• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رحمت و بخشش کی دعا کرنا:۔ ۔ اہل سنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رحمت و بخشش کی دعا کرنا:
امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

((والصلاۃ لاتجوز علیٰ من عُلِم نفاقُہ بنص القرآن، نعلم أن ذلک بناء علیٰ الایمان الظاھر واللہ یتولیٰ السرائر ،وقد کان البني ﷺ یصلیی علیھم ویستغفر لھم حتیٰ نھي عن ذلک، وعُلِّل ذلک بالکفر،فکان ذلک دلیلاًعلیٰ أن کل من لم یُعلم أنہ کافر بالباطن۔جازت الصلاۃ علیہ والاستغفار لہ وان کانت فیہ بدعۃ وان کان لہ ذنوب۔
واذا ترک الامام أوأھل العلم والدین الصلاۃ علیٰ بعض المتظاھرین ببدعۃ أوفجور زجرًا عنھا۔ لم یکن ذلک مُحرَّماً للصلاۃ علیہ والاستغفار لہ۔بل قال النبي ﷺ فیمن کان یمتنع عن الصلاۃ علیہ وھو: الغال وقاتل نفسہ والمدین الذي لا وفاء لہ :(صَلُّوا علی صاحبکم)۔روی أنہ کان یستغفر للرجل في الباطن وان کان في الظاھر یدع ذلک زجرًا عن مثل مذھبہ۔(فان الامام أحمد مثلاًقدباشر الجھمیۃ الذین دعوہ ألیٰ خلق القرآن۔ ونفي الصفات، وامتحنوہ وسائر علماء وقتہ، وفتنوالمؤمنین والمؤمنات الذین لم یوافقوھم علیٰ التجھم بالضرب والحبس، والقتل والعزل عن الولایات، وقطع الارزاق، وردالشھادۃ،وترک تخلیصھم من أیدي العدو، بحیث کان کثیر من أولي الأمر اذ ذاک من الجھمیۃ من الولاۃ والقضاۃ وغیرہھم : یکفّرون کل من لم یکن جھمیًّا موافقاًلھم علیٰ نفي الصفات مثل القول بخلق القراَن،ویحکمون فیہ بحکمھم في الکافر......ومعلوم أن ھذا من أغلظ التجھم۔ فان الدعاء الی المقالۃ أعظم من قولھا ۔واثابۃ قائلھا وعقوبۃ تارکھا أعظم من مجرد الدعاء الیھا۔ والعقوبۃ بالقتل لقائلھا أعظم من العقوبۃ بالضرب۔
ثم ان الامام أحمد دعا للخلیفۃ وغیرہ۔ ممن ضربہ وحبسہ، و استغفرلھم، وحلَّلھم مما فعلوہ بہ من الظلم والدعاء الیٰ القول الذي ھو کفر، ولو کانوا مرتدین عن الاسلام لم یجز الاستغفار لھم،فان الاستغفار للکفار لا یجوز بالکتاب والسنۃ والاجماع)

[ ہر وہ شخص جس کے بارے میں یہ علم نہ ہوکہ وہ باطن میں کافر ہے(مطلب یہ ہے کہ کفر کو چھپا کر رکھے اور سوائے اپنے خاص لوگوں کے کسی کے سامنے ظاہر نہ کرتا ہو۔وگرنہ دلوں کے بھید اورباطن کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) تواس کی نماز جنازہ اور اس کے لئے استغفار اور دعائے مغفر ت جائز ہے اگرچہ اس میں کوئی بدعت ہی کیوں نہ پائی جاتی ہویا کچھ گناہ بھی کیوں نہ کرتا ہو۔اوراگرامام ،اہل علم اور دیندار لوگ کسی بدعت یا فسق وفجورسرعام کرنے والے کا جنازہ اس مقصد کی خاطر چھوڑ دیں کہ لوگ اس سے سبق سیکھیں اور برائیوں سے باز رہیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ اس کا جنازہ اور اس کے لئے دعائے مغفرت حرام ہے ۔بلکہ نبی اکر م ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جس نے مال غنیمت ہتھیایاتھا ،یا جس نے خودکشی کی تھی یا جو مقروض فوت ہوگیاتھا فرمایا :صلوا علی صاحبکمکہ تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو ۔ایک روایت میں یہ بھی آیاہے آپ خود بھی باطن میں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے تھے کہ بظاہر سبق آموزی کے لئے اس کوترک کئے ہوئے تھے ](مجموع الفتاویٰ ، ج۷ص۲۱۶-۲۱۷)

[بطور مثال امام احمد ہی کو لے لیں جن کا واسطہ ان'' جہمیوں'' سے پڑا تھا جوانہیں ''خلق قرآن'' کے مذہب پر آمادہ کرتے تھے ،صفات الٰہی کے منکر تھے اور اس بناپر ان کو اور دیگر علماء وقت کو سزا وابتلاء سے دوچار کرتے تھے ان مومنین اورمومنات کو تازیانہ وزنداں کی اذیت دیتے جو جہمیت کو قبول کرنے میں ان کی آواز ملانے سے گریز کرتے تھے بلکہ پھانسیاں بھی دیتے ،معزولیاں بھی کرتے ،دانا پانی بھی بند کرتے ،گواہی بھی رد کرتے اور ان کو دشمن کے ہاتھ سے چھڑانے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتے ،جیسا کہ اس دور میں ''جہمیہ ''سے تعلق رکھنے والے بہت سے والی اور قاضی ہر اس شخص کو کافر کہتے تھے جو'' جہمی'' مذہب اختیار نہیں کرتا اور ''خلق قرآن'' کا قائل ہوکر نفی صفات میں ان کا ہم مذہب نہیں ہوتا تھا،جو حکم کافروں پر لگاتے وہی ان پر لگاتے تھے ...جبکہ یہ تو معلوم ہے کہ یہ جہمیت کی غلیظ ترین شکل ہے کیونکہ اس مذہب کی طرف دعوت دینا اس کا اپنی حد تک قائل ہونے سے کہیں سنگین ہے اور اس مذہب کا قائل ہونے والوں کو انعام واکرام سے نوازنا اور انکار کرنے والے کا سزا دینا ،صرف اس کی دعوت سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور پھر اس کے مخالف کو قتل کرنا خالی زدوکوب کرنے سے کہیں سنگین اور شدید تر ہے۔

تاہم امام احمد خلیفہ اوردیگر ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے ان پر کوڑے برسائے تھے اور قید کئے رکھا تھا دعا بھی کرتے تھے اور استغفار بھی ۔ان پر جو ظلم روا رکھا تھا اورکفریہ مذہب ٹھونسنے کے لئے جو تشدد کرتے رہے اس سے بھی ان کو بری کردیا ۔اگر وہ اسلام سے مرتد ہوچکے ہوتے تو انکے لئے استغفار جائز نہ ہوتاکیونکہ قرآن وسنت اور اجماع کی رو سے کفار کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے] (مجموع الفتاویٰ ،ج ۱۲ ص ۴۸۸-۴۸۹)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دعوت قبو ل کرنا:
آپ ﷺ نے فرمایا ''جب تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو دعوت قبول کرو۔ اگر روزہ دار ہو تو دعوت دینے والے کو دعا دو اور اگر روزہ دار نہیں تو کھانا کھالو۔(مسلم۱۴۳۱)

شہادت قبول کرنا
امام ابن عبدالبر  فرماتے ہیں :

''اصحاب بدعت کی شہادت قبول کرنا ائمہ سلف کا عام مذہب ہے ۔اسی مذہب کے ابو لیلیٰ ، ابن شبر مہ ،ابو حنیفہ ،شافعی اور ان کے تلامذہ قائل ہیں ۔اسی طرح امام ثوری ،حسن بن یحییٰ ،عثمان بتی ،دائود ،طبری اورتمام وہ فقہاء جن کا مذہب کہیں نہ کہیں رائج رہا ہے ،اس مذہب کے قائل ہیں،اس شرط کے ساتھ کہ جب وہ جھوٹ کی گواہی نہ دیتے ہوں اور فسق کے کام نہ کرتے ہوں یعنی عادل ہوں (الاستذکار لابن عبدالبر :۲۶/۱۰۴)

البتہ علماء کرام نے اس کی دو شرائط مقرر کی ہیں :
۱۔ان کی بدعت مکفرہ نہ ہو ۲۔وہ بدعت کے داعی نہ ہوں

میل جول رکھنا:
آپ ﷺ نے فرمایا وہ مومن جولوگوں سے میل جول رکھتا ہے۔ اوران سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے اس مومن سے افضل ہے جو لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتا اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔(ترمذی۳۵۰۷)

معلوم ہوا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں بلکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ انسانوں میں رہ کر اللہ اوراس کے بندوں کے حقوق اداکیے جائیں اورحق کی سربلندی اورباطل کی سرکوبی کے لیے محنت کی جائے اوراس راہ کی صبرآزمامشکلات خوشی کے ساتھ برداشت کی جائیں۔

نصیحت کرنا:
نبی رحمت ﷺنے فرمایا ''تم اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔'' ایک شخص نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن یہ بتائیے اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں؟'' آپ ﷺ نے فرمایا ''اس کو تم ظلم کرنے سے روک دو۔یہی اس کی مدد کرنا ہے۔''(بخاری :۲۴۴۳)

معاشرے سے ظلم و فساد روکنے کے لیے کتنا جامع ارشاد ہے کہ اخلاقی جرات سے کام لے کر ظالم کو بھی ظلم کرنے سے روکو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایثار وقربانی کرنا:
ایک انصاری آپ ﷺ کے مہمان کو گھر لے گیا۔بیوی نے بتایا کہ ''گھر میں صرف بچوں کی خوراک ہے۔''اس نے کہا کہ'' بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور چراغ بجھا دینا اور ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھا نا کھا رہے ہیں۔''چنانچہ مہمان نے کھاناکھایا اور ان دونوں نے بھوکے رات گزاری۔جب صبح ہوئی تو نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ''تم نے آج کی رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے' اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوا ہے۔ (بخاری:۳۷۹۸۔مسلم: ۲۰۵۴)

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

﴿ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ ﴾(الحشر:۹)
''اور وہ اپنے آپ پر( دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے خود محتاج ہوں اور جو نفس کی کنجوسی سے بچالیے گئے وہی کامیاب ہیں۔''

امام المروزی  کہتے ہیں کہ:
(سألت أبا عبداللہ عن قوم من أھل البدع یتعرضون ویُکَفِّرُون ؟قال :لا تتعرضوا لھم قلت:وأي شي ء تکرہ من ان یحبسوا ؟ قال : لھم والدات وأخوات )(الآداب الشرعیۃ لابن المفلح :۱/۲۵۷)
میں نے احمد بن حنبل  سے پوچھا : آپ اہل بدعت کے ایسے برے معاملے سے کس طرح پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں جو اہل سنت کو ستانے میں بسا اوقات ان کی تکفیر تک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔امام احمد بن حنبل نے فرمایا:تم ہرگز انہیں نہ ستانا (یعنی اہل سنت کو اُن جیسا طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہیے ) المروزی کہتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا کہ آپ اہل بدعت کو قید میں رکھنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟اس پر امام احمد بن حنبل  نے جواب دیا :مجھے اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی مائیں اور بہنیں تنہا ہو جائیں گی۔''

مسکینوں کی امدا د کرنا:
سیدناابوسعید خدری ؄ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے ۔رسول اللہ ﷺ بھی ہمارے ساتھ تھے آپ نے فرمایا:جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اس کو دےدے جسکے پاس سواری نہ ہو ۔جس کے پاس فاضل زادراہ ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو ۔پھر آپ نے چند اورچیزوں کا ذکر کیایہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ فاضل اشیاء میں ہماراکوئی حق نہیں۔ (مسلم:۱۷۲۸ )

حاصل کلام یہ ہے کہ وہ تمام حقوق جو اللہ رب العزت نے ایک مسلمان کو عطا کیے ہیں ان میں وہ بدعتی بھی داخل ہیں جن کی بدعت کفروشرک کو نہیں پہنچتی ۔
 
Top