• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رافضی ایران کے خطرے سے خبردار!!!

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
رافضی ایران کے خطرے سے خبردار!!!
عراق کی جہادی تنظیم ”الجیش الاسلامی“ کے امیر کا انٹرویو

تلخیص: محمد زکریا خان

عربی زبان کے آن لائین مجلہ ’العصر‘ نے عراق کی برسرپیکار تنظیم’ جیش اسلامی‘ کے امیر کا ایک انٹرویو اپنی ویب سائیٹ میں نشر کیا ہے۔اس کا خلاصہ ہم اردوبولنے والوں کے لیے ایقاظ میں شائع کر رہے ہیں ۔تنظیم کے امیر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ سال 2007ءعراق کے سنی مجاہدین کے لیے مشکل سال رہا ہو، جیش اسلامی کے امیر نے ’العصر‘ کو بتایا کہ پروپیگنڈے کے برعکس گزشتہ سال امریکہ کو باقی تمام سالوں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔



مجلے کے نمائندے نے عراق کی سب سے بڑی جہادی تنظیم جیش اسلامی کے امیر سے سوال کیا :

العصر: ایک طرف امریکہ نے ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کو عام کیا ہے کہ گزشتہ سال امریکہ کے لیے خاصی بڑی کامیابیوں کا سال رہا ہے اور دوسری طرف مجاہدین عراق نے بھی زبردست کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔آپ ان دوطرفہ بیانات کی کیا توجیہ کرتے ہیں ؟

جواب: ہماری مزاحمت ہمہ گیر نوعیت کی ہے جس کا بنیادی مقصد قابض فوجوں کو نقصان پہنچاتے رہنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہم کسی ایک منصوبے پر ہی کام نہیں کرتے بلکہ ضرورت کے مطابق اپنے منصوبوں کی تشکیل کرتے ہیں ۔اپنی قوت کو بچا کر اچانک اور انتہائی خفیہ حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملے کرناہماری پالیسی کا حصہ ہے ۔ذرائع ابلاغ کا درست استعمال نصف کامیابی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ مجاہدین کی بہت ہی کم کامیابیوں کو نشر کر پاتے ہیں ۔امریکہ نے تمام خبر رساں اداروں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔ انٹرنیٹ پر بھی امریکہ کے خفیہ اداروں کا کنٹرول ہے اور مجاہدین کی صرف وہ خبریں نشر ہو پاتی ہیں جن سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔کانگرس نے پچھلے ہی دنوں بغداد میں CNN کے دفتر پر پاپندی لگا دی ہے ۔گزشتہ سال امریکہ نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ اس نے اہل سنت کو نقصان پہنچانے کے لیے شیعہ ملیشیا کو امن کے نام پر مسلح کیااور انہیں وسیع اختیارات سونپ دیے۔اس ملیشیا کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ عراق میں امن کے لیے میدان میں اتری ہے۔سنی مجاہدین عمداً چند مہینوں کے لیے زیر زمیں چلے گئے تاکہ اس نئی ملیشیا کی کار کردگی اور اس کے خفیہ منصوبے لوگوں کے سامنے آجائیں ۔جسے امریکہ بہت بڑی کامیابی کہہ رہا ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ مجاہدین خود ہی چند ماہ کے لیے زیر زمیں چلے گئے تھے۔اس دوران میں مجاہدین نے ازسرنو اپنی صف بندی کر لی جس کی وجہ سے سنہ 2007ءمیں امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

امریکہ نے شیعہ ملیشیا کو مسلح کر کے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ الٹی پڑ گئی ہے۔یہ ملیشیا ایران نواز ہے۔ اگر امریکہ اس ملیشیا کو مزید اختیارات دے تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کو عراق میں مزید پر پھیلانے کا موقع دیا جائے۔اگر شیعہ ملیشیا کو چھوڑ کر سنیوں کو مسلح کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ہاتھ کو مضبوط کرنا جو پہلے ہی امریکہ کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے۔امریکہ اس کوشش میں مسلسل ناکام رہا ہے کہ عراق میں امن قائم ہو سکے۔ ایران اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ عراق میں حالات معمول کے مطابق آ جائیں ۔عراق میں عام انسانی ضروریات کی فراہمی کا معیار کم از کم بھی نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو نہ دوسرے استعماری ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتاہے اور نہ اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتا ہے۔امریکہ نے کل شیعیوں کو مسلح کیا تھا مگر ان کی وفاداری کا مرکز ایران بنا رہا۔ اب امریکہ شاید سنیوں کو مسلح کرنا چاہے گا مگر اس پر وہ خود مطمئین نہیں ۔امریکہ کرے تو کیا کرے!امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے رعب اور دبدبہ کو بر قرار رکھ سکے۔آپ کو یاد ہو گا کہ ایک موقع پر خود بش نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ اسے کاغذی شیر کہا جائے۔امریکی سرکاری ادارے اپنے جانی نقصانات کے جو اعدادو شمار پیش کرتے ہیں انہیں اگر آپ دس سے ضرب دیں تو صحیح تعداد بنے گی۔غیر ملکی قابض افواج کا مورال گر چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ عراق سے آسانی سے نکلنے والا نہیں ہے ۔امریکہ کو عراق سے نکالنے کے لیے بہت بڑی کارروائی کی ضرورت ہے۔عراق کی مزاحمت ان شاءاللہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکہ عراق سے نکل نہیں جاتا۔ عراق کے علاوہ امریکہ کو بین الاقوامی لحاظ سے بھی مشکلات کا سامنا ہے،اندرون ملک بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ اب کسی چھوٹے سے ملک پر بھی قبضہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔افغانستان میں باوجود شدید ضرورت کے امریکہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر رہا ہے۔چین امریکہ کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے لیکن چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا کوئی توڑ امریکہ کے پاس نہیں ہے۔گزشتہ سالوں سے روس کے ساتھ امریکہ کی سرد جنگ نے نئی صورت اختیار کر لی ہے۔لبنان،سوڈان اور کینیا میں امریکہ کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔اسرائیل کے لیے امریکہ کوئی بڑی خدمت انجام نہیں دے رہا۔ایران،پاکستان اور کوریا کے جوہری پروگرام امریکہ کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔اقتصادی حالت مندی کا شکار ہے۔امریکہ اپنی ساکھ کھوتا جا رہا ہے۔وہ تمام جمہوری قدریں جن کی پاسداری کا امریکہ دعویٰ کرتا تھا نام کی رہ گئی ہیں ۔

’العصر‘: کیا یہ درست ہے کہ عراق میں امریکی مفادات کے لیے ایران کو بڑا کردار دیا جا رہا ہے اور آئندہ امریکی مقاصد ایران کے ذریعے پورے ہوں گے اور اسی لیے عراق میں ایران کا عمل دخل بڑھا ہے؟

جواب: عراق پر امریکہ کا قبضہ ایران کے مفاد میں زیادہ رہا ہے اور آپ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یہ جنگ ایران کے لیے لڑی گئی تھی۔ایران نے ہی امریکہ کو شہہ دی تھی کہ وہ عراق پر حملہ کر دے اور امریکہ نے نہایت عجلت میں یہ حماقت کر لی۔ایران کی بڑی شخصیات نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ اگر ایران امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرتا تو کابل اور بغداد پر امریکہ کا قبضہ نہ ہو سکتا۔ایران نے اس جنگ سے بڑے فوائد حاصل کیے ہیں لیکن ایک فائدہ عالم اسلام کو بھی ہوا ہے کہ ایران کا چہرہ واضح ہو گیا ہے اور ایرانی تقیے کے سبب جو بغض چھپا تھا اللہ نے وہ ظاہر کر دیا ہے۔ایران نے اپنے توسیعی منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیے ایسی حماقتیں کر ڈالیں ہیں کہ عالم اسلام کے سامنے ایران ننگا ہو گیا ہے اور سب پر واضح ہو گیا ہے کہ ایران ایک توسیع پسند ملک ہے۔ایران ایک عرصے سے اس تاثر کو برقرار رکھے ہوئے تھا کہ وہ پورے عالم اسلام کے لیے اپنے منصوبے بناتا ہے لیکن امریکہ کو عراق کی دلدل میں دھکیل کر ایران نے جس تیزی سے ثمرات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہیں سے اس کے خفیہ عزائم عالم اسلام پر ظاہر ہوئے ہیں ۔صورت حال یہ ہے کہ عراق کی شیعہ تنظیموں کا جھکؤ اب ایران کی بجائے سنی عناصر پر بڑھتا جارہا ہے۔عراق میں امریکی حملے کے ساتھ ہی ایرانی مداخلت شروع ہوئی تھی۔ ایران کا عراق میں کردار ایک معلوم حقیقت ہے۔ایرانی جاسوسی ادارے اورپاسداران ایران کے فوجی عراق میں بہ کثرت موجود ہیں ۔شیعہ تنظیموں کی سرپرستی یہی ادارے کرتے ہیں ۔ایران اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہی پرانا طریقہ’ مظلومیت‘ کا اختیار کرتا ہے۔ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔تنظیموں کو تقسیم کر کے رکھتا ہے اور تنظیموں کو لڑواتا بھی ہے خواہ دونوں طرف شیعہ ہی کیوں نہ ہوں ۔لا تعداد ایرانی اب تک عراقی شہریت حاصل کر چکے ہیں ۔ایران دفتری معاملات سے لے کر سیاسی تبدیلیوں تک ہر جگہ فعال ہے ۔(شیعیوں کے مرجع آیت اللہ) سجستانی کی اشیرواد سے عراق میں آپ کو ایسے ایسے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ملیں گے جو اس لائق نہیں تھے۔ٹوٹی پھوٹی عربی بولنے والے یہ فارسی نژاد کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عراق کے باضابطہ شہری کہلانے لگے ہیں ۔ان میں سے بعض نے اپنا نسب بھی بدل لیا ہے۔ان میں سے اہم نام یہ ہیں :جعفری،صولاغی،علی زندی اور کریمی جو اب ربیعی کہلاتا ہے اسی طرح جواد اور مالکی سب عام درجے کے لوگ تھے جو اب بڑے عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں ۔جنوبی عراق میں توایران کی کرنسی’تومان ‘میں لین دین ہوتا ہے اور بسا اوقات تحریری معاہدے فارسی زبان میں لکھنا معاہدے کی قانونی شرط سمجھا جاتا ہے۔

عراق کی سر زمیں سے امریکہ اور ایران دونوں کے مفادات وابستہ ہیں ۔ایران ہر اس امریکی منصوبے کو سبوتاژ کرتا ہے جس سے مستقبل میں اہل سنت کو فوائد حاصل ہوتے ہوں ۔دونوں ہی عراق کے ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی متفقہ لائحہ عمل پران کا اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ایران کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مدد سے جس قدر زیادہ ممکن ہو اپنے ازلی دشمن’اہل سنت‘کو کمزور کر دے،اگر دونوں ملکوں میں کسی چیز پر اتفاق ہے تو وہ یہی ہے۔عرب ممالک کی نا اتفاقی سے دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ایران جانتا ہے کہ خلیج کا نقشہ بدلنے والا ہے اور اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کر لی ہے۔دوسری طرف عرب ممالک خطے کی سیاست تو کیا کریں گے قومی مفاد کے مطابق بھی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں ۔عراق کے عوام شیعہ بلا سوچے سمجھے ایران کے لیے قربانی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ایران دراصل فارسی عصبیت کے ساتھ مجوسی ریاست کی ازسرنو بنیاد رکھنا چاہتا ہے اوروہ شیعیت کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران ان اہداف کے لیے عراق اور لبنان میں سردھڑ کی بازی لگا چکا ہے۔ ایران خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر بڑھانا چاہتا ہے مگر وہ ابتداءعراق اور لبنان سے کرنا چاہتا ہے۔ایران کی گاہے بگاہے فوجی مشقوں کا مقصد عرب ممالک کو خوفزدہ کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے کیونکہ عربوں کا پیسہ اس طرح انکل سام کی جیب میں چلا جاتا ہے جس نے عرب ممالک کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے!

العصر: مقتدیٰ الصدر کی ملیشیا کے بارے میں آپ کے کیا تحفظات ہیں ؟

جواب: مقتدی الصدر کے حمایت کرنے والے اکثر شیعہ آبادی کے جاہل عوام ہیں ۔ مقتدی اور اس کی ملیشیا کے پاس کوئی دوررس منصوبہ نہیں ہے۔مقتدیٰ کی طاقت عام طور پر دوسرے استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے اہل سنت کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔اب مقتدیٰ کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔شیعہ تنظیموں میں بھی پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔کچھ مقتدیٰ کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ ایرانی قیادت کے وفادار ہیں اور دونوں میں شدید جھڑپیں بھی ہوتی ہیں ۔ ایران میں قیام کے بعد مقتدیٰ اور جیش المہدی کو وہی کام سونپا گیا ہے جو لبنان میں حزب اللہ کے ذمے ہے۔اَسی کی دہائی میں عراق ایران جنگ میں جن فوجیوں نے حصہ لیا تھا ان میں سے کئی مقتول پائے گئے ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں تھا۔اس سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایران عراق کی سیاست میں کتنا آگے جا چکا ہے۔ القاعدہ کی صفوں میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اصل میں شیعہ تھے مگر تنظیم میں گھس کر حدود اللہ کے نفاذ کے نام پراور مرتد کی سزا کے نام پر کئی اہم شخصیات کو قتل کر چکے ہیں ۔ ان کا القاعدہ سے کوئی قلبی تعلق نہیں تھا یہ سب ایران کے جاسوس تھے۔صباح المھاجر کے جرائم سے کون واقف نہیں ہے۔اس شخص نے سنی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا تھا۔میری تمام اہل سنت کے قائدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی صفوں مین آنے والی شخصیات کی پوری چھان بین کیا کریں ۔لوگوں کی جان سے کھیلنا ہماری شریعت میں ایک نازک ترین مسئلہ ہے اسے کسی جلدباز کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔

مجاہدین عراق کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ قابض دشمن کے جال میں نہ آئیں اور انتخابی ڈرامے میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنی پوری صلاحیت جہاد اور عسکری عمل میں کھپا دیں اور پوری توجہ دشمن کو ملک سے نکالنے پر مرکوز رکھیں ،اس کے لیے تمام مشروع ذرائع کو استعمال کریں اور اپنی قوت کو مجتمع رکھیں ۔

العصر: کیا جیش اسلامی دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حامی ہے،اکثردیکھ گیا ہے کہ جہاد کرنے والے مذاکرات کی میز پر آکر اپنے بہت سے مواقف بدل لیتے ہیں اور اگر امریکہ عراق سے نکل جاتا ہے تو کیا جیش اسلامی کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرلیں ؟

جواب: شرعی مصلحت کے تحت دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنا جائز ہے۔جہاں تک جیش اسلامی کا تعلق ہے تو اس نے مذکرات میں حصہ اس بنا پر نہیں لیاکیونکہ امریکہ مذکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ہم نے مذکرات کی شرطیں بارہا بتائیں ہیں کہ کانگرس امریکی فوجوں کو پابند کرے کہ وہ عراق کی سرزمیں سے نکل جائیں ۔اور یہ کہ عراق کا اصل فریق وہاں کے عوام ہیں جو قبضے سے لے کر اب تک مزاحمت کر رہے ہیں ۔ہم نے جب بھی مذکرات کو فائدہ مند سمجھا تو اس میں عراق کی تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ شریک ہوں گی،ہم تنہا مذکرات نہیں کریں گے۔اس وقت امریکہ اپنی خام خیالی میں مجاہدین کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے الگ الگ اور محدود سطح پر مذکرات کرتا ہے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ مذکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔امریکہ اور ایران کے نکلنے کی صورت میں ہماری جماعت ایک واضح حکمت عملی رکھتی ہے لیکن جب تک استعمار موجود ہے ہماری ایک ہی حکت عملی ہے کہ جہاد جاری رہے گا۔
(یہ مضمون اگرچہ تین سال قبل کا ھے،میرے خیال میں موجودہ صورت حال کو جاننے کے لئے اسکی اھمئیت اور زیادہ ھو گئ ھے،اراکین اپنے خیالات وفکر سے آگاہ ضرور کریں،سیاست کو دین سے جدا نھئیں کیا جا سکتا؛)
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
ميری جان اس مقالے کو پڑه کر اب ايران په نظر کرو که اس وقت اگر اسلام اور مسلمانوں کا پاسدار هے تو فقط ايران هی هے کوئی ايسا وقت نهين هے جس ميں ايران نے آمريکه کي حمايت يا مدد کي هو! وه تو انقلاب کےوقت سے اب تک امريکه کو بڑا شيطان کہتا آرہا ہے جبکه هماري سرکرده مسلم ملک سعودي عرب پوري طرح آمريکه کي حمايت کررها هے شام، بحرين اور يمن کي مثاليں آپ کے سامنے هيں۔۔۔۔
جب اسرائيل اور حزب الله کي جنگ هوئی تهی تو تب بهی مصری علماء نے حزب الله کي مدد کو حرام قرار ديا تها پر اخوان المسلمين کے جوان مردوں اور مجاهدوں نے يه فتوى واپس کروايا تها۔۔۔۔
اگر اگر اگر اگر همارا مسلم سعودی، ايران اور حزب الله کی حمايت اور امريکه اور اسرائيل کي مخافت کردے تو سپرپاور امريکه نهيں بلکه سعودي عرب هوجائيگا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر غيرت سوائے فرزندان اسلام کے کسی اور کے پاس نهيں هوسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللهم اهد المسلمين الى صراط الحق

الله اکبر

اعتصام الحق
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
ابنا: سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی نے عراق میں سرگرم ایک دہشتگرد گروہ سے رابطہ کر کے اس سے کہا ہے کہ وہ عراق کی سنی شخصیات کو اپنی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناۓ ۔

عراق میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں سعودی عرب کی شرکت کا سب سے اہم محرک اہل تشیع کے خلاف تشہیراتی مہم شروع کروانا اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ عراق میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات میں ایران ملوث ہے۔

سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ مقرن بن عبدالعزیز ان افراد میں سے ہے جن کا عراق میں دہشتگردانہ گروہوں کے ساتھ رابطہ رہا ہے اور اس نے عراق میں سرگرم دہشتگرد گروہوں کو ذاتی طور پر حکم دیا ہے کہ وہ عراق میں اہل سنت کے پانچ سے دس تک علماء ، پروفیسروں اور ممتاز شخصیات کو قتل کردیں تاکہ اس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پیدا ہوجائيں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی نے عراق میں سرگرم دہشتگرد

گروہوں کو ایک ذمے داری یہ سونپی ہے کہ وہ شیعہ گروہوں میں اثرو رسوخ حاصل کریں۔
سعودی عرب اور قطر کا شمار خلیج فارس کے ان ساحلی ممالک میں سے ہوتا ہے جنھوں نے کبھی بھی عراق میں اقتدار کے تناسب کے بارے میں اپنی ناراضگی چھپائی نہیں ہے۔ اب بھی جبکہ عراق شام مخالف اتحاد میں شامل نہیں ہوا ہے ریاض اور دوحہ نے علانیہ طور پر عراق کے خلاف دشمنی کا علم بلند کر رکھا ہے۔

قرائن اور ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر نے عراق میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع کروانے کے لۓ بے تحاشا دولت خرچ کی ہے۔عراق میں سرگرم دہشتگرد گروہوں کو عراق کی ممتاز شخصیات کے قتل کی ذمے داری سونپی گئي ہے جن میں علی الادیب ، علاء مکی، صالح المطلک ، باقر صولاغ ، احمد چلبی اور نوری مالکی شامل ہیں۔ اور یہ طے پایا گيا تھا کہ ان شخصیات کے قتل میں عراق کے قومی اتحاد کو ملوث بتایا جاۓ تاکہ اس ملک میں خانہ جنگی کو شروع کیا جا سکے۔

سعودی عرب کے مختلف شہروں میں موجود کیپموں میں دہشتگردوں کی تربیت بھی بغداد کے خلاف سعودی عرب کے مخاصمانہ اقدامات کا حصہ ہے۔ یہ دہشتگرد سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کی زیر نگرانی تربیت حاصل کرنے کے بعد عراق میں دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دینے کے لۓ اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران عراق میں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے دسیوں دہشتگردوں کی گرفتاری سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ریاض نے نوری مالکی کی حکومت کے خلاف بڑی گھناؤنی سازش تیار کر رکھی ہے۔ البتہ اس بات کا ادراک عراقی حکام کو بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ ملک میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کا ڈٹ کر مقابلے کریں گے۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت نے بارہا کہا ہے کہ اگرچہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے کی خواہشمند ہے لیکن وہ کسی بھی ملک کو اپنے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔

صحافتی ذرائع نے بغداد حکومت کے اس موقف کو ریاض کے لۓ ایک طرح کا الٹی میٹم قرار دیا ہے۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ حال ہی میں عراق میں دسیوں دہشتگرد گرفتار ہوۓ ہیں جو سعودی عرب کی شہریت کے حامل ہیں۔ اور ان میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک کی خفیہ ایجنسی نے ان کو عراق میں دہشتگردانہ کاررائیاں انجام دینے کے لۓ پیسے دیۓ ہیں۔


اعتصام الحق کی آواز۔۔۔۔ جو بهی فلسطين کی مخالفت کرکے اسرائيل کی حمايت کرے وه قرآن اور اسلام کا دشمن اور غدّار ہے!

الله اکبر

لااله الا الله امريکه عدوّالله لااله الا الله اسرائيل عدوّالله
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
نیٹ پہ سرچ کرتے ہوئے یہ مضمون ملا ہے اس کو بھی دیکھ کر اپنے خیالات سے ضرور نوائیے گا !ہو سکتا ہے کہ یہ غلط
ہو

عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مرید اسلام اور اس كی تعلیمات اور خود امام ںسے بھت دور تھے ان كا كہنا تھا كہ حضرت علیںپیغمبر تھے لیكن جبرئیل نے غلطی كی كہ حضرت علیں كو پیغمبری دینے كے بجائے حضرت محمد (ص)كو دیدی۔
یھی لوگ وہ ھیں جو جناب جبرئیل كے دشمن ھیں، اور یھی كام یعنی جبرئیل كے ساتھ دشمنی اور جبرئیل پر غلطی كی تھمت لگانا وغیرہ،اس طرح كے عقائد گذشتہ مذھبوں مثلاً یونانی ستارہ پرست اور برھمنی عقائد ھیں یہ وہ مذاھب ھیں جو وحی كا انكار كرتے ھیںاور كھتے ھیں كہ خدا اور بندوں كے درمیان كوئی وحی نھیں ھے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس خطرناك بیماری كی طرف اشارہ كیا ھے:
< قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوّاً لِجِبْرِیْلَ فَاِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقاً لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدیً وَبُشْریٰ لِلْمُوٴمِنِیْنَ۔ > 16
”اے رسول كہہ دیجئے كہ جو شخص بھی جبرئیل كا دشمن ھے اسے معلوم هونا چاہئے كہ جبرئیل نے خدا كے حكم سے آپ كے دل پر قرآن اتارا ھے جو سابق كتابوں كی تصدیق كرنے والا، ہدایت اور صاحبان ایمان كے لئے بشارت ھے“۔
حضرت علی علیه السلام كے بارے میں عبد اللہ ابن سبا كی باتیں اور اس كے غلونے حضرت كو ناراض كردیا، چنانچہ آپ كو بھت تكلیف پهونچی جس كی بناپرحضرت نے ارشاد فرمایا جس كو سید رضیۺ نے نہج البلاغہ میں بیان كیا ھے كہ آپ نے فرمایا: دو گروہ میری دوستی اور دشمنی كی وجہ سے ھلاك هوئے، پھلا گروہ وہ جس نے میری محبت میں غلو كیا اور دوسرا وہ جس نے میرے ساتھ سخت دشمنی كی (مراد ناصبی ھیں جنھوں نے حضرت علی ںپر كفر كی نسبت لگائی)۔ 17
اور الحمد اللہ ان دونوں فرقوں میں سے آج كوئی بھی باقی نھیں ھے جیسا كہ علامہ سید محسن امین ۺ نے اس چیز كی طرف اشارہ كیا ھے۔
عبد اللہ ابن سبا اور اس كے تابعین كا عقیدہ یہ بھی تھا كہ حضرت علیں نھیں مرے، ور آپ كی شان اس سے كھیں بلند وبالا ھے كہ آپ كو موت آئے، آپ بادلوں كے اوپر رھتے ھیں اور بجلی كی چمك كے وقت جو آواز نكلتی ھے وہ آپ ھی كی آواز هوتی ھے، اور یھی نھیں بلكہ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مطیع حضرت علیںكو خدا بھی كھتے ھیں۔
عبد اللہ ابن سبا مسلمانوں كے درمیان وہ پھلا شخص ھے جس نے انسانی الوھیت كا حكم كیا ھے اور اس كے بعد اس كے مریدوں نے اس كام كو آگے بڑھایا، یہ لوگ در حقیقت ان عظیم ہستیوں كو خدا كی طرح نھیں كھتے تھے بلكہ ان كے بارے میں یہ كھتے تھے كہ یہ حضرات قدرت الہٰی كے مظھر ھیں۔ 18
شیعہ روایات كے مطابق حضرت علی ںنے عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں كو توبہ كرائی اور چونكہ اس نے توبہ نھیں كی لہٰذا اس كے قتل كا حكم صادر كردیا۔
واقعاً ان تمام باتوں كے پیش نظر بھی ابن تیمیہ سے تعجب ھے كہ اس نے ان فاسد اور كفر آمیز عقائدكی (جو بغدادی اور شھرستانی وغیرہ نے نقل كئے ھیں) شیعوں كی طرف نسبت دیدی، اور بعض عقائد تو ایسے ھیں كہ شاید ان كے پیرو بھی نہ هوں او راگر هوں بھی تو شیعہ اثنا عشری ان سے ھمیشہ بیزار رھے ھیں، لیكن پھر بھی ابن تیمیہ نے ان تمام كو شیعوں كی طرف نسبت دیتے هوئے ان پر حملہ كیا ھے۔ 19
ابن تیمیہ نے شیعوں پر تھمتیں لگانے میں جن كتابوں سے استفادہ كیا ھے وہ سب سے پھلے كتاب العثمانیہ جاحظ اور اس كے بعد الفرق بین الفِرق تالیف بغدادی ھے، كیونكہ اس نے اپنی كتاب منھاج السنة میں جو باتیں بیان كیں ھیں وہ بالكل وھی ھیں جو كتاب العثمانیہ میں بیان كی گئی ھیں۔
حوالہ جات
1. كتاب الجواب الباھر ابن تیمیہ كا ص ۱۴ سے ۱۹ تك كا خلاصہ۔
2. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۳۔
3. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۹۔
4. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۵۵۔ بعد میں زیارت كے سلسلہ میں مسند احمد حنبل میں ذكر شدہ روایات كی طرف اشارہ كیا جائے گا۔
5. مجموعة الرسائل الكبریٰ ج۲ ص۵۹۔
6. كتاب الردّ علی الاخنائی، ص ۸، ۳۴، ۱۳۱۔
7. ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اجماع سے میری مراد مخالف پر علم نہ هونا ھے نہ یہ كہ مخالف كی بالكل نفی كرنا۔ (الرد علی الاخنائی ص ۱۹۵)
8. فوات الوفیات جلد اول ص ۷۴۔
9. الغدیر، ج۵ ص ۱۸۴
10. راحة الصدور ص ۳۹۴، غزنویوں اور سلجوقیوں كے زمانہ میں شیعوں كو دشمنی كی وجہ سے عدالتی محكمہ میں نھیں ركھا جاتا تھا اور ان كو آل بویہ كی حكومت میں كسی عہدہ پر ركھنا گناہ سمجھا جاتا تھا، اس سلسلے میں كتاب آل بویہ اور تاریخ مذھبی قم میں تفصیل كے ساتھ واقعات موجود ھیں۔
11. جولة فی ربوع شرق الادنی (مذكورہ مورخ كے سفر ناموں میں سے ایك سفر نامہ) ص ۱۶۱۔
12. ممكن ھے كہ ابن تیمیہ كی شیعوں سے شدید دشمنی كی ایك وجہ یہ بھی هو كہ ابن تیمیہ چونكہ ”دروزیوں“ (اسماعیلیوں كا ایك غلو كرنے والا فرقہ)كا سخت دشمن تھا، اور اس فرقہ كو شیعہ فرقوں میں شمار كرتا تھا، اور ”قلقشندی“(صبح الاعشی ج۱۳ ص۲۴۸) كے كہنے كے مطابق دروزیوں اور نصیروں سے جنگ كرنا ”اَرْمنیوں“ سے جنگ كرنے سے بھی زیادہ واجب ھے،ابن تیمیہ اور اس كے مریدوں كا گمان یہ تھا كہ دروزیوں نے شام ومصر پر مغلوں كے حملوں میں ان كا ساتھ دیا ھے لہٰذا وہ مغلوں كے ھمراہ و ھمراز ھیں۔ ابن تیمیہ نے نصیروں سے جنگ كے بارے میں تفصیلی فتویٰ صادر كیا ھے(الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص۳۵۸)، اور جیسا كہ معلوم ھے كہ ابن تیمیہ كے زمانہ میں نصیریوں نے قدرت حاصل كرلی تھی اور اپنے عقائد ونظریات كو كھلے عام لوگوں كے سامنے بیان كرتے تھے، چنانچہ مشهور مورخ ذھبی نے۷۱۷ھ كے واقعات میں اس طرح لكھا كہ ایك جبلی شخص (حلب كے علاقہ جَبَلہ كی طرف منسوب) ظاھر هوا جو كبھی یہ كھتا تھا كہ میں محمد مصطفی هوں، اور كبھی یہ كھتا تھا كہ میں علی هوں، یھاں تك كہ كبھی یہ دعویٰ كرتا تھا كہ میں امام منتظرهوں، اور وہ تمام لوگوں كو كافر سمجھتا تھا، اور اس كے مرید كھتے تھے ”لا الہ الا علی“ اور لوگوں كا خون بھانا حلال سمجھتے تھے،نیز اسی طرح كی دوسری چیزیں اس سے صادر هوتی تھیں، (ذیل العبر ص ۹۱) چنانچہابن تیمیہ نے ان تمام كاموں كو شیعوں كے كھاتے میں شمار كیاھے۔
13. یھاں پر یہ كہناچاہئے كہ ابن تیمیہ چونكہ شیعوں سے بھت دشمنی اور عناد ركھتا تھااسی وجہ اس نے اپنی كتابوں میں شیعوں كے اصولی عقائد(حقیقی معنی میں) كو بیان كرنے كے بجائے ھر ان باطل عقائد اور كفر آور باتوں كو ان ملل ونحل كی كتابوں سے نقل كركے جو مختلف فرقوں كی طرف سے لكھی گئی تھیں، اور شاید جن كا اس وقت كوئی نام ونشان بھی باقی نہ هو، (البتہ مذكورہ كتابوں كے بارے میں بھی اختلاف موجود ھے) ان كو شیعوں كے عقائد كا حصہ بنا كر ذكر كیا ھے، اور اگر كسی نے اپنے شیخ یا پیر كے بارے میں چاھے وہ زندہ هویا مردہ كسی بھی طرح كی غلوكی بات كھی تو اس كو شیعوں كے عقائد میں شمار كرلیا، (اس سلسلہ میں منھاج السنة جلد اول كا پھلا حصہ اور جلد دوم كے آخری حصہ كی طرف رجوع فرمائیں)، جبكہ حق وانصاف كا تقاضا یہ تھا كہ شیعوں كے عقائد كو ان كی كلامی كتابوں منجملہ شرح تجرید عقائد ومنھاج الكرامة علامہ حلّی ۺ سے نقل كیا جاتا، (جبكہ ابن تیمیہ نے منھاج الكرامة كی رد كرتے هوئے شیعو ں پر حملوں میں كوئی كسر باقی نہ ركھی) چنانچہ اگر ان كتابوں میں اس طرح كی كوئی بات یا غلو هوتا توپھر اس كو یہ حق تھا كہ ان كو شیعہ كے حساب میں ركھتا۔
14. جیسا كہ مشهور ھے كہ كلمہ رافضی جناب زید بن علی كے قیام كے وقت سے شیعوں پر اطلاق هوا ھے، معلوم نھیں كہ صحیح ھے بھی یانھیں،كیونكہ اس سے پھلے بھی یہ كلمہ شیعہ مخالفوں كی طرف سے شیعوں كے لئے كھا جاتا تھا۔
(عرض مترجم: یہ بات كہ بعض لوگوں نے زید بن علی ابن الحسینعلیهم السلام كی بیعت كی اور ان كو شیخین پر تبراء كرنے كے لئے كھا، اور جب تو انھوں نے انكار كردیا تو ان لوگوں نے زید كو چھوڑدیا اسی وجہ سے ان كو رافضی كہنے لگے، سراسر جھوٹ ھے بلكہ حقیقت تو یہ ھے كہ یہ ایك سیاسی حربہ ھے اور ھر اس شخص كو رافضی كھا جاتا ھے جو حكومت وقت كی مخالفت كرے، اور دوسری بات یہ كہ بعض معتبر تاریخوں نے مذكورہ بات كو نقل نھیں كیا جیسے ابوالفرج اصفھانی نے اس واقعہ كو نقل كیا اور جناب زید كے حالات لكھے لیكن كھیں اس میں كوئی ایسی بات نھیں لكھی جو اس بات پر دلالت كرے كہ كلمہ رافضی ان كے واقعہ كے بعد سے شروع هوا ھے،اور دوسری بات یہ كہ یہ كلمہ كوفہ كے شیعوں پر اس سے پھلے بھی اطلاق هوتا تھا، جیسا كہ ایك شخص نے كوفہ میں ظلم وتشدد كو امام زین العابدینںكے پاس لكھا اور عرض كی كوفہ كی حالت بھت زیادہ خراب ھے كیونكہ یہ لوگ مسجدوں اور منبروں پر حضرت علیںپر لعن وطعن كرتے ھیں اور اگر كوئی حضرت پر لعن كرنے كو منع كرتا ھے تو اس كو رافضی كھتے ھیں، اور اس كو حاكم كے پاس لے جاتے ھیں جس كے نتیجہ میں اس كو قتل كردیا جاتا ھے۔ (اقتباس از كلام مقارن تالیف استاد محترم ربّانی دامت بركاتہ)
15. بعض شیعہ محققین نے داستان عبد اللہ ابن سبا كو صرف ایك افسانہ او رمن گھڑت كھانی بتایا ھے اور خود اس كے وجود كو بھی جعلی كھاھے یعنی اس طرح كا كوئی آدمی تھا ھی نھیں، اس سلسلہ میں علامہ سید مرتضیٰ عسكری صاحب نے ایك تفصیلی كتاب تالیف كی ھے مزید آگاھی كے لئے مذكورہ كتاب كی طرف رجوع فرمائیں۔
16. سورہ بقرہ آیت ۹۷۔
17. ”ہَلَكَ فِیَّ رَجُلانِ: مُحِبٌّ غَالْ، وَمُبْغِضٌ قَالْ“ (نہج البلاغہ كلمات قصار حضرت امیر الموٴمنین(ع)
18. كتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص ۹۸سے ۱۱۲تك كاخلاصہ ،مذكورہ كتاب میں رفض اور رافضی كے بارے میں ایك تازہ بیان ھے لہٰذا ضروری ھے كہ اس سلسلے میںكافی دقت اور تحقیق هونا چاہئے۔
19. عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں سے مزید آگاھی كے لئے اور دوسرے غلو كرنے والے فرقوں كے بارے میں معلومات حاصل كرنے كے لئے ”الفَرقُ بین الفِرق“ ص ۳۳۳، تالیف بغدادی كی طرف رجوع فرمائیں، اور عبد اللہ ابن سبا كا وجود ھی خیالی ھے اس بات كی تحقیق كے لئے علامہ عسكری دامت بركاتہ كی كتاب عبد اللہ ابن سبا نامی كتاب كی طرف رجوع كریں۔
اقتباس از تاریخ وھابیت؛ علی اصغر فقیھی - مترجم: اقبال حیدر حیدری
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
عموما رافضی شیعہ عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا نام تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے , اور اللہ تعالى نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی شیعہ کے نام سے موسوم فرمایا ہے اور بطور دلیل وہ لوگ یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ:
وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ [الصافات : 83]
اور اسکے شیعوں میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی تھے ۔
یاد رہے کہ لفظ شیعہ گروہ کے معنى میں مستعمل ہے , اور اس آیت کا ترجمہ یوں بنتا ہے کہ "اور اسکے گروہ میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی تھے۔ لیکن ظالم رافضی شیعہ اپنا جھوٹ ثابت کرنے کے لیے قرآنی الفاظ کے معانی میں بھی تحریف کر ڈالتے ہیں ۔ بہر حال اگر وہ لفظ شیعہ کو اپنے اوپر فٹ کرتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ قرآن مجید میں آنے والے ہر لفظ شیعہ کا وہ اسی طرح معنى کرکے اپنے اوپر فٹ کریں ۔
قرآن مجید میں اور بھی بہت سے مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے , اب دیکھتے ہیں کہ وہاں اسکا ترجمہ شیعہ کرکے ان پر فٹ کرنے سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں :
1- قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ [الأنعام : 65]
ترجمہ : آپ کہئیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے , یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے , آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جائیں۔
یہاں لفظ" شیعاً "کو اگر ان پر فٹ کریں تو یہ نتیجہ برآمد ہو گا کہ شیعہ بننا اللہ کے عذاب کا نتیجہ ہے !!!
اللہ تعالى لوگوں کو آپس میں لڑأنے بھڑانے کے لیے شیعہ بنا دیتا ہے !!!
2- إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ [الأنعام : 159]
ترجمہ :بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے , آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھراللہ تعالى ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔
یہاں اگر" شیعا "کا معنى شیعہ کرکے ان پر فٹ کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ شیعوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور شیعہ بن بیٹھے لہذا اللہ کے رسول ﷺ کا شیعوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
3- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ [القصص : 4]
ترجمہ : یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا بیشک وہ تھا ہی مفسدوں میں سے۔
یہاں اگر"شیعا"کے لفظ کو ان پر فٹ کریں تو نتیجہ نکلے گا کہ لوگوں کو شیعہ بنانا فرعون کا کام تھا !!!
4- مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [الروم : 32]
ترجمہ : ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے , ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے۔
اس مقام پر اگر "شیعا "کو ان پر فٹ کریں تو نتیجہ نکلے گا کہ شیعہ دین میں تفرقہ بازی کرنے والے ہیں اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے ہیں !!!
فاعتبروا یا أولی الابصار
 
Top