اسلام علیکم ! (١)۔اسلام کا اصل مقصود کیا ہے ؟
اللہ کی رضا کا حصول جیسا کہ سورۃ الفتح :٢٩ میں ہے : "" محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا۔۔""
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھی ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں ۔تم انہیں رکوع اور سجدے میں دیکھو گے ۔وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں ۔
اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ :- سورۃ الذاریات :٥٦ میں ہے "" و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ""
ترجمہ :- اور جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اور اطاعت کریں ۔""
٢)۔ کیا دین کا اصل مقصد جنت کا حصول ہے ؟
اہل علم حضرات رہنمائی فرمائیں ۔
میری ناقص رائے میں سوال دین یا اسلام کے مقصود کی بجائے
زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہئے۔
اللہ کی عبادت انسان کی تخلیق کا واحد مقصد ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الملك
کہ جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والا ہے (
2)
اور
اچھا عمل عبادت ہی ہوتا ہے۔
نیز فرمایا:
﴿ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ٢٧ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ٢٨ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة ص
کہ اور ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا، یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔ (
27) کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟ (
28) یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں (
29)
ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ زمین وآسمان کی تخلیق کا مقصد
کتاب اللہ میں تدبر ہے، جو کہ ایک عظیم عبادت ہے۔
نیز فرمایا:
﴿ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ١٦ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ ١٧ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنبياء
کہ ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا (
16) اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا اراده کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے (
17) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وه تمہاری لئے باعث خرابی ہیں (
18)
ان آیات کریمہ سے علم ہوا آسمان وزمین کی
تخلیق کا مقصد حق وباطل کی کشمکش ہے، جس میں حق کو غلبہ ہوگا (یعنی جہاد یعنی دین کو غالب کرنے کی ہر ممکن کوشش) اور یہ اسلام کی کوہان اور بہت بڑی عبادت ہے۔
تو ہماری تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اور عبادت کا مطلب
اللہ کو راضی کرنا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ عبادت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
هو اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه من الأقوال والأفعال الظاهرة والباطنة
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر
کہ اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے، اور وه اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وه اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وه بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ یقیناً وه دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے (
7)
اللہ تعالیٰ کیسے راضی ہوں گے؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ناقص عقل پر نہیں چھوڑا، بلکہ خود آسمانوں سے ہدایت نازل کی:
﴿ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ١٢٣ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ١٢٤ ﴾ ۔۔۔ سورة طه
کہ فرمایا، تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا (
123) اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے (
124)
یہی دینِ اسلام ہے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کیوں کریں؟ کیوں اللہ کی رضا کے طالب ہوں؟ دُنیا کی رنگینیوں کو چھوڑ کر کیوں آزمائش کی راہ اختیار کریں؟ اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے دنیاوی واُخروی نعمتوں اور جنت کا وعدہ دیا ہے، درج بالا آیت کریمہ میں بھی اس کا ذکر ہوا، نیز فرمانِ باری ہے:
﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ١٧ أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ ١٨ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ١٩ وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ٢٠ ﴾ ۔۔۔ سورة السجدة
کہ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے (
17) کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے (
18) جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے (
19) لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو (
20)
واللہ تعالیٰ اعلم!