ[البقرۃ:۱۸۵] ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى الدِّيْنِ مِنْ حَرَج[الحج:۷۸] ’’اور اس نے تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی پیدا نہیں کی۔‘‘
ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن کی اس طرح طول فحش داڑھی ہوجائے، اس کے لیے داڑھی کو چھاتی تک اور مناسب مقام تک کاٹنا ان شاء اللہ اس کی اجازت ہے، اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔
(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 378،379)
اسی طرح شیخ عبداللہ بن ناصر حفظہ اللہ فرماتے ہیں: داڑھی کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ اعفائےکلی اصل ہے اور اسی پر ہی ہر مسلمان کو پابند رہنا چاہیے۔ البتہ اگر اتنی طویل ہوجائے کہ اس کی وجہ سے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اس کے لیے اس آیت کے تحت کچھ گنجائش موجود ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْـمَ عَلَيْهِ[البقرۃ:۱۷۳] ’’پس جو مجبور کردیا گیا، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اورنہ حد سے گزرنے والاتو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ ایک دوسری آیت ہے: يُرِيْدُ اللّـٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ[البقرۃ:۱۸۵] ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتاہے۔‘‘
(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 325)
اس سلسلے میں حافظ عمران الہٰی جیسے لوگوں کو اپنی یہ غلط فہمی بھی دور کرلینی چاہیےکہ داڑھی کو معاف کردینے کا موقف رکھنے والا ہر عالم دین طول فاحش تک پہنچنے والی داڑھی کو کاٹنے کا ہی فتویٰ دیتا ہےاور اسکے علاوہ ان علماء کے پاس اس مسئلہ کا کوئی حل موجود نہیں۔ ایسے علمائے حق کی کمی نہیں جن کے نزدیک داڑھی کو کسی بھی حال میں کاٹنا جائز نہیں چاہے وہ کسی بھی حد کو پہنچ جائے کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس میں کوئی رعایت یا گنجائش عطا نہیں فرمائی۔فاروق رفیع حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: شرعی دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی کو پورا اور مکمل رکھا جائے، اس کی مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اگر داڑھی کی لمبائی یا چوڑائی کی وجہ سے مشکل کا سامنا ہوتو صبر سے کام لینا چاہیے اور شرعی طور پر اس کے فرض ہونے کی وجہ سے اس فرض پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی میں عافیت اور دنیوی و اخروی نقصان سے بچاؤ ممکن ہے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 67)
راقم الحروف کے نزدیک بھی یہی موقف اقرب الی الصواب ہے کہ داڑھی کے ساتھ کسی حال میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اور اسے اس کی قدرتی لمبائی تک بڑھنے دیا جائے چاہے وہ لمبائی کچھ بھی ہو۔ حکم رسول ﷺ کی تعمیل کی یہی صحیح،اصلی اور حقیقی صورت ہے۔

نواں نظریہ:
’’بعض افراد کا سمجھنا یہ ہے کہ چونکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ دوسروں سے نسبتاً زیادہ متبع سنت تھے اور نبی ﷺ کی مشابہت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اس لئے ممکن نہیں کہ داڑھی کاٹنے کا عمل ان کی اپنی مرضی پر مشتمل ہو ،لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک بھی ایک مشت تھی اسی لئے عبداللہ بن عمر اپنی ریش کو نبی ﷺ کی داڑھی سے مشابہ کرنے کے لئے ایک مٹھی کے بعد اپنی داڑھی کے بال کاٹ لیتے تھے بس فرق اتنا ہے کہ نبی ﷺ کی داڑھی قدرتی طور پر ہی ایک مشت تھی اور عبداللہ بن عمر کی داڑھی ایک مشت یا قبضہ سے لمبی تھی اسی لئے عبداللہ بن عمر ایک مشت مقدار حاصل کرنے کے لئے اپنی داڑھی تراش لیتے تھے تاکہ انکی ریش نبی ﷺ کی ریش مبارک کی مانند نظر آئے۔‘‘
یہ ایک بے حقیقت نظریہ ہے اور اس کی بنیاد حقائق سے لاعلمی ہےکیونکہ رسول ﷺ کی ریش مبارک ایک مشت نہیں تھی۔ملاحظہ ہو:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کث اللحية ‘‘ رسول اللہ ﷺکی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔(نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5232)(ترمذي، الشمائل المحمديه1 : 36، رقم : 8)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 796)
ذکرہ کردہ حدیث نبی ﷺ کی بڑی داڑھی پر دلالت کناں ہےکیونکہ گھنی داڑھی قدرتی طور پر کبھی بھی چھوٹی نہیں ہوتی اورخاص طور پر اس صورت میں کہ نبی ﷺ اپنی داڑھی کو تراشتے نہیں تھے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک ایک مشت نہیں تھی بلکہ آپ ﷺبڑی اور لمبی داڑھی والے تھے۔
انہیں مذکورہ بالا اور مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر زبیر بن خالد مرجالوی اپنا موقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: رسول اللہ ﷺ کی داڑھی نہ زیادہ لمبی تھی اور نہ ہی زیادہ چھوٹی ۔ مگر یہ بات کسی لحاظ سے سچ نہیں کہ آپ ﷺ کی داڑھی ایک مشت سے چھوٹی تھی یا ایک مشت تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی ایک مشت سے زیادہ تھی۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 66)
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ ’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘(مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن)
اس روایت سے اتنامعلوم ہوگیا کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑھی مبارک بڑی اور لمبی تھی لیکن اسکی طوالت کس حد تک تھی مذکورہ اثر اس خبر اور معلومات سے خاموش ہے اس کی وضاحت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ کی داڑھی ان کے سینے تک تھی۔ ملاحظہ ہو:
یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺکو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ، اس نے مجھے ہی دیکھا ، تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ، جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟ کہا ، ہاں درمیانے قد والا ، گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ، آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ، خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل ، گول چہرہ’’قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ‘‘ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس حدیث کی تشریح و توضیح میں زبیر بن خالد مرجالوی لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی داڑھی ایک مشت سے زیادہ تھی۔ اگر داڑھی سینے کو بھی بھرے ہوئے ہو تو کم ازکم دو مشت داڑھی ہوتی ہے ایک نہیں......! یزید فارسی فرمارہے ہیں کہ میں نے آپ کی داڑھی کو دیکھا وہ سینے کو بھرے ہوئے تھی اگر ایک مشت ہوتی تو کبھی بھی سینے کو بھر نہیں سکتی تھی۔ اور مزید یہ کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا یزید فارسی کی بات کی تصدیق کرتے ہیں، اگر آپ ﷺ کی داڑھی واقعی ایک مشت ہوتی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ضرور رد فرماتے کہ سینے تک نہیں تھی بلکہ ایک مشت تھی، مگر ایسی کوئی بات بھی نہیں ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 69)
ویسے تو یزید فارسی رحمہ اللہ کی یہ حدیث اپنے مفہوم پر بالکل واضح اور صریح ہے اور نبی ﷺ کے حکم اور اتباع میں لمبی داڑھی رکھنے یاداڑھی کو معاف کردینے والوں کے موقف کی تائید و تصدیق کرتی ہےاور انکے دعویٰ کو تقویت دیتی ہےلیکن جب تک مخالفین کی جانب سے اس حدیث پر وارد شدہ اعتراضات کا تسلی بخش جواب نہ دے دیا جائے تب تک بات واضح اور شفاف نہیں ہوگی لہٰذا عرض ہے کہ درج بالا حدیث میں عربی زبان کا ایک مشہور ومعروف لفظ’’ نحر‘‘ استعمال ہوا ہےجس کا ترجمہ مترجمین نے ’’سینے یا صدر‘‘سے کیا ہےلیکن چونکہ نحر کا ایسا ترجمہ ابن عمر کی ایک مشت داڑھی کو نبی ﷺ کی مشابہت قرار دینے والوں کے دعویٰ کو باطل کردیتا ہے اس لئے انہوں نے لفظ حدیث’’نحر‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے مراد سینہ لینا یا پھر اس لفظ کا ترجمہ سینے سے کرنا بالکل غلط ہےبلکہ اس سے مراد گردن کاوہ گڑھا ہے جو گردن کے اختتام پرہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اونٹ کو نحر کرنے کے لئے اسکی گردن کے گڑھے میں خنجریا چھری کو داخل کیا جاتا ہے اور اسی کو نحر کرنا کہتے ہیں۔حافظ عمران الہٰی صاحب بھی بعینہ یہی موقف رکھتے ہیں اس لئے انہوں یزید فارسی رحمہ اللہ کی اس حدیث کا ایسا ترجمہ کیا ہے اور نحر کے ایسے معنی بیان کئے ہیں کہ جسے ترجمانی کم اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے۔ عمران الہٰی صاحب کا ترجمہ دیکھئے موصوف لکھتے ہیں:
جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی داڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہیں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)۔(رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة )۔(بحوالہ محدث فورم)
داڑھی کے موضوع پر ایک کتاب میں بھی حافظ عمران کے یہی خیالات درج ہیں دیکھئےموصوف لکھتے ہیں: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہ ﷺ سے داڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے، اس لئے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑھی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو، معتبر علمائے کرام کے اقوال کے مطابق آپ ﷺ کی داڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی، لہٰذا ان کو داڑھی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، اس کی دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے، جسے امام احمد بن حنبل نے ’’المسند‘‘ میں بیان کیا ہے، جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا: ’’ قد ملات لحیتہ من ھذہ، حتی کادت تملا نحرہ‘‘ ان کی داڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پورے گلے کو بھر دیتی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 174)
راقم کا اس ترجمہ پر پہلااعتراض یہ ہےکہ اس میں جملہ ’’قریب تھا کہ پورے گلے کو بھر دیتی‘‘ کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نبی ﷺ کی داڑھی ایک مشت سے بھی چھوٹی تھی کیونکہ گلے سے مراد گردن ہے اور ترجمے کے مطابق داڑھی پوری گردن تک بھی نہیں پہنچتی تھی بلکہ گردن سے کچھ اوپر تھی ۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نبی ﷺ کے اعضاء جسم میں اعتدال تھا کہ نہ تو گردن پست تھی اور نہ ہی لمبی، اس لئے اگر کسی معتدل گردن والے شخص کا مشاہدہ کریں تو تھوڈی سے لے کر گردن تک کا فاصلہ بہت کم ہوتا ہے اور جب داڑھی بھی گردن تک لمبی نہ ہو تو یہ کسی صورت ایک مشت نہیں بنتا اور یہ بات حافظ عمران الہٰی کے موقف اور دعویٰ کے خلاف ہے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یا اعتراض یہ ہے کہ کسی مترجم، محدث و عالم نے ’’نحر‘‘ کا ترجمہ’’ گلا ‘‘نہیں کیالہٰذا یہ اس ترجمے کے غلط ہونے کی دلیل اوّل ہےنیزیہ خالص حافظ عمران الہٰی صاحب کا تعصب اور ضد ہے جس نے انہیں ترجمے کے بجائےحدیث میں تحریف پر مجبور کیا۔ پروفیسرحافظ عبدالستّارحامد (’’نحر‘‘ کا مفہوم) کی سرخی کے تحت رقمطراز ہیں: ’’نحر‘‘لغت میں سینہ کے بالائی حصے کو کہتے ہیں۔ ’’ نَحَرَ یَنْحَرْ‘‘کا معنی سینہ پر مارنااور ذبح کرنا ہے۔(خطبات سورہ کوثر،صفحہ323)
کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ سورہ کوثر میں ’’نحر‘‘ کے معنی قربانی ہے ہی نہیں چناچہ موصوف لکھتے ہیں: بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیںکہ وَانْحَر کا معنی قربانی کرنا کیا جاتا ہے، پھر اس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا مفہوم کہاں سے آگیا؟ عرض ہے کہ قربانی کے بارے میں دیگر کئی نصوص ہیں، جن سے قربانی کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن سورۃ الکوثر میں مستعمل لفظ وَانْحَرکا مفہوم قربانی کرنا نہیں، کیوں یہاں یہ مفہوم اللہ کے نبی ﷺاور صحابہ کے بیان کردہ مفہوم کے خلاف ہے۔وَانْحَر کامعنی قربانی کرنا نہ تو اللہ کے نبی ﷺکی کسی حدیث سے ثابت ہےاور نہ کسی صحابی ہی سے بسند صحیح مروی ہے۔ (انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر‘‘ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں،صفحہ 465)
کفایت اللہ سنابلی کی اس وضاحت کی روشنی میں سورہ کوثر کی آیت نمبر 2 کا صحیح ترجمہ یوں ہوگا: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور سینے پر ہاتھ باندھو۔
اس کا دوسرا جواب یا دلیل یہ ہے کہ عیدالضحیٰ کو ’’یوم النحر‘‘ سورہ کوثر کی وجہ سے کہا جاتا ہے جس میں اللہ رب العالمین نے قربانی کے لئے نحر کا لفظ استعمال فرمایاہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (الکوثر:2) اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے سورہ کوثر کی اس آیت میں موجود لفظ ’’وَانْحَر‘‘ کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ اصل معاملے کو واضح کردیتی ہے۔ دیکھئے:
امام بخاری رحمہ الله (المتوفی256)نے کہا: قال موسى: حدثنا حماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه:’’ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر‘‘ وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے[التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 437 واسنادہ صحیح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو جس میں انہوں نے نحر کی تفسیر سینے یا صدر سے فرمائی ہے کئی محدثین نےمختلف اسانید سے نقل کیا ہے اور سب نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے مثلاًامام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبری میں،امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے الاوسط لابن المنذر میں،امام احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی ابواسحاق نے تفسیر الثعلبی میں، طحاوی رحمہ اللہ نے احکام القرآن للطحاوی میں نیزامام ابن جریرطبری رحمہ اللہ نے تفسیر الطبری میں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ مفسر قرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ’’وَانْحَر‘‘ کی یہی تفسیر منقول ہے کہ اس سے مراد سینہ ہے۔چونکہ اس کی تفصیل مضمون کی طوالت کا باعث ہے اس لئے ایک صحابی کی روایت کا ذکر ہی کافی ہے۔
اس بارے میں ایک صحیح مرفوع حدیث بھی ہے جو مسئلہ کو پوری طرح واضح اور ثابت کردیتی ہے۔ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نےاس آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر کی تفسیر میں فرمایا: ’’وضع یدہ الیمنی علی وسط یدہ الیسری، ثم وضعھما علی صدرہ‘‘ اس سے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو کے درمیان رکھ کرپھر انہیں اپنے سینے پر رکھنا مراد ہے۔(بحوالہ’’ انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر‘‘ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں،صفحہ 460)
بالا دلائل سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی داڑھی طوالت کے اعتبار سے سینے تک تھی اور اسکے ساتھ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کوتاہ یا پست گردن والے نہیں تھے داڑھی کی یہ مقدار دو سے ڈھائی مشت تک بنتی ہے۔والحمدللہ
اب جبکہ یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ کی داڑھی طوالت میں ایک قبضہ سے زائد تھی تو یہ بات خود بخود کالعدم ہوگئی کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا داڑھی کاٹنے کا فعل نبی ﷺ کی اتباع یا نبی ﷺ کے حلیے کی نقل میں تھا۔ صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو کھینچ تان کر نبی کریم ﷺ سے منسوب کرنا یا رسول اللہ ﷺ کو اس فعل کی وجہ قرار دینا ہی ایسے فضول نظریات کی پیدائش کاموجب ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عبداللہ بن عمر یا دیگر صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو داڑھی والی احادیث سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اس مسئلہ کا تعلق امور حج کے ساتھ ہے اگر اس مسئلہ کی اصل وجہ کو سمجھ لیا جائے تو لوگوں کو ان تکلفات میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے کہ صحابی رسول نے رسول اللہ ﷺ کی داڑھی کی نقل میں اپنی داڑھی کاٹی یا پھر نبی ﷺ کے حکم ’’اعفاء اللحیۃ‘‘کی عملی تشریح کرتے ہوئے داڑھی کو کاٹ کردکھایا۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
دسواں نظریہ:
’’چونکہ چار صحابہ کے مشت سے زائد داڑھی کاٹنے پر دیگر صحابہ نےکوئی نکیر نہیں فرمائی لہٰذا یہ اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ممکن نہیں تھا کہ یہ عمل اپنے آپ میں غلط ہوتا اور صحابہ اس پر لب کشائی نہ فرماتے۔‘‘
لوگ یہاں پر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صحابہ کا کسی عمل میں نکیر نہ فرمانا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ کسی عمل کی شرعی حیثیت پرصحابہ کے اعتراض کرنے یا اسے دیکھ کر خاموش رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ نہ تو کسی جائز عمل پر صحابہ کا ٹوکنا اور منع کرنا اسے ناجائز بناتا ہے اور نہ ہی کسی ناجائز عمل پران کا نکیر نہ کرنا اسکے جائز و صحیح ہونے کی سند بنتی ہے۔یہ اختیار صرف اور صرف اللہ کے رسول ﷺ کو حاصل تھا کہ کسی عمل کو دیکھ کر انکی خاموشی بھی شرعی حکم کی حیثیت رکھتی تھی اور اس پر نکیر کرنا بھی برہان اور دلیل کا فائدہ دیتا تھا۔ وفات النبی ﷺ کے بعد یہ اختیار کسی صحابی یا ولی کے پاس نہیں ہے کہ اس کی خاموشی اور نکیر نہ کرنا کسی عمل کے جائز ہونے کی دلیل بن سکےاوریہ بات خود صحابہ کو بھی بہتر طور پر معلوم تھی یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے کوئی غیرشرعی یا پھر کوئی غلط کام ہوتے ہوئے دیکھا تو بعض اوقات اس کے خلاف اپنی آواز اٹھائی اور بعض اوقات اسے نظر انداز کردیا۔ زبیر بن خالد مرجالوی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: سادات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کوئی بھی مسئلہ اپنی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا کہ جسے شریعت سمجھا جائے، انھوں نے صرف رسول اللہ ﷺ سے منقول احکامات ہی ہم تک پہنچائے ہیں اور اگر بتقاضائے بشریت کسی صحابی سے کوئی غلط کام ہوا ہے تو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دلائل کی رو سے انھیں رد کیا اور بسا اوقات خاموشی اختیار کی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 91)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سورہ بقرہ کی آیت223 ’’نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ‘‘ کو نہ صرف عورت کی دبر میں جماع کی مضبوط دلیل سمجھتے تھے بلکہ دوسروں کے سامنے برملا اس کو بیان بھی فرماتے تھےلیکن کسی صحابی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ غورو فکر کی بات یہ ہے کہ کیا اس مسئلہ میں کسی صحابی کا نکیر نہ کرنا دبر میں جماع کے جوازکی دلیل بن سکتا ہے؟ کبھی نہیں! کیونکہ اس کے خلاف حدیث رسول موجود ہے اسی طرح عبداللہ بن عمرکے داڑھی کاٹنے کے عمل پر صحابہ کا نکیر نہ کرنا بھی اس عمل کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس کے خلاف نبی ﷺ کا واضح اور دوٹوک حکم موجود ہےجو کہ ناقابل تاویل ہے۔
ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ لکھتے ہیں: داڑھی نہ کاٹنے کا حکم نبوی:یہ معنی سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پہ غور کرنے سے بھی واضح ہو رہا ہے فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ’’يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ‘‘ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب اپنی داڑھیاں کاٹتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔مسند احمد:22238
اس حدیث مبارکہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم داڑھی کاٹنے کے مقابلے میں دیا ہے جس کا واضح معنی ہے کہ داڑھی کو بالکل نہ کا ٹا جائے تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو، کیونکہ وہ کاٹتے ہیں!۔ اور یہ حدیث داڑھی نہ کاٹنے کے بارے میں نص صریح ہے، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں۔ اور اسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کاٹنا اہل کتاب کی مشابہت ہے، اور نہ کاٹنا انکی مخالفت۔ اور ہمیں اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔
(داڑھی کی واجب مقدار، rafiqtahir.com)
اس کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نافذ کرنے کا فیصلہ ہےجس پر کسی ایک صحابی سے بھی منقول نہیں ہے کہ کسی نے اس پر کوئی نقد، اعتراض یا نکیر کی ہو جبکہ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جارہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود صحابہ کا اس فیصلے پر انکار یا تنبیہ نہ کرنا اسے کسی کے نزدیک بھی شرعی حجت نہیں بناتا ۔ پس ثابت ہوا کہ کسی غلطی یا کوتاہی پر صحابہ کا نکیر نہ کرنادلیل و حجت کا فائدہ نہیں دیتا بلکہ اس سلسلے میں موجود نص ہی اس فعل کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔
فائدہ: اگر اس معاملہ کی جانب تھوڑی سی توجہ دی جائے تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہےکہ جب تمام صحابہ کرام کو یہ معلوم تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ حدیث رسول ﷺ کے سراسر مخالف ہے تو کسی ایک صحابی نے بھی اس پر انکار یا تنقیدکیوں نہیں کی یا پھرصحیح مسئلہ بتا کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی اصلاح کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟ آخر کیوں سب نے اجتماعی خاموشی اختیار کرلی؟ اس مسئلہ کا حل اور اس سوال کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ ہر صحابی کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک تھا کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ان کا اپنا اور ذاتی ہےاور اس کی زد کسی صورت اصل مسئلے پر نہیں پڑتی جو کہ مبنی برنص ہے۔ بمطابق حدیث ایک مجلس کی تین طلاقیں اصل میں ایک طلاق تھی اور قیامت تک ایک ہی رہنی تھی اس کے برعکس عمررضی اللہ عنہ کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا اجتہاد عارضی اور وقتی مصلحت کی بنا پر تھاجس نے ایک مخصوص مدت کے بعد خود ہی کالعدم ہوجانا تھا چاہے عمررضی اللہ عنہ اس سے رجوع کرتے یا نہ کرتے۔یہی سبب ہے کہ کسی بھی صحابی نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اس فیصلے پر نکیر کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ دین میں کسی صحابی کا اجتہاد حجت نہیں ہوتا بلکہ حدیث حجت ہوتی ہے۔بالکل اسی تناظر میں عمررضی اللہ عنہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل پر کسی صحابی کے نکیر نہ کرنے کے معاملے کو بھی سمجھا اور دیکھا جاسکتا ہےکہ چونکہ تمام صحابہ کو اس کا علم تھاکہ داڑھی کے بارے میں نبی ﷺ کا حکم داڑھی نہ کاٹنے کا ہے جو قیامت تک تبدیل نہیں ہوگا جبکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا فعل ان کا ذاتی اجتہاد ہے ۔ اسی لئے کسی صحابی نے اس پر نکیر یا تنقید کی زحمت اور ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ اگر کوئی صحابی اس پر نکیر کرتا یا نہ کرتا ہر دو صورتوں میں نبی کریم ﷺ کا حکم داڑھی نہ کاٹنے کا ہی رہنا تھا اور امت مسلمہ پر اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت فرض ہے کس صحابی کی نہیں اور شریعت بھی نبی ﷺ کے احکامات کا نام ہےنہ کہ کسی صحابی کے ذاتی عمل کا۔لہٰذا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک قبضہ کے بعد داڑھی تراشنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے لئے یہ کوئی قابل تقلید فعل ہے۔
اس کی کئی امثال اور بھی ہیں جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا سفر میں ہمیشہ پوری نماز پڑھنا ، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا معوذتین کو قرآن کا حصّہ نہ سمجھنا ، رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے کے بجائے انھیں جوڑ کر رانوں کے درمیان رکھنا اور تین لوگوں کی جماعت کرواتے وقت دو افراد کے درمیان میں کھڑے ہونا اور ان افعال کو براہ راست رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے ساتھ جوڑنا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا واضح حکم رسول کے خلاف قبروں پر بیٹھنا وغیرہ۔ ان صحابہ کا عرصہ دراز یا بعض اوقات تمام عمر اپنے فہم اور اجتہاد پر مضبوطی سے جمے رہنا اور رجوع نہ کرنا بتاتا ہے کہ دوسرے صحابہ نے ان پر کوئی تنقید یا نکیر وغیرہ نہیں کی وگرنہ ان پر ان کے فہم کی غلطی واضح ہوجاتی اور وہ حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں اپنے افعال سے رجوع کرلیتے۔
اس میں ایک ا ہم بات یہ ہے کہ بعض صحابہ نے اپنے بعض اجتہادات سے آخری عمر میں رجوع کرلیا تھا اس لئے اگر کوئی صحابہ کے غیر رجوع شدہ اجتہادات کو رجوع کردہ اجتہادات کے مقابلے میں دلیل بنائے اور کہے کہ داڑھی والے معاملے میں عبداللہ بن عمر نے رجوع نہیں کیا تھالہٰذا یہ اس عمل کے صحیح ہونے کی دلیل ہےاور باقی صحابہ نے اپنے بعض افعال سے رجوع کرلیا تھا چناچہ یہ ان افعال کے غیر صحیح ہونے کا ثبوت ہے۔ تو ایسے افراد کی خدمت میں عرض ہے کہ صحابہ کے جن رجوع کردہ افعال کو آج آپ غلط تسلیم کررہے ہیں کیا یہی افعال اس وقت تک قابل قبول، لائق اقتدا اور صحیح تھے جب تک ان سے رجوع نہیں کیا گیا تھا؟ یا پھر صحابہ کے ذاتی اجتہاد پر مشتمل مذکورہ افعال رجوع سے پہلے بھی غلط تھے اور رجوع کے بعد خطاءہی تھے؟! اس معاملے میں یہی صواب اور حق ہے کہ جو مسئلہ حدیث سے ثابت ہو اسکے خلاف کسی بھی صحابی کا اجتہاد اور عمل مردود ہے اور صحابہ کے اس قسم کے اجتہادات میں کسی مسلمان کے لئے اتباع یا پیروی کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ حدیث میں مذکور ’’ناں‘‘ کو کسی بھی برگزیدہ صحابہ کا اجتہاد، فہم اور عمل ’’ہاں‘‘ میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
ویسے داڑھی کے معاملے میں یہ بحث غیر متعلق ہے کیونکہ صحابہ کرام کا چار صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے عمل پر نکیر نہ فرمانا اس لئے تھا کہ یہ عمل داڑھی کے حکم نبویﷺ کی مخالفت نہیں تھی بلکہ بعض صحابہ کا اجتہاد تھا کہ حج و عمرہ کے موقع پر حلق کروانے کے حکم میں سر کے بالوں کے ساتھ داڑھی کے بال بھی شامل ہیں۔ البتہ یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کہ داڑھی بڑھاؤ کی خلاف ورزی اس وقت ہوتی جب یہ چارصحابہ تمام زندگی ایک مشت سے داڑھی کو بڑھنے ہی نہیں دیتے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ یہ اپنی داڑھیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور انہیں بڑھنے دیتے تھے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
گیارواں نظریہ:
’’لمبی اور بڑی داڑھی بدصورتی اور وحشی پن کی علامت ہے۔‘‘
یہ نظریہ بہت سے علماء کا ہے۔ شیخ عبدالحمید ہزاروی لکھتے ہیں: شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹادیتے تھے تو کسی نے گوندلوی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ داڑھی کٹادیتے ہیں تو شیخ رحمہ اللہ فرمانے لگے: کیا ہم وحشی بن کررہیں....؟(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 157)
امام طبری نے لکھا: اگر تم یہ سوال کروکہ داڑھی بڑھانے کی کیا توجیہ ہے ، حالانکہ تم کو معلوم ہےکہ اگر داڑھی کو مطلقاً چھوڑ دیا جائے اس حدیث کے ظاہر کی پیروی کرتے ہوئے تو داڑھی طول اور عرض میں بہت بڑی ہوجائے گی اور انسان قبیح اور بدشکل ہوجائے گا حتیٰ کہ لوگ اس کی مثال بیان کریں گے۔(نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، جلدثانی عاشر(۱۲)، صفحہ413)
یہ کائنات کا بدترین جھوٹ ہے کیونکہ راقم الحروف نے داڑھی کو مطلقاً چھوڑ دیا ہے لیکن اس کے باوجود سالہاسال سے داڑھی ایک مشت سے آگے نہیں بڑھی اس کے علاوہ راقم ہی کے حلقہ احباب اور جاننے والے لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے داڑھی کو معاف کررکھا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی داڑھی اس حد تک نہیں بڑھی جس سے ان کی شخصیت بدنما ہوئی ہو۔ نہ جانے یہ کون سی خلائی مخلوق کی نسل سے تعلق رکھنے والے مرد ہیں جن کی داڑھی نہ تراشنے کی صورت میں بڑھتی ہی جاتی ہے حتی کہ وہ بدصورت ہوجاتےہیں؟ جس دنیا میں راقم السطور بستا ہے وہاں تو ایسا کوئی مرد نہیں پایا جاتا جو صرف اس لئے بدشکل ہوگیا کہ حدیث کے ظاہری حکم پر عمل کی وجہ سے اس کی داڑھی بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔اس طرح کی فرضی کہانیوں سے عوام کو ڈرا کر نجانے کیوں یہ لوگ نبی ﷺ کے حکم پر عمل سے لوگوں کو روکنا چاہتے ہیں؟
بعض اہل حدیث علماء کی طرح بعینہ یہی نظریہ احناف کا بھی ہے کہ داڑھی نہ کاٹنے کی صورت میں بڑھتی رہے گی حتی کہ انسان بدصورت اور قبیح نظر آنے لگے گاچناچہ عقل کے اندھے حسین احمد مدنی دیوبندی صاحب لمبی داڑھی کے متعلق فرماتے ہیں: مگر چونکہ اس طرح کا عمل بدنمائی پیدا کرتا ہے اور بسا اوقات صورت بگڑ جاتی ہے اور لوگوں کو استہزاء اورتذلیل کا موقع ملتا ہےاور یہ چیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھی۔(ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ، صفحہ 120)
غور فرمائیں کہ حنفیوں کو اپنے مذہب کے خلاف آنے والی سنتوں سے کس قدر نفرت ہے! تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو اپنے رسول ﷺ کے حکم ’’داڑھی کو بڑھنے دو‘‘ کو بدنمائی اور صورت کا بگڑنا قرار دے رہے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندہ نہیں اور ستم در ستم یہ کہ اپنے دعویٰ میں وزن پیدا کرنے کے لئے جان بوجھ کر نبی کریم ﷺ کے متعلق کذب بیانی کررہے ہیں کہ لمبی داڑھی نبی ﷺ کو ناپسند تھی۔ نعوذباللہ من ذالک
اس کے علاوہ حنفیوں کے داڑھی کو معاف نہ کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے ناقص فہم میں داڑھی کو معاف کرنے کے نتیجے میں داڑھی قدموں تک پہنچ جائے گی۔ مولانا حسین احمد مدنی جو کہ بدقسمتی سے دیوبندیوں کے شیخ الحدیث ہیں نبی کریم ﷺ کے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کے حکم کا استہزا اور مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی کے مطلقاً بڑھانے کا حکم کیا ہے جس میں کوئی حد مقرر نہیں فرمائی گئی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کو بڑھاتے ہی رہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ بڑھ کر پائوں یا زمین تک پہنچ جائے۔چناچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ’’والمختار ترکھا علی حالھا وان لا یتعرض لھا بتقصیر ولاغیرہ ‘‘ مفتی بہ یہ ہے کہ ڈاڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ کٹوانے یا کتروانے وغیرہ کا کوئی عمل نہ کیا جائے۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ،صفحہ 119،120)
حسین احمد مدنی کے یہ خیالات نبی ﷺ کے فرمان کی واضح توہین و تضحیک ہیں لیکن اس کے باوجود بھی دیوبندیوں کا عشق رسول مسلم اور شک وشبہ سے بالاتر ہے کیونکہ بقول الطاف حسین حالی ’’ مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں!‘‘
ویسے حنفی حضرات کا یہ پرانا وطیرہ ہےکہ جو سنتیں یا شرعی احکامات ان کے مذہب کے خلاف ہوتے ہیں ان پر رد کرتے ہوئے یہ نبی رحمت ﷺکے حکم اور عمل پرتنقید اور اعتراض سے نہیں چوکتے حتی کہ استہزا اور ٹھٹھا کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، انہیں رسول اللہ ﷺ کی عزت سے اپنے تقلیدی مذہب اور خودساختہ اماموں کی عزت زیادہ عزیز ہے۔بہرحال حنفیوں نے حکم نبویﷺ پر عمل نہ کرنے کے لئے جو مضحکہ خیز بہانہ تراشا ہے وہ عقل کے ساتھ نقل کے بھی برخلاف ہے۔ اگر عام مشاہدے کو ذہن میں رکھا جائے اور ا س پر زحمت غوروفکر کی جائے تو مسلمانوں میں اہل حدیث ہی وہ واحد جماعت ہے جو منشا رسول کے مطابق داڑھی کو معاف کرتی ہے اور اس سے کسی قسم کا تصرف نہیں کرتی ۔ لیکن اس کے باوجود ماضی کے علاوہ حال میں بھی کسی ایک بھی اہل حدیث کو پیش نہیں کیا جاسکتا جس کی داڑھی سنت رسول ﷺ پر عمل کی وجہ سے بڑھتے بڑھتے گھٹنوں یا پیروں تک پہنچ گئی ہو۔ راقم کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی چراغ لے کر بھی ڈھونڈے تو ایسے کسی ایک بھی متبع سنت کو تلاش نہیں کرسکتا جس کی داڑھی کی کیفیت ایسی ہو جیسی ماقبل بیان کی گئی ہے۔ اہل حدیث کو چھوڑئیےسکھوں کی داڑھی کو دیکھ لیجئے وہ بھی تمام زندگی داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں اور بالکل بھی نہیں کاٹتے لیکن پھر بھی کسی ایک سکھ کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس کی داڑھی نے اس قدر طوالت اختیار کی ہوکہ اس کے پیروں کو جا لگی ہو۔سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کو دیکھ لیجئے کہ نبی ﷺ نے کبھی اپنی ریش مبارک کو نہیں کٹوایا کیونکہ جب خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو داڑھی مطلقاً بڑھانے کا حکم دیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی ﷺ خود اس کے خلاف کریں؟ داڑھی مبارک میں چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کے باوجود بھی رسول اللہ ﷺ کی داڑھی سینے تک تھی اور سینے سے بڑھکر پیٹ یا ناف تک نہیں پہنچی تھی مشاہدے کے علاوہ اگر حقیقت حال پر بھی نظر ڈالی جائے تو واقعہ یہ ہےکہ ہر جسمانی عضو کے بالوں کی ایک مخصوص لمبائی اور موٹائی ہوتی ہے جو مختلف لوگوں میں مختلف ہوسکتی ہےلیکن بالوں کی طوالت کا یہ اختلاف غیر معمولی نہیں ہوتا جیسے انسانی آنکھ کی پلکوں کے بال ہیں یہ ہر آنکھ کے مختلف ہوتے ہیں کسی کی پلکیں گھنی کسی کی ہلکی کسی کی لمبی کسی کی چھوٹی ہوتی ہیں لیکن انہیں کاٹنے کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے بڑھنے کی ایک متعین حد ہےاس طرح ہاتھوں کے بال کہ عورتوں میں تو یہ عام طور پر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن مردوں میں کسی کے گھنے اور لمبے بال ہوتے ہیں اور کسی کے ہلکے اور معمولی اور بعض کے تو ہوتے ہی نہیں ہیں لیکن ان بالوں کی مخصوص اور محدود لمبائی کی وجہ سے کبھی کسی مرد کو انہیں تراشنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تو جسم پر اگنے والے بالوں کو دیکھنے والا شخص آخر یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ داڑھی کے بڑھنے کی کوئی حد نہیں ہوگی! جس طرح جسم کے ہر عضو کے بالوں کی ایک مخصوص اور محدود لمبائی ہے اسی طرح داڑھی کے بالوں کی بھی ایک مخصوص اور محدود لمبائی ہوتی ہے جس سے داڑھی تجاوز نہیں کرسکتی اور لمبائی کی یہ زیادہ سے زیادہ حدجومختلف وجوہات کی بنا پر مختلف لوگوں میں الگ الگ ہوتی ہے تمام عمر تبدیل نہیں ہوتی۔پھر یہ بھی غور فرمائیں کہ کسی کی داڑھی گھنی ہوتی ہے کسی کی ہلکی اور کم بالوں والی ہوتی ہے اور بعض مردوں کے پورے چہرے پر داڑھی اگتی ہے لیکن بعض مردوں کے صرف تھوڈی پر ہی بال اگتے ہیںجسے بطور استہزا ’’بکرا داڑھی‘‘ کہا جاتا ہے،، جس مرد کو پوری داڑھی نہ آتی ہو وہ چاہ کر بھی پورے چہرے پر بال نہیں لاسکتا اور بیان کی گئی یہی صورت داڑھی کی لمبائی کے ساتھ بھی ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی داڑھی بڑھنے دے اور نہ کاٹے تو بعض مردوں کی داڑھی دو یا تین انچ سے زیادہ نہیں بڑھتی ، بعض مردوں کی داڑھی ایک مشت پر آکر ٹھہر جاتی ہے، بعض کی صرف سینے تک ہی رہتی ہے اور اس سے زیادہ کبھی لمبی نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک تھی، اور ہزاروں اور لاکھوں میں کوئی مرد ایسا ہوتا ہے جس کی داڑھی کی لمبائی ناف تک پہنچتی ہےاسکے برعکس گھٹنوں، قدموں اور زمین تک پہنچنے والی تصوراتی اور فرضی داڑھی کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے یہ جھوٹ محض ہے جو اپنے غیرشرعی تصورات کو تقویت دینے کے لئے گھڑا گیا ہے۔ بہرکیف اتنی گفتگو کا مقصد یہ حقیقت بیان کرتاہےکہ کی جسم کے کسی بھی حصے کے بالوں کو اگر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور جہاں تک وہ بڑھتے ہیں بڑھنے دیا جائے تو بھی وہ ایک محدود اور خاص لمبائی سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکتے، چاہے اس مقصد کے لئے جتنے بھی جتن کیوں نہ کئے جائیں۔ فطرت نے جسم کے مخصوص اعضاء میں بالوں کی جو لمبائی اور موٹائی کسی شخص میں متعین و مقرر کی ہے مرتے دم تک اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ قدرت نے داڑھی کی طوالت اتنی رکھی ہی نہیں کہ وہ زمین یا پیروں کی حد کو پہنچ جائے چناچہ مخالفین و منکرین’’اعفاء اللحیۃ‘‘ کا یہ پروپیگنڈا کہ حدیث کے مطابق داڑھی کو معاف کرنے کا نتیجہ پیروں اور زمین تک پہنچنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہےباطل ہے اور دفاع مذہب کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ پس عقل اور نقل سے ثابت ہوا کہ جب داڑھی بڑھتے بڑھتےزمین تک پہنچتی ہی نہیں توحنفیوں کے داڑھی کو معاف کردینے سے بچنے کے لئے اختیار کردہ حیلے اور بہانے کی بھی کوئی وقعت اور حقیقت باقی رہی اور اس پرمستزاد نبی کریم ﷺ کے حکم ’’اعفاء اللحیۃ‘‘ پر عمل کو بدشکلی اور بدصورتی کی وجہ قرار دینا ان کی وہ بدبختی ہے جو سنت رسول کے عملی انکار کی وجہ سے ان پر قدرت کی جانب سے مسلط ہوگئی ہے۔

بارواں نظریہ:
’’بعض خوش فہم حضرات چار صحابہ کے داڑھی ترشوانے کے خالص ذاتی فعل سے حیرت انگیز طور پرتمام صحابہ کا داڑھی کاٹنا مراد لے لیتے ہیں۔ ان کی خام خیالی یہ ہے کہ جب چار صحابہ کےداڑھی کاٹنے کا روایات میں ذکر آگیا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ تمام صحابہ داڑھی کاٹتے تھے کیونکہ کسی ایک صحابی کی بھی اس عمل پر نکیر نہیں ملتی جو ان کی طرف داڑھی کاٹنے کے اس عمل کی تائید ہے۔لہٰذا جب کوئی کسی عمل کی تائید کرتا ہو تو اس کا اس پر عمل کرنا بھی سمجھ میں آتا ہے۔‘‘
ان فرضی خیالات کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ جب کوئی، ایک موقف پر بضد ہوتو وہ اسی طرح کی الٹی سیدھی باتوں اور عجیب وغریب نیزناقابل فہم منطقوں سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ عرض ہے کہ اگر روایات میں یہ آتا کہ صحابہ مشت کے بعد داڑھی کے بال کتروا لیتے تھے تواس عمل کو یقیناً تمام صحابہ کی جانب منسوب کیا جاسکتا تھا کیونکہ کسی مخصوص صحابی یا بعض صحابہ کو متعین نہ کیاجانااس بات کی دلیل بنتی ہے کہ اس سے مراد ہر ایک صحابی ہے۔اس کے سراسر برعکس روایات میں مخصوص چار صحابہ کا نام لے کر یہ بیان ہونا کہ وہ داڑھی کترتے تھے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہےکہ باقی صحابہ ایسا نہیں کرتے تھے کیونکہ اگر دیگر صحابہ کا بھی یہی فعل ہوتا تو پھر مخصوص اور متعین کرکے چار نام لینے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ایک عام فہم بات ہے لیکن اسے بھی سمجھنے کے لئے عقل سلیم درکار ہےجو کہ کسی ضدی اور پہلے سے ایک مخصوص سوچ و ذہن رکھنے والے پاس نہیں ہوسکتی۔ پھرایسا بھی نہیں ہے کہ صرف داڑھی کٹوانے والے ناموں کا ہی تذکرہ ملتا ہے اور داڑھی کو معاف کردینے والوں کے نام سے ذخیرہ روایات خالی ہے کیونکہ یہی لوگ جن کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کیا گیا ہے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی صحابی داڑھی کو معاف رکھتا تو اس کانام بھی اسی طرح احادیث میں ملتا جس طرح داڑھی کٹوانے والوں کانام ملتا ہے چناچہ ان کے زعم میں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام صحابہ اپنی داڑھیاں کٹواتے تھے۔فرضی دنیا میں جینے والے اپنی تسلی کے لئے مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ اس میں پانچ صحابہ کو متعین کرکے ان کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ جو راوی حدیث ہے اس کی ملاقات ہی صرف ان پانچ صحابہ سے ہوئی تھی۔
شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں: رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲، مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
کوئی کم فہم اس اثر کا یہ مطلب ہرگز نہ لے کہ چونکہ اس میں نام لے کر پانچ صحابہ کا ذکر کیا گیا ہے چناچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان پانچ کے علاوہ دیگر صحابہ داڑھیاں کاٹتے تھے۔یہاں شرجیل بن مسلم جو کہ تابعی ہیں اپنا واقعہ بیان کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں صرف پانچ صحابہ کو دیکھا اور وہ پانچوں داڑھیوں کو معاف رکھتے تھے اور اس میں تراش خراش نہیں کرتے تھے۔رہی بات ان پانچ کے علاوہ دوسرے صحابہ کی تو ان کے بارے میں دیگر روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ داڑھیوں کو نہیں کاٹتے تھے اور کوئی بھی دعویٰ اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےیا کوئی موقف صرف اسی وقت کسی درست نتیجے پر پہنچ سکتا ہے جب ایک موضوع پر تمام روایات کو جمع کیا جائے چناچہ پورے ذخیرہ احادیث میں صرف چارنام ایسے ملتے ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ داڑھی کو کاٹتے تھے جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان چار کے علاوہ باقی صحابہ داڑھی نہیں کاٹتے تھے۔
پس بے عقل لوگوں کا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کے فعل کے ساتھ چار صحابہ کے نام کے نتھی ہونے سےیہ سمجھنا کہ تمام صحابہ ہی ایسا کرتے تھے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر اس پر انکار کرتے نہایت ہی احمقانہ خیال ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ گنتی کے چار صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو اصل اصول قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا کیونکہ روایات میں چار صحابہ کے متعلق داڑھی کاٹنے کا تذکرہ آنے کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ دیگر صحابہ اپنی داڑھیاں نہیں کاٹتے تھے نہ حج و عمرہ کے موقع پر اور نہ ہی عام حالات میں وگرنہ چار صحابہ کے انفرادی تذکرے کے بجائےمطلق طور پر روایات میں یہ آتا کہ صحابہ اپنی داڑھیوں کے ساتھ ایسا کرتے تھے۔ اور مطلقاًصحابہ کا لفظ آنے کا مطلب ہے کہ تمام صحابہ، اور گن کر چار صحابہ کے نام کے ساتھ اس فعل کا تذکرہ بتاتا ہے کہ صرف یہ چار صحابہ ہی ایسا کرتے تھے دیگر کوئی صحابی ایسا نہیں کرتا تھا۔جیسا کہ مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ لکھتے ہیں: مطلقاً ’’صحابہ‘‘ کہنے سے یہ شبہہ پڑتا ہےکہ تمام صحابہ مراد ہیں، حالانکہ بات ایسے نہیں، صرف تین یا چار صحابہ کرام ہی ہیں جن سے عملاً مشت سے زائد داڑھی کاٹنا ثابت ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 251)
اس مسئلہ کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ صحابہ کی مبارک جماعت میں چار صحابہ ایسے تھے جو اپنی داڑھیوں میں تراش خراش کرتے تھےاور ان کے نام صحیح روایات میں مذکور ہیں اس کے علاوہ سترہ (۱۷) ایسے صحابہ کا نام بنام تذکرہ ملتا ہے جو اپنی داڑھیوں کو معاف کردیتے تھے اور انہیں کبھی نہیں کاٹتے تھے۔اس کے علاوہ ہزاروں صحابہ ایسے ہیں جن کی اپنی داڑھیوں کے ساتھ سلوک کی کیفیت روایات میں نہیں ملتی کہ آیا کہ وہ اپنی داڑھیوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے تھے یا انہیں تراش لیتے تھے۔اس کا فیصلہ نبی کریم ﷺ کا عام حکم’’ أَعْفُوا اللِّحَى‘‘ واضح کردیتا ہے کہ ہرصحابی نے اسی پر عمل کیا ہوگا چونکہ صحابہ کرام نبی ﷺ کے سچے متبعین تھے اس لئےعام حالات میں یقیناً یہی تصور کیا جائے گا کہ انہوں نے نبی ﷺ کا حکم تسلیم کرتے ہوئے داڑھیوں کو بڑھنے کے لئے چھوڑ دیا ہوگا اس کے علاوہ ان صحابہ کے بارے میں کوئی اور تصور یا نظریہ ان کے حق میں بدگمانی متصورہوگی۔پس واضح ہوا کہ چار صحابہ کے علاوہ باقی تمام تر صحابہ اپنی داڑھیوں کو بڑھاتے، لٹکاتے، معاف کرتے اور چھوڑ دیتے تھے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,994
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
412
تیرواں نظریہ:
ایک قبضہ داڑھی کے جواز کے لئے بعض لوگوں نے بغیر کسی ثبوت کے اپنے تئیں یہ نظریہ قائم کرلیا ہے کہ صحابہ کے نزدیک اعفاء کے اصل معنی ایک مشت تھے چناچہ حافظ عمران الہٰی صاحب رقمطراز ہیں: عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ایک مشت کے ہیں، یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاء کے بارے میں سوال ہواتو انھوں نے جواب دیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے اس حدیث کو بیان کرنے والے راوی ہیں: ’’کان ھذا عندہ الاعفاء‘‘ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مشت داڑھی ہی اعفاء ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 180)
یہ دعویٰ سراسر خلاف واقع ہے اور نقل کے ساتھ عقل دونوں ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔اگر نبی کریم ﷺ کے حکم اعفاء کے معنی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مشت کے ہوتے تو وہ زندگی بھر ایک مشت سے زائد داڑھی نہ بڑھنے دیتے لیکن روایات سے ثابت ہے کہ عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین حج اور عمرے کے علاوہ عام زندگی میں داڑھی کو معاف رکھتے تھے اس کے علاوہ حافظ عمران الہٰی کا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ دعویٰ کرنا اس لئے بھی غلط ہے عبداللہ بن عمر نے خود کبھی ایسا نہیں کہاکہ میرے نزدیک اعفاء ایک مشت ہےاس لئے مدعی سست اور گواہ چست والے معاملے بچنا چاہیے ۔یہ حافظ عمران الہٰی، امام خلال اور احمد بن حنبل کا اپنا خیال، رائے اور استنباط اور استدلال ہے جسے ان علماء کو خواہ مخواہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگانے سے احتیاط کرنی چاہیے۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں انہیں کوئی ایسی صریح اور دو ٹوک روایت پیش کرنی چاہیے جس میں مذکورہ چاروں صحابہ (جو خاص موقع پر ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹتے تھے) میں سے کم ازکم کسی ایک صحابی کا قول ہو کہ ان کے نزدیک نبی مکرم ﷺ کےحکم اعفاء کے معنی ایک مشت ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اعفاء کا مطلب ایک مٹھی ہوتا تو پھر صحابہ کو کسی خاص موقع کا انتظار کئے بغیر پورا سال داڑھی کٹوانا چاہیے تھالیکن چار صحابہ کا صرف اور صرف حج اور عمرے کے موقع پر قبضہ سے زائد داڑھی کاٹنا خود بتاتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کے نزدیک داڑھی کاٹنے کا تعلق صرف حج اور عمرے کے ساتھ خاص ہے اورعام زندگی میں یہ فعل ممنوع ہے۔وگرنہ وہ حج اور عمرے کے موقع پر داڑھی کاٹتے ہوئے خصوصی طور پر بیان کرتے کہ یہ فعل حج اور عمرے کے علاوہ عام زندگی میں بھی جائز ہے تاکہ وہ لوگ جو ان صحابہ کا یہ فعل دیکھتے اور عام زندگی میں ان صحابہ سے ملاقات کا ان کے لئے کوئی امکان نہ ہوتا تو انہیں بھی صحیح مسئلہ معلوم ہوجاتا۔ چونکہ ان صحابہ نے ایسا کچھ بھی بیان نہیں کیا اس لئے یہ اس بات کی دلیل فراہم کرتا ہے کہ خود ان صحابہ کا یہ فعل حج اور عمرے سے متعلق تھا اور اس سے یہ نظریہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے کہ ان کے نزدیک اعفاء بمعنی ایک مشت تھا۔

چودواں نظریہ:
ناقص فہمی اور قلت علم کی وجہ سے بعض الناس کا نظریہ مشرکین مکہ کے قطع اللحیہ کا بھی ہے چناچہ بعض کم عقلوں کو یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ داڑھی کے حوالے سے جن مشرکین کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے وہ مجوس سے الگ ہیں یعنی مشرکین مکہ ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن احادیث میں مشرکین کا لفظ آیا ہے وہاں مراد مجوسی مشرک ہیں ناکہ مشرکین مکہ۔دلیل ملاحظہ ہو:
ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹاؤ۔(بحوالہ بخاری شریف :ج2 ص875)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہاں مراد مجوسی ہیں کیونکہ اُن کی ہی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے اور مونڈتے تھے۔ (فتح الباری ج 10 صفحہ 429)
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی وضاحت اور خبر سےبعض لوگوں کا یہ خیال کہ مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ کاحدیث میں جو حکم آیا ہے اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں خیال باطل ثابت ہوتاہے کیونکہ اہل عرب فطرت پر قائم تھے ان میں نہ کوئی تو مشرک داڑھی کاٹتا تھا اور نہ ہی کوئی مسلمان ۔ بلکہ یہاں مشرکین سے مراد مجوس ہی ہیں کیونکہ داڑھی کاٹنے کا عمل انہیں مجوس کا تھا جو اصلاًمشرک تھے۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن لکھتے ہیں: (عن عمر بن محمد بن زید) یعنی ابن عبداللہ بن عمر۔ (خالفوا المشرکین) مسلم کی ’حدیث ابوہریرہ‘ میں ہے (خالفواالمجوس) ابن عمر کی حدیث میں بھی وہی مراد ہیں کیونکہ وہی داڑھیاں ترشواتے تھے بعض تو منڈواتے تھے(یعنی عرب کے مشرکین ایسا نہ کرتے تھے)۔ (توفیق الباری شرح صحیح بخاری،صفحہ567)
اسی طرح غلام رسول سعیدی بریلوی بھی لکھتے ہیں: اس حدیث میں مذکور ہے’’مشرکین کی مخالفت کرو‘‘، اس سے مراد مجوس ہیں، اس پر صحیح مسلم کی ایک روایت دلالت کرتی ہے۔(نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، جلدثانی عاشر(۱۲)، صفحہ413)
بطور فائدہ عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں کسی ایک صحابی سے بھی داڑھی کاٹنا ثابت نہیں ہے ۔ رہی بات جو چار صحابہ داڑھی کاٹتے تھےتو ان کا یہ عمل زمانہ وحی کے بعد کا ہے کیونکہ اگر یہ فعل نبی ﷺ کی موجودگی یا حیات میں ہوتا تو دو صورتیں تھیں یا تو نبی ﷺ اس کے متعلق کوئی حکم دے دیتے جبکہ ایسا نہیں ہوا یا پھر اس پر خاموشی اختیار فرما کر اسے شریعت بنا دیتے جبکہ ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ داڑھی کاٹنے کو صحیح سمجھنے والے علماء بھی عبداللہ بن عمر وغیرہ کے ذاتی عمل کی وجہ سے صرف اس کے جواز کے قائل ہیں اور اسے اصل حکم نہیں مانتےکیونکہ نبی ﷺ نے نہ داڑھی کاٹی اور نہ کٹوانے کا حکم دیا اس لئے ان کے نزدیک داڑھی بڑھانا افضل و بہترہے اور ایک قبضہ تک رکھناصرف جواز کی حد تک درست ہے۔یاد رہے کہ جواز ایک گنجائش ہوتی ہے جو کہ اصل حکم کے علاوہ دی جاتی ہے جبکہ اصل حکم کچھ اور ہوتا ہے اس لئے جواز اصل حکم کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔
راقم السطور کی طرح دوسرے اہل علم کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی میں کسی صحابی نے بھی داڑھی نہیں کاٹی۔ اور اگر ایسا ہوتا تو نبی ﷺ کی خاموشی کی صورت میں یہ تقریری حدیث بن جاتی اور داڑھی کاٹنا بھی عین شریعت ٹھہرتا۔ نیزمسئلہ ہذامیں علماء کا شدید اختلاف بھی اس حقیقت کا غماز ہے کہ عبداللہ بن عمر سمیت باقی تین صحابہ نے بھی نبی ﷺ کی موجودگی یا زمانے میں اپنی داڑھی کوکسی بھی تصرف سے باز رکھا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ دینی حکم ہوتا اورہم تک ہرحال میں پہنچتااور اس پر سب اتفاق ہوتااور یہ جھگڑے اور مباحثے بھی جنم نہ لیتے۔زبیر بن خالد مرجالوی لکھتے ہیں: نہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے داڑھی کٹائی اور نہ ہی کٹوانے کا حکم دیا۔ اور رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کسی بھی صحابی نے اپنی داڑھی کا ایک بال بھی نہیں کٹوایا۔ اگر آپ ﷺ کی موجودگی میں کسی صحابی نے داڑھی کاٹی ہوتی اور رسول اللہ ﷺ کا انکار نہ ہوتا تو ہم تقریری حدیث کہہ کر داڑھی کٹوانے کا فتویٰ بھی دیتے اور عمل بھی کرتے، مگر آپ ﷺ کی موجودگی میں کسی بھی صحابی نے اپنی داڑھی نہیں کٹوائی۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کٹانا درست نہیں۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 78)
سعودی عالم علامہ عبدالحسن العباد کا بھی یہی یقین وخیال ہے کہ داڑھی کاٹنے کا فعل رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں نہیں ہوا، موصوف لکھتے ہیں: تمام صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی موجودگی میں مذکورہ طرز کی داڑھیاں رکھی ہیں، خط یا تراش خراش نہیں کی۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 265)
مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ اس بابت رقمطراز ہیں: جبکہ مقابلے میں ایسے واضح اور صریح الفاظ ہیں جن میں داڑھی کو چھوڑنے کا حکم ہے، پھر آپ ﷺ کا عمل بھی اس کے مطابق تھا، نیز آپ کی زندگی میں تمام صحابہ کرام کا عمل بھی اسی طرح رہا، تو کیا اگر تین چار صحابہ کرام نے بعد میں کسی وجہ سے مشت سے زائد داڑھی کٹانا شروع کردی یا ان کے موقف میں تبدیلی آگئی، تو کیا ہم اس حکم اعفاء اور رسول اللہﷺ کے عمل اور سنت ہی سے منحرف ہوجائیں۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 268)
یہ وضاحت اس موقف کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ اصحاب رسول کا داڑھی کاٹنے کا فعل دین اسلام سے تعلق نہیں رکھتااور یہ غیرمسنون عمل ہے کیونکہ شریعت نبی کریم ﷺ کی زندگی میں اپنے کمال اور اتمام کو پہنچ گئی تھی اور اس وقت تک کسی نے داڑھی کاٹنے کی ہمت اور جرات نہیں کی تھی۔ داڑھی کاٹنے کا فعل تکمیل دین کے بعد کا ہے جسے اجتہاد کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتااور اجتہاد بھی وہ جو مبنی بر خطا تھا۔
 
Last edited:
Top