• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بوقت وفات عمر کیا تھی؟

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس اعتراض کا مدلل اور جلد جواب چاہیے۔
10595825_116201442086485_1137066584_n.jpg
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جی اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں ، منکرین حدیث کا اس کو لے کر ہلکان ہونا ، اور یہ سمجھنا کہ ساری امت اسلامیہ اسی حیرت و پریشانی میں مبتلا ہے ، جس میں احادیث سے بد ظن ایک طبقہ ہے ، تو ایسی کوئی بات نہیں ،الحمدللہ روایات ماننے والے شروع سے ہی اس سلسلے میں ایک واضح موقف رکھتے ہیں ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم 63 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ، رہا ساٹھ سال کا عدد ، تو یہ 63 کے مخالف نہیں ، کیونکہ اعداد بیان کرتے ہوئے یہ عام انداز ہے کہ ایک تقریبی اندازہ پیش کرنے کے لیے صرف دہائیاں ذکر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ، اور ساتھ اکائیوں کے فرق کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ۔ خوۤ حدیث کے اندر بھی ’’ عمرہ ستون سنۃ ‘‘ کے الفاظ نہیں بلکہ ’’ علی رأس ستین ‘‘ کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
صحيح البخاري (7/ 161)
5900 - عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه سمعه يقول: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل البائن، ولا بالقصير، وليس بالأبيض الأمهق، وليس بالآدم، وليس بالجعد القطط، ولا بالسبط، بعثه الله على رأس أربعين سنة، فأقام بمكة عشر سنين، وبالمدينة عشر سنين، وتوفاه الله على رأس ستين سنة، وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء»
صحيح مسلم (4/ 1824)
113 - (2347) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ، بَعَثَهُ اللهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ»

جبکہ جہاں تریسٹھ سال کا ذکر ہے ، وہاں صریح الفاظ ہیں کہ آپ بوقت وفات آپ کی عمر مبارک 63سال تھی ، ملاحظہ فرمائیں :
صحيح البخاري (4/ 186)
3536 - حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم: «توفي، وهو ابن ثلاث وستين»، وقال ابن شهاب، وأخبرني سعيد بن المسيب مثله
3902 - حدثنا مطر بن الفضل، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا هشام، حدثنا عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم لأربعين سنة، فمكث بمكة ثلاث عشرة سنة يوحى إليه، ثم أمر بالهجرة فهاجر عشر سنين، ومات وهو ابن ثلاث وستين»
صحيح البخاري (5/ 57)
3903 - حدثني مطر بن الفضل، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا زكرياء بن إسحاق، حدثنا عمرو بن دينار، عن ابن عباس، قال: «مكث رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة ثلاث عشرة، وتوفي وهو ابن ثلاث وستين»
صحيح مسلم (4/ 1825)
114 - (2348) حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الرَّازِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ زَائِدَةَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَعُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ»
صحيح مسلم (4/ 1826)
119 - (2352) وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، فَذَكَرُوا سِنِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَعْضُ الْقَوْمِ كَانَ أَبُو بَكْرٍ أَكْبَرَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللهِ: «قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَمَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَقُتِلَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ»
قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ يُقَالُ لَهُ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ فَذَكَرُوا سِنِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً، وَمَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَقُتِلَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ»

رہا 65 سال کا عدد ، تو یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ملاحظہ فرمائیں :
صحيح مسلم (4/ 1827)
122 - (2353) وحَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «تُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ»

یہاں بلاشبہ دوسال کا فرق آگیا ، لیکن اس کی تصحیح دیگر روایات سے ہوجاتی ہے ، جو اوپر گزر چکی ہیں ، لہذا مؤرخین امت اور علماء اسلام نے اس سلسلے میں حیرت و تضاد کا رونا رونے کی بجائے ، روایات کو روایات کے ساتھ ملا کر یہ بآسانی یہ نتیجہ نکالا ہے ، کہ درست عدد 63 سال ہی ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتےہیں :
ذَكَرَ فِي الْبَابِ ثَلَاثَ رِوَايَاتٍ إِحْدَاهَا أَنَّهُ صلى الله عليه وسلم توفى وهو بن سِتِّينَ سَنَةٍ وَالثَّانِيَةُ خَمْسٌ وَسِتُّونَ وَالثَّالِثَةُ ثَلَاثٌ وَسِتُّونَ وَهِيَ أَصَحُّهَا وَأَشْهَرُهَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ هُنَا من رواية عائشة وأنس وبن عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ أَصَحَّهَا ثَلَاثٌ وَسِتُّونَ وَتَأَوَّلُوا الْبَاقِي عَلَيْهِ فَرِوَايَةُ سِتِّينَ اقْتَصَرَ فِيهَا عَلَى الْعُقُودِ وَتَرْكِ الْكَسْرِ وَرِوَايَةُ الْخَمْسِ مُتَأَوَّلَةٌ أَيْضًا وَحَصَلَ فِيهَا اشتباه وقد أنكر عروة على بن عَبَّاسٍ قَوْلَهُ (خَمْسٌ وَسِتُّونَ) وَنَسَبَهُ إِلَى الْغَلَطِ وَأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ أَوَّلَ النُّبُوَّةِ وَلَا كَثُرَتْ صُحْبَتُهُ بِخِلَافِ الْبَاقِينَ
وَاتَّفَقُوا أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَ بِالْمَدِينَةِ بَعْدَ الْهِجْرَةِ عَشْرَ سِنِينَ وَبِمَكَّةَ قَبْلَ النُّبُوَّةِ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَإِنَّمَا الْخِلَافُ فِي قَدْرِ إِقَامَتِهِ بِمَكَّةَ بَعْدَ النُّبُوَّةِ وقيل الْهِجْرَةِ وَالصَّحِيحُ أَنَّهَا ثَلَاثَ عَشْرَةَ فَيَكُونُ عُمْرُهُ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرْنَاهُ أَنَّهُ بُعِثَ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةٍ هُوَ الصَّوَابُ الْمَشْهُورُ الَّذِي أَطْبَقَ عَلَيْهِ الْعُلَمَاءُ وَحَكَى الْقَاضِي عِيَاضٌ عن بن عَبَّاسٍ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ رِوَايَةً شَاذَّةً أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثَ عَلَى رَأْسِ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعِينَ سَنَةٍ وَالصَّوَابُ أَرْبَعُونَ كَمَا سَبَقَ ۔ شرح النووي على مسلم (15/ 99)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اعتراض کرنے والے نے یہ نمایاں کرنے کی کوشش کی کہ اتنے عظیم پیغمبر کی وفات میں لوگوں کا اختلاف ہے ، کہ کب ہوئی ؟ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ، تاریخ وفات میں تو کوئی اختلاف نہیں ، مجموعی عمر بیان کرنے میں ہلکا سا اختلاف ہے ، اور اس کی حقیقت بھی اوپر واضح کردی گئی ہے ۔
پھر یہ کہا کہ ’’ روایات کے ذریعے اسلام پیش کرنے والے سوچنے والوں کو کیا جواب دیں گے ۔۔ ‘‘ تو ہم ان سوچنے والوں مشورہ ہی دے سکتے ہیں ، کہ جتنی سوچ روایات کو رد کرنے میں لگاتے ہوئے ، اگر یہی سوچ روایات کا صحیح معنی و محمل سمجھنے میں صرف کرو ، تمام رونے ، دھونے ختم ہو جائیں گے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو تین قسم کی روایات کا تضاد ذکر کیا جارہا ہے ، دوسری طرف ’’ سوچنے والے ذہنوں ‘‘ کی بات بھی ہورہی ہے ، حالانکہ اگر ان ذہنوں میں مثبت سوچ کی صلاحیت ہوتی تو سرے سے کوئی تضاد ہے ہی نہیں تھا ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
منکرین حدیث امت کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے -جو کہ قرآن مجید کا حکم ہے- دور کر کے نفس کی اتباع میں لانے کے لئے احادیث کا اپنی طرف سے مطلب بیان کرنا اور ان میں تعارض بتا کر ان سے امت کو دور کرنے کی ناکام سازش میں لگے ہوئے ہیں۔

ان کی اس سازشی اعتراضات میں سے ایک اعتراض کا جواب دینے کی ہم نے کوشش کی ہے، ممکن ہے کسی حق پسند کو سمجھ آجائے اور وہ اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے بھیجا کہ ان کی اتباع کی جائے اور ان کو اس لئے بھی بھیجا کہ وہ آیات تلاوت فرمائیں اور لوگوں کا تزکیہ کریں اور ان کو قرآن ہ حکمت کی باتیں بتائیں جیسا کہ یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھئے سورہ الجمعہ آیت نمبر ۲)

اب یہی حکمت کی باتیں ہمیں احادثِ مبارکہ سے ملتی ہے، یہی احادیثِ مبارکہ ہے جن سے ہمیں قرآن کی تشریح و تفسیر ملتی ہے۔

خیر اعتراض اور اس کے جواب سے پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں اور آپ سب خود اپنے اپنے علاقہ میں ایسا کرتے ہوں گے۔

کسی عدد کو بتانے کے لئے کبھی تو پورہ بتاتے ہیں اور کبھی اس کو دھائیوں میں بتاتے ہیں مثلاً

کسی چیز کو آپ نے ۳۵۳۵ میں خریدا ہو، تو کسی کے پوچھنے پر تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی میں نے اس کو ساڑھے تین ہزار میں خریدا ہے، اسی طرح کبھی کسی کو پورا عدد بتاتے ہیں کہ میں نے اس کو تین ہزار پانچ سو پینتیس میں خریدا وغیرہ وغیرہ۔

اب آئیے منکرین حدیث کا اعتراض دیکھتے ہیں۔

منکر حدیث صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

“اس میں ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال بتائی ہے اور ایک میں 60 سال۔”

اس اعتراض میں کچھ دم نہیں اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں فرمایا

«تُوُفِّيَ، وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ»

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم سن رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ 2348، صحیح بخاری کتاب المناقب باب وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 3536 عن عائشۃ رضی اللہ عنہا)

اور دوسری روایت میں فرمایا

تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساٹھ سال کے سرے پر اللہ تعالیٰ نے وفات دی۔(کتاب اللباس باب الجعد حدیث 5900)

آپ نے جو اوپر مثال سمجھی کہ کبھی ہم دہائیوں میں بات کہتے ہیں اور کبھی تفصیل سے دہائیوں کے ساتھ آنے اور پائی بھی ذکر کرتے ہیں۔

اور آپ روایت کے الفاظ اگر دیکھیں گے تو اس میں بھی وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ صرف 60 سال نہیں بلکہ “علی راس” کا لفظ استعمال فرمائے ہے یعنی 60 سال کے سرے پر اور دہائی کے اوپر کے عدد کو عرب لوگ کبھی واضح کرتے تھے کبھی حذف کرتے تھے جیسا کہ ہم بھی کرتے ہیں۔ تو اس میں شرعاً، عقلاً اور عرفاً کوئی خرابی نہیں ہے، بس اعتراض کرنے والے کے دماغ میں فطور ہے۔

آنکھیں اگر ہیں بند تو پھر دن بھی رات ہے

اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتا ب کا

آخر میں ایک گذارش یہ ہے کہ اگر کوئی دہریہ قرآن پر اعتراض کریگا تو کیا آپ قرآن چھوڑ دو گے؟؟؟

نہیں نا، تو پھر ان جیسے اعتراض اگر آپ کے سامنے آئیں تو علماء حق سے رجوع ہوں ان شاء اللہ تشفی بخش جواب ملے گا۔

اللہ پاک ہم کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل کے مکر و فریب سے ہماری اور پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

منقول: https://difaeislam.wordpress.com/category/رد-منکرین-حدیث/
 
Top