• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت دین کے تقاضے - 01

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم و عزیز ساتھیو !
حسن اتفاق سے آج فورم کے علمی نگراں جناب ابو الحسن علوی کے ایک ایسے مراسلے پر نظر پڑی ، جسے پڑھ کر لگا کہ گویا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔
میں ابو الحسن علوی بھائی کے شکریے کے ساتھ ان کی تحریر کچھ ردّ و بدل کے بعد افادۂ عام کی خاطر یہاں پیش کر رہا ہوں۔

***
  • کسی کو حاسد یا کینہ پرور یا بغض رکھنے والا کہنا بہت بڑا الزام ہے۔ حسد، کینہ اور بغض وغیرہ کا تعلق انسان کے قلب سے ہے اور قلوب کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا لہٰذا باطن پر حکم لگانا بالکل بھی مناسب امر نہیں ہے۔ ہاں! کسی کے ظاہر پر ضرورت کے تحت حکم لگایا جا سکتا ہے۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    وجزاء سیئةسیئة مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ
    کسی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پس جس نے معاف کر دیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کےذمہ ہے۔
  • ہر انسان اپنے ماحول سے ہی متاثر ہو تا ہے اور اپنے ماحول ہی کے بارہ میں لکھتا ہے کیونکہ وہ ہر لمحہ اس میں رہ رہا ہوتا ہے۔ مختلف لوگ مختلف پہلووں سے سوچتے ہیں۔ دوسروں کے بارے ایک سوچ کا یہ پہلو بھی ہے جو مثبت ہے۔ اس پر غور کیا جانا چاہئے۔
  • ایک وقت ہوتا ہے جب بعض اہل علم کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے اور کسی کے نقد کرنے پر ہم بھڑک اٹھتے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اللہ نےاحسان کیا تو شعور کی بلوغت کے ذریعے یہ جذباتی لگاؤ ختم ہوتا جاتا ہے کیونکہ یہ اعتدال کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ نفسیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دراصل ایک انسانی کمزوری ہے کہ وہ کسی کے ساتھ حد درجہ جذباتی وابستگی چاہتا ہے اور عموماً جذباتی مزاج رکھنے والے ذہین افراد میں یہ کمزوری زیادہ ہوتی ہے۔
  • کوئی بھی شخص جو جذباتی ہو، کبھی نہیں مانتا کہ میں جذباتی ہوں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات کو صرف اپنی ہی نظروں سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل ہوتا ہے کہ وہ انسان میں یہ عاجزی و انکساری پیدا کر دے کہ وہ اپنی ذات کے بارے دوسروں کی نظروں سے فیصلہ کرنے لگ جائے۔ اکثریت کا یہ معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو اپنی عینک ہی سے دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس طرز عمل سے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔
  • اللہ نے اگر فضل فرمایا تو وہ دو باتیں سمجھا دیتا ہے۔
    پہلی بات تو یہ کہ : تمہاری رائے محتمل الخطا ہوتی ہے لہذا اگر کسی دوسرے کی نقد تم پر ہو تو اچھی بات ہے ۔ کیونکہ اگر صرف ایک ہی رائے لوگوں کے سامنے ہو گی تو عین ممکن ہے کہ تمہاری رائے خطا پر مبنی ہو اور لوگ تمہاری تحقیق کی وجہ سے خطا پر عمل کرتے رہیں۔ پس مدمقابل اور مخالف موقف سے دو رائیں عوام و خواص کے سامنے آ جائیں گی اور تم پر بوجھ کم ہو جائے گا۔
    یہ سوچ آدمی میں ایسا انقلاب پیدا کرتی ہے کہ پھر اسے مد مقابل اور مخالف کی تحریر شائع ہونے سے اسکے نفس کو اطمینان محسوس ہوتا ہے اور اگر کسی مسئلہ میں صرف اس ہی کا موقف موجود ہو تو نفس میں اضطراب ہی رہتا ہے۔
    دوسری بات یہ کہ : آدمی کا ناقد یا تو حق پر ہے یا حق پر نہیں ہے ۔ اگر وہ حق پر ہے تو پھر آدمی کو جواب دینا نہیں چاہئے۔ اور حق پر نہیں ہے تو اس کی نقد کا چاہے تو آدمی اتنا ہی جواب دے دے اور چاہے تو صبر کرے اور اپنا تزکیہ نفس کر لے۔ دوسرے رویہ کو قرآن نے بہتر کہا ہے۔
  • دیکھا گیا ہے کہ اہل الحدیث میں ظاہر کی اصلاح پر بہت زور ہے اور باطن کی اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے کچھ لکھا جاتا ہے یا ڈسکشن ہوتی ہے یا موضوع بحث بنایا جاتا ہے وغیرہ ذلک۔ پتہ نہیں یہ تجزیہ درست ہے یا نہیں۔
  • یہ بھی احساس قوی رہا ہے کہ ہمارے ہاں حدیث پر زور ہے جبکہ قرآن کے ذریعے اصلاح کی کمی ہے۔ قرآن کس قدر اعلی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے ، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان اخلاقی اقدار کو چھو بھی نہیں سکتے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
    ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیم۔
    برائی کو اچھائی سے دور کرو۔ پس اس سے تمہارا دشمن گہرا دوست بن جائے گا۔
    اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
  • اگر ہم یہ سوچنے لگ جائیں کہ شاید لوگوں کے بگڑنے کی وجہ بھی میں ہی ہوں۔ اگر میں ٹھیک ہو جاؤں گا تو لوگ بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔
    تو یہ بات بالکلیہ درست نظر آتی ہے۔ وہ کچھ یوں کہ جب ہم اپنی باطنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہیں تب لوگوں کی غلطیوں کی بھی مثبت تاویل کرنے لگتے ہیں اور لوگوں کو صحیح نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس ہمیں ان سے کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوتی۔ جب شکایت پیدا نہیں ہوتی تو ہمیں وہ صحیح نظر آتے ہیں۔ مگر جب ہماری باطنی اصلاح نہیں ہوتی تو پھر ہوتا یوں ہے کہ لوگوں کے بارے سوئے ظن اور تجسس کی بنا پر ہم بری آراء قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ ہمیں برے نظر آتے ہیں اور پھر ہم ان کی اصلاح کے لیے ان پر نقد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
    واللہ اعلم بالصواب
***
 
Top