• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے بعد ضروری ہے کے اللہ تعالٰی کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت ونفرت قائم کی جائے چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، اُن میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کے اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عدوات رکھے۔اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں، ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کی دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اُتر رہا ہے۔زیر نظر کتابچہ اس موضوع پر اہم رسالہ ہے جو کہ شیخ صالح بن فوزان کے ایک عربی رسالہ الولاء والبراء کا عربی ترجمہ ہے ۔ معروف عالمِ دین فضیلۃ الشیخ مولانا عبداللہ ناصر رحمانی ﷾ نے خود اس کا ترجمہ کر کے مکتبہ عبد اللہ بن سلام کراچی سے شائع کیا ہے اس رسالے کو مولف نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصہ میں قرآن واحادیث کی روشنی میں ان دس امور کو بیان کیا ہے جو کفار سے دوستی اور محبت کی دلیل ہیں اور دوسرے حصہ میں ان دس امور کوبیان کیا جو مسلمانوں سے محبت کی علامت ہیں اللہ تعالی اس کتاب کو لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (م۔ا)
 
Last edited:

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فہرست مضامین
مقدمہ از مترجم
مقدمہ از مولف
کفار سے محبت کی علامات
لباس و گفتار کی تقلید
ان کے علاقوں میں اقامت اختیار کرنا
مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد کرنا اور ان کا دفاع کرنا
کفار کے ہاں مروجہ تاریخ کو اپنانا
کفار کے تہوار میں شرکت
کفار کے نام رکھنا
مومنین سے محبت کی علامات
مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک
مسلمانوں کی تکلیف پر غمزدہ اور انکی خوشی پر خوش ہونا
جذبہ خیر خواہی
عزت و احترام کی فضاء
ہر حال میں وفاداری
زیارتوں اور ملاقاتوں کا تسلسل
کمزور کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ
دعاء خیر
محبت یا نفرت کا حقدار ہونے کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام
خالص محبت کئے جانے کے مستحق افراد
صرف بغض وعداوت رکھے جانے کے اہل افراد
وہ افراد جو محبت اور عداوت دونوں کے مستحق ہیں
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
یہ کتاب مجھے یونیکوڈ صیغے میں ملی تو سوچا افادہ عام کےلیے یہاں بھیج دوں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار۔
تحریر شیخ صالح الفوزان
ترجمہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانٰی
السلام علیکم!۔
الولاء والبراء۔۔۔ دوستو!۔ دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت کے شرعی تقاضے کیا ہیں؟؟؟۔۔۔ اور اس کی کیا حدود ہیں؟؟؟۔۔۔ اسلامی عقیدہ کا یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اسے صحیح طور پر سمجھنا اور پھر اعتقاد وعملاََ اس کا صحیح حق ادا کردینا ایمان کی تکمیل کرتا ہے۔۔۔
جیسا کے فرمان نبوی ہے۔
عن ابی امامۃ قال: قال رسول اللہ من اَحبّ للہِ، وابغضَ للہِ، واعطی للہِ، ومنعَ للہِ، فقدِ استکمَلَ الایمان۔
’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی ،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تحقیق اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘ (رواہ ابو داود ٢٢٠/٣ -٤٦٨١ والحاکم ١٧٨/٢ - ٢٦٩٤) ۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
’’أوثق عری الإیمان،الموالاۃ في اﷲ والمعاداۃ في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ‘‘
’’ ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو۔‘‘(الطبراني؛ السلسلۃ الصحیحۃ : ١٧٢٨)۔
یاد رکھئے، عقیدہ الولاء البراء ایمان کا سب سے مضبوط کنڈہ ہے، بلکہ صحت وقول ایمان کی بنیادی شرط ہے، اس عقیدہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں خلیل یا اضطراب نواقض ایمان میں شمار ہوتا ہے ولاء اور براء اگرچہ دونوں قلبی اعمال ہیں، لیکن ان دونوں کا مظہر بندے کے ظاہری اعمال وتصرفات ہیں، کچھ ظاہری علامات ہیں جن سے ولاء یعنی مؤمنین سے اُلفت ومحبت اور براء یعنی کفار ومشرکین سے نفرت وعدوات کا اظہار ہوتا ہے ان صورتوں اور علامات کا تفصیلی بیان اس تحریر میں موجود ہے۔۔۔
ولاء وبراء سے مراد!۔
شیخ عبداللطیف بن شیخ حسن آل شیخ فرماتے ہیں!۔
فالولاء المؤمنین یکون بمحبتم لایمانہم ونصرتہم والنصح لھم والدعاء لھم والسلام علیھم وزیارہ مریضھم وتشبیع میتھم واعانتھم والرحمہ بہم وغیر ذلک۔ والبراء من الکفار تکون یبغضم دینا، ومفارقتھم وعدم الرکون الیھم او الاعجاب بہم والحذر من التشبیہ بہم وتحقیق مخالفتھم شرعا وجھادھم بالمال واللسان والسنان ونحو ذلک من مقتضیات العداوہ فی اللہ۔
مؤمن سے ولاء کی علامت یہ ہیں کے اُن سے اُن کے مؤمن ہونے کی وجہ سے محبت کی جائے، اُن کی نصرت کی جائے، اُن کے ساتھ خیر خواہانہ رویہ روا رکھا جائے، اُن کے لئے دُعائیں کی جائیں، ملاقات پر اُنہیں سلام کہا جائے، بیمار ہوں تو عیادت کی جائے، فوت ہونے پر جنازہ میں شرکت کی جائے، بوقت ضرورت اعانت کی جائے اور شفقت ومحبت کا برتاؤ کیا جائے وغیرہ۔۔۔
جبکہ کفار سے براءت کی علامات یہ ہیں کے ان کے ناپاک ونجس دین کی وجہ سے ان سے بعض رکھا جائے، ان سے علیحدگی اختیار کی جائے، ان کی طرف کسی قسم کا قلبی جھکاؤ اور میلان نہ ہو، نہ ہی ان کے کسی کارنامے پر خوش ہوا جائے، ان سے کسی بھی قسم کی تشبہہ اختیار کرنے سے یکسر گریز کیا جائے بلکہ شریعت نے جن چیزوں میں انکی مخالفت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے ان میں پوری شدومد کے ساتھ اُن کی مخالفت کی جائے (حسب موقع) ان سے مال، زبان اور تلوار کے ساتھ جہاد کیا جائے، اسی طرح دیگر بہت سے ایسے اُمور ہیں جو اں کے ساتھ اظہار عداوت کے متقٰضی ہیں۔۔۔
برداران اسلام!،
ولاء وبراء کے مظہر ان علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کردار کا جائزہ لیجئے، یہ بڑا ضروری اور متعین امر ہے کیونکہ ولاء وبراء کا عقیدہ ایمان کا سب سے مضبوط کنڈہ ہے اور ہر بندے کے لئے ایک کڑا امتحان، بالخصوص وہ لوگ اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر کریں جو بلاد کفر کو بلاد اسلام پر بڑے فخر سے اندازے سے ترجیح دیتے ہیں اور مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار سے زیادہ محبت کرتے ہیں خصائل ایمان کے مقابلہ میں خصائل کفر (جو درحقیقت رذائل ہیں) کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں یا کفار کے ایجنٹ اور آلہ کار بن کر بلاد اسلام میں فساد برپا کرنے اور مسلمانوں کی بربادی اور ہلاکت کی منصوبہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں اپنی سائنسی مہارات وایجادات سے کفار کو فائدہ پہنچارہے ہیں بلکہ وسائل حرب و ضرب ایجاد کر کے اُنہیں کفار کے سپرد کردیتے ہیں تاکہ وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں مسلمانوں کی ہلاکت کےسلسلہ میں کفار کے ساتھ پورا تعاون کرتے ہیں بلکہ اُن پر حملے کے موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
اسی طرح بعض مسلمان بلاد کفار کی شہریت حاصل کر کے اپنی پوری زندگی وہاں گزار دیتے ہیں اور یہ پوری زندگی ان کے تمام قوانین کی پیروی کرتے ہوئے بسر کردیتے ہیں حتٰی کہ ہم نے بعض مسلمانوں کو اپنے تجارتی مراکز میں صلیب تک فروخت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔۔۔
اللہ تعالٰی کے اس فرمان پر غور کیجئے!۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾
مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔
اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بعد ضروری ہے کے اللہ تعالٰی کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت ونفرت قائم کی جائے چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، اُن میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کے اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عدوات قائم وبحال رکھے اور یہ شرعی فریضہ ہے کے ہر صاحب توحید سے محبت کرے اور اس کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار رکھے اسی طرح ہر شرک کرنے والے سے بغض رکھے اور ساتھ عداوت کی راہ پر قائم رہے۔۔۔
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور اُن کے پیرو کاروں کا یہی اسوہ حسنہ ہمارے لئے بطور خاص قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے اور ہمیں ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے۔۔۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ
(مسلمانو!) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ ﻻؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئی۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بھی یہی تعلیم ہے۔۔۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾
اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وہ بےشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا
یہ آیت مبارکہ بطور خاص اہل کتاب س دوستی وتعلق قائم کرنے کی حرمت وممانعت پر دلیل ہے ایک دوسری آیت میں اللہ تعالٰی نے عمومی طور پر ہر قسم کے کافروں سے دوستی قائم کرنے کو حرام قرار دیا۔۔۔ ارشاد ہوا۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ
اے وہ لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ
بلکہ اللہ تعالٰی نے تو ایسے کفار کی دوستی بھی مسلمانوں پر حرام قرار دے دی ہے جو خونی رشتے اور نسبت کے اعتبار سے انتہائی قریب ہوں ارشاد ہوا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣﴾
اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگارظالم ہے
اللہ وحدہ لاشریک نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا!۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں
اس عظیم شرعی قاعدہ سے بہت سے لوگ غافل اور ناآشنا ہیں حتٰی کہ میں تو ایک عرب ریڈیو سے ایک ایسے شخص کو جو اپنے آپ کو عالم اور داعی سمجھتا ہے، یہ کہتے ہوئے سُنا ہے کے نصارٰی ہمارے بھائی ہیں جبکہ یہ بات انتہائی خطرناک ہے۔۔۔
برادران اسلام!۔
جس طرح اللہ تعالٰی نے کفار اور عقیدہ اسلامیہ کے دشمنوں کی دوستی کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح ان کے مقابل مسلمانوں (مومنوں) سے دوستی قائم کرنے اور محبت رکھنے کو واجب قرار دیا ہے۔۔۔
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾
(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکات ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں
وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦﴾
اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا!۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں
نیز ارشاد ہوا!۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں
ثابت ہوا کہ دین اور عقیدے کا تعلق اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ اس نے تمام اہل ایمان کو اخوت اور بھائی چارے کے انتہائی پاکیزہ رشتے سے منسلک کردیا ہے خواہ اُن کے حسب ونسب، قوم و وطن، ذات وبرادری اور زمان ومکان میں کتنی ہی دوری اور تفاوت ہو۔۔۔
اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!۔
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے
لہذا تمام مومن اول تا آخر زمان ومکان کی دوریوں سے بالکل بےنیاز اور بالاتر آپس میں رشتہ اخوت سے منسلک ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے، بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اقتداء کرتے اور ایک دوسرے کیلئے دُعائیں مانگتے اور استعغار کرتے رہتے ہیں۔۔۔
کفار سے محبت کی علامت!۔
دوستی اور دشمنی کی ان حدود کے تذکرے کے بعد یاد رہنا چاہئے کے اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں، ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کی دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اُتر رہا ہے؟؟؟۔۔۔
اولا اُن امور کو بیان کرتے ہیں جو کفار سے دوستی اور محبت کی دلیل ہیں جو درج ذیل ہیں!۔

ü لباس وگفتار کی تقلید!۔
ہم اپنے لباس وگفتار میں جس قوم کی نقل کریں گے تو گویا اُن سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ لباس وگفتار وغیرہ میں کسی قوم کی تشبیہ ان سے محبت ہی کی دلیل ہوتی ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
من تشبہ بقوم فھو منھم۔
جو کسی قوم کی نقالی کرے گا، وہ اُنہی میں سے شمار ہوگا (رواہ أحمد، وأبوداؤد، مشکوۃ: ص ٣٧٥)
لہذا کفار کی وہ عادات، عبادات، اخلاق اور طور طریقے جو اُن کا خاصہ بن چکے ہیں، میں ان کی تشبیہ اختیار کرنا حرام ہے مثلا داڑھی منڈوانا، لمبی مونچھیں رکھنا، بلاضرورت اُن کی زبان بولنا، لباس میں نقل کرنا اور کھانے پینے میں اُن کے طور طریقے اختیار کرنا وغیرہ۔۔۔

ü ان کے علاقوں میں اقامت اختیار کرنا!۔
یعنی کفار کے علاقوں میں مستقل اقامت اختیار کرلینا اور مسلمانوں کے علاقوں میں سکونت پذیر ہونے سے گریز کرنا بھی اُن سے محبت کی دلیل ہے حالانکہ محض اپنے دین کے تحفظ کے خاطر کفار کے علاقوں سے بچ نکلنا اور مسلمانوں کی سرزمین میں سکونت اختیار کرنا شریعت کا تقاضا ہے بلکہ اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لئے ہجرت کرنا ہر مسلمان پر شرعی فریضی ہے کیونکہ سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونا کفار سے محبت کی دلیل ہے یہی وجہ ہ کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے ایک مسلمان کا، اگر وہ ہجرت پر قادر ہو، کفار کے درمیان رہنا حرام قرار دیا ہے قران میں ارشاد ہوا۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿٩٧﴾إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴿٩٨﴾فَأُولَـٰئِكَ عَسَى اللَّـهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٩٩﴾
جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہٴ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے واﻻ اور معاف فرمانے واﻻ ہے
ان آیات سے معلوم ہوا کے سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونے والوں کا اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے البتہ جو لوگ کمزور ہیں اور ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے انہیں کچھ چھوٹ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی ناقابل گرفت ہیں جن کے سرزمین کفر میں رہنے میں کوئی دینی مصلحت ہو مثلا اُن علاقوں میں دعوت الٰی اللہ اور اسلام کی نشرواشاعت کا کام کررہے ہیں بلکہ یہ تو عظیم جہاد ہے!۔

ü محض تفریح کی خاطر کفار کے علاقوں کا سفر اختیار کرنا!۔
کفار کے علاقوں کا سفر کرنا ناجائز ہے الا یہ کہ کوئی شدید ضرورت ہو مثلا علاج یا تجارت کی غرض سے یا ایسے مفید قسم کے مضامین کی تعلیم کی خاطر جن کا حصول اس سفر کے بغیر ممکن نہ ہو، تو ان حالات میں کفار کے علاقوں میں بقدر ضرورت سفر کرکے جانا جائز ہے اور جب ضرورت پوری ہوجائے تو فوری طور پر اپنے علاقوں کی طرف لوٹنا واجب ہے۔۔۔
لیکن اس سفر کے جائز ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ سفر کرنے والے پر اپنے دین اسلام کا رنگ غالب ہو شر اور فساد کے مقامات سے دور اور متنفر ہو، دشمن کےئ مکروفریب سے چوکنا اور محتاط ہو اسی طرح کفار کے علاقوں کی طرف دعوت الی اللہ اور تبلیغ اسلام کی خاطر سفر کرنا جائز بلکہ بعض حالات میں واجب ہے۔۔۔

ü مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد کرنا اور ان کی دفاع کرنا!۔
یہ بھی کفار سے محبت کی علامت ہے بلکہ یہ فعل قبیح تو انسان کو یکسر اسلام کی دولت سے ہی محروم کردیتا ہے اور اسے مرتد بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ہم اس مرض سے اللہ تعالٰی کی پناہ چاہتے ہیں۔۔۔
کفار کی مدد چاہنا اور اُن پر اعتماد کرنا اور انہیں مسلمانوں کے خفیہ رازوں سے متعلق عہدوں پر فائز کرنا اور انہیں اپنا ہمراز یا مشیر بناتا، یہ سب ان کی محبت کی علامات ہیں اللہ تعالٰی کے اس فرمان پر غور کریں۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١١٨﴾هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿١١٩﴾إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (تم تو) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کر دیں اگر عقلمند ہو (تو غور کرو) ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، تم پوری کتاب کو مانتے ہو، (وہ نہیں مانتے پھر محبت کیسی؟) یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ، اللہ تعالیٰ دلوں کے راز کو بخوبی جانتا ہے تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں ہاں! اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں،
ان آیات کریمہ نے واضح کردیا کہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے کس قدر کمینہ اور بغض چھپا ہوا ہے وہ مسلمانوں کے خلاف مکرو خیانت کی کیا کیا تدبیریں اور پالیسیاں مرتب کرتے رہتے ہیں ہر حیلہ اور وسیلہ بروئے کار لاکر مسلمانوں کو مبتلائے پریشانی رکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔۔۔ مکروفریب سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ان کی مضرت وتذلیل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔۔۔
ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے!۔
میں نے عمررضی اللہ عنہ کو بتایا کے میرے پاس ایک عیسائی کاتب ہے تو امیرالمومنین نے فرمایا۔۔۔ اللہ تعالٰی تمہیں برباد کرے، عیسائی کاتب رکھنے کی کیا سوجھی کیا تم نے اللہ تعالٰی کا فرمان نہیں سُنا!۔ اے ایمان والوں یہود ونصارٰی کو اپنا دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں تم نے کوئی مسلمان کاتب کیوں نہ رکھا؟؟؟۔۔۔ میں نے کہا امیر المومنین اس کا دین اس کے لئے ہے مجھے تو اپنی کتابت چاہئے فرمایا۔۔۔ جنھیں اللہ تعالٰی نے ذلیل ورسوا کردیا ہے میں اُنہیں عزت وکرامت نہیں دے سکتا اور جنھیں اللہ تعالٰی نے ہم سے دور کردیا، میں انہیں اپنے سے قریب نہیں کرسکتا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزہ بدر کے لئے نکلے تو ایک مشرک آدمی بھی ساتھ ہو لیا اور حرہ مقام پر ملاقات کرتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ کیا تم اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو؟؟؟۔۔۔ اس نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس لوٹ جاؤ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیا کرتے۔۔۔

ü ان دلائل سے پتہ چلا کے مسلمانوں کے اُمور سے متعلق کفار کو کسی منصب پر فائز کرنا حرام ہے کیونکہ وہ اس طرح مسلمانوں کے حالات اور خفیہ بھید بڑی آسانی سے حاصل کرلیں گے اور نتیجتاََ ان کی ضرر رسائی کا سامان تیار کرنے کی سازشیں کرنے لگیں گے (رواہ مسلم)۔۔۔
آج کل کفار کو مسلمانوں کی سرزمینوں، حتٰی کہ حجاز مقدس میں مزدور، کاریگر، ڈرائیور یا خدمت گار کے طور پر لایا جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ اُن کے ساتھ ان کے علاقوں میں مخلوط زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ گھروں میں انہیں اتالیق ومربی کی حیثیت سے رکھا جارہا ہے اور وہ مسلمانوں کے خاندانوں کے ساتھ مخلوط زندگی گزار رہے ہیں آج کے دور میں یہ روش حرمت اور انجام کار کی تباہی کے اعتبار سے سابقہ روش سے کوئی مختلف نہیں ہے۔۔۔

ü کفار کے ہاں مروجہ تاریخ کا اپنانا!۔
جو تاریخ بلاد کفر میں رائج ہے اسے اختیار کرلینا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے پھر خاص طور پر ایسی تاریخ جو ان کی کسی مناسبت یا عید کی ترجمانی کررہی ہو مثلا عیسوی کلینڈر وغیرہ۔۔۔
عیسوی کلنڈر حضرت عیٰسی علیہ السلام کی ولادت کی یادگار کے طور پر ہے یہ تاریخ عیسائیوں نے خود اختراع کی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے دین سے اس تاریخ کا کوئی تعلق نہیں ہے لہذا اس تاریخ کا رواج واستعمال ان کے اشعار اور عید کو زندہ کرنے میں ان کے ساتھ شرکت کے مترادف ہے۔۔۔
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے مسلمانوں کے لئے تاریخ مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کفار کی مروجہ تمام تاریخوں کو ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی تاریخ مقرر کردی اس سے ثابت ہوا کے تاریخ کے تقرر اور اس قسم کے دیگر کفار کے خصائص میں ان کی مخالفت کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔۔۔

ü کفار کے تہواروں میں شرکت!۔
کفار کے تہواروں میں شرکت کرنا یا اُن کے تہواروں کے انعقاد میں ان کے ساتھ تعاون کرنا یا اُن کے تہواروں کی مناسبت سے اُنہیں مبارک بادی پیغامات بھیجنا، یہ سب ان سے دوستی اور محبت کے نشانات ہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے۔۔۔
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ
کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے
جس کا ایک معنی یہ بھی ہے کے رحمٰن کے نیک بندے کفار کے تہواروں اور ان کی عیدوں میں حاضر نہیں ہوتے کیونکہ اس فرمان الٰہی میں الزور (یعنی جھوٹ) پر مبنی ایسی محفلوں میں شریک ہونا بھی شامل ہے جو بدعت پر قائم ہیں اس قسم کی محفلیں کذب کی بناء پر اللہ تعالٰی کے دین کے مخالف اور معاند ہیں اور قطعی طور پر دین کے مفاد میں نہیں۔۔۔

ü کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب وتمدن کی تعریف!۔
یعنی کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب وتمدن کی تعریف وتوصیف اور ان کے عقائد باطلہ اور سرکشی وطغیانی سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے ظاہری اخلاق اور دنیوی تجربات سے خوش ہونا، یہ سب ان کی محبت اور علامات ہیں اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾
اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزما لیں تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور باقی رہنے واﻻ ہے
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کے مسلمان اپنی قوت اور استحکام کے اسباب ہی چھوڑ کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف صنعتوں کی تعلیم حاصل کریں۔۔۔ اقتصادیات کو مستحکم کرنے والی جائز راہین اپنائیں اور دور حاضر کے تقاضوں کے ہم اہنگ عسکری اور حربی اسالیب کی تعلیم حاصل کریں جیسا کے اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو
کائنات کے یہ تمام وسائل اور اُن کے منافع درحقیقت مسلمانوں ہی کے لئے ہیں جیسا کے اللہ سبحان وتعالٰی کا فرمان ہے۔۔۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ ﴿٣٢﴾
آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی
مزید فرمایا!۔
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ
اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے
نیز فرمایا!۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا
تو پھر یہ ضروری ٹھہرا کہ مسلمان ان منفعتوں اور قوتوں کے حصول میں سب سے آگے ہوں اور کفار کو یہ چیزیں حاصل کرنے کا موقع فراہم نہ کریں، یہ تمام کارخانے، فیکڑیاں مسلمانوں ہی کا حق اولیں ہے، جس کے لئے انہیں محنت کرنا ہوگی۔

ü کفار کے مشابہ نام رکھنا!۔
بعض مسلمان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ایسے نام رکھتے ہیں جو مسلمانوں نے نہیں رکھے ہوتے۔اسی طرح اپنے آباؤ اجداد کے نام، یا ایسے نام جو ان کے معاشرے میں معروف ہوتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
إِنَّ خَيْرَ الْأَسْمَاءِ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَالْحَارِثُ "
بہترین نام عبداللہ، عبدالرحمٰن اور حارث ہیں
ناموں کی اس تبدیلی کے مرض کے عام ہونے کی وجہ سے باقاعدہ پوری ایسی مسلمان نسلیں وجود میں آگئیں جو مغربی ناموں کی حامل ہیں نتیجتاََ سابقہ نسلوں سے رشتہ وناطہ توڑ بیٹھیں اور ایسے خاندانوں سے تعارف کا سلسلہ بھی مفقود ہوگیا، جنہوں نے اپنے مخصوص اسلامی ناموں کو اپنائے رکھا۔۔۔

ü کفار کے حق میں دُعا کرنا!۔
کفار کے حق میں مغفرت ورحمت کی دُعا کرنا بھی اُن سے محبت کی دلیل ہے اللہ تعالٰی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے۔۔۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١١٣﴾
پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہدار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں
اس دُعا کی حرمت کی وجہ بالکل ظاہر ہے اور وہ یہ کے دُعا کرنا اُن سے محبت کی نشانی ہے نیز یہ ظاہر کرتی ہے کے مشرکین بھی صحیح عقیدے پر قائم ہیں حالانکہ شرک اور مشرک نجس اور پلید ہیں۔۔۔

ü سرزمین کفر کو چھوڑ کر مسلمانوں کے علاقوں کی طرف منتقل ہونا!۔
ہجرت کا معنی ہے کہ اپنے دین کی سلامتی اور تحفظ کی خاطر کفار کی سرزمین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے علاقوں میں منتقل ہوجانا ایسی ہجرت جس میں یہ عظیم الشان مقصد کار فرما ہو، تاقیامت باقی ہے اور واجب بھی۔۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس شخص سے براءت اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے جو مشرکین کے درمیان مقیم ہے لہذا ایک مسلمان پر کفار کی سرزمین میں رہنا حرام ہے الا یہ کہ وہ ہجرت کی طاقت نہ رکھتا ہو یا پھر اس کی سرزمین کفر میں رہنے کی کوئی دینی مصلحت ہو مثلا دعوت الی اللہ یا تبلیغ دین وغیرہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿٩٧﴾إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴿٩٨﴾فَأُولَـٰئِكَ عَسَى اللَّـهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٩٩﴾
جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہٴ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے واﻻ اور معاف فرمانے واﻻ ہے
مسلمانوں کے ساتھ حُسن سلوک!۔
مسلمانوں کی مدد اور اُن کی دینی ودنیاوی ضروریات میں جان ومال اور زبان کے ساتھ معاونت بھی اُن سے محبت کی ایک نشانی ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں
مزید فرمایا!۔
وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ
ہاں اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے، سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد وپیمان ہے
مسلمانوں کی تکلیف پر غمزدہ ہونا اور اُن کی خوشی پر خوش ہونا!۔
یہ بھی باہم محبت اور اُلفت کی ایک زبردست نشانی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔۔
باہمی الفت ومحبت اور دوستی وشفقت کے لحاظ سے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتو سارا جسم بخار زدہ اور بیدار رہ کر اس تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔
ایک مومن ددوسرے مومن کے لئے ایک عمارت کی مانند ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے یہ مثال سمجھائی۔۔۔
جذبہ خیر خواہی!۔
مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی، اُن کے لئے ہر قسم کی بھلائی چاہنا اور ہر قسم کی دھوکہ دہی اور مکروفریب سے گریز کرنا بھی اُن کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے!۔
عن قتادة عن أنس عن النبي وعن حسين المعلم قال حدثنا قتادة عن أنس عن النبي صلی الله عليه وسلم قال لا يؤمن أحدکم حتی يحب لأخيه ما يحب لنفسه
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے (مسلمان) بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرنے لگے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (صحیح بخاری)۔
نیز فرمایا!۔
عن شعبة قال أخبرني منصور قال سمعت ربعيا يحدث عن أبي بکرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا أشار المسلم علی أخيه المسلم بالسلاح فهما علی جرف جهنم فإذا قتله خرا جميعا فيها
شعبہ، منصور، ربیع، ابوبکر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر ہتھیار اٹھائے اور دوسرا بھی ساتھ ہی ہاتھ اٹھائے تو دونوں کے دونوں دوزخ کے کنارے پر ہیں پھر جس وقت قتل کیا تو دوزخ میں گر جائیں گے (واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جس وقت وہ دونوں کے دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے ہتھیار اٹھائیں) اور اگر ایک نے ہتھیار اٹھایا اور دوسرے شخص نے ہتھیار نہیں اٹھایا اور ایک نے دوسرے کا دفاع کیا تو ہتھیار اٹھانے والا (یعنی لڑائی میں پہل کرنے والا) دوزخ میں جائے گا۔ (سنن نسائی)۔
عزت اور احترام کی فضا!۔
مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کا احترام اور عزت وتوقیر بجالانا، تیز تذلیل وتوہیں اور عیب جوئی سے گریز کرنا باہمی محبت کی واضح دلیل ہے۔۔۔ ارشاد ہوا!۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹوﻻ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے واﻻ مہربان ہے
ہر حال میں وفاداری!۔
مسلمانوں سے محبت اور دوستی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر حال میں ان کے ساتھ رہے خواہ تنگی ہو یا آسانی، سختی ہو یانرمی، صرف آسانی اور نرمی کی حالت میں ساتھ دینا اور سختی اور تکلیف کی حالت میں ساتھ چھوڑ دینا تو منافقین کا شیوہ ہے جیسا کے اللہ تعالٰی کا فرمان ہے!۔
الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴿١٤١﴾
یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟ پس قیامت میں خود اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا
زیارتوں اور ملاقاتوں کا تسلسل!۔
مسلمانوں کا ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہنا، ملاقات کی چاہت رکھنا، اور مل جل کر بیٹھنے کا شوق رکھنا بھی باہمی محبت کی دلیل ہے ایک حدیث میں ارشاد ہوا۔
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ وفی حدیث آخر۔۔۔ آن رجلا زار اخالہ فی اللہ فارصد اللہ علی مدرجتہ ملکا، فسالہ این ترید؟ قال ازور اخالی فی اللہ۔ قال!۔ ھل لک علیہ من نعمہ بربہا علیہ؟۔ قال!۔ لا غیر انی احببہ فی اللہ۔ قال!۔ فانی رسول اللہ الیک بان اللہ قد احبک کما احببتہ فیہ۔
محض میری رضا کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہے ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی محض اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر اپنے کسی ب ھائی کی زیارت کے لئے نکلا اللہ تعالٰی نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو بٹھا دیا جو اس کا انتظار کررہا تھا (جب وہ شخص وہاں پہنچا) تو اس فرشتے نے سوال کیا، کہاں جانا چاہتے ہو؟۔ اس نے کہا!۔ اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے اپنے بھائی سے ملنے جارہا ہوں فرشتے نے کہا کیا تمہارا کوئی اس پر احسان ہے جس کا بدلہ وصول کرنے جارہے ہو؟۔ اس نے جواب دیا نہیں میں صرف اس سے اللہ تعالٰی کے لئے محبت کرتا ہوں تو اس فرشتے نے کہا! میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا نمائندہ ہوں اور یہ بتانے آیا ہوں کہ جس طرح تم نے اپنے اس بھائی سے اللہ تعالی کی رضا کی خاطر محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالٰی تم سے محبت کرنے لگا ہے۔۔۔
باہمی حقوق اور احترام!۔
حقوق کا احترام بھی محبت میں اضافہ کا موجب ہے چنانچہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی خرید پر اپنی خرید نہیں لگاتا اور نہ ہی اس کی بولی پر بولی لگاتا ہے نہ اس کی منگنی پر اپنی منگنی کا پیغام بھیجتا ہے الغرض جس مباح کام پر جو سبقت لے جائے دوسرا اس کے آڑے نہیں آتا رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ خبردار کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے نہ اس کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام بھجوائے۔۔
کمزور کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ!۔
یہ مشفقانہ حسن سلوک بھی باہمی محبت کی علامت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
لیس منا من لم یوقر کبیرنا ویرحم صغیرنا
جو ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم سے نہیں۔۔۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
عن مصعب بن سعد قال رأی سعد رضي الله عنه أن له فضلا علی من دونه فقال النبي صلی الله عليه وسلم هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائکم
مصعب بن سعد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سعد بن ابی وقاص کے دل میں خیال آیا کہ ان کو ان کے ماتحت لوگوں پر (کسب معاش میں ان سے زیادہ کوشش کرنے کی وجہ سے) فضیلت حاصل ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کمزور لوگوں کی وجہ سے مدد دی جاتی ہے، اور رزق دیا جاتا ہے (صحیح بخاری)۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔
دعائے خیر!۔
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لئے دُعا کرنا اور استغفار چاہنا بھی باہمی محبت کیدلیل ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا!۔
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی
اور اللہ تعالٰی نے ایک مقام پر مومنین کی اسی دُعا کا ذکر فرمایا ہے!۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ
اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں
نوٹ!۔ قرآن حکیم کی ایک آیت سے کچھ لوگوں کو ایک غلط فہمی ہوسکتی ہے جس کا ازالہ ضرور ہے وہ آیت مبارکہ یہ ہے۔۔۔
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے غلط فہمی کی بناء پر کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں بعض کفار سے دوستی اور محبت قائم کرنے کا حکم ملتا ہے۔
حالانکہ یہ مفہوم غلط ہے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کے کفار میں سے جو شخص مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے باز آجائے نہ تو ان سے جنگ کریں اور نہ ہی انہیں ان کے گھروں سے نکالیں تو مسلمان اس کے مقابلے میں عدل واحسان کے ساتھ دنیوی معاملات میں مکافات عمل اور حُسن سلوک کا مظاہر کریں، نہ کہ ان سے دلی محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کریں۔۔۔
تو گویا یہاں حکم نیکی اور احسان کا ہے، نہ کہ دوستی اور محبت کا، اس کی ایک اور مثال!ِ
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٥﴾
اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا
اسماء رضی اللہ عنھا کی والدہ جو کافرہ تھیں، ان کے پاس آئیں اور اُن سے ماں ہونے کے ناطے صلہ رحمی کی متقاضی ہوئیں تو اسماء رضی اللہ عنھا نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے!۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کے دنیاوی مکافات اور صلہ رحمی اور شے ہے اور قلبی محبت اور دوستی بالکل دوسری شے ہے بلکہ اس صلہ رحمی اور حسن معاملہ میں کفار کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا پہلو رکھا گیا ہے اور یہ چیز دعوت دین کے اسالیب میں سے ہے، جب کہ محبت اور دوستی کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے محبت اور دوستی تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کافر اپنے کفر پر صحیح ہے اور ہم اس سے راضی ہیں کیونکہ ایسا شخص اس کافر کو اسلام کی دعوت نہیں دے پاتا۔۔۔
یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ کفار سے دوستی اور محبت کے حرام ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کے ان کے ساتھ دنیوی معاملات کرنا بھی حرام ہیں، نہیں دنیاوی معاملات کئے جاسکتے ہیں مثلا جائز قسم کی تجارت کرنا، ان سے سامان اور مفید قسم کی مصنوعات منگوانا اور ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھانا وغیرہ جیسا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار راستے کی رہنمائی کے لئے ابن اریقطہ لیثی نامی کافر کو اجرت پر لیا تھا اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض یہودیوں سے قرضہ لینا بھی ثابت ہے۔۔۔
مسلمان ہمیشہ سے کفار سے مختلف مصنوعات اور سامان منگواتے رہے ہیں یہ ایک چیز کا قیمت کے بدلے خریدنا ہے اس میں ان کا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے مؤمنوں سے محبت اور دوستی اور کافروں سے بغض وعداوت کو واجب قرار دیا جائے جیسا کے اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
جو لوگ ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں،
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا!۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴿٧٣﴾
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا
اس آیت کریمہ کے تحت حافظ کثیر لکھتے ہیں!۔
اگر تم مشرکین سے دور ہوکر نہیں رہو گے اور مؤمنین سے محبت نہیں کرو گے تو لوگوں کے درمیان فتنہ واقع ہوجائے گا اور وہ اس طرح کے مسلمانوں کا کافروں کے ساتھ اختلاط اور میل جول لازم آجائے گا جس سے لوگوں کے درمیان بہت لمبا چوڑا فساد برپا ہوجائے گا۔
میں کہتا ہوں کے ہمارے اس دور میں یہ سب کچھ ظاہر ہوچکا ہے واللہ المستعان!۔
محبت یا نفرت کا حقدار ہونے کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام!۔
دوستی یا دشمنی کے حقدار ہونے کے اعتبار سے لوگوں کی تین اقسام ہیں!۔
١۔ وہ لوگ جو خالص محبت اور دوستی کئے جانے کے مستحق ہیں، ایسی محبت اور دوستی کہ جس میں عداوت یا نفرت کا کوئی عنصر شامل نہ ہو۔
٢۔ وہ لوگ جو بغض، عداوت اور نفرت کئے جانے کے مستحق ہیں، ایسی عداوت ونفرت کہ جس میں دوستی یا محبت کو کوئی عنصر شامل نہ ہو۔
٣۔ وہ لوگ جو بعض وجوہات کے اعتبار سے محبت کئے جانے اور بعض وجوہات کے اعتبار سے نفرت وعداوت کئے جانے کے مستحق ہیں۔۔۔
خالص محبت کئے جانے کے مستحق افراد!۔
وہ لوگ جن سے خالص محبت کرنا واجب ہے، ایسی محبت جس میں عداوت یا نفرت کا شائبہ تک نہ ہو وہ خالص مؤمنین کی جماعت ہے جس میں سرفہرست انبیاء کرام کی جماعت ہے پھر صدیقین پھر شہداء اور صالحین ہیں۔۔۔
پھر انبیاء کرام میں سب سے مقدم وسرفہرست محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت کرنا واجب ہے، جو اپنے نفس، اولاد، ماں باپ اور تمام لوگوں کی محبت پر حاوی اور غالب اور سب سے بڑھ کر ہو۔
پھر آپ کی ازواج مطہرات امہات المومنین اور دیگر اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی محبت ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں بطور خاص خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ، مہاجرین اور انصار، بدری صحابہ، بیعت رضوان میں شریک صحابہ اور پھر بقیہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں جو خالص محبت کے مستحق ہیں پھر تابعین کرام پھر آئمہ اربعہ وغیرہ کی محبت قابل ذکر ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے!۔
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے
جس کے دل میں ایمان ہوگا، وہ کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا سلف وصالحین سے بعض یا عداوت نہیں رکھے گا اس مقدس جماعت سے بغض قائم کرنا کج رو، منافقین اور اسلام دشمن افراد کا شیوہ ہے ہم اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔۔۔
صرف بغض وعداوت رکھے جانے کے اہل افراد!۔
یہ کفار، مشرکین، منافقین، مرتدین اور ملحدین کی جماعت ہے، جن کی اقسام مختلف ہیں لیکن سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام لوگ عقیدہ خالصہ یعنی توحید کے منکر ہیں اللہ تعالٰی نے فرمایا۔۔۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔
دوسرے مقام پر اللہ سبحان تعالٰی نے بنی اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا!۔
تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿٨٠﴾وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨١﴾
ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وه کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لئے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں
وہ افراد جو محبت اور عداوت دونوں کے مستحق ہیں!۔
اس سے مراد وہ مومن ہیں کہ جن میں بوجوہ کچھ نافرمانیاں پائی جاتی ہیں لیکن عقیدہ صحیح ہے یہ لوگ اپنے حسن عقیدہ اور دولت ایمان کی وجہ سے محبت کئے جانے کے قابل ہیں لیکن بعض نافرمانیوں کے مرتکب ہونے کی بناء پر ناراضگی کے مستحق ہیں شرط یہ ہے کے ان کی نافرمانی کفر یا شرک کی حد کو نہ پہنچتی ہو کیونکہ اگر ان کی نافرمانی کفر یا شرک کی حدود تک پہنچ گئی تو پھر یہ لوگ بھی دعوٰی ایمانی کے باوجود مکمل نفرت اور بغض کے مستحق ہیں۔۔۔
ایسے لوگوں کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کے ان کے ساتھ خیر خواہی کی جائے اور جن نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کا انکار کیا جائے ان لوگوں کی نافرمانیوں پر خاموش رہنا جائز نہیں بلکہ ان کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم جذبہ خیر خواہی کا بھرپور برتاؤ ضروری ہے جو حکمت اور موعظہ حسنہ کے تقاضے پورے کرتا ہو اور اگر ان کی معصیت ایسی ہو جو شرعی حد کو واجب کرتی ہے تو پھر اس حد یاتعزیر کے نفاذ میں بھی تا آنکہ اپنی معصیت سے باز آکر توبہ نہ کرلیں خیر خواہی ہے ایسے لوگوں سے مکمل بغض، ناراضگی، اور نفرت روا نہیں ہے جیسا کے خوارج کا شیوہ ہے بلکہ ان کی بابت اعتدال کا دامن تھامے رہنا چاہئے چنانچہ حسن عقیدہ کی بناء پر دوستی اور محبت کا برتاؤ کیا جائے اور معصیتوں کے ارتکاب کی بناء پر ناراضگی ونفرت کا اظہار کیا جائے اور یہی اہل السنہ والجماعت کا مسلک ہے۔۔۔
شریعت اسلامیہ کی ہدایت یہ ہے کے کسی سے محبت ہو تو اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر اور عداوت ہو تو اللہ تعالٰی کی خاطر، یہ عقیدہ ایمان کی مضبوط ترین کڑی ہے بلکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اُس نے محبت کی۔۔۔
المَرْءُ معَ مَنْ أَحَبّ،
لیکن آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں عمومی طور پر لوگوں کی دوستیاں اور دشمنیاں دنیا کی بنیاد پر قائم ہوچکی ہیں جس سے کوئی دنیوی لالچ یا طمع یا مفاد ہو اس سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کر لئے جاتے ہیں خواہ وہ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کا دشمن ہی کیوں نہ ہو ابن جریر نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔۔۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔
جس نے میرے کسی دوست سے عداوت قائم کی، میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
اس جنگ کا سب سے زیادہ خطرہ مول لینے والا وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بغض وعداوت رکھے، ان کی شان میں گستاخیاہ رویہ اپنائے اور ان کی تنقیص شان کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے کیونکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، انہیں اپنی تنقید کا نشانہ نہ بناؤ جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھ کو دکھ دیا جس نے مجھے دکھی کیا اس نے اللہ تعالٰی کو تکلیف پہنچائی، اور جس نے اللہ تعالٰی کو تکلیف پہنچائی اللہ تعالٰی اُسے عنقریب صفحہ ہستی سے مٹاڈالے گا۔۔۔
افسوس کے بعض گمراہ فرقوں کا مذہب اور عقیدہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عداوت پر قائم ہے ہم اللہ تعالٰی کے اس کے غضب اور دردناک عذاب سے پناہ چاہتے ہیں اور عفووعافیت کے سائل و خواستگار ہیں۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم۔
والسلام علیکم۔
 
Top