امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"[سنن أبي داود 2/ 218 رقم 2041]۔
ہمارے ناقص مطالعہ کی روشنی میں یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ اسے روایت کرنے میں
’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ منفرد ہے ۔
اور یہ مختلف فیہ راوی ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
مختلف فيه
یہ مختلف فیہ راوی ہے[الكاشف للذهبي: 1/ 353]
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 222 واسنادہ صحیح]۔
نیز کہا:
ضَعِيفُ الْحَدِيثِ
یہ ضعیف الحدیث ہے[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 3/ 68 واسنادہ صحیح]۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[الضعفاء الكبير للعقيلي: 1/ 270 واسنادہ صحیح]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
لَيْسَ بِالْقَوِيّ
یہ قوی نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 33]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
حميد بن زياد، أبو صخر: ضعفه ابن معين مرة، وقواه أخرى
حمیدبن زیاد ابوصخر ، اسے امام ابن معین نے ایک مقام پر ضعیف قرار دیا اور دوسرے مقام پر اسے قوی کہا[ديوان الضعفاء ص: 105]
اس کے برخلاف بعض دیگر محدثین نے اسے ثقہ کہاہے۔
تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بارے میں راجح موقف یہ ہے کہ یہ صدوق یھم ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے خلاصہ کیاہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق يهم
یہ صدوق ہیں اور وہم کا شکارہوتے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1546]
تنبیہ بلیغ:
حميد بن زياد اور حميد بن صخر دونوں ایک ہی ہیں جیساکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
حميد بن زياد أبو صخر الخراط من أهل المدينة مولى بنى هاشم يروي عن نافع ومحمد بن كعب روى عنه حيوة بن شريح وهو الذي يروي عنه حاتم بن إسماعيل ويقول حميد بن صخر وإنما هو حميد بن زياد أبو صخر لا حميد بن صخر
حمیدبن زیاد ابوصخر ۔۔۔۔۔یہ وہی ہیں جن سے حاتم بن اسماعیل روایت کرتے ہیں اور اسے حمیدبن صخر بتلاتے ہیں ، جو کہ اصل میں حمیدبن زیاد ابوصخر ہیں نہ کہ حمیدبن صخر [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 189]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1546]
اورامام ذہبی رحمہ اللہ(المتوفى748) نے جو یہ کہا:
وأظن أن حميد بن صخر المدني آخر، روى عن سعيد بن أبي سعيد المقبري وهو الذي قال فيه أحمد بن حنبل: ضعيف.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 9/ 117]۔
تو عرض ہے کہ امام ابن حبان کے بالمقابل امام ذہبی رحمہ اللہ کی بات غیر مقبول ہے کیونکہ امام ابن حبان بہت پہلے کے ہیں اور ان کا مقام بھی بڑا ہے ۔
علاوہ بریں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بالجزم اوربغیر کسے شک وشبہ کے ساتھ یہ بات کہی ہے ۔جبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے محض اپنا گمان پیش کیاہے۔
بلکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اپنی مذکورہ بات کے برعکس کہا:
حميد بن زياد أبو صخر المدني سمع المقبري ضعفه أحمد وابن معين في قول ووثقه جماعة [المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 92]۔
حتی کی ایک مقام پر امام ابن حبان رحمہ اللہ کی موافقت کرتے ہوئے کہا:
حميد بن زياد أبو صخر المدني الخراط، صاحب العباء، وكان حاتم بن إسماعيل يسميه حميد بن صخر. [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 612]
لہذا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا موقف ہی درست اور یہ دونوں ایک ہی راوی کے نام ہیں۔
رہا بعض اہل نقد کی طرف سے ناموں میں اختلاف تو تعدد اشخاص کی دلیل نہیں بلکہ ایک ہی شخص کے مختلف حالت کی دلیل ہے ۔یعنی زیربحث راوی صدوق وحسن الحدیث تو ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں ضعف بھی ہے۔