محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
مترجم: شفقت الرحمٰن
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 07 ذوالقعدہ1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان "رحم دلی ایک اچھا اخلاق" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نےاخلاق حسنہ کے متعلق گفتگو کی اور بتلایا کہ ہر انسان کو اخلاق اچھا ہونا ضروری اور واجب ہے، انہی اخلاقِ حسنہ میں سے "رحم کرنا "ہے، جس کے بارے میں انہوں نے قرآن و سنت کے دلائل ذکر کئے، اور پھر دنیا و آخرت میں اسکے مثبت نتائج بھی بیان کئے اور آخر میں سنگ دلی کے اسباب ذکر کرتے ہوئے ان سے دور رہنے کی تاکید کی۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو توبہ قبول کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے،میں اپنے رب کی تعریف اور لا تعداد شکر کرتا ہوں، اسی سے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے، وہی عرش کا مالک ہےاور کرم کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمام اخلاقِ حسنہ کا مجسمہ بنا کر مبعوث کیا، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اورشریعتِ الہی کے غلبہ کیلئے کوشش کرنے والے تمام صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
اللہ تعالی سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، متقی بن جاؤ، یقینا اللہ تعالی نے متقی لوگوں کیلئے بہت ہی عظیم ثواب کا وعدہ کیا ہے، اور انہیں اللہ تعالی عذاب سے بھی محفوظ رکھے گا۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے انسان کو نیک اعمال کے ذریعے اپنے فائدے کی توفیق دے کر کتنا بڑا انعام کیا ہے! اور پھر خلقِ الہی پر احسان کرنے کی توفیق بھی دی جس سے انکا دین و دنیا ہر لحاظ سے بھلا ہوگا ، حقیقت یہ ہے کہ کامیاب شخص بھی یہی ہے، یہی شخص تباہ کاریوں سے محفوظ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے[١33] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے [آل عمران: 133، 134]
غور سے سنو! اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ حمیدہ کا اللہ کے ہاں بہت ہی بلند مقام ہے، جن سے روزِ حساب ترازو بھاری ہوگا، اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوگا۔
چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (قیامت کے دن مؤمن کے ترازوکو وزنی کرنے کیلئے حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اور یقینا اللہ تعالی فحش گو اور بد زبان کو پسند نہیں کرتا) ترمذی، اور کہا کہ یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے باعث نفل روزے اور قیام کرنے والے لوگوں کے درجات تک پا لیتا ہے) ابو داود، ابن حبان، اور حاکم نے اسے روایت کیا اور کہا کہ : "بخاری مسلم کی شرائط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے"
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (نیکی اچھے اخلاق کو کہتے ہیں، اور گناہ ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے، اور تم اس بات کو ناپسند جانو کہ لوگوں کو اسکا علم ہو)مسلم
اللہ کے بندو!
رحم دلی انتہائی عظیم خوبی ہے، اللہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے عنائت کرتا ہے، اور بد بخت ہی اس سے محروم ہوتا ہے، اسلام نے رحم دلی کیلئے خوب رغبت دلائی ہے، اور اللہ تعالی نے اس پر اجر و ثواب کے وعدے کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور اخروی سعادت کابھی اعلان کیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء و الرسل پیارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی امت کے بارے میں فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت (مگر) آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب دیکھو گے؛ انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے [الفتح: 29]، ایسے ہی فرمایا: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور جو ان (کے آنے) سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور یہاں (دارالہجرت میں) مقیم تھے۔ جو بھی ہجرت کرکے اِن کے پاس آئے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں (مال)دیا جائےوہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 9]
ایسے ہی والدین کیلئے رحم دلی کے بارے میں فرمایا: وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا تھا۔ [الإسراء: 24]
جبکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اللہ تعالی نے رحمت بتلایا چنانچہ فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ اور ہم نے آپکو سارے جہانوں پر رحم کرتے ہوئے بھیجا ہے[الأنبياء: 107]
پھر رحم کرنے والوں کے ثواب کے بارے میں کہا: کہ اللہ تعالی ان پر رحم کرتا ہے، اور جس پر اللہ تعالی رحم کردے وہ کبھی بھی بد بخت نہیں ہوسکتا ، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، بلندیوں پر موجود ذات تم پر رحم کرے گی) ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کیا اور کہا: "یہ حدیث حسن اور صحیح ہے"
جس کے دل میں رحم نہیں وہ سنگ دل اور بد بخت ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (رحم صرف بد بخت لوگوں سے چھینا جاتاہے)ابو داود، ترمذی، اور کہا : "یہ حدیث حسن ہے"
معاشرے میں رحم دلی اور نرمی سے خوشحالی ، اور زندگی کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جبکہ ظلم، زیادتی، بے رحمی سے پورا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتاہے، جیسے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مسلمان آپس میں پیار محبت کے معاملے میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک حصے میں تکلیف ہوتو سارے کا سارا بدن تکلیف اور بے چینی میں مبتلا رہتا ہے)بخاری و مسلم
ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک مؤمن دوسرے مؤمن کیلئے ایک عمارت کی طرح ہیں جسکی ہر دیوار دوسری دیوار کو مضبوط کرتی ہے-اور آپ نے انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر دیکھایا-) بخاری مسلم
رحم کرنا ایمان کی بہت بڑی خوبی ہے، اور احسان کی اعلی ترین قسم ہے، اور رقتِ قلب کی ایسی کیفیت جو انسان کو دوسروں کیلئے بھلائی اور فائدے پر ابھارے اور انکی تکالیف کو دور کرنے پر اُکسائے "رحم دلی" کہلاتی ہے۔
یہ صفت انسان کیلئے کمال کا درجہ رکھتی ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم ّ موجود تھی، بقیہ لوگوں میں یہ صفت آپ سے کم پائی جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (لوگو)! تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے گراں گزرتی ہے۔ وہ( تمہاری فلاح کا) حریص ہے، مومنوں پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے [التوبة: 128]
رحم دلی کا فقدان انسان میں عیب اور کمی کی علامت ہے، اور اس عیب کی وجہ سے اتنی آفات اور برائیاں جنم لیتی ہیں جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اللہ رب العالمین کیلئے صفتِ رحمت کو ہم ایسے مانتےہیں جیسے اُسکی شایانِ شان ہے، جبکہ اسکی کیفیت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہی ہے، باری تعالی کی صفتِ رحمت کے بارے میں صحابہ کرام اور سلف صالحین سے یہی ثابت ہے۔
دنیا اور آخرت میں ملنے والی تمام نعمتیں رحمتِ الہی کے آثار میں سے ہے، یہ نعمتیں اس بات کو عیاں کرتی ہیں کہ اپنی شایانِ شان کے مطابق اللہ تعالی ازل سے ابد تک صفتِ رحمت سے متصف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اب اللہ کی اس رحمت کے نتائج پر غور کیجئے کہ وہ کیسے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے [الروم: 50]
رحمت الہی کی تفسیر ثواب یا نعمت سے کرنا منہجِ سلف صالحین کے خلاف ہے؛ رحمتِ الہی مخلوق کی رحمت سے یکسر مختلف ہے، جیسے کہ ذاتِ الہی کسی بھی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جب اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا کیا تو ایک تحریر بھی لکھی وہ عرش پر اُسکے پاس ہے: "میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے") بخاری مسلم
اسلامی شریعت کے مطابق رحم دلی سے انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، حتی کہ جانوروں پر رحم کرنا بھی قربِ الہی کا باعث ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک آدمی راستے میں پیدل جارہا تھا اسے شدید پیاس کا سامنا تھا، اچانک اسے ایک کنواں نظر آیا تو اس نے کنویں میں اتر کر پانی پیا اور چلتا بنا، پھر اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس سے ہانپتے ہوئے نمی والی مٹی کھا رہا تھا، اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی ایسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی ہوئی تھی، وہ دوبارہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا اور اسے اپنے منہ سے پکڑ کر کنویں سے باہر نکلا، اور پھر اس نے کتے کو پانی پلادیا، اللہ تعالی نے اسکی اس نیکی کو سراہا، اور اسے بخش دیا) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں میں بھی ہمیں اجر ملے گا!؟ آپ نے فرمایا: (ہر جگر رکھنے والی شیء میں تمہارے لئے اجر ہے) بخاری و مسلم
عبد الرحمن بن عبد اللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ اپنی ضرورت سے ایک طرف چلے گئے، ہم نے ایک پرندہ دیکھا جسکے ساتھ دو بچے بھی تھے، ہم نے اسکے بچوں کو پکڑلیا، وہ پرندہ ہمارے اردگرد چکر لگانے لگا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ نے پوچھا : (اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے تکلیف دی ہے؟اسکے بچوں کو واپس کردو)
اور آپ نے چیونٹیوں کی بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا، آپ نے فرمایا: (اسے کس نے آگ لگائی ہے؟) ہم نےعرض کی: یہ ہم سے ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا: (آگ کا عذاب صرف آگ کا رب ہی دے سکتا ہے) ابو داود
شریعت نے کمزور، مساکین، یتیموں، اور محتاجوں پر رحم کرنے کی ترغیب دی ہے، اور تمام مستحقین کیلئے رحم واجب قرار دیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہونگے، -آپ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی ملا کر اشارہ کیا-) مسلم
انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس نے دو بیٹیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ اور میں قیامت کے دن ایسے اکٹھے آئیں گے -آپ نے اپنی ساری انگلیاں اکٹھی کرکے دیکھائیں-)مسلم
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہیں کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی روزی دی جاتی ہے اور تمہاری اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے) یہ حدیث صحیح ہے بخاری نے اسے مرسل روایت کیا ہے جبکہ دیگر علمائے کرام نے اسے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ : (جو چھوٹوں پر رحم نہ کرےاور بڑوں کے شرف و احترام کو نہ پہچانےوہ ہم میں سے نہیں)ابو داود
فرمانِ باری تعالی ہے وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ان سے کہئے کہ عمل کرتے جاؤ۔ اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے [التوبة: 105]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگووہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے جو اطاعت کرنے والوں کو عزت بخشتا ہے، اور نافرمانوں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور اسکے علاوہ کوئی معبود بھی نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں ، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد ، تمام صحابہ کرام اور آپ کے نقشِ قدم پرچلنے والے تمام افراد پر اپنی رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
تقوی اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو کہ ایک دن تمہیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر ہر کسی کو اسکے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، اور اُن پر کسی قسم کا ظلم بھی نہیں کیا جائے گا۔
مسلمانو!
اللہ کے پسندیدہ دین کی سِکھائی ہوئی اخلاقیات پر عمل کرو، اور دنیاوی زندگی کے دھوکے میں مت آؤ۔
اللہ کے بندو!
سنگ دلی کے اسباب سے اپنے آپ کو بچاؤ، ان اسباب میں سرِ فہرست دنیا داری ہے، کہ انسان آخرت کو بھلا کر دنیا کے پیچھے لگ جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو[١6] حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے [الأعلى: 16، 17]
سنگ دلی کا دوسرا بڑا سبب گناہوں کا ارتکاب ہے ، ان سے دل سخت ہوجاتا ہے، اسی لئے اللہ سے دور ترین وہی ہے جسکا دل سخت ہے، فرمان الہی ہے: يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد[88] بجز اس کے کہ کوئی اطاعت گزار دل لے کر اللہ کے حضور حاضرنہ ہو۔ [الشعراء: 88، 89]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: (اَللّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا, زَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا, أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا, اَللَّهُمَّ اهْدِنِيْ لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ لَا يَهْدِيْ لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ, وَاصْرِفْ عَنِّيْ سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّيْ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ) ترجمہ: یا اللہ میرے نفس کو تقویٰ عنائت فرما، اور تزکیہ نفس فرما، توں ہی بہترین تزکیہ نفس کرنے والا ہے، اس لئے کہ تو ہی اسکی والی اور مولا ہے، یا اللہ!میری اخلاقیاتِ حسنہ اور نیک اعمال کے لئے راہنمائی فرما، اس لئے کہ توہی ان کاموں کیلئے راہنمائی کرنے والا ہے، اورمجھ سے برے اعمال کو دور کردے، اس لئے کہ توں ہی اِن برے کاموں کو مجھ سے دور کرنے والا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے دعا کیا کرتے تھے: " اَلَّلهُمَّ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ وَالْأَبْصَارِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ " ترجمہ: دلوں اور آنکھو ں کو پھیرنے والے ؛یا اللہ!میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم کردے۔
اللہ کے بندو!
ہم انتہائی سخت تکالیف میں مبتلا ہیں، ہم سنگ دل ہوچکے ہیں، ان کا قرآن اور اطاعتِ الہی کے ذریعے علاج کرو، فرمانِ باری تعالی ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (یعنی) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں [الرعد: 28]
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
چنانچہ سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام بھیجو۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ !اپنے اور دین کے دشمنوں کوتباہ و برباد کردے۔
یا اللہ! توں ہمارے معاملات آسان کردے، ہماری شرح صدر فرما، یا اللہ! حلال کے ذریعے حرام سے بچا لے، اپنی اطاعت کی توفیق دیکر نافرمانی سے بچا لے، یا اللہ! اپنا فضل عنائت کرکے ہمیں دوسروں کی محتاجی سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ ! سب معاملات میں ہمیں کامیاب فرما، اور ہمیں دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہمارے حالات درست فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا ذالجلال و الاکرام۔
یا اللہ! مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی شام میں مدد فرما، یا اللہ! شام میں بچوں کی مدد فرما، یا اللہ! بوڑھوں ، عورتوں، بیواؤں اور مظلوم مسلمانوں کی مدد فرما۔
یا اللہ! یا رب العالمین! شام میں ظالموں پر اپنا عذاب اور قہر نازل فرما، یا اللہ! ان ظالموں نے تیرے احکامات سے روگردانی کی حد کردی ہے، اور توں ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہماری کوئی نہیں، تو ہر چیز سے بلند ہے، اور ہر چیز پر قادر بھی ہے، یا اللہ! مسلمانوں کو برے لوگوں سے بچا، یا اللہ! برے لوگوں کے شر سے انہیں محفوظ فرما، اور بد کردار لوگوں کی مکاریوں سے بھی محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں اپنے نفسانی شر سے بچا، برے اعمال کے شر سے بچا، اور ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! اس ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا اللہ انہیں دن دگنی اور رات چگنی ترقی عنائت فرما۔
یا اللہ خادم الحرمین الشریفین کو اپنی رضا کے مطابق کام کی توفیق دے، یا اللہ! اپنی زیر نگرانی اسکی راہنمائی فرما، یا اللہ اسے اپنے ملک و قوم اور تمام مسلمانوں کی خدمت کرنے میں مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ ! انہیں صحت و عافیت عنائت فرما۔
یا اللہ نائب خادم الحرمین کو بھی اپنی رضا کے مطابق توفیق دے، یا اللہ ! دونوں کی راہنمائی فرما، اور دونوں کی قوم ملک اور تمام مسلمانوں کی خدمت پر مدد فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے دین ، قرآن اور سنت کے غلبہ کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ یا اس سے بھی کم وقت کیلئے تنہا مت چھوڑ۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تما م مسلمانوں کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! جادو کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جادوکرنے والوں اور شعبدہ بازوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! انہیں سخت ترین سزاؤں سے دوچار کردے، یا اللہ! انکی تمام مکاریوں کو ناکام کردے، یا اللہ! کسی بھی جادو گر کو کسی بھی مسلمان پر مسلط نہ کر، یا اللہ! توں ہر چیز پر قادر ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
لنک
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 07 ذوالقعدہ1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان "رحم دلی ایک اچھا اخلاق" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نےاخلاق حسنہ کے متعلق گفتگو کی اور بتلایا کہ ہر انسان کو اخلاق اچھا ہونا ضروری اور واجب ہے، انہی اخلاقِ حسنہ میں سے "رحم کرنا "ہے، جس کے بارے میں انہوں نے قرآن و سنت کے دلائل ذکر کئے، اور پھر دنیا و آخرت میں اسکے مثبت نتائج بھی بیان کئے اور آخر میں سنگ دلی کے اسباب ذکر کرتے ہوئے ان سے دور رہنے کی تاکید کی۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو توبہ قبول کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے،میں اپنے رب کی تعریف اور لا تعداد شکر کرتا ہوں، اسی سے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے، وہی عرش کا مالک ہےاور کرم کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمام اخلاقِ حسنہ کا مجسمہ بنا کر مبعوث کیا، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اورشریعتِ الہی کے غلبہ کیلئے کوشش کرنے والے تمام صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
اللہ تعالی سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، متقی بن جاؤ، یقینا اللہ تعالی نے متقی لوگوں کیلئے بہت ہی عظیم ثواب کا وعدہ کیا ہے، اور انہیں اللہ تعالی عذاب سے بھی محفوظ رکھے گا۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے انسان کو نیک اعمال کے ذریعے اپنے فائدے کی توفیق دے کر کتنا بڑا انعام کیا ہے! اور پھر خلقِ الہی پر احسان کرنے کی توفیق بھی دی جس سے انکا دین و دنیا ہر لحاظ سے بھلا ہوگا ، حقیقت یہ ہے کہ کامیاب شخص بھی یہی ہے، یہی شخص تباہ کاریوں سے محفوظ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے[١33] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے [آل عمران: 133، 134]
غور سے سنو! اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ حمیدہ کا اللہ کے ہاں بہت ہی بلند مقام ہے، جن سے روزِ حساب ترازو بھاری ہوگا، اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوگا۔
چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (قیامت کے دن مؤمن کے ترازوکو وزنی کرنے کیلئے حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اور یقینا اللہ تعالی فحش گو اور بد زبان کو پسند نہیں کرتا) ترمذی، اور کہا کہ یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے باعث نفل روزے اور قیام کرنے والے لوگوں کے درجات تک پا لیتا ہے) ابو داود، ابن حبان، اور حاکم نے اسے روایت کیا اور کہا کہ : "بخاری مسلم کی شرائط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے"
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (نیکی اچھے اخلاق کو کہتے ہیں، اور گناہ ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے، اور تم اس بات کو ناپسند جانو کہ لوگوں کو اسکا علم ہو)مسلم
اللہ کے بندو!
رحم دلی انتہائی عظیم خوبی ہے، اللہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے عنائت کرتا ہے، اور بد بخت ہی اس سے محروم ہوتا ہے، اسلام نے رحم دلی کیلئے خوب رغبت دلائی ہے، اور اللہ تعالی نے اس پر اجر و ثواب کے وعدے کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور اخروی سعادت کابھی اعلان کیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء و الرسل پیارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی امت کے بارے میں فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت (مگر) آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب دیکھو گے؛ انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے [الفتح: 29]، ایسے ہی فرمایا: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور جو ان (کے آنے) سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور یہاں (دارالہجرت میں) مقیم تھے۔ جو بھی ہجرت کرکے اِن کے پاس آئے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں (مال)دیا جائےوہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 9]
ایسے ہی والدین کیلئے رحم دلی کے بارے میں فرمایا: وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا تھا۔ [الإسراء: 24]
جبکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اللہ تعالی نے رحمت بتلایا چنانچہ فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ اور ہم نے آپکو سارے جہانوں پر رحم کرتے ہوئے بھیجا ہے[الأنبياء: 107]
پھر رحم کرنے والوں کے ثواب کے بارے میں کہا: کہ اللہ تعالی ان پر رحم کرتا ہے، اور جس پر اللہ تعالی رحم کردے وہ کبھی بھی بد بخت نہیں ہوسکتا ، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، بلندیوں پر موجود ذات تم پر رحم کرے گی) ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کیا اور کہا: "یہ حدیث حسن اور صحیح ہے"
جس کے دل میں رحم نہیں وہ سنگ دل اور بد بخت ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (رحم صرف بد بخت لوگوں سے چھینا جاتاہے)ابو داود، ترمذی، اور کہا : "یہ حدیث حسن ہے"
معاشرے میں رحم دلی اور نرمی سے خوشحالی ، اور زندگی کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جبکہ ظلم، زیادتی، بے رحمی سے پورا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتاہے، جیسے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مسلمان آپس میں پیار محبت کے معاملے میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک حصے میں تکلیف ہوتو سارے کا سارا بدن تکلیف اور بے چینی میں مبتلا رہتا ہے)بخاری و مسلم
ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک مؤمن دوسرے مؤمن کیلئے ایک عمارت کی طرح ہیں جسکی ہر دیوار دوسری دیوار کو مضبوط کرتی ہے-اور آپ نے انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر دیکھایا-) بخاری مسلم
رحم کرنا ایمان کی بہت بڑی خوبی ہے، اور احسان کی اعلی ترین قسم ہے، اور رقتِ قلب کی ایسی کیفیت جو انسان کو دوسروں کیلئے بھلائی اور فائدے پر ابھارے اور انکی تکالیف کو دور کرنے پر اُکسائے "رحم دلی" کہلاتی ہے۔
یہ صفت انسان کیلئے کمال کا درجہ رکھتی ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم ّ موجود تھی، بقیہ لوگوں میں یہ صفت آپ سے کم پائی جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (لوگو)! تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے گراں گزرتی ہے۔ وہ( تمہاری فلاح کا) حریص ہے، مومنوں پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے [التوبة: 128]
رحم دلی کا فقدان انسان میں عیب اور کمی کی علامت ہے، اور اس عیب کی وجہ سے اتنی آفات اور برائیاں جنم لیتی ہیں جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اللہ رب العالمین کیلئے صفتِ رحمت کو ہم ایسے مانتےہیں جیسے اُسکی شایانِ شان ہے، جبکہ اسکی کیفیت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہی ہے، باری تعالی کی صفتِ رحمت کے بارے میں صحابہ کرام اور سلف صالحین سے یہی ثابت ہے۔
دنیا اور آخرت میں ملنے والی تمام نعمتیں رحمتِ الہی کے آثار میں سے ہے، یہ نعمتیں اس بات کو عیاں کرتی ہیں کہ اپنی شایانِ شان کے مطابق اللہ تعالی ازل سے ابد تک صفتِ رحمت سے متصف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اب اللہ کی اس رحمت کے نتائج پر غور کیجئے کہ وہ کیسے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے [الروم: 50]
رحمت الہی کی تفسیر ثواب یا نعمت سے کرنا منہجِ سلف صالحین کے خلاف ہے؛ رحمتِ الہی مخلوق کی رحمت سے یکسر مختلف ہے، جیسے کہ ذاتِ الہی کسی بھی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جب اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا کیا تو ایک تحریر بھی لکھی وہ عرش پر اُسکے پاس ہے: "میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے") بخاری مسلم
اسلامی شریعت کے مطابق رحم دلی سے انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، حتی کہ جانوروں پر رحم کرنا بھی قربِ الہی کا باعث ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (ایک آدمی راستے میں پیدل جارہا تھا اسے شدید پیاس کا سامنا تھا، اچانک اسے ایک کنواں نظر آیا تو اس نے کنویں میں اتر کر پانی پیا اور چلتا بنا، پھر اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس سے ہانپتے ہوئے نمی والی مٹی کھا رہا تھا، اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی ایسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی ہوئی تھی، وہ دوبارہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا اور اسے اپنے منہ سے پکڑ کر کنویں سے باہر نکلا، اور پھر اس نے کتے کو پانی پلادیا، اللہ تعالی نے اسکی اس نیکی کو سراہا، اور اسے بخش دیا) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں میں بھی ہمیں اجر ملے گا!؟ آپ نے فرمایا: (ہر جگر رکھنے والی شیء میں تمہارے لئے اجر ہے) بخاری و مسلم
عبد الرحمن بن عبد اللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ اپنی ضرورت سے ایک طرف چلے گئے، ہم نے ایک پرندہ دیکھا جسکے ساتھ دو بچے بھی تھے، ہم نے اسکے بچوں کو پکڑلیا، وہ پرندہ ہمارے اردگرد چکر لگانے لگا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ نے پوچھا : (اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے تکلیف دی ہے؟اسکے بچوں کو واپس کردو)
اور آپ نے چیونٹیوں کی بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا، آپ نے فرمایا: (اسے کس نے آگ لگائی ہے؟) ہم نےعرض کی: یہ ہم سے ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا: (آگ کا عذاب صرف آگ کا رب ہی دے سکتا ہے) ابو داود
شریعت نے کمزور، مساکین، یتیموں، اور محتاجوں پر رحم کرنے کی ترغیب دی ہے، اور تمام مستحقین کیلئے رحم واجب قرار دیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہونگے، -آپ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی ملا کر اشارہ کیا-) مسلم
انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس نے دو بیٹیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ اور میں قیامت کے دن ایسے اکٹھے آئیں گے -آپ نے اپنی ساری انگلیاں اکٹھی کرکے دیکھائیں-)مسلم
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہیں کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی روزی دی جاتی ہے اور تمہاری اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے) یہ حدیث صحیح ہے بخاری نے اسے مرسل روایت کیا ہے جبکہ دیگر علمائے کرام نے اسے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ : (جو چھوٹوں پر رحم نہ کرےاور بڑوں کے شرف و احترام کو نہ پہچانےوہ ہم میں سے نہیں)ابو داود
فرمانِ باری تعالی ہے وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ان سے کہئے کہ عمل کرتے جاؤ۔ اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے [التوبة: 105]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگووہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے جو اطاعت کرنے والوں کو عزت بخشتا ہے، اور نافرمانوں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور اسکے علاوہ کوئی معبود بھی نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں ، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد ، تمام صحابہ کرام اور آپ کے نقشِ قدم پرچلنے والے تمام افراد پر اپنی رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
تقوی اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو کہ ایک دن تمہیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر ہر کسی کو اسکے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، اور اُن پر کسی قسم کا ظلم بھی نہیں کیا جائے گا۔
مسلمانو!
اللہ کے پسندیدہ دین کی سِکھائی ہوئی اخلاقیات پر عمل کرو، اور دنیاوی زندگی کے دھوکے میں مت آؤ۔
اللہ کے بندو!
سنگ دلی کے اسباب سے اپنے آپ کو بچاؤ، ان اسباب میں سرِ فہرست دنیا داری ہے، کہ انسان آخرت کو بھلا کر دنیا کے پیچھے لگ جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو[١6] حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے [الأعلى: 16، 17]
سنگ دلی کا دوسرا بڑا سبب گناہوں کا ارتکاب ہے ، ان سے دل سخت ہوجاتا ہے، اسی لئے اللہ سے دور ترین وہی ہے جسکا دل سخت ہے، فرمان الہی ہے: يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد[88] بجز اس کے کہ کوئی اطاعت گزار دل لے کر اللہ کے حضور حاضرنہ ہو۔ [الشعراء: 88، 89]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: (اَللّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا, زَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا, أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا, اَللَّهُمَّ اهْدِنِيْ لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ لَا يَهْدِيْ لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ, وَاصْرِفْ عَنِّيْ سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّيْ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ) ترجمہ: یا اللہ میرے نفس کو تقویٰ عنائت فرما، اور تزکیہ نفس فرما، توں ہی بہترین تزکیہ نفس کرنے والا ہے، اس لئے کہ تو ہی اسکی والی اور مولا ہے، یا اللہ!میری اخلاقیاتِ حسنہ اور نیک اعمال کے لئے راہنمائی فرما، اس لئے کہ توہی ان کاموں کیلئے راہنمائی کرنے والا ہے، اورمجھ سے برے اعمال کو دور کردے، اس لئے کہ توں ہی اِن برے کاموں کو مجھ سے دور کرنے والا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے دعا کیا کرتے تھے: " اَلَّلهُمَّ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ وَالْأَبْصَارِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ " ترجمہ: دلوں اور آنکھو ں کو پھیرنے والے ؛یا اللہ!میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم کردے۔
اللہ کے بندو!
ہم انتہائی سخت تکالیف میں مبتلا ہیں، ہم سنگ دل ہوچکے ہیں، ان کا قرآن اور اطاعتِ الہی کے ذریعے علاج کرو، فرمانِ باری تعالی ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (یعنی) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں [الرعد: 28]
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
چنانچہ سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام بھیجو۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ !اپنے اور دین کے دشمنوں کوتباہ و برباد کردے۔
یا اللہ! توں ہمارے معاملات آسان کردے، ہماری شرح صدر فرما، یا اللہ! حلال کے ذریعے حرام سے بچا لے، اپنی اطاعت کی توفیق دیکر نافرمانی سے بچا لے، یا اللہ! اپنا فضل عنائت کرکے ہمیں دوسروں کی محتاجی سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ ! سب معاملات میں ہمیں کامیاب فرما، اور ہمیں دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہمارے حالات درست فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا ذالجلال و الاکرام۔
یا اللہ! مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی شام میں مدد فرما، یا اللہ! شام میں بچوں کی مدد فرما، یا اللہ! بوڑھوں ، عورتوں، بیواؤں اور مظلوم مسلمانوں کی مدد فرما۔
یا اللہ! یا رب العالمین! شام میں ظالموں پر اپنا عذاب اور قہر نازل فرما، یا اللہ! ان ظالموں نے تیرے احکامات سے روگردانی کی حد کردی ہے، اور توں ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہماری کوئی نہیں، تو ہر چیز سے بلند ہے، اور ہر چیز پر قادر بھی ہے، یا اللہ! مسلمانوں کو برے لوگوں سے بچا، یا اللہ! برے لوگوں کے شر سے انہیں محفوظ فرما، اور بد کردار لوگوں کی مکاریوں سے بھی محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں اپنے نفسانی شر سے بچا، برے اعمال کے شر سے بچا، اور ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! اس ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا اللہ انہیں دن دگنی اور رات چگنی ترقی عنائت فرما۔
یا اللہ خادم الحرمین الشریفین کو اپنی رضا کے مطابق کام کی توفیق دے، یا اللہ! اپنی زیر نگرانی اسکی راہنمائی فرما، یا اللہ اسے اپنے ملک و قوم اور تمام مسلمانوں کی خدمت کرنے میں مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ ! انہیں صحت و عافیت عنائت فرما۔
یا اللہ نائب خادم الحرمین کو بھی اپنی رضا کے مطابق توفیق دے، یا اللہ ! دونوں کی راہنمائی فرما، اور دونوں کی قوم ملک اور تمام مسلمانوں کی خدمت پر مدد فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے دین ، قرآن اور سنت کے غلبہ کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ یا اس سے بھی کم وقت کیلئے تنہا مت چھوڑ۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تما م مسلمانوں کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! جادو کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جادوکرنے والوں اور شعبدہ بازوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! انہیں سخت ترین سزاؤں سے دوچار کردے، یا اللہ! انکی تمام مکاریوں کو ناکام کردے، یا اللہ! کسی بھی جادو گر کو کسی بھی مسلمان پر مسلط نہ کر، یا اللہ! توں ہر چیز پر قادر ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
لنک