makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
رافضی ایران کے خطرے سے خبردار!!!
عراق کی جہادی تنظیم ”الجیش الاسلامی“ کے امیر کا انٹرویو
تلخیص: محمد زکریا خان
عربی زبان کے آن لائین مجلہ ’العصر‘ نے عراق کی برسرپیکار تنظیم’ جیش اسلامی‘ کے امیر کا ایک انٹرویو اپنی ویب سائیٹ میں نشر کیا ہے۔اس کا خلاصہ ہم اردوبولنے والوں کے لیے ایقاظ میں شائع کر رہے ہیں ۔تنظیم کے امیر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ سال 2007ءعراق کے سنی مجاہدین کے لیے مشکل سال رہا ہو، جیش اسلامی کے امیر نے ’العصر‘ کو بتایا کہ پروپیگنڈے کے برعکس گزشتہ سال امریکہ کو باقی تمام سالوں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مجلے کے نمائندے نے عراق کی سب سے بڑی جہادی تنظیم جیش اسلامی کے امیر سے سوال کیا :
العصر: ایک طرف امریکہ نے ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کو عام کیا ہے کہ گزشتہ سال امریکہ کے لیے خاصی بڑی کامیابیوں کا سال رہا ہے اور دوسری طرف مجاہدین عراق نے بھی زبردست کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔آپ ان دوطرفہ بیانات کی کیا توجیہ کرتے ہیں ؟
جواب: ہماری مزاحمت ہمہ گیر نوعیت کی ہے جس کا بنیادی مقصد قابض فوجوں کو نقصان پہنچاتے رہنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہم کسی ایک منصوبے پر ہی کام نہیں کرتے بلکہ ضرورت کے مطابق اپنے منصوبوں کی تشکیل کرتے ہیں ۔اپنی قوت کو بچا کر اچانک اور انتہائی خفیہ حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملے کرناہماری پالیسی کا حصہ ہے ۔ذرائع ابلاغ کا درست استعمال نصف کامیابی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ مجاہدین کی بہت ہی کم کامیابیوں کو نشر کر پاتے ہیں ۔امریکہ نے تمام خبر رساں اداروں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔ انٹرنیٹ پر بھی امریکہ کے خفیہ اداروں کا کنٹرول ہے اور مجاہدین کی صرف وہ خبریں نشر ہو پاتی ہیں جن سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔کانگرس نے پچھلے ہی دنوں بغداد میں CNN کے دفتر پر پاپندی لگا دی ہے ۔گزشتہ سال امریکہ نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ اس نے اہل سنت کو نقصان پہنچانے کے لیے شیعہ ملیشیا کو امن کے نام پر مسلح کیااور انہیں وسیع اختیارات سونپ دیے۔اس ملیشیا کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ عراق میں امن کے لیے میدان میں اتری ہے۔سنی مجاہدین عمداً چند مہینوں کے لیے زیر زمیں چلے گئے تاکہ اس نئی ملیشیا کی کار کردگی اور اس کے خفیہ منصوبے لوگوں کے سامنے آجائیں ۔جسے امریکہ بہت بڑی کامیابی کہہ رہا ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ مجاہدین خود ہی چند ماہ کے لیے زیر زمیں چلے گئے تھے۔اس دوران میں مجاہدین نے ازسرنو اپنی صف بندی کر لی جس کی وجہ سے سنہ 2007ءمیں امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
امریکہ نے شیعہ ملیشیا کو مسلح کر کے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ الٹی پڑ گئی ہے۔یہ ملیشیا ایران نواز ہے۔ اگر امریکہ اس ملیشیا کو مزید اختیارات دے تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کو عراق میں مزید پر پھیلانے کا موقع دیا جائے۔اگر شیعہ ملیشیا کو چھوڑ کر سنیوں کو مسلح کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ہاتھ کو مضبوط کرنا جو پہلے ہی امریکہ کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے۔امریکہ اس کوشش میں مسلسل ناکام رہا ہے کہ عراق میں امن قائم ہو سکے۔ ایران اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ عراق میں حالات معمول کے مطابق آ جائیں ۔عراق میں عام انسانی ضروریات کی فراہمی کا معیار کم از کم بھی نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو نہ دوسرے استعماری ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتاہے اور نہ اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتا ہے۔امریکہ نے کل شیعیوں کو مسلح کیا تھا مگر ان کی وفاداری کا مرکز ایران بنا رہا۔ اب امریکہ شاید سنیوں کو مسلح کرنا چاہے گا مگر اس پر وہ خود مطمئین نہیں ۔امریکہ کرے تو کیا کرے!امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے رعب اور دبدبہ کو بر قرار رکھ سکے۔آپ کو یاد ہو گا کہ ایک موقع پر خود بش نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ اسے کاغذی شیر کہا جائے۔امریکی سرکاری ادارے اپنے جانی نقصانات کے جو اعدادو شمار پیش کرتے ہیں انہیں اگر آپ دس سے ضرب دیں تو صحیح تعداد بنے گی۔غیر ملکی قابض افواج کا مورال گر چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ عراق سے آسانی سے نکلنے والا نہیں ہے ۔امریکہ کو عراق سے نکالنے کے لیے بہت بڑی کارروائی کی ضرورت ہے۔عراق کی مزاحمت ان شاءاللہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکہ عراق سے نکل نہیں جاتا۔ عراق کے علاوہ امریکہ کو بین الاقوامی لحاظ سے بھی مشکلات کا سامنا ہے،اندرون ملک بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ اب کسی چھوٹے سے ملک پر بھی قبضہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔افغانستان میں باوجود شدید ضرورت کے امریکہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر رہا ہے۔چین امریکہ کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے لیکن چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا کوئی توڑ امریکہ کے پاس نہیں ہے۔گزشتہ سالوں سے روس کے ساتھ امریکہ کی سرد جنگ نے نئی صورت اختیار کر لی ہے۔لبنان،سوڈان اور کینیا میں امریکہ کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔اسرائیل کے لیے امریکہ کوئی بڑی خدمت انجام نہیں دے رہا۔ایران،پاکستان اور کوریا کے جوہری پروگرام امریکہ کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔اقتصادی حالت مندی کا شکار ہے۔امریکہ اپنی ساکھ کھوتا جا رہا ہے۔وہ تمام جمہوری قدریں جن کی پاسداری کا امریکہ دعویٰ کرتا تھا نام کی رہ گئی ہیں ۔
’العصر‘: کیا یہ درست ہے کہ عراق میں امریکی مفادات کے لیے ایران کو بڑا کردار دیا جا رہا ہے اور آئندہ امریکی مقاصد ایران کے ذریعے پورے ہوں گے اور اسی لیے عراق میں ایران کا عمل دخل بڑھا ہے؟
جواب: عراق پر امریکہ کا قبضہ ایران کے مفاد میں زیادہ رہا ہے اور آپ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یہ جنگ ایران کے لیے لڑی گئی تھی۔ایران نے ہی امریکہ کو شہہ دی تھی کہ وہ عراق پر حملہ کر دے اور امریکہ نے نہایت عجلت میں یہ حماقت کر لی۔ایران کی بڑی شخصیات نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ اگر ایران امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرتا تو کابل اور بغداد پر امریکہ کا قبضہ نہ ہو سکتا۔ایران نے اس جنگ سے بڑے فوائد حاصل کیے ہیں لیکن ایک فائدہ عالم اسلام کو بھی ہوا ہے کہ ایران کا چہرہ واضح ہو گیا ہے اور ایرانی تقیے کے سبب جو بغض چھپا تھا اللہ نے وہ ظاہر کر دیا ہے۔ایران نے اپنے توسیعی منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیے ایسی حماقتیں کر ڈالیں ہیں کہ عالم اسلام کے سامنے ایران ننگا ہو گیا ہے اور سب پر واضح ہو گیا ہے کہ ایران ایک توسیع پسند ملک ہے۔ایران ایک عرصے سے اس تاثر کو برقرار رکھے ہوئے تھا کہ وہ پورے عالم اسلام کے لیے اپنے منصوبے بناتا ہے لیکن امریکہ کو عراق کی دلدل میں دھکیل کر ایران نے جس تیزی سے ثمرات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہیں سے اس کے خفیہ عزائم عالم اسلام پر ظاہر ہوئے ہیں ۔صورت حال یہ ہے کہ عراق کی شیعہ تنظیموں کا جھکؤ اب ایران کی بجائے سنی عناصر پر بڑھتا جارہا ہے۔عراق میں امریکی حملے کے ساتھ ہی ایرانی مداخلت شروع ہوئی تھی۔ ایران کا عراق میں کردار ایک معلوم حقیقت ہے۔ایرانی جاسوسی ادارے اورپاسداران ایران کے فوجی عراق میں بہ کثرت موجود ہیں ۔شیعہ تنظیموں کی سرپرستی یہی ادارے کرتے ہیں ۔ایران اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہی پرانا طریقہ’ مظلومیت‘ کا اختیار کرتا ہے۔ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔تنظیموں کو تقسیم کر کے رکھتا ہے اور تنظیموں کو لڑواتا بھی ہے خواہ دونوں طرف شیعہ ہی کیوں نہ ہوں ۔لا تعداد ایرانی اب تک عراقی شہریت حاصل کر چکے ہیں ۔ایران دفتری معاملات سے لے کر سیاسی تبدیلیوں تک ہر جگہ فعال ہے ۔(شیعیوں کے مرجع آیت اللہ) سجستانی کی اشیرواد سے عراق میں آپ کو ایسے ایسے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ملیں گے جو اس لائق نہیں تھے۔ٹوٹی پھوٹی عربی بولنے والے یہ فارسی نژاد کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عراق کے باضابطہ شہری کہلانے لگے ہیں ۔ان میں سے بعض نے اپنا نسب بھی بدل لیا ہے۔ان میں سے اہم نام یہ ہیں :جعفری،صولاغی،علی زندی اور کریمی جو اب ربیعی کہلاتا ہے اسی طرح جواد اور مالکی سب عام درجے کے لوگ تھے جو اب بڑے عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں ۔جنوبی عراق میں توایران کی کرنسی’تومان ‘میں لین دین ہوتا ہے اور بسا اوقات تحریری معاہدے فارسی زبان میں لکھنا معاہدے کی قانونی شرط سمجھا جاتا ہے۔
عراق کی سر زمیں سے امریکہ اور ایران دونوں کے مفادات وابستہ ہیں ۔ایران ہر اس امریکی منصوبے کو سبوتاژ کرتا ہے جس سے مستقبل میں اہل سنت کو فوائد حاصل ہوتے ہوں ۔دونوں ہی عراق کے ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی متفقہ لائحہ عمل پران کا اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ایران کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مدد سے جس قدر زیادہ ممکن ہو اپنے ازلی دشمن’اہل سنت‘کو کمزور کر دے،اگر دونوں ملکوں میں کسی چیز پر اتفاق ہے تو وہ یہی ہے۔عرب ممالک کی نا اتفاقی سے دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ایران جانتا ہے کہ خلیج کا نقشہ بدلنے والا ہے اور اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کر لی ہے۔دوسری طرف عرب ممالک خطے کی سیاست تو کیا کریں گے قومی مفاد کے مطابق بھی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں ۔عراق کے عوام شیعہ بلا سوچے سمجھے ایران کے لیے قربانی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ایران دراصل فارسی عصبیت کے ساتھ مجوسی ریاست کی ازسرنو بنیاد رکھنا چاہتا ہے اوروہ شیعیت کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران ان اہداف کے لیے عراق اور لبنان میں سردھڑ کی بازی لگا چکا ہے۔ ایران خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر بڑھانا چاہتا ہے مگر وہ ابتداءعراق اور لبنان سے کرنا چاہتا ہے۔ایران کی گاہے بگاہے فوجی مشقوں کا مقصد عرب ممالک کو خوفزدہ کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے کیونکہ عربوں کا پیسہ اس طرح انکل سام کی جیب میں چلا جاتا ہے جس نے عرب ممالک کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے!
العصر: مقتدیٰ الصدر کی ملیشیا کے بارے میں آپ کے کیا تحفظات ہیں ؟
جواب: مقتدی الصدر کے حمایت کرنے والے اکثر شیعہ آبادی کے جاہل عوام ہیں ۔ مقتدی اور اس کی ملیشیا کے پاس کوئی دوررس منصوبہ نہیں ہے۔مقتدیٰ کی طاقت عام طور پر دوسرے استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے اہل سنت کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔اب مقتدیٰ کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔شیعہ تنظیموں میں بھی پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔کچھ مقتدیٰ کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ ایرانی قیادت کے وفادار ہیں اور دونوں میں شدید جھڑپیں بھی ہوتی ہیں ۔ ایران میں قیام کے بعد مقتدیٰ اور جیش المہدی کو وہی کام سونپا گیا ہے جو لبنان میں حزب اللہ کے ذمے ہے۔اَسی کی دہائی میں عراق ایران جنگ میں جن فوجیوں نے حصہ لیا تھا ان میں سے کئی مقتول پائے گئے ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں تھا۔اس سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایران عراق کی سیاست میں کتنا آگے جا چکا ہے۔ القاعدہ کی صفوں میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اصل میں شیعہ تھے مگر تنظیم میں گھس کر حدود اللہ کے نفاذ کے نام پراور مرتد کی سزا کے نام پر کئی اہم شخصیات کو قتل کر چکے ہیں ۔ ان کا القاعدہ سے کوئی قلبی تعلق نہیں تھا یہ سب ایران کے جاسوس تھے۔صباح المھاجر کے جرائم سے کون واقف نہیں ہے۔اس شخص نے سنی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا تھا۔میری تمام اہل سنت کے قائدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی صفوں مین آنے والی شخصیات کی پوری چھان بین کیا کریں ۔لوگوں کی جان سے کھیلنا ہماری شریعت میں ایک نازک ترین مسئلہ ہے اسے کسی جلدباز کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔
مجاہدین عراق کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ قابض دشمن کے جال میں نہ آئیں اور انتخابی ڈرامے میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنی پوری صلاحیت جہاد اور عسکری عمل میں کھپا دیں اور پوری توجہ دشمن کو ملک سے نکالنے پر مرکوز رکھیں ،اس کے لیے تمام مشروع ذرائع کو استعمال کریں اور اپنی قوت کو مجتمع رکھیں ۔
العصر: کیا جیش اسلامی دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حامی ہے،اکثردیکھ گیا ہے کہ جہاد کرنے والے مذاکرات کی میز پر آکر اپنے بہت سے مواقف بدل لیتے ہیں اور اگر امریکہ عراق سے نکل جاتا ہے تو کیا جیش اسلامی کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرلیں ؟
جواب: شرعی مصلحت کے تحت دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنا جائز ہے۔جہاں تک جیش اسلامی کا تعلق ہے تو اس نے مذکرات میں حصہ اس بنا پر نہیں لیاکیونکہ امریکہ مذکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ہم نے مذکرات کی شرطیں بارہا بتائیں ہیں کہ کانگرس امریکی فوجوں کو پابند کرے کہ وہ عراق کی سرزمیں سے نکل جائیں ۔اور یہ کہ عراق کا اصل فریق وہاں کے عوام ہیں جو قبضے سے لے کر اب تک مزاحمت کر رہے ہیں ۔ہم نے جب بھی مذکرات کو فائدہ مند سمجھا تو اس میں عراق کی تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ شریک ہوں گی،ہم تنہا مذکرات نہیں کریں گے۔اس وقت امریکہ اپنی خام خیالی میں مجاہدین کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے الگ الگ اور محدود سطح پر مذکرات کرتا ہے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ مذکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔امریکہ اور ایران کے نکلنے کی صورت میں ہماری جماعت ایک واضح حکمت عملی رکھتی ہے لیکن جب تک استعمار موجود ہے ہماری ایک ہی حکت عملی ہے کہ جہاد جاری رہے گا۔
(یہ مضمون اگرچہ تین سال قبل کا ھے،میرے خیال میں موجودہ صورت حال کو جاننے کے لئے اسکی اھمئیت اور زیادہ ھو گئ ھے،اراکین اپنے خیالات وفکر سے آگاہ ضرور کریں،سیاست کو دین سے جدا نھئیں کیا جا سکتا؛)
عراق کی جہادی تنظیم ”الجیش الاسلامی“ کے امیر کا انٹرویو
تلخیص: محمد زکریا خان
عربی زبان کے آن لائین مجلہ ’العصر‘ نے عراق کی برسرپیکار تنظیم’ جیش اسلامی‘ کے امیر کا ایک انٹرویو اپنی ویب سائیٹ میں نشر کیا ہے۔اس کا خلاصہ ہم اردوبولنے والوں کے لیے ایقاظ میں شائع کر رہے ہیں ۔تنظیم کے امیر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ سال 2007ءعراق کے سنی مجاہدین کے لیے مشکل سال رہا ہو، جیش اسلامی کے امیر نے ’العصر‘ کو بتایا کہ پروپیگنڈے کے برعکس گزشتہ سال امریکہ کو باقی تمام سالوں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مجلے کے نمائندے نے عراق کی سب سے بڑی جہادی تنظیم جیش اسلامی کے امیر سے سوال کیا :
العصر: ایک طرف امریکہ نے ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کو عام کیا ہے کہ گزشتہ سال امریکہ کے لیے خاصی بڑی کامیابیوں کا سال رہا ہے اور دوسری طرف مجاہدین عراق نے بھی زبردست کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔آپ ان دوطرفہ بیانات کی کیا توجیہ کرتے ہیں ؟
جواب: ہماری مزاحمت ہمہ گیر نوعیت کی ہے جس کا بنیادی مقصد قابض فوجوں کو نقصان پہنچاتے رہنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہم کسی ایک منصوبے پر ہی کام نہیں کرتے بلکہ ضرورت کے مطابق اپنے منصوبوں کی تشکیل کرتے ہیں ۔اپنی قوت کو بچا کر اچانک اور انتہائی خفیہ حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملے کرناہماری پالیسی کا حصہ ہے ۔ذرائع ابلاغ کا درست استعمال نصف کامیابی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ مجاہدین کی بہت ہی کم کامیابیوں کو نشر کر پاتے ہیں ۔امریکہ نے تمام خبر رساں اداروں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔ انٹرنیٹ پر بھی امریکہ کے خفیہ اداروں کا کنٹرول ہے اور مجاہدین کی صرف وہ خبریں نشر ہو پاتی ہیں جن سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔کانگرس نے پچھلے ہی دنوں بغداد میں CNN کے دفتر پر پاپندی لگا دی ہے ۔گزشتہ سال امریکہ نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ اس نے اہل سنت کو نقصان پہنچانے کے لیے شیعہ ملیشیا کو امن کے نام پر مسلح کیااور انہیں وسیع اختیارات سونپ دیے۔اس ملیشیا کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ عراق میں امن کے لیے میدان میں اتری ہے۔سنی مجاہدین عمداً چند مہینوں کے لیے زیر زمیں چلے گئے تاکہ اس نئی ملیشیا کی کار کردگی اور اس کے خفیہ منصوبے لوگوں کے سامنے آجائیں ۔جسے امریکہ بہت بڑی کامیابی کہہ رہا ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ مجاہدین خود ہی چند ماہ کے لیے زیر زمیں چلے گئے تھے۔اس دوران میں مجاہدین نے ازسرنو اپنی صف بندی کر لی جس کی وجہ سے سنہ 2007ءمیں امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
امریکہ نے شیعہ ملیشیا کو مسلح کر کے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ الٹی پڑ گئی ہے۔یہ ملیشیا ایران نواز ہے۔ اگر امریکہ اس ملیشیا کو مزید اختیارات دے تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کو عراق میں مزید پر پھیلانے کا موقع دیا جائے۔اگر شیعہ ملیشیا کو چھوڑ کر سنیوں کو مسلح کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ہاتھ کو مضبوط کرنا جو پہلے ہی امریکہ کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے۔امریکہ اس کوشش میں مسلسل ناکام رہا ہے کہ عراق میں امن قائم ہو سکے۔ ایران اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ عراق میں حالات معمول کے مطابق آ جائیں ۔عراق میں عام انسانی ضروریات کی فراہمی کا معیار کم از کم بھی نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو نہ دوسرے استعماری ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتاہے اور نہ اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتا ہے۔امریکہ نے کل شیعیوں کو مسلح کیا تھا مگر ان کی وفاداری کا مرکز ایران بنا رہا۔ اب امریکہ شاید سنیوں کو مسلح کرنا چاہے گا مگر اس پر وہ خود مطمئین نہیں ۔امریکہ کرے تو کیا کرے!امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے رعب اور دبدبہ کو بر قرار رکھ سکے۔آپ کو یاد ہو گا کہ ایک موقع پر خود بش نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ اسے کاغذی شیر کہا جائے۔امریکی سرکاری ادارے اپنے جانی نقصانات کے جو اعدادو شمار پیش کرتے ہیں انہیں اگر آپ دس سے ضرب دیں تو صحیح تعداد بنے گی۔غیر ملکی قابض افواج کا مورال گر چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ عراق سے آسانی سے نکلنے والا نہیں ہے ۔امریکہ کو عراق سے نکالنے کے لیے بہت بڑی کارروائی کی ضرورت ہے۔عراق کی مزاحمت ان شاءاللہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکہ عراق سے نکل نہیں جاتا۔ عراق کے علاوہ امریکہ کو بین الاقوامی لحاظ سے بھی مشکلات کا سامنا ہے،اندرون ملک بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ اب کسی چھوٹے سے ملک پر بھی قبضہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔افغانستان میں باوجود شدید ضرورت کے امریکہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر رہا ہے۔چین امریکہ کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے لیکن چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا کوئی توڑ امریکہ کے پاس نہیں ہے۔گزشتہ سالوں سے روس کے ساتھ امریکہ کی سرد جنگ نے نئی صورت اختیار کر لی ہے۔لبنان،سوڈان اور کینیا میں امریکہ کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔اسرائیل کے لیے امریکہ کوئی بڑی خدمت انجام نہیں دے رہا۔ایران،پاکستان اور کوریا کے جوہری پروگرام امریکہ کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔اقتصادی حالت مندی کا شکار ہے۔امریکہ اپنی ساکھ کھوتا جا رہا ہے۔وہ تمام جمہوری قدریں جن کی پاسداری کا امریکہ دعویٰ کرتا تھا نام کی رہ گئی ہیں ۔
’العصر‘: کیا یہ درست ہے کہ عراق میں امریکی مفادات کے لیے ایران کو بڑا کردار دیا جا رہا ہے اور آئندہ امریکی مقاصد ایران کے ذریعے پورے ہوں گے اور اسی لیے عراق میں ایران کا عمل دخل بڑھا ہے؟
جواب: عراق پر امریکہ کا قبضہ ایران کے مفاد میں زیادہ رہا ہے اور آپ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یہ جنگ ایران کے لیے لڑی گئی تھی۔ایران نے ہی امریکہ کو شہہ دی تھی کہ وہ عراق پر حملہ کر دے اور امریکہ نے نہایت عجلت میں یہ حماقت کر لی۔ایران کی بڑی شخصیات نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ اگر ایران امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرتا تو کابل اور بغداد پر امریکہ کا قبضہ نہ ہو سکتا۔ایران نے اس جنگ سے بڑے فوائد حاصل کیے ہیں لیکن ایک فائدہ عالم اسلام کو بھی ہوا ہے کہ ایران کا چہرہ واضح ہو گیا ہے اور ایرانی تقیے کے سبب جو بغض چھپا تھا اللہ نے وہ ظاہر کر دیا ہے۔ایران نے اپنے توسیعی منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیے ایسی حماقتیں کر ڈالیں ہیں کہ عالم اسلام کے سامنے ایران ننگا ہو گیا ہے اور سب پر واضح ہو گیا ہے کہ ایران ایک توسیع پسند ملک ہے۔ایران ایک عرصے سے اس تاثر کو برقرار رکھے ہوئے تھا کہ وہ پورے عالم اسلام کے لیے اپنے منصوبے بناتا ہے لیکن امریکہ کو عراق کی دلدل میں دھکیل کر ایران نے جس تیزی سے ثمرات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہیں سے اس کے خفیہ عزائم عالم اسلام پر ظاہر ہوئے ہیں ۔صورت حال یہ ہے کہ عراق کی شیعہ تنظیموں کا جھکؤ اب ایران کی بجائے سنی عناصر پر بڑھتا جارہا ہے۔عراق میں امریکی حملے کے ساتھ ہی ایرانی مداخلت شروع ہوئی تھی۔ ایران کا عراق میں کردار ایک معلوم حقیقت ہے۔ایرانی جاسوسی ادارے اورپاسداران ایران کے فوجی عراق میں بہ کثرت موجود ہیں ۔شیعہ تنظیموں کی سرپرستی یہی ادارے کرتے ہیں ۔ایران اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہی پرانا طریقہ’ مظلومیت‘ کا اختیار کرتا ہے۔ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔تنظیموں کو تقسیم کر کے رکھتا ہے اور تنظیموں کو لڑواتا بھی ہے خواہ دونوں طرف شیعہ ہی کیوں نہ ہوں ۔لا تعداد ایرانی اب تک عراقی شہریت حاصل کر چکے ہیں ۔ایران دفتری معاملات سے لے کر سیاسی تبدیلیوں تک ہر جگہ فعال ہے ۔(شیعیوں کے مرجع آیت اللہ) سجستانی کی اشیرواد سے عراق میں آپ کو ایسے ایسے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ملیں گے جو اس لائق نہیں تھے۔ٹوٹی پھوٹی عربی بولنے والے یہ فارسی نژاد کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عراق کے باضابطہ شہری کہلانے لگے ہیں ۔ان میں سے بعض نے اپنا نسب بھی بدل لیا ہے۔ان میں سے اہم نام یہ ہیں :جعفری،صولاغی،علی زندی اور کریمی جو اب ربیعی کہلاتا ہے اسی طرح جواد اور مالکی سب عام درجے کے لوگ تھے جو اب بڑے عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں ۔جنوبی عراق میں توایران کی کرنسی’تومان ‘میں لین دین ہوتا ہے اور بسا اوقات تحریری معاہدے فارسی زبان میں لکھنا معاہدے کی قانونی شرط سمجھا جاتا ہے۔
عراق کی سر زمیں سے امریکہ اور ایران دونوں کے مفادات وابستہ ہیں ۔ایران ہر اس امریکی منصوبے کو سبوتاژ کرتا ہے جس سے مستقبل میں اہل سنت کو فوائد حاصل ہوتے ہوں ۔دونوں ہی عراق کے ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی متفقہ لائحہ عمل پران کا اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ایران کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مدد سے جس قدر زیادہ ممکن ہو اپنے ازلی دشمن’اہل سنت‘کو کمزور کر دے،اگر دونوں ملکوں میں کسی چیز پر اتفاق ہے تو وہ یہی ہے۔عرب ممالک کی نا اتفاقی سے دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ایران جانتا ہے کہ خلیج کا نقشہ بدلنے والا ہے اور اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کر لی ہے۔دوسری طرف عرب ممالک خطے کی سیاست تو کیا کریں گے قومی مفاد کے مطابق بھی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں ۔عراق کے عوام شیعہ بلا سوچے سمجھے ایران کے لیے قربانی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ایران دراصل فارسی عصبیت کے ساتھ مجوسی ریاست کی ازسرنو بنیاد رکھنا چاہتا ہے اوروہ شیعیت کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران ان اہداف کے لیے عراق اور لبنان میں سردھڑ کی بازی لگا چکا ہے۔ ایران خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر بڑھانا چاہتا ہے مگر وہ ابتداءعراق اور لبنان سے کرنا چاہتا ہے۔ایران کی گاہے بگاہے فوجی مشقوں کا مقصد عرب ممالک کو خوفزدہ کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے کیونکہ عربوں کا پیسہ اس طرح انکل سام کی جیب میں چلا جاتا ہے جس نے عرب ممالک کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے!
العصر: مقتدیٰ الصدر کی ملیشیا کے بارے میں آپ کے کیا تحفظات ہیں ؟
جواب: مقتدی الصدر کے حمایت کرنے والے اکثر شیعہ آبادی کے جاہل عوام ہیں ۔ مقتدی اور اس کی ملیشیا کے پاس کوئی دوررس منصوبہ نہیں ہے۔مقتدیٰ کی طاقت عام طور پر دوسرے استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے اہل سنت کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔اب مقتدیٰ کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔شیعہ تنظیموں میں بھی پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔کچھ مقتدیٰ کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ ایرانی قیادت کے وفادار ہیں اور دونوں میں شدید جھڑپیں بھی ہوتی ہیں ۔ ایران میں قیام کے بعد مقتدیٰ اور جیش المہدی کو وہی کام سونپا گیا ہے جو لبنان میں حزب اللہ کے ذمے ہے۔اَسی کی دہائی میں عراق ایران جنگ میں جن فوجیوں نے حصہ لیا تھا ان میں سے کئی مقتول پائے گئے ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں تھا۔اس سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایران عراق کی سیاست میں کتنا آگے جا چکا ہے۔ القاعدہ کی صفوں میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اصل میں شیعہ تھے مگر تنظیم میں گھس کر حدود اللہ کے نفاذ کے نام پراور مرتد کی سزا کے نام پر کئی اہم شخصیات کو قتل کر چکے ہیں ۔ ان کا القاعدہ سے کوئی قلبی تعلق نہیں تھا یہ سب ایران کے جاسوس تھے۔صباح المھاجر کے جرائم سے کون واقف نہیں ہے۔اس شخص نے سنی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا تھا۔میری تمام اہل سنت کے قائدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی صفوں مین آنے والی شخصیات کی پوری چھان بین کیا کریں ۔لوگوں کی جان سے کھیلنا ہماری شریعت میں ایک نازک ترین مسئلہ ہے اسے کسی جلدباز کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔
مجاہدین عراق کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ قابض دشمن کے جال میں نہ آئیں اور انتخابی ڈرامے میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنی پوری صلاحیت جہاد اور عسکری عمل میں کھپا دیں اور پوری توجہ دشمن کو ملک سے نکالنے پر مرکوز رکھیں ،اس کے لیے تمام مشروع ذرائع کو استعمال کریں اور اپنی قوت کو مجتمع رکھیں ۔
العصر: کیا جیش اسلامی دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حامی ہے،اکثردیکھ گیا ہے کہ جہاد کرنے والے مذاکرات کی میز پر آکر اپنے بہت سے مواقف بدل لیتے ہیں اور اگر امریکہ عراق سے نکل جاتا ہے تو کیا جیش اسلامی کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرلیں ؟
جواب: شرعی مصلحت کے تحت دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنا جائز ہے۔جہاں تک جیش اسلامی کا تعلق ہے تو اس نے مذکرات میں حصہ اس بنا پر نہیں لیاکیونکہ امریکہ مذکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ہم نے مذکرات کی شرطیں بارہا بتائیں ہیں کہ کانگرس امریکی فوجوں کو پابند کرے کہ وہ عراق کی سرزمیں سے نکل جائیں ۔اور یہ کہ عراق کا اصل فریق وہاں کے عوام ہیں جو قبضے سے لے کر اب تک مزاحمت کر رہے ہیں ۔ہم نے جب بھی مذکرات کو فائدہ مند سمجھا تو اس میں عراق کی تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ شریک ہوں گی،ہم تنہا مذکرات نہیں کریں گے۔اس وقت امریکہ اپنی خام خیالی میں مجاہدین کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے الگ الگ اور محدود سطح پر مذکرات کرتا ہے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ مذکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔امریکہ اور ایران کے نکلنے کی صورت میں ہماری جماعت ایک واضح حکمت عملی رکھتی ہے لیکن جب تک استعمار موجود ہے ہماری ایک ہی حکت عملی ہے کہ جہاد جاری رہے گا۔
(یہ مضمون اگرچہ تین سال قبل کا ھے،میرے خیال میں موجودہ صورت حال کو جاننے کے لئے اسکی اھمئیت اور زیادہ ھو گئ ھے،اراکین اپنے خیالات وفکر سے آگاہ ضرور کریں،سیاست کو دین سے جدا نھئیں کیا جا سکتا؛)