• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعا کی اہمیت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جناب ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 09 شوال 1434 کو" دعا کی اہمیت" کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے دعا کی فضیلت اہمیت اور قرآن و سنت کی روشنی میں قبولیت کے اسباب اور اوقات ذکر کئے، اور مسلمانوں کو کثرت سے دعا مانگنے کی ترغیب دلائی۔

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو آسمان وزمین کو پیدا کرنے والا ہے،ہمہ قسم کی تکالیف کو دور کرنے والاہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع اور گناہوں سے معافی چاہتا ہوں، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے،اس کے اچھے اچھے نام ہیں،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ دینِ حنیف پر چلنے والوں کے امام ہیں، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد پر درود و سلام بھیج، آپکی آل اور تمام متقی صحابہ کرام پر بھی۔
اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد!
ہمیشہ اطاعت گزاری اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالی سے ڈرو ،اگر تم نے یہ کر لیا تو کامیاب ہونے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔

مسلمانو!
یہ بات سمجھ لو کہ انسان اپنے لئے اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ بھی اچھا کام نہیں کرسکتا، فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلا ضَرًّا إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ آپ کہہ دیجئے کہ : '' مجھے تو خود اپنے آپ کو بھی نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئیں [الأعراف: 188]اگر سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات ہے تو آپ سے کم تر لوگ تو اپنے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتے، وہ کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہوسکتے۔

اللہ تعالی نے مکلفین پر رحم کرتے ہوئے قرآن وسنت میں ان کیلئے مفید اور دنیا و آخرت میں نفع بخش ہر چیز بیان کردی، پھر ان کیلئے کامیاب زندگی کیلئے تمام اسباب بھی بیان کردئے، اور انہیں بدبختی کے تمام اسباب سے آگاہ کردیا، فرمایا: وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اور اللہ تمہیں سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے [يونس: 25] ایسے ہی فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی بخش ہو۔ اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اسی کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے [الأنفال: 24]

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (اللہ تعالی فرماتا ہے: "میں اپنے بندے کیساتھ ایسا ہی پیش آتا ہوں جیسے وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے، جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں " اللہ کی قسم! اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو بیابان علاقے میں اپنی سواری گم ہونے کے بعد پالے، جو میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اسکے قریب ہوتا ہوں، اور جو میری طرف ایک ہاتھ قریب ہو، میں اسکی طرف ایک باع قریب ہوتا ہوں، جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اسکی طرف دوڑ کر آتا ہوں) بخاری و مسلم

اللہ کے قریب کرنے والے اعمال میں دعا ایک خاص مقام رکھتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرين آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: ''مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ [غافر: 60]

اس آیت کریمہ میں ضمنی طور پر دعا بطور عبادت اور دعا بطور حاجت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، دعا بطور عبادت یہ ہے کہ انسان اللہ کے دئے ہوئے تمام احکامات چاہے فرض ہوں یا مستحب تمام کو ادا کرتے ہوئے عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرے، چنانچہ جب کوئی مسلمان فرائض یا نوافل ادا کر کے تو یہ حقیقت میں ان عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور اللہ تعالی اسے اس کا ثواب دیتے ہوئے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور اسے اپنے عذاب سے نجات بھی دیتا ہے، اور دنیا میں اس عبادت کے باعث اسکی حالت بھی درست فرما دیتا ہے، لہذا مسلمان ہر عبادت چاہے فرض ہو یا نفل اسکے بدلے میں بھلائی طلب کرتاہے اور تکالیف کا مداوا چاہتا ہے، جبکہ دعابطور حاجت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اپنی ضروریات کا مطالبہ کیا جائے، مثلا بیماری سے شفا، کشادگی رزق ، رفعِ تکلیف، قرضوں کی ادائیگی، اور آخرت کے بارے میں سوال کرے، جیسے جنت میں داخلہ ، جہنم سے آزادی، قبر کے سوالات میں کامیابی، اور ہمہ قسم کی آزمائشوں سے نجات مانگنے کا نام ہے، اور دونوں اقسام کی دعائیں اللہ تعالی کیلئے خاص ہیں، ان میں سے کوئی بھی غیر اللہ کیلئے جائز نہیں چاہے کوئی رسول، نبی ،یا کوئی اور مخلوق ہو، چنانچہ جس نے غیر اللہ سے دعا مانگی وہ مشرک ہے، اور مشرک پر اللہ تعالی نے جنت حرام کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے جہنمی قرار دیا ہے، ہاں اگر مرنے سے پہلے توبہ کرلے تو اللہ تعالی اسکی توبہ قبول فرما لیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ مسیح نے کہا:''اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ کیونکہ جو شخص اللہ سے شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا'' [المائدة: 72]
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا اور یہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو [الجن: 18] پھر فرمایا: وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ، بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ آپ کی طرف یہ وحی کی جا چکی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے، کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہوجائیں گے [الزمر: 65]
جبکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا: (دعا ہی عبادت ہے) ابو داود، ترمذی، اور اسے حسن صحیح کہا۔
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (دعا عبادت کا مغز ہے) ترمذی

دعا ہی وہ عظیم دروازہ ہے جہاں سے لوگوں اور تمام مخلوقات کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوتی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ مخلوقات کی ضروریات لا تعداد اور بے شمار ہیں اور انہیں جاننے والی ذات صرف اور صرف خالق و قادر اور علیم و رحیم ہے وہی ان ضروریات کو پوری کرسکتا ہے، وہی ہر سائل کی حاجت روائی کرتا ہے، ہر امید وار کی امیدیں پوری کرتا ہے، یہ سب کچھ کرنے کے با وجود اسکے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی، اور نہ ہی اسکے خزانے کبھی ختم ہو سکتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ آسمان اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے [المنافقون: 7] اور پھر فرمایا: إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ یہ ہماری عنائت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی[ص: 54]
جبکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا: (میرے بندو! اگر پہلے جن و انس سے لیکر آخری جن و انس تک ایک ہی میدان میں جمع ہوکر اپنی ضروریات مجھ سے طلب کریں تو انہیں تمام مطلوبہ اشیاء دینے کے بعد میرے خزانوں میں صرف اتنی کمی آئے گی جتنی سوئی سے سمند ر میں آتی ہے) مسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔
ہمارا رب پاک ہے، اسکے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اسے مختلف زبانوں کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بیک وقت کئی آوازیں اسے تنگ نہیں کر سکتی، تمام کی حاجات مختلف ہیں، ہر وقت اسے یا د بھی کیا جاتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے بارے میں کچھ یوں فرمایا: يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی موجود ہے سب اسی سے (اپنی حاجات) مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے [الرحمن: 29]
ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ہر دن کسی نہ کسی کام میں ہوتا ہے، کہ کسی کے گناہوں کو معاف کردیا، تو کسی کی مشکل کشائی کردی، یا دعا قبول کی اور قوموں کو ترقی یا تنزلی سے دوچار کردیا) اسے بزار نے روایت کیا۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مجھے قبولیت کی اتنی فکر نہیں ہوتی میر اکام صرف مانگنا ہے، اگر تمہیں مانگنا آگیا تو سمجھو دعا قبول ہوگئی"
بعض سلف سے منقول ہے کہ : "میں غور وفکر کے بعد ایک نتیجے پر پہنچا کہ اطاعت گزاری ہی ہر خیر کا سر چشمہ ہے، پھر غور و فکر کیا تو پتہ چلا کہ تمام خیرو برکات دعا میں پوشیدہ ہیں"
انسان کیلئے یہ بہت ہی بڑا خسارہ ہے کہ وہ دعا کرنے میں سستی کرے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کیلئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اسکے لئے رحمت کے دروازے کھول دئے گئے، اللہ تعالی کو اپنے بندوں کی جانب سے عافیت کا مطالبہ بہت پسند ہے، اور دعا نازل شدہ و غیر نازل شدہ تکالیف سب میں یکساں فائدہ دیتی ہے، اور تقدیری فیصلوں کو دعا سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے، چنانچہ کثرت سے دعا کیا کرو) ترمذی، حاکم روایت کیا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کے ہاں دعا سے عزیز کوئی عبادت نہیں)ترمذی، ابن ماجہ، اور حاکم نے اسے روایت کیا۔
عبادت میں دعا کرنے والے کو مسلسل ثواب ملتا ہے اور منقطع نہیں ہوتا، عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کرہ ارضی پر کوئی بھی مسلمان اللہ سے دعا مانگے تو اللہ تعالی اسکو وہی عنائت فرماتا ہے، اور اسی قدر اسکی تکالیف بھی دور کر دیتا ہے، تاآنکہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے)ایک آدمی نے کہا: پھر تو ہم کثرت سے دعائیں کریں گے، آپ نے سن کر فرمایا: (اللہ اکبر)، ترمذی نے روایت کیا اور اسے حسن و صحیح قرار دیا، جبکہ حاکم نے روایت کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے: (یا اسکے لئے دعا کے برابر ثواب محفوظ فرما لیتا ہے)
دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے، جسکے آثار واضح اور قابل مشاہدہ بھی ہوتے ہیں، جیسے اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی دعا پر کفار کو غرق فرمایا، نوح علیہ السلام نے دعا میں کہا تھا: فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ: ''میں مغلوب ہوچکا، اب تو ان سے بدلہ لے'' [القمر: 10]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر اللہ تعالی نے غزوہ احزاب میں تمام اتحادی افواج کو شکستِ فاش دی، ابراہیم علیہ السلام کی دعا پر اس امت کو نوازتے ہوئے ان میں آخری نبی سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، زکریا علیہ السلام کو یحیی علیہ السلام عنائت فرمائے، حالانکہ آپ اور آپکی زوجہ محترمہ انتہائی بڑھاپے کی حالت میں تھے، انبیاء کرام کو اللہ تعالی نے نجات دی، اور انکے تمام تر ساتھیوں کو ظالموں کے چُنگل سے آزادی دلائی ۔
دعا کے اثرات ہر وقت لوگوں میں مشہور ہوتے ہیں ، ایسا شخص انتہائی خوش نصیب ہے جو اپنے لئے جنت کی اور جہنم سے بچنے کی دعا کرے، صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرے، اور ایسے ہی اللہ تعالی سے ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ رہنے کیلئے دعا کرے، اور اسلام کی بلندی اور غلبہ کیلئے اللہ سے مانگے۔

مسلمانو!
دعا کیلئے مسلمانوں کو تو کیا کفار کو بھی ترغیب دی گئی ہے، کہ اگر کافر بھی مظلومیت کی حالت میں اللہ سے مانگے اللہ تعالی اسکی دعا قبول فرماتا ہے۔
دعا کے چند آداب اور اوقات ہیں، جو انہیں جمع کرلے اسکی دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ :
1- اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرے اور ممنوعات سے دور رہے،
2- اخلاص اور حضورِ قلب کے ساتھ مانگے، اس بارےمیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کی جانب سے قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے مانگو، دھیان رکھنا ! اللہ تعالی کسی غافل اور لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا) ترمذی، حاکم
3- اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی جائے ، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے، فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی دعا کرنےلگے تو حمد و ثناء سے ابتدا کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور اسکے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے)ترمذی، ابو داود، نسائی
4- دعا کی قبولیت کیلئے جلد بازی سے کام نہ لے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری دعائیں اس وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک جلد بازی کرتے ہوئے "دعائیں تو کی ہیں لیکن قبول ہی نہیں ہوتیں!"کے الفاظ زبان پر نہ لائے)بخاری و مسلم
5- دعا کرنے سے قبل صدقہ کرے، اور قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگے۔
6- دعا کے آداب میں سب سے اہم ترین ادب رزقِ حلال ہے، کھانا ، پینا ، اور پہناوا حلال کا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا: (سعد! اپنا کھانا پینا حلال رکھنا مستجاب الدعوات بن جاؤ گے)پھر تاریخ گواہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ واقعی مستجاب الدعوات تھے۔
دعا کے اسبابِ قبولیت میں :
1- لوگوں کو نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنے پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
2- رمضان میں یا عام روزوں کے بعد دعا قبول ہوتی ہے کہ فرمانِ باری تعالی احکام رمضان کے بعد ہے اور وہ ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلِيُؤْمِنُوا بِيْ لَعْلَهمْ يُرْشِدُونْ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ میں (ان کے) قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر ایمان لائیں اس طرح توقع ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں گے [البقرة: 186]
3- رات کی آخری تہائی میں بھی دعا قبول ہوتی ہے۔
4- بارش کے نازل ہونے کے وقت۔
5- بیت اللہ کو دیکھتے ہوئے
6- آذان اور اقامت کے درمیان
7- فرض نمازوں کے بعد
8- سفر میں
9- اور کسی بھی تکلیف کے وقت
اللہ کا کرم کتنا وسیع ہے وہ کتنا کریم ہے، جو بھی اس سے مانگے عنائت کرتا ہے، اور جو نہ مانگے اس پر غضب ناک ہوتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ سے نہ مانگے اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہوتا ہے)ترمذی
جامع ترین دعاؤں میں انبیاء کرام کی دعائیں شامل ہیں اور ان سب دعاؤں میں سب سے جامع ترین دعا :
ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار
فرمانِ باری تعالی ہے: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَلا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا[٥6] اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے [الأعراف: 55، 56]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، ہمارے لئے سنتِ سید المرسلین اور انکی جانب سے ملنے والی ہدایات کو نفع بخش بنائے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ بزرگ و برتر سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والاہے ، روزِ جزا کا مالک ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہ انتہائی طاقتور اور مضبوط ہے،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، صادق اور امین آپکا لقب تھا ، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر ، آپکی آل اور تمام پرہیز گار صحابہ کرام پر درودو سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو، جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو۔

اللہ کے بندو!
کثرت سے دعائیں مانگو، وہ کسی خالص دل سے دعا کرنے والے کی دعا رد نہیں کرتا، جو اس سے امیدیں لگاتا ہے کبھی نقصان نہیں اٹھاتا، خاص کر مصیبت اور تکلیف کے اوقات میں ، ان لمحات میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرنےوالے کی دعا اللہ قبول کرتا ہے۔

مسلم معاشرے کے افراد!
آج مسلم ممالک کی حالت ِ زار آپ کے سامنے ہے، مسلمانوں پرکچھ جابر اور ظالم حکمران مسلط ہیں جو کسی کا خیال نہیں کرتے ، نہ ہی انکی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں، نہ عزت آبرو کی اور نہ ہی دین کی، آج مسلمانوں میں داخلی خانہ جنگی بپا ہے، ایک مسلمان دوسرے کو مارنے پر تُلا ہوا ہے، ان سے خلاصی پانے کیلئے اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری سے دعائیں کرو، مسلمان آج ظالم و جابر حکمران اور داخلی انتشار کے باعث پیدا ہونے والے فتنے کے درمیان پِس رہے ہیں، اللہ تعالی اس کے بارے میں فرماتا ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً اور اس مصیبت سے بچ جاؤ جو صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص نہ ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے [الأنفال: 25] یعنی اسکے اسباب سے بچو۔
اللہ سے دعا کرو کہ مسلمانوں میں اسلام پر باہمی اتحاد و اتفاق پیدا فرمائے، اور انہیں اپنے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، حدیث نبوی میں ہے کہ : (جو مسلمانوں کے معاملات کا خیال نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے عہد لیا تھا کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنی ہے، جبکہ تمیم الداری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دین خیر خواہی کا نام ہے، دین خیر خواہی کا نام ہے، دین خیر خواہی کا نام ہے) ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کس کے لئے خیر خواہی ؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، قرآن کیلئے، رسول کیلئے ، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور تمام لوگوں کیلئے)مسلم
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اور دوسری جانب فرمانِ رسالت ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے)
چنانچہ سب سید الاولین و الآخرین امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.
اے اللہ ! تمام صحابہ سے راضی ہو جا ، تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا،یا اللہ! تمام امہات المؤمنین سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین راضی ہوجا اور ان لوگوں سے بھی جو انکی راہ پر چلیں، اے اللہ !اپنے کرم ، احسان، اور رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ!اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ!کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا کر دے ، یااللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ رب العالمین! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما۔
یا اللہ! ہمارے ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے،یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما، یا اللہ! جو ہم نے اعلانیہ کئے یا پوشیدہ کئے سب معاف فرما، یا اللہ! توں ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! توں ہی آگے کرنے والا ہے اورتوں ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔
یا اللہ! ہماری شرح صدر فرما، اور ہمارے معاملات آسان فرما، یا اللہ! ہماری شرح صدر فرما، اور ہمارے معاملات آسان فرما۔
یا اللہ!ہم سب کو تمام معاملات میں کامیاب فرما، اور ہمیں دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچا۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ [البقرة: 201]
یا اللہ! ہمیں اپنے نفس، اور گناہوں کے شر سے بچا، یا اللہ رب العالمین! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس اور اسکے چیلوں ، اور لشکروں سے بچا، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو شیطان اور اسکے چیلوں سے بچا، یا اللہ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین۔
یا اللہ رب العالمین! اسلام اور مسلمانوں کی ہر جگہ حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے ممالک کو ہمہ قسم کے فتنوں سے بچا، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ہمہ قسم کے فتنوں سے بچا، یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما۔
یا اللہ! مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مصر میں خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! شام میں مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔
یا اللہ! عراق میں مسلمانوں کی گمراہ کن فتنوں سے حفاظت فرما، یا اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کو تمام تر فتنوں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں اپنے پسندیدہ کاموں پر ملا دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! اسلام کو شریروں کے شر سے بچا، یا اللہ! اسلام کو شریروں کے شر سے بچا۔
یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو سنت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق عنائت فرما۔
یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ کیلئے بھی ہمارے سپرد نہ کر، اور نہ ہی لوگوں کے سپرد کر۔
یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ! اپنی راہنمائی کے مطابق اسے توفیق دے، یا اللہ !اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! اے اللہ رب العالمین!ہر اچھے کام میں اسکی مدد فرما، یا اللہ!توں ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صحت یاب فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، بیشک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ رب العالمین ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
یا اللہ! مقروض لوگوں کے قرض چکا دے، یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو[٩0] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہوجو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ [النحل: 90، 91]
اللہ عز و جل کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی عنایت کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں کو بخوبی جانتا ہے۔
 

ابو عرفان

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2022
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
5
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ١٨٦؁

(اے پیغمبر ﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دیجئے کہ) میں تو (تمہارے) قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو انہیں چاہیے کہ میرے احکامات کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں ،تاکہ نیک رُتبہ پائیں (سورۃ البقرہ : آیت۱۸۶)

دعا کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں دعا رب تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش کرنے اور امید قبولیت رکھنے کے ہیں۔ انسان حیاتِ دنیاوی میں مدوجزر کا شکار رہتا ہے ۔ اس پر غمی خوشی ‘دکھ پریشانی ‘ مصائب و آلام یا دشمنوں کا خوف‘ بیماریاں ناچاقیاں اور طرح طرح کے حوادث وارد ہوتے رہتے ہیں۔انسان اپنی فطری کمزوریوں کے سبب مجبور و محتاج ہے کہ کوئی صاحب قدرت و اختیار ذات اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والی ہو۔

اللہ رب العالمین جو ہمارا خالق و مالک ہے، وہ ہماری حاجات و ضروریات سے نہ صرف مکمل طور پر واقف ہے ‘ بلکہ وہی حاجت روائی و مشکل کشائی پر قادر مطلق بھی ہے۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ غمی خوشی ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھے اور صبر و شکر کے جذبوں کے ساتھ اسی سے دامن امید وابستہ رکھے کہ وہی مختار کل ہے۔ دعا مانگنا بندے کی عاجزی کااظہار اور اللہ مالک الملک کے متصرف الامور ہونے کی دلیل ہے۔ دنیاوی ساہوکار مانگنے سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں، جبکہ ہمارا خالق و رزاق مانگنے سے خوش ہوتا ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کی زبانی اعلان فرما دیا کہ میرے بندو ں کو بتا دیجئے کہ تمہارا یہ گمان کہ اللہ ہم سے کس قدر دور ہے کہ ہم چلّاچلّا کر اسے پکاریں یاکس قدر قریب ہے کہ ہم اسے چپکے چپکے دل ہی میں پکاریں تو سن لو کہ تمہارا رب تم سے کوئی دور نہیں، بلکہ تمہارے بہت قریب ہے یعنی تم اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں،بلکہ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے انتہائی نزدیک ہوتا ہوں اور اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہوں۔ دعا مانگنا اظہار بندگی کی علامت اور اس سے اعراض کرنا تکبر کی نشانی ہے۔ جیساکہ ایک مقام پر فرمایا گیا: اور تمہارے ر ب نے فرمایا ہے مجھ سے دعا مانگا کرو میں تمہاری دعا قبول کروںگا ۔ بے شک ،جو لوگ ازراہ تکبر میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں یقیناً وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔(سورۃ المومن)

معلوم ہوا کہ دعا مانگنا اور رب سے امیدیں وابستہ رکھنا عین عبادت ہے۔ جیساکہ رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے ،نیز فرمایا دعا عباد ت کا مغز ہے۔(ترمذی) دعا مانگنا اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں داخل کر دیا ہے، چنانچہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خود بخود اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتاہے اور اس کے آگے التجائیں کرتا ہے۔

رحمت عالم ﷺ نے فرمایا، تم میں سے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا (یعنی دعا مانگنے کی توفیق عطا کر دی گئی)اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اسی طرح فرمایا کہ دعا کے سو اکوئی چیز قضا (یعنی تقدیر کے فیصلے) کو رد نہیں کر سکتی۔(ترمذی) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ طے ہوتا ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لے گا، اس لئے اس بلا سے بچ جائے گا۔قضا و قدر سے بچنے کی کوئی تدبیر فائدہ نہیں دے سکتی، بجز یہ کہ اللہ رب العالمین سے دعا مانگی جائے۔ دعا اس آفت و مصیبت میں بھی نفع پہنچاتی ہے جو نازل ہو چکی ہواور اس آفت میں بھی جو ابھی وراد نہیں ہوئی ہے۔کوئی مصیبت یا پریشانی نازل ہونے کو ہوتی ہے کہ اتنے میں دعا کرنے والے کی دعا اس سے جاملتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر کے فضل و کرم سے انسان اس دعا کی بدولت آنے والی مصیبت سے بچ جاتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دعائوں کا خصوصی اہتمام کریں اور صبر و شکر کے ساتھ اظہار بندگی بجا لائیں ۔

دعا مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سیدنا زکریا علیہ السلام کا ذکر ہے۔ترجمہ! اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا (سورۂ مریم )آیت قرآنی سے واضح ہوا کہ رب سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں رہتا، بلکہ رب کی رحمت اپنے دعا مانگنے والے بندوں کے شامل حال ہو جایا کرتی ہے۔

اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی دعاجو دل کی گہرائی سے نکلے وہ ذاتِ باری تعالیٰ کے اختیاراتِ کلی اور اس کی توحید والوہیت پر بندے کے ایمان کو ظاہرکرتی ہے۔ پورے بھروسے اور کامل یقین کے ساتھ اس ذات وحدہ لاشریک سے دعا مانگنا ہی اپنی عاجزی ‘ انکساری و بندگی اور رب تعالیٰ کی شان رحیمی اور شان کبریائی کا اقرار ہے۔چونکہ خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا مانگو ،میں دعائوں کا سننے والاہوں۔ اسے یہ بات پسند ہے کہ اس کی بارگاہ رحمت میں سجدہ ریز ہو اجائے ،اسی کے آگے دست سوال اور دامن حاجت دراز کیا جائے ،اس کے سامنے گڑ گڑایا جائے اوراسی سے مددمانگی جائے ۔ صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کسی صورت میں بھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ نہ جانے ہماری کس دعا کی قبولیت باری تعالیٰ کوکس صورت سے منظور ہو۔ اگر اس غفور الرحیم کے نزدیک قرین مصلحت ہو تو ہماری مراد فوراً پوری کر دی جائے ۔اگر فوراً مراد پوری کرنا قرین مصلحت نہ ہو تو مناسب وقت پر وہ مراد پوری کر دی جائے، ورنہ اس کا بہتر نعم البدل دنیا یا آخرت میں دے دیا جائے یا کسی آنے والی مصیبت و بلا کو ٹال دیا جائے۔

سرورِکائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ بندۂ مومن رب کے حضور دعا کر کے کبھی نامراد نہیں رہتا۔ اگر دنیا میں اس کی مراد پوری نہیں ہوتی تو آخرت میں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایسے بندےکو اس قدر اجر عظیم عطا فرمائے گا کہ وہ بندہ خوش ہو جائے گا اور خواہش کرے گا کہ کاش میری کوئی دعا دنیا میں مقبول نہ ہوتی بلکہ تمام دعائوں کے ثمرات جنت میں حاصل ہوتے۔(حاکم)

دعاوں کے پورا نہ ہونے پر مایوس ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے، بلکہ دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، البتہ دعائوں کی مقبولیت اور طلب دعا کے کچھ اصول اور آداب ہیں جنہیںہرحال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح دعائوں کے شرفِ قبولیت کے اوقات و مقامات بھی ہیںجب اور جہاں خصوصیت کے ساتھ دعائیں مقبول بارگاہ الٰہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دعائوں کے مستجاب ہونے کے لئے ان امور کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایمانِ کامل‘ خشیت الٰہی‘ تقویٰ‘ کسب حلال اور اعمال صالحہ اوامرونواہی کی پابندی‘ استقلال‘ صبر‘ راضی برضارہنا پورے خشوع و خضوع سے جائز امر کے لئے دعا مانگ کر صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت پر توکل اور اس کی رضا پر سرتسلیم خم رکھنا جاہیے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ارحم ا لراحمین سی لو لگائے رکھے۔ اگر دعا پوری نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا اجر تو مل ہی جاتا ہے، بشرطیکہ انسان خود بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعا سے ہاتھ نہ کھینچ لے، یا بے حقیقت سہاروں کی تلاش میں گم گشتہ راہ نہ ہوجائے۔
 
Top