• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت دین کی ترقی کا راز

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
دعوت دین کی ترقی کا راز!

ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ​
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ (التوبة : 71)
مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، دوست ہیں، مددگار ہیں۔ کس کام میں مددگار ہیں؟ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ،قرآن پاک یہ آیت صاف طورپر بتاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صرف مردوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ عورتوں کی بھی ہے۔ عورتیں بھی اس کام میں ذمہ دار ہیں، اور صرف دوسروں کو ہی نیکی کا حکم نہیں دینا، بلکہ خود بھی نماز قائم کرتے ہیں ،صرف نماز ہی نہیں ، زکوٰۃ بهى دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں ۔ ’’ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘ (التوبة : 71) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ۔ بات یہ ہے کہ انسان کی دوستی کس سے ہوتی ہے؟ انسان کے تعلقات کس سے ہوتے ہیں؟ جس سے اس کے خیالات ملتے جلتے ہوں۔ جن لوگوں کی دلچسپیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، جن لوگوں کی کوششیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔خودبخود وہ ایک گروہ بن جاتے ہیں او رپھر اکھٹے ہوکر جو دین کا کام ہوسکتا ہے، وہ الگ الگ ہوکر نہیں ہوتا۔ اور یاد رکھیے کہ اکھٹے ہونے کےلیے کچھ قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں ۔ بہت سی باتیں جو ہماری پراریٹی ہوسکتی ہیں، وہ دوسرے کی نہیں۔ اس کےلیے کیا ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کچھ ایسی چیزوں پر جو صرف مستحبات میں سے ہیں مثلاً یا ترجیحات میں سے ہیں، ان میں تھوڑا بہت کمپرومائز کرلیا جائے۔فرائض میں، اصولوں میں تو نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن چھوٹی موٹی باتیں، کبھی ایک قربانی کرلے، کبھی د وسرا کرلے ، تبھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹے ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ ہر بات اس کی مانی جائے۔ یعنی دنیا میں کوئی بھی اکٹھ ایسا نہیں جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ رائے کا اختلاف نہیں ہوگا، سوچ کا اختلاف نہیں ہوگا۔ یہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو صلاحیتیں مختلف دی ہیں، سوچ مختلف دی ہے۔ ہر ایک کے کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ لیکن اختلاف رائے کے باوجود اتفاق ممکن ہوتا ہے۔کس طرح؟ جب مقصد ایک ہوتا ہے۔جب مقصد ایک ہوتا ہے تو انسان مختلف طرح کے لوگوں کو ساتھ لےکر چل سکتا ہے۔ اور مختلف طرح کے لوگوں کو ساتھ لینے کے لیے پھر انسان کو اپنی ذات کی، بعض اوقات اپنی عزت کی، بعض اوقات چھوٹے چھوٹے دکھ اُٹھاتا ہے انسان اس راستے میں، دوسروں کی طرف سے اذیتیں چھوٹی موٹی ، ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ‘‘ (العصر : 3) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔کیونکہ اس راستے میں مشکلات ہیں، اور جہاد نام ہی اس چیز کا ہے کہ مشکلات آئیں گی ، رکاوٹیں آئیں گی اور ان رکاوٹوں کو ہٹانا ہے۔اگر آپ یہ کہیں کہ آپ اتفاق کریں اپنے لائک مائنڈڈ کے ساتھ تو آپ دیکھیں کہ شاید آپ اپنے ساتھ بھی اتفاق نہ کرسکیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ بہت سے ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ آپ ایک وقت میں ایک چیز پسند کرتے ہیں، ایک چیز چاہتے ہیں ۔ پھر آپ خود ہی وہ ہوتے ہیں کہ آپ کے نزدیک وہ چیز غیر اہم ہوجاتی ہے۔ یا آپ کی اپنی ہی سوچ بدل جاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر تو آپ کبھی بھی کسی کے ساتھ اکھٹے ہوکر کام نہیں کرسکیں گے۔جب مقصد بڑا ہوگا، ذات چھوٹی ہوگی تو کیا ہوگا؟اتفاق ہوتا چلا جائے گا۔ اور جب ذاتیں بڑی ہوتی چلی جائیں ، ‘میں’ بڑی ہوجائے تو پھر دین کا کام پیچھے چلا جاتا ہے۔اسلام کو جتنا نقصان خود مسلمانوں نے پہنچایا ہے ، اتنا دوسروں نے نہیں پہنچایا۔ دوسرے بھی اس وقت نقصان پہنچانے کے قابل ہوتے ہیں جب مسلمان آپس میں بکھر جاتے ہیں ۔ جب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور ہمدرد رہتے ہیں تو پھر دشمن کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تو یہاں اہل ایمان مردوں اور عورتوں اور سوسائٹی کے مختلف طبقات کے اندر ایک ہم آہنگی پیدا کی گئی کہ تم سب لوگوں کا ز ایک ہے، مشن ایک ہے اور اس کو پانے کےلیے تمہیں آپس کے تعلقات کو درست رکھنا ہوگا۔ ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ آپ دیکھیں کہ ہر ایک کی انرجی محدود ہے، طاقت محدود ہے، وقت محدود ہے، صلاحیت محدود ہے، ہر چیز کی ایک لمٹ ہے۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں میں سے کچھ حصہ، اپنے وقت میں سے کچھ حصہ ، اپنی قوتوں میں سے کچھ حصہ صرف آپس میں لڑنے میں لگا دیں گے۔ تو نتیجہ کیا ہوگا کہ وہ قوت جو آپ کو دین کے پھیلانے میں استعمال کرنی تھی ، وہ وقت جو دین کا پیغام آگے لے جانے میں استعمال کرنا تھا، وہ کہاں لگ گیا؟ آپس ہی کی کھینچا تانی میں لگ گیا۔اندر سے آپ کمزور ہوگئے، مقصد میں آپ پیچھے رہ گئے۔پھر آپ دیکھیں کہ جہاد وہ اوپر چوٹی کی طرف جانا ہے، آپ چڑھ رہے ہیں، چڑھ رہے ہیں، اگر آپ کی نظریں سامنے رہیں گی اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے آپ قدم بڑھاتے رہیں گے اور منزل کی طرف جاتے رہیں گے تو آپ کی ساری انرجی منزل کے قریب پہنچانے میں آپ کو مدد دے گی۔ لیکن اگر آپ اس کے ساتھ جھگڑ رہے ہیں، اس کے ساتھ کچھ کررہے ہیں تو کیا ہوگا کہ آپ آگے جانا بھول جائیں گے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے ناں کہ آپ گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں اپنے ہزبنڈ کے ساتھ ، اچھی بھلی گاڑی چل رہی ہے۔ کسی بات پر اختلاف ہوا تو کیا نتیجہ ہوتا ہے؟ وہ بعض اوقات رستہ ہی بھول جاتے ہیں اور بعض اوقات کہیں ٹکر ہونے لگتی ہے ، بعض اوقات رفتار خودبخود سلو ہوجاتی ہے اور بعض اوقات گاڑی روک دیتے ہیں کہ پہلے یہاں طے کرلیں کہ کرنا کیا ہے، جانا کہاں ہے؟ عام طور پر ایسا ہوتا ہے ناں کہ کہیں جانے میں جھگڑا ہوجاتا ہے کہ پہلے وہاں جائیں یا وہاں جائیں۔ کوئی کہتا ہے: وہاں چلیں اور کوئی کہتا ہے: وہاں چلیں ۔ پھر آپ گاڑی روک دیتے ہیں کہ اچھا، پہلے فیصلہ کرلو کہ کہاں جانا ہے، پھر چلیں گے۔ تو بالکل دین کے راستے میں ہم جس گاڑی پر سوار ہیں ، اس میں تیزی اسی وقت آئے گی، ہم منزل کے قریب اسی وقت پہنچیں گے، جب ہمارے اندر آپس میں اتفاق ہوگا اور اگر اتفاق پیدا کرنا ہے تو کسی بھی ڈیسیژن نہیں ، صرف یہ سوچ لیں کہ دین کا فائدہ کس میں ہے؟ چونکہ میں خود اس راستے کا سفر کرتی ہوں ، مجھے اس میں الحمد للہ جتنی بھی کامیابی اور فائدہ حاصل ہوتا ہے ، اس میں اور آگے بڑھنے میں، اس میں ایک چیز بہت اہم ہوتی ہے اور وہ ہے: کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ہمیشہ میں یہ سوچتی ہوں کہ دین کا فائدہ کس میں ہے۔ اور جس چیز میں ہوتا ہے، میں اپنی مرضی، اپنی رائے، اپنا مشورہ، اپنا سب کچھ واپس لے لیتی ہوں۔ ٹھیک ہے، دین کا فائدہ اس میں ہے، اس طرح کرلیتے ہیں۔ خواہ میرے نزدیک ذاتی طور پر کوئی اور چیز زیادہ اہم ہو، زیادہ فائدہ مند نظر آرہی ہو۔ لیکن اوور آل اگر کوئی چیز دین کو طاقت دینے والی یا دین کی ترقی میں مددگار ہوسکتی ہے تو بعض اوقات انسان اپنی ذاتی مرضیوں کو کوئٹ کرلیتا ہے۔ اور اسی طرح کام چل سکتا ہے۔ تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں: ’’ أَوْلِيَاء بَعْضٍ‘‘ ایک دوسرے کے مددگار ہیں، ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے والے ہیں، تب یہ کام ہوسکتا ہے ۔ اور جو لوگ یہ کریں ’’ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ‘‘ ان پر اللہ عنقریب اپنی رحمت کرے گا’’ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‘‘ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
آڈیو لنک
 
Top