• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسولؐ اور اسوہ رسولؐ کی ضرورت

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
رسولؐ اور اسوہ رسولؐ کی ضرورت

غور کرنے کی بات ہے کہ آخر كيا وجہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے ہميشہ اپنى كتاب كے ساتھ رسول بهيجا ہے اور كبهى ايسا نہيں ہوا كہ تنہا كتاب بغير كسى رسول كے آئى ہو،حالانكہ اس كے برعكس يہ نہ صرف يہ كہ ممكن ہى ہے بلكہ عملى واقعہ بهى ہے كہ كوئى رسول، اپنى پیغمبرانہ زندگى ميں ، رسول ہونے كے باوجود، ايك مدت تك محرومِ كتاب ہى رہا ہو اور منصب ِنبوت پالينے كے ايك مدت بعد اسے كتاب ملى ہو- كيوں اس نے يہ ضرورى جانا كہ كتاب كے ساتھ ايك رسول بهى بهيجا جائے؟ اور پهر رسول جب بهى بهيجا گيا تو كوئى فرشتہ نہيں ، بلكہ انسانوں ہى ميں سے بهيجا گيا- آخر يہ كيوں ؟ __

اس کی وجہ یہ ہے كہ تنہا كتاب خواہ وہ كتنى ہى عظيم الشان ہوتى، بہرحال وہ الفاظ ہى پر مشتمل ہوتى جبكہ عملاً جو كچھ مطلوب ہوتا ہے، وہ الفاظِ كتاب نہيں بلكہ معانى كتاب ہوتے ہيں ، جن كے تعين ميں لامحالہ (اگر كتاب كے ساتھ رسول نہ ہو تو) لوگوں ميں سے ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوگا اور يہ اختلافِ معانى ٴكتاب لوگوں كو نہ تو بنيانِ مرصوص ہى بنا سكے گا نہ ہى انہيں اقامت ِكتاب (يا غلبہ دين) كى منزل تك پہنچا سكے گا- مگر رسول كى موجودگى ميں كتاب كا وہى مفہوم ‘سركارى فرمان’ قرار پائے گا جو خود رسول كا پيش كردہ ہو،كيونكہ وہ نہ صرف يہ كہ خدا كا مامور من اللہ نمائندہ ہے بلكہ اس كتاب كا شارح مجاز بهى ہے- ليكن كتاب كى ايسى توضيح و تشريح جو صرف بيان و كلام كى حد تك ہو، وہ تو خير ايك فرشتہ بهى كرسكتا ہے ليكن جو تشريح و وضاحت عملى مظاہرہ (Practical Demonstration) كى محتاج ہو وہ كوئى فرشتہ اس لئے انجام نہيں دے سكتا كہ اس كى دنيا انسانى دنيا سے یكسر مختلف ہے اور انسان سے قطعى الگ اور جداگانہ مخلوق ہونے كى بنا پر وہ انسان كے لئے نمونہٴ پيروى نہيں بن سكتا- انسانوں كى دنيا ميں تو كوئى انسان ہى اُن كے لئے اُسوہٴ حسنہ بن سكتا ہے- اس لئے اللہ تعالىٰ نے انسانوں كى راہنمائى كے لئے كتاب كے ساتھ كسى فرشتہ كى بجائے انسان ہى كو رسول اور راہنما بنا كر بهيجا ہے-

اس سلسلے میں دوسرا سوال یہ ہے کہ ‘اُسوئہ حسنہ’كا محل و مہبط کیا ہوگا؟ کتاب یا رسول؟ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ كريم نے صرف دو ہى رسولوں كو اہل ايمان كے لئے بالصراحت اُسوہ حسنہ قرار ديا ہے: ايك حضرت محمد ﷺ اور دوسرے حضرت ابراہیم عليہ السلام ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام كو جو كتاب (جسے قرآن نے ‘صحف ِابراہیم’ كہا ہے) دى گئى تهى، وہ آج مسلمان تو كيا كسى بهى قوم كے پاس نہيں ہے- سو اگراُسوہ كا مقصد (يا منكرين حديث كى زبان ميں اطاعت رسول كا مقصد) كتاب ہى كى پيروى ہوتا تو پهر آج اُسوہٴ ابراہیمى كہاں سے ليا جاتا؟!!خود قرآن مجید نے بهى صحف ِابراہیم كے الفاظ و متن كو اپنے دامن ميں محفوظ نہيں ركها، بلكہ اس كى بجائے حضرت ابراہیم عليہ السلام كے اعمالِ حيات كا تفصيلاً ذكركيا ہے اور انہى اعمال كى بنياد پر وہ آج بهى اُمت ِمسلمہ كے امام اور ملت ِابراہیمى كے بلند پايہ قائد قرار ديئے گئے ہيں – اس سے يہ ظاہر ہے كہ كسى كتاب كے نقوش و الفاظ اُسوہ نہيں بن سكتے- بلكہ اسکے حامل رسول كے اعمالِ حيات ، نقوشِ قدم ہى اُسوہ بن سكتے ہيں ۔

یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ محض نظریاتی تعلیم کسی قوم کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی۔ اصلاح کا فطری طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ایک عملی مثال قائم کی جائے جس کی وہ اتباع کر سکیں۔ اسی طرح محض نظریاتی تعلیم کسی شخص کو کسی علم جن کا ماہر نہیں بنا سکتی تاوقتیکہ اس کے ساتھ ساتھ اس علم یا فن کے کچھ اچھے ماہر کے زیر تربیت نہ رہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص میڈیکل سائنس کی تعلیم حاصل کر رہا ہو لیکن وہ کسی تجربہ کار ڈاکٹر کی نگرانی میں کام نہیں کرتا تو کتابوں کے بھرپور مطالعے کے باوجود وہ ڈاکٹری کی خدمات انجام نہیں دے سکتا اور نہ ایسے شخص کو مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔اگر کوئی صاحب قانون کے طالب علم ہوں تو جب تک وہ کسی ماہر اور سینئر قانون دان سے اس کام کی عملی تربیت حاصل نہیں کر لیتے اور وہ ایک معتدبہ وقت اس کی ماتحتی میں نہیں گزار لیتے وہ ایک قانون دان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکے۔
علوم اور فنون کی بات تو الگ رہی ایک عام شخص جسے اچھا کھانا پکانے کا شوق چرائے تو وہ محض اس موضوع پر کتابوں کو پڑھ کر اچھا کھانا نہیں بنا سکتا حالانکہ کھانا پکانے کے اجزائے ترکیبی، اس کا طریقہ اور معمولی سے معمولی بات بھی کتاب میں وضاحت سے بیان کی گئی ہوتی ہے۔ لیکن وہ شخص جس نے کبھی کھانا بنایا ہی نہیں عمدہ اور لذیذ کھانا محض کتاب پڑھ کر نہیں بنا سکتا جب تک وہ کسی ماہر سے تربیت حاصل نہ کرے۔ وہ ماہر اس کو وہ کام عملی طور پر کر کے دکھاتا ہے اور یہ شخص اس کو دھراتے دھراتے آہستہ آہستہ اچھا کھانا بنانا سیکھ لیتا ہے۔اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کسی اہم بات کو سیکھنے کے لئے ہمیشہ ایک عملی مثال کی ضرورت مند ہوتی ہے اور دوسرے موضوعات کی طرح مذہبی تعلیم و تربیت کے لئے بھی یہ بات اتنی ہی صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے آسمانی کتابیں نازل کرنے پر اکتفا پسند نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ آسمانی کتاب کے ساتھ کوئی پیغمبر ضرور بھیجا گیا۔ کفار مکہ نے بھی کئی بات یہ مطالبہ کیا کہ کتاب کو نبی کریم صللی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ان پر براہ راست نازل کر دیا جائے لیکن یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا اور کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے ہی بھیجی گئی۔اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ انسانیت کو صرف ایک آسمانی کتاب کی ضرورت نہ تھی بلکہ اسے ایک معلم کی بھی ضرورت تھی جو کتاب کے مندرجات کی تعلیم بھی دے سکے۔ اسے ایک مربی کی بھی حاجت تھی جو انسانوں کو تربیت دے سکے اور جو ان کے لئے ایک ایسا عملی اسوۂ حسنہ قائم کر سکے۔ جس کے بغیر وہ اپنی عملی زندگی میں کتاب سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
حضوراکرمﷺ اسی لیے نبی بناکر امت کے درمیان بھیجے گئے تاکہ آپﷺ عملی زندگی کی ایک مثال قائم کریں اور اپنے شب وروز کی زندگی خواہ وہ خلوت ہویاجلوت، داخلی امورہوں یاخارجی، شخصی مسائل ہوں یاملی حالات ، اب سب امور میں اپنا ایک اسوۂ حسنہ رہتی دنیا تک کے لیے چھوڑیں؛ تاکہ ساری انسانیت کے لیے آپﷺ کا طرزِزندگی حجت بنارہے؛ اسی حقیقت کو قرآن نے ایک جگہ یوں بیان فرمایا:

“لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”۔(الأحزاب:۲۱) ترجمہ :تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین عملی نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہر کار خیر میں نمونہ ٹھہرے تو اب مومن کا ہر کام رسول مقبولﷺ کی تابعداری سے مشروط ہوگیا، نماز و زکوٰۃ کی ہر ادا عمل رسول اورحکم رسول کے تحت آگئی، نماز کا طریقہ اورزکوۃ کا نصاب کسےمعلوم تھا؟ ان احکام پر عمل کی راہیں کس مسلمانوں کو معلوم تھیں؟ ظاہرہے کسی کو معلوم نہ تھیں، یہ عمل رسول اورحکم رسول ہی تھا جسے نماز اورزکوٰۃ کو لائق عمل بنایا، اطاعت رسول کے بغیر یہ دونوں حکم ناقابل عمل تھے،اس لیے نماز اورزکوٰۃ کے ساتھ اطاعت رسول کی ہدایت کی گئی۔”وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”۔ (النور:۵۶)ترجمہ :اور نماز قائم کرو اورزکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی فرمانبرداری کر؛ تاکہ تم پر مہربانی ہو۔

یہاں اطیعواللہ کا ذکر نہیں، اللہ کے دو حکم نماز اورزکوٰۃ کے مذکور تھے، ان پر عمل کی راہ بجز اطاعت رسول کے کوئی نہ تھی،اس لیے اس آیت میں صرف اطیعوالرسول کہا؛ تاکہ نماز اورزکوٰۃ کی راہ تمھیں معلوم ہوجائے معلوم ہوا جس طرح نماز وزکوٰۃ خدا کے حکم ہیں، اطاعت رسول بھی اسی طرح بالاستقلال ایک حکم ہے۔

کاپی
 
Top