• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی امور پر اجرت کا جواز :: منکرین حدیث کے شبہات کا رد

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
دینی امور پر اجرت کا جواز


یہ تحریر درحقیقت بروز جمعۃ المبارک جامع مسجد امیر حمزہ نزد کوکاکولا فیکڑی وہاڑی روڈ ملتان میں بعد نماز مغرب ہونے والا ایک درس ہے جس میں دینی امور پر اجرت کے جواز سے متعلق منکرین حدیث جماعت المسلمین کے شکوک وشبہات کا ازالہ اور اہل السنہ والجماعۃ کے مسلک حقہ کو احسن پیرائے میں بیان کیا گیا ہے
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد ! فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [البينة : 5] وقال جل و علا: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُواْ اللّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ [البقرة : 198] وقال جل و علا في مقام آخر: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً [الفرقان : 57]


منکرین حدیث کی طرف سے اہل الحدیث پر جو اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے:
”دینی امور پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ “
ان کا یہ زعم باطل ہے کہ دینی تعلیم ہو، امامت ہو، خطابت ہو، درس وتدریس ہو، پڑھنا پڑھانا ہو یا دینی امور میں سے کوئی بھی معاملہ ہو، اس پر اجرت لینا جائز اور درست نہیں ہے۔ اگر اجرت لے لی جائے گی تو اس کا اجر اور ثواب ختم ہوجائے گا۔ اس کے بارے میں وہ کچھ دلائل بھی رکھتے ہیں، ان شاء اللہ ان کے وہ دلائل جو انہوں نے کتابچوں اور مضامین کی شکل میں لوگوں کے اندر پھیلائے ہوئے ہیں، ان کا محاکمہ آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ لیکن مختصراً اس بارے میں رسول اللہﷺ کا جو موقف تھا، پہلے اس کو سمجھ لیں۔

صحیح بخاری کے اندر مشہور واقعہ ہے۔ایک صحابی نے ایک شخص کو دم کیا ، چالیس بکریاں اس کو اجرت کے طور پر دی گئیں۔ اور وہ کچھ لوگ تھے جو کہنے لگے کہ ابھی یہ اجرت ملی ہے ، چلو اس کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ نہیں! پہلے ہم اس بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھیں گے۔ آپﷺ سے پوچھا گیا تو آپﷺ نے ایک اصول، قاعدہ اور قانون بیان فرمایا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”إن أحق ما أخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ۔“
وہ تما م تر پیشے ، تمام تر کام،تمام تر امور، جن پر اجرت لی جاتی ہے، ان سارے امور میں سے کتاب اللہ یہ حق رکھتی ہےکہ اس پر اجرت لی جائے۔ ( صحیح بخاری کتاب الطب باب الشرط فی الرقیۃ بقطیعۃ من الغنم ح ۵۷۳۷)

اگر کوئی معمار ہے، مکان تعمیر کرتا ہے۔ کوئی مکینک ہے، انجینئر ہے، ڈاکٹر ہے، کسی بھی پیشے میں وہ اجرت لیتا ہے تو ان تمام تر پیشوں میں ، ان تمام تر امور میں سے اجرت کا سب سے زیادہ حق دار کتاب اللہ ہے۔ اور پھر ! نبی کریمﷺ نے انہیں اس چیز کے درست ہونے کا فتویٰ دیا تو ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا:
”واضربوا لمعکم سہما“
تمہارے لیے یہ چالیس بکریاں جو تمہیں دی گئیں ہیں، انہیں لینا جائز اور درست ہے۔ یعنی فتویٰ دینے کی فیس بھی رسول اللہﷺ نے طلب کی۔ یہ مختصر اور جامع بات ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیم پر، دم کرنے پر یا دینی امور پر اجرت لینا نبی کریمﷺ سے ثابت ہے اور آپ نے اسے جائز اور درست قرار دیا ہے۔ اور فتویٰ دینے کی فیس اور حصہ بھی طلب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں میرا حصہ بھی رکھو، مجھے بھی حصہ دو۔ صحیح بخاری کے اندر یہ حدیث موجود ہے اور بہت ہی مشہور ومعروف حدیث ہے۔
( صحیح بخاری کتاب الإجارۃ باب ما یعطى فی الرقیۃ على أحیاء العرب بفاتحۃ ح ۲۲۷۶)
خیر! اب اس مؤقف پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہ پانچ چھ اعتراض ہیں۔ ان کو ہم ان شاء اللہ بالترتیب دیکھتے ہیں۔

پہلا اعتراض:
سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اجرت لینا اخلاص کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [البينة:5
انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کےلیے اپنے دین کو خالص کرکے اللہ کی عبادت کریں۔

عبادت کے اندر اخلاص ہونا چاہیے اور دینی امور جتنے بھی ہیں چاہے وہ خلافت ہے، نظامت وامارت ہے، مسلمانوں کے اندر قضاء وفیصلے کا کام ہے ، چاہے وہ دین اسلام کی تعلیم ہے، قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیم ہےیا امامت ہے، خطابت ہے، درس وتدریس ، جو بھی اسلام سےریلیٹڈ (Related) اور متعلقہ کام ہیں ، یہ سارے کے سارے عبادت کے اندر آتے ہیں، تو ان میں اخلاص شرط ہے۔ تو اگر اجرت لے لی جائے تو اخلاص ختم ہوجاتا ہے۔ اور پھر اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسی اصول کو رسول اللہﷺ نے یوں بیان کیا ہے:
”إنما الأعمال بالنیات“
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
”وإنما لکل امرئ ما نوی“
بندے کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ ( صحیح بخاری ح۱)

اگر درس وتدریس، امامت وخطابت، قضاء ونظامت وغیرہ جو اسلام کے شعبے کسی کو دیئے جائیں ، کام پر اس کو مامور کیا جائے ، اور وہ اس کی اجرت لے لے تو اس کا اجر ختم ہوجائے گا۔ یہ ان کا پہلا اعتراض ہے۔

لیکن یہ اعتراض بالکل باطل اور فضول سا ہے۔ کیونکہ اخلاص اور نیت کی تعریف یہ ہے:
”الإرادۃ المتوجہة نحو الفعل لابتغاء مرضات اللہ وامتثال حکمہ“
کہ کسی فعل کی طرف اپنے ارادے کو بندہ متوجہ کرے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کےلیے ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کےلیے۔

تو پھر اگر اس کے اندر کوئی غرض جو شرعاً جائز ہو، وہ شامل ہوجائے تو اخلاص ختم نہیں ہوتا ہے۔ دیکھئے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حاجیوں سے کہا، حج کرنے میں اخلاص شرط لگائی ہے۔ جتنی بھی عبادات ہیں، سب کے اندر اخلاص شرط ہے لیکن ہر عبادت میں اخلاص کا ذکر اللہ نے بعد میں کیا ہے اور عبادت کے واجب اور فرض ہونے کا ذکر اللہ نے پہلے کیا ہے۔ لیکن حج ایسی عبادت ہے کہ اس میں ریا کاری کا شائبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کو مقدم رکھا ہے۔ فرمایا:
”وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً [آل عمران : 97]“
اللہ تعالیٰ کےلیے لوگوں پر فرض ہے بیت اللہ کا حج کرنا،
ان لوگوں کےلیے فرض ہے
” مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً “
جو راستے کی طاقت اور استطاعت رکھتا ہے۔

اخلاص کو اللہ تعالیٰ نے سب سے مقدم ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ [البقرة : 198] “
اگر تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
یعنی اگر کوئی آدمی پاکستان سے حج کرنے کےلیے سعودیہ جاتا ہے اور وہ ساتھ حج کے دوران، حج کے ایام میں تجارت بھی کرلیتا ہے، خریدوفروخت بھی کرلیتا ہے، اللہ کا فضل، رزق وہ کما لیتا ہے
” لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ “
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے۔

اب حج کرنا عبادت ہے، اور اگر حج کے ساتھ ساتھ وہ مال بھی کما لے، تجارت کرلے، کاروبار کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بڑے واضح لفظوں میں بتا دیا۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دینی امور پر اجرت لے لی جائے تو اس سے اخلاص ختم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت، وہ بھی موجود ہو، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اجرت بھی لے لی جائے ، اخلاص پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ پھر اسی طرح جو لوگ اجرت لینے کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتےہیں کہ اگر کوئی خود ہی ہدیہ دے تو جائز ہے۔ امام صاحب امامت کروائیں ، خطبہ دیں مسجد میں آکر، درس قرآن وحدیث دیں، مسلمانوں کے قاضی اور جج بنیں ، لیکن وظیفہ ان کےلیے مقرر نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں اگرلوگ اس کو کوئی ہدیہ اور تحفہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔یعنی ہدیے اور تحفے کو وہ لوگ جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کو ہدیہ یا تحفہ کہہ دینے سے اس کی حیثیت نہیں بدلتی۔

ابن لتبیہ کو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا مال اکھٹا کرنے کےلیے عامل بنا کر بھیجا، صحیح بخاری کے اندر حدیث موجود ہے۔ آکر کہنے لگے کہ یہ آپ کی زکاۃ ہے جو لوگوں نے دی ہے اپنے مالوں کی، اور یہ چند ایک تحفے تحائف ہیں جو لوگوں نے مجھے دیئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اس کو تحائف وصول نہیں کرنے دیئے۔ فرمایا: ہاں! یہ اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہتا ، پھر میں دیکھتا کہ کون اس کو تحفے دیتا۔ اس کو جو تحفے تحائف ملے ہیں ، وہ کیوں دیئے گئے ہیں کہ یہ عامل بن کر گیا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الحیل باب احتیال العامل لیہدى إلیہ ح ۶۹۷۹ )

نیز فرمایا ”هدايا العمال غلول“ اگر ہمارا کوئی عامل جائے اور لوگ اس کوہدیہ دیں، تحفہ دیں تو وہ غلول ہے ، دھوکا ہے اور خیانت ہے۔( مسند احمد بن حنبل ح 23090)

رشوت کو تحفہ کہہ دینے سے اس کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ رسول اللہﷺ نے سارا کچھ واپس لے لیا۔اگر اجرت لینا ناجائز ہو تو پھر ہدیہ لینا بھی ناجائز ہی ہوگا۔ کیونکہ ہدیہ لوگ اس کو کیوں دیں گے؟ کسی کام کی وجہ سے ہی دیں گے ناں! دینی امر کی وجہ سے ہی دیا جائے گا ناں! دینی امر کی وجہ سے اجرت نا جائز اور ہدیہ جائز!!! فرق صرف اتنا ہے کہ اجرت کا نام ہدیہ رکھ دیا ہے۔

ع جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے​

پھر! اگر ذرا غور کیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا کہ یہ لوگ جو اجرت لینا منع کرتے ہیں، اندر کھاتے یہ بھی اجرت لینے کے قائل ہیں۔ لیکن نام بدل کر، نام ہدیہ رکھ دو تو پھر جائز ہے۔یعنی اندر کھاتے یہ بھی اجرت لینے کے قائل ہیں۔ اور ظالموں نے بڑی بڑی مسجدیں اجاڑ کے رکھ دی ہیں یہ فتنہ کھڑا کرکے، کہ لو جی! ہم ایسے امام کے پیچھے نماز ہی نہیں پڑھتے جو تنخواہ لیتا ہو، پراپیگنڈہ کرکے امام ، خطیب اور مؤذن کی چھٹی کروا دی۔ پھر نہ ادھر کوئی جماعت کروانے والا ملتا ہے ، نہ خطبہ دینے والا ملتا ہے ،نہ ٹائم پر اذان دینے والا مؤذن ملتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں۔ مقصد دین اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔ پھر اجر کے دو معنی ہوتے ہیں:
1۔ اجرت و مزودوری
2۔اجر وثواب

تو جو اجر وثواب ہے وہ تو لوگوں سے لیا جاہی نہیں سکتا۔ وہ توصر ف اللہ رب العالمین ہی دے سکتے ہیں۔ اور جو اجرت ہے وہ لوگوں سے لی جاسکتی ہے۔ لوگ دے بھی سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس کو یوں سمجھیں کہ تجارت، اس کو خالصتاً دنیاوی کام سمجھا جاتا ہے ناں! رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں جامع ترمذی کے اندر حدیث آتی ہے:
”التاجر الصدوق الأمین مع الکرام السفرۃ البررۃ“
سچا، امانتدارجو تاجر ہے وہ اللہ کے سفیر نیک مقرب فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ ( جامع الترمذی أبواب البیوع باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ح۱۲۰۹)

کر تجارت رہا ہے، دینار کما رہا ہے، لیکن اس کے صادق و امین ہونے کی وجہ سے اس کو اجر بھی مل رہا ہے۔ یعنی اجر واجرت دونوں اکھٹے ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی اجرت لیتا ہے تو وہ اجر سے محروم نہیں ہوتا۔ اجر علیحدہ چیز ہے اور اجرت علیحدہ چیز ہے۔

دوسرا اعتراض:

دوسرا اعتراض یہ وارد کرتےہیں کہ اللہ رب العالمین نے مختلف رسولوں کا تذکرہ کیااور فرمایا ہے:
”وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ “
میں تم سے اجر کا سوال نہیں کرتا ۔
اور کہاہے ”قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ“
اگر میں تم سے کوئی اجر مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لیے ہی ہے۔
”إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ “
میرا اجر تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ تو لہٰذا معلوم ہوا کہ اجرت لینا جائز نہیں۔

لیکن یہ اعتراض پہلے اعتراض سے بھی زیادہ کمزور ہے۔کیونکہ پیغمبر کہتے ہیں کہ ہم تم سے مطالبہ نہیں کرتے۔ بات کو غور سے سمجھیں، پیغمبر کہہ رہے ہیں کہ ہم تم سے مطالبہ نہیں کرتے، اور اگر تم دے دو تو پھر؟ یہ تو نہیں کہا کہ پھر بھی نہیں لیں گے۔ مطالبہ کرنے کی نفی کی ہے ۔ اجرت لینے کی نفی نہیں کی۔ اور اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ہم نہیں لیتے، توبھی معنى بنے گا کہ کوئی اور لیتا ہے تو لے۔

اب مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر ہے، اس کی چیکنگ فیس پانچ سو روپے ہے۔ اس کے پاس کوئی بندہ دوائی لینے کےلیے چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں آپ سے فیس نہیں لیتا، ٹھیک ہے ، مرضی ہے اس کی۔ وہ نہیں لیتا تو نہ لے۔ نہ لینے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس کا کھاتہ بالکل ہی گول ہوگیا ہے۔تم سے نہیں لیتا ، ٹھیک ہے ، اوروں سے لے لے گا۔ پھر مطالبہ کی نفی ہے ، قبول کرنے اور لینے کی نفی نہیں ہے۔ اور پھر، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں فرمایا ہے:
”قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ “
میں تم سے اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا،
ہاں ”إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً [الفرقان :57]“
تم میں سے جو چاہتا ہے کہ مجھے کچھ دے دے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے ، یہ اس کی مرضی ہے ۔ بات تو بڑی واضح ہوگئی ہے کہ انبیاء نے کیا کہا ہےکہ ہم مطالبہ نہیں کرتے، اور اگر کوئی دینا چاہے تو دے دے۔
” مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً [الفرقان :57]“
کوئی حرج نہیں اس میں ۔ اور پھر مطالبہ نبی کریمﷺ نے کیا ہے۔ مطالبہ بھی کیا ہے، ایک توآپﷺ نے شروع میں حدیث سنی ہے ، فرمایا:
”واضربوا لي معکم سہما“
مجھے بھی حصہ دو اس میں سے۔

یہ مطالبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر، مال غنیمت میں سے خمس اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے لیے مخصوص کیا ہے۔ آپﷺ جہا د میں جائیں ، چاہے نہ جائیں۔ اصول یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں سے حصہ اسے ملتا ہے جو جہاد میں شریک ہوتا ہے۔ جو شریک نہیں ہوتا اس کو حصہ نہیں ملتا، لیکن رسول اللہﷺ کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہوا تھا، وہ چاہے جائیں ، چاہے نہ جائیں۔ پانچواں حصہ ، خمس، وہ نبی ﷺ کو دیا جائے گا۔ باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے۔

”وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ “
جان لو جو بھی مال غنیمت تم حاصل کرتے ہو
” فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ “
اللہ و رسول کےلیے پانچواں حصہ ہے۔[الأنفال : 41]

وفد عبدالقیس بحرین سے آیا۔ کہاں مدینہ اور کہاں بحرین؟ جب وہ واپس جانے لگے تو نبی کریمﷺ نے انہیں چار کام کرنے کا حکم دیا۔ اور چارکاموں سے منع کیا۔ جن چار کاموں کے کرنے کا حکم دیا ان میں سے سب سے پہلا کام اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانا ہے۔ پوچھا: تمہیں پتہ ہے کہ
”ما الایمان باللہ وحدہ؟“
اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا کیا معنی ہے؟
وہ کہنے لگے: ”اللہ ورسولہ اعلم“
آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانے کا معنی ہے اللہ کی توحید اور میری نبوت ورسالت کی گواہی دو ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو،
”وأن تعطوا من المغنم الخمس“
اور مال ِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الإیمان باب اداء الخمس من الإیمان ح۵۳)

کہاں بحرین کےلوگ، وہ جنگ کریں، جہاد کریں، غزوہ کریں، اگر ان کو مال غنیمت ملتا ہے تو پانچواں حصہ مدینہ میں نبی کریمﷺ کو دیا جائےگا۔ نبوت سے پہلے آپﷺ تجارت کرتے تھے اور نبوت کے بعد آپ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے تھے۔ یہ صحابہ کرام آکر دے جاتے تھے۔ کوئی دودھ لے کر آرہا ہے، کوئی کھجوریں دے جاتا ہے، کوئی کچھ تحفہ لے کر آرہا ہے ، کوئی کچھ لے کر آرہا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب جہاد جاری ہوا تو مال غنیمت میں سے مخصوص حصہ خمس آپ کےلیے مخصوص کردیا۔

تیسرا اعتراض:
اور پھر اسی طرح نبی کریمﷺ ، صحابہ کرام، سلف صالحین کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ امامت وخطابت کی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔حالانکہ بیچاروں کو پتہ ہی نہیں ، امام کون ہوتا تھا؟ امیر المؤمنین۔ مرکزی امام، امیر المؤمنین ، خلیفۃ المسلمین ، علاقے کا گورنر، علاقے کا ناظم، مسجد کا امام اور مسجد کا خطیب ہوتا تھا۔

ابوبکررضی اللہ عنہ تجارت کیا کرتے تھے۔جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور کاروبار کرنے لگے تو لوگوں نے کہا : خلافت کو کون سنبھالے گا، رہنے دوکام کو۔ روزینہ انہیں دیا جاتا، بیت المال سے تنخواہ مقرر تھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی۔ کس کام کےلیے؟ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، یہ امور دین نہیں ہے؟اور یہ ابوبکررضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے نائب ہونے کی بنا ء پر، امام بھی ہیں ، خطیب بھی ہیں، اور حاکم وقت بھی ہیں، تنخواہ لے رہے ہیں، امور دین پر اجرت لے رہے ہیں، ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعد عمررضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، عثمان رضی اللہ عنہ بنے، حیدررضی اللہ عنہ بنے۔ سب کو بیت المال میں سے تنخواہ دی جاتی تھی، عامل مقرر ہوتا، اس کو بیت المال میں سے تنخواہ دی جاتی تھی۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو عامل بنایا، جب وہ اپنا کام مکمل کرکے آیا تو سیدنا امیر المؤمنین عمررضی اللہ عنہ نے ان کو کچھ وظیفہ دیا، کچھ تنخواہ دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے یہ کام اللہ کےلیے کیا ہے۔ تنخواہ لینے کےلیے نہیں کیا۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہاں! جو تو مجھے کہہ رہا ہے ، میں نے نبی کریمﷺ کویہی کہا تھا۔ لیکن آپﷺ نے مجھے سمجھایا تھا کہ ایسا کام نہیں کرنا۔
”ما أعطیک من غیر اسراف فخذہ“
جو تجھے اپنے آپ دیا جارہا ہو، اسے لیا کر۔
”فتمولہ“
اس کو اپنا مال بنا۔ ( صحیح بخاری کتاب الأحکام باب رزق الحکام والعاملین علیہا ح۷۱۶۴ )

یہ مسلمانوں کا کام تھا ناں! دینی امر تھا، وظیفہ دیا جارہا ہے۔ تو، وہ سارے کے سارے لوگ،جو مسجد کے امام وخطیب ہوتے تھے، وہ صرف مسجد کے امام وخطیب نہیں ہوتےتھے، وہ حکومت کی طرف سے مقرر شدہ عامل ہوتے تھے۔گورنر ہوا کرتے تھے، ان کو بیت المال سے تنخواہیں دی جاتی تھیں، اجرتیں دی جاتی تھیں۔ تو اپنی جہالت اور لاعلمی کی بناء پر انہوں نے خوامخواہ کا اعتراض کیا ہوا ہے۔

چوتھا اعتراض:
پھر چوتھا اعتراض صحیح بخاری کی اسی حدیث پر کرتے ہیں جو میں نے سب سے پہلے آپ کو سنائی ہے کہ
”إن أحق ماأخذتم علیہ أجرا کتا ب اللہ“
یہ حکم آپﷺ نے ایک مخصوص کام پر، یعنی دم کرنے پر دیا تھا، سبب ورود اس کا کیا ہے؟ کہ آپﷺ نے ان لوگوں کو یہ بات فرمائی دم کرنے پر، تو اس سے معلوم ہوا کہ دم کرنے کی اجرت لینا جائز ہے، باقی چیزیں تو یہاں تھی ہی نہیں۔ تو اسے سبب ورود پرہی محمول رکھا جائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انداز ہی غلط ہے۔ اصول ہے کہ
”لعبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب“
اعتبار لفظوں کا ہوتا ہے، سببوں کا نہیں۔

اگر سببوں کا اعتبار کرنے لگ جائیں ناں! توقرآن کی جتنی بھی آیتیں ہیں یہ ساری مکہ کے مشرکوں کےلیے ہی ہیں ناں! یا صحابہ کرام کےلیے ہیں یا مدینہ کے یہودیوں عیسائیوں کےلیے ہیں، ہمارے لیے تو کچھ بھی نہیں، اگر اسباب نزول و ورود کا اعتبار کرنا ہے پھر تو ہم سارے آزاد ہوگئے۔ اعتبار کیا جاتا ہے الفاظ کا کہ الفاظ کیا ہیں۔ الفاظ رسول اللہﷺ نے دم کے بارے میں نہیں کہے۔ مطلقاً کہے ہیں، جن جن کاموں پر اجرت لینا جائز ہے، ان سب کاموں میں سے سب سے زیادہ حق دارکتا ب اللہ ہے، تو لہٰذا یہ اعتراض بھی بالکل فضول ہے۔

پانچواں اعتراض:
پانچواں اعتراض یہ کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے یہ باب باندھا ہے
”باب من رائ القرآن أو تأکل بہ أو فجر بہ“
اس آدمی کے گناہ کا بیان ، جس نے قرآن مجید کے ساتھ ریا کاری کی، یا اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا یا اس کے ذریعے کوئی گناہ والا کام کیا۔

تو اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری بھی قرآن پر اجرت لینے کے قائل نہیں تھے۔حالانکہ بیچاروں کو بات سمجھ ہی نہیں آئی کہ امام بخاری نے کتاب البیوع کے اندر باب باندھا کہ
”باب ما یعطی فی الرقية علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب، وقال ابن عباس عن النبیﷺ: إن أحق ما أخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ“
امام بخاری نے یہ باب بھی باندھا ہے جس میں بیان کیا ہے کہ دم کرنے کی فیس اور تنخواہ لی جاسکتی ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی نبی کریمﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ کتاب اللہ پر اجرت لینا جائز ہے۔ تو اس بات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید پر اجرت لینے کے قائل تھے امام بخاری رحمہ اللہ الباری۔ اور وہ باب جو انہوں نے اعتراض میں پیش کیا ہے اس کا معنی کیا ہے؟ اس میں امام صاحب فرماتے ہیں:
”من رائ“
جس آدمی نے ریا کاری کی
”بقرأۃ القرآن“
قرآن پڑھا لوگوں کو دکھانے کےلیے۔

تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ریا کاری کےلیے قرآن پڑھنا ناجائز ہے، غلط ہے۔کوئی بھی کام ہو ریا کاری کرکے ضائع ہوجاتا ہے۔ پھر ریا کاری کرکے لوگوں سے واہ واہ کرواکے دادلینا اور پیسے وصول کرنا، یہ بھی غلط ہے۔ ہم نے کب اس کو جائز کہا ہے؟
”أو فجر بہ“
یا قرآن کے ساتھ گناہ والا کام کرتا ہے،
ہاں! قرآن کے ذریعے گناہ والا کام کرنا بالکل ناجائز اور غلط ہے۔تو بات کا مفہوم ہی بیچاروں کو سمجھ نہیں آیا۔

چھٹا اعتراض:
چھٹا اور آخری اعتراض جو ان کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
”وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً “
میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ خریدو۔

پہلے رونا روتے رہے ہیں سبب ورود کا، اور اب کلام کے سیاق وسباق کو ہی بھول گئے۔ یہ آیت اور یہ خطاب تو بنی اسرائیل کےلیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ [البقرة :40۔41] “
اے بنی اسرائیل! جو میں نے تم پر نعمتیں کی ہیں، انہیں یاد کرو۔ اور جو میرا وعدہ ہے اس کو پورا کرو، اور میں تمہارے ساتھ کیے گئے وعدے کو نبھاؤں گا۔ اور مجھ سے ہی ڈرو اور جو میں نے تم پر نازل کی ہےکتاب ، قرآن مجید، اس کتاب کی جو تمہارے پاس تورات وانجیل، اس کی تصدیق کرنے والی ہے، تم اس قرآن کے کافر اور انکاری نہ بن جاؤ، اور اللہ کی آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ خریدو۔

آیت پوری پڑھی جائے تو مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی حق بات کو چھپانے کے عوض مال حاصل نہ کرو، ہاں! ہم بھی کہتے ہیں کہ جو امام وخطیب حق چھپاتا ہے، مسجد کا متولی مثلاً سگریٹیں پیتا ہے اور خطیب صاحب اگر سگریٹ پینے والے کے بارے میں کوئی بات آئے تو اسے دائیں بائیں کرجاتے ہیں۔ کیوں؟ کہیں مجھے چھٹی نہ کروا دے۔ ہاں! یہ غلط اور ناجائز ہے۔ حق بات کو چھپایا ہے دنیا کی خاطر ، ناجائز ہے۔
”وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً “
اور پھر اس کا ایک معنی اللہ نے خود قرآن میں متعین کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ [البقرة : 79] “
کہ ان لوگوں کےلیے ہلاکت ہو کہ جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
کیوں؟
” لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً “
تاکہ اس کے بدلے تھوڑی قیمت خرید لیں،
دنیاوی منفعت حاصل کرنے کےلیے کچھ احکام بناتے ہیں، کچھ باتیں تحریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عین کتاب اللہ ہے۔ ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے۔ دنیا کو راضی کرنے کےلیے ، اپنا پیٹ بھرنے کےلیے باتیں گھڑیں اور بنائیں، اور اسے دین اور کتاب اللہ کانام دے دیا۔
” فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ “
یہ جو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں ان کےلیے ہلاکت ہے
” وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ “
جو یہ کماتے ہیں ان کےلیے ہلاکت ہے۔

تو مسئلہ واضح ہوگیا کہ اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدنے کا کیا معنی ہے۔اگر اس کا معنی اجرت لینا ہوتا تو نبی کریمﷺ نے بھی تو فرمایا ہے :
”واضربوا لي معکم سہما“
تو مسئلہ بتایا ناں ! فتوی دیا ناں! کہ یہ اجرت لینا تمہارے لیے جائز ہے۔ اور پھر حصے کا مطالبہ بھی کیا۔ تو فتوی دے کر فتوی کی فیس لینا ، اگر اللہ کی آیتوں کو بیچنا ہے تو معاذ اللہ کیا رسول اللہﷺ نے اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت کے بدلے بیچا تھا؟ ہرگز نہیں! قطعاً ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچنے کا معنی ہی اور ہے۔ اور انہوں نے بنا کچھ اور دیا ہے۔

پھر اسی طرح ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ایک صحابی کو ہدیے کے طور پر ایک کمان دی گئی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: یہ آگ کی کمان ہے۔ اس نے تعلیم دی تھی کتاب اللہ کی۔ سنن کبری بیہقی کے اندر یہ حدیث آتی ہے۔ تو یہ روایت ہی سنداً ضعیف ہے ، اس کو پیش کرنا ضعف علم وعقل کی دلیل ہے۔ ا

سی طرح ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ قرب قیامت ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے
”یتعجلونہ ولا یتأجلونہ“
کہ قرآن پڑھ کر وہ دنیا چاہیں گے اور آخرت نہیں چاہیں گے۔
یعنی قرآن پڑھنے کا مقصد ثواب کمانا نہیں بلکہ صرف اور صرف دنیا کماناہے۔ تو یقینا ایسا کام ناجائز ہے۔ ہم نے کب اسے جائز قرار دیا ہے۔ تو قرآن بندہ پڑھے پڑھائے اور اس کے اندر اللہ کی رضا کا حصول مقصد نہ ہو بلکہ صرف دنیا کمانا مقصود ہو دین سیکھ کر تو بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر اللہ کی رضا بھی مقصود ہو اور ساتھ ساتھ بندہ دنیا بھی کما لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور
”یتعجلونہ ولا یتأجلونہ“
یہ ریاکاری ہے ، لوگوں کو دکھانے کےلیے قرآن پڑھ رہا ہے۔تو یہ تعلیم وتعلم ، اس پر اجرت لینا ، کوئی حرج نہیں ہے۔ دینی امور میں سے کوئی بھی معاملہ ہو اس پر اجرت لینا جائز ہے۔ اعتراضات سارے کے سارے ان کے باطل ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔وما علی الا البلاغ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جزاکم اللہ خیرا
بہت عمدہ تحریر ہے ، شیخ صاحب آپ نے اپنے دیگر مراسلات میں جو فاؤنٹ استعمال کیا ہے اسے بھی وہی فاؤنٹ دے دیں تو پڑھنے اور آسانی ہو۔
بارک اللہ فیکم۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ رفیق طاھر بھائی۔ بہت ہی مدلل بیان ہے۔ اور پڑھنے میں ہی اتنا مزا آیا سامعین کو سننے میں تو یقیناً زیادہ لطف آیا ہوگا۔

شیخ صاحب آپ نے اپنے دیگر مراسلات میں جو فاؤنٹ استعمال کیا ہے اسے بھی وہی فاؤنٹ دے دیں تو پڑھنے اور آسانی ہو۔
کفایت اللہ بھائی، اس اہم مضمون کی فارمیٹنگ وغیرہ میں نے کر دی ہے۔ شاید رفیق بھائی جان نے یہ مضمون ورڈ سے کاپی کیا تھا، اسی لئے فونٹ خراب بھی تھا اور کوڈ بھی بہت زیادہ تھا اور فارمیٹ کرنے میں دانتوں پسینے آ گئے۔ ان شاء اللہ کوئی ایسی صورت دیکھتے ہیں کہ ورڈ سے فارمیٹ کے ساتھ کاپی پیسٹنگ آسانی سے کی جا سکے۔
عمیر بھائی اس سلسلے میں مہارت رکھتے ہیں ان شاء اللہ کوئی ذریعہ ڈھونڈ لائیں گے۔ تب تک کے لئے ہم حاضر ہیں مینول کام کرنے کے لئے ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
اجرت لے کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا :

سوال: لوگوں سے اجرت لیکر قرآن پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

"اگر قرآن کی تلاوت سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن مجید کی تلاوت سکھائی جائی، اور انہیں قرآن مجید یاد کروایا جائے تو علمائے کرام کے دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق اس عمل پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث ہے جس میں ایک ڈسے ہوئے شخص پر مقررہ اجرت کے بدلے میں دم کیا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حدیث میں فرمایا کہ: "جس چیز پر اجرت لینے کا سب سے زیادہ تمہارا حق ہے وہ کتاب اللہ ہے" امام بخاری نے اس روایت کو اپنی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے۔

البتہ اگر سوال سے مراد یہ ہے کہ کسی تقریب وغیرہ میں صرف تلاوت کر کے اس پر اجرت لینا کیسا ہے تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس طرح سے اجرت لینا جائز نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں کسی اہل علم کا اختلاف نہیں ہے کہ اس طرح اجرت لینا حرام ہے" انتہی.

مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (21/211)

http://islamqa.info/ur/125103
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
قرآن مجيد اور عربى تعليم دينے كى اجرت لينا :

ميں يورپ ميں رہائش پذير ہوں، اور اپنے پڑوسيوں كے بچوں كو عربى تعليم دے كر ان سے تنخواہ ليتا ہوں، تو كيا يہ ميرى ثواب ميں كمى كا باعث تو نہيں ہے ؟

الحمد للہ:

عربى زبان كى تعليم دے كر اجرت لينے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ قرآن مجيد كى تعليم دے كر اس كى اجرت لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى انسان كے ليے ايسا كرنا حصول ثواب كے منافى ہے، جب وہ مسلمانوں كو نفع دينے كى نيت ركھے، اور اپنے كام پورى مہارت سے كرے اور انہيں ان كے نبى اور قرآن مجيد كے ساتھ مربوط كرے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بچوں كو قرآن مجيد حفظ كروانے كى اجرت لينے كا حكم كيا ہے ؟

اگر اس كے جواز كا فتوى ہو تو كيا ماہانہ اجرت لينے سے اللہ تعالى كے ہاں ثواب كے حصول ميں كوئى كمى تو نہيں ہوتى ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" قرآن مجيد كى تعليم دينا اور تعليم حاصل كرنا اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے افضل اور بہتر كام ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب اس ميں اخلاص نيت پائى جائے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى قرآن مجيد كى تعليم كے حصول پر ابھارتے ہوئے يہ فرمايا:

" تم ميں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجيد كى خود بھى تعليم حاصل كرے، اور دوسروں كو بھى اس كى تعليم دے "

اور قرآن مجيد كى تعليم دينے والے مدرس حضرات كا تنخواہ اور اس پر اجرت لينا ان كے حصول ثواب كے منافى يا كمى كا باعث نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ جب وہ اس ميں اخلاص نيت سے كام ليں.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 99 ).

الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد اللہ بن غديان ، الشيخ صالح الفوزان ، الشيخ بكر ابو زيد.


واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/95781
 
Top