• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنے کی شرعی حیثیت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنے کی شرعی حیثیت


سوال : ہم بہت سے لوگوں کو ، '' مدد یارسول اللہ ''، '' مدد یانبی اللہ '' کے کلمات پکارتے ہوئے سنتے ہیں ، شریعت اسلامیہ میں اس کا کیاحکم ہے؟۔
جواب : سماحتہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا :
مدد یانبی اللہ ، مدد یارسول اللہ کہہ کر پکارنا شرک اکبر ہے، اس کلمہ کامعنی نبی ﷺ سے مدد طلب کرناہے۔ نبی اکرم ﷺ سے صحابہ رضی اللہ عنہ، اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے علماء اہل سنت والجماعت تمام اس بات پر متفق ہیں کہ مردوں مثلاً انبیاء علیہم السلام غائب لوگوں مثلاً فرشتے اور جنات وغیرہ، اسی طرح بتوں، پتھروں ،درختوں یاستاروں وغیرہ سے مدد طلب کرناشرک اکبر ہے۔
اس کی دلیل اللہ عزوجل کافرمان ہے : وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا۝۱۸ۙ
'' اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو''۔
نیز فرمان الہی ہے: ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۝۱۳ۭ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۝۰ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ۝۱۴ۧ
(یہی اللہ تم سب کاپالنے والا ، اسی کی سلطنت ہے جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو، وہ توکھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں، اگر تم انہیں پکارو تووہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں، اور اگر (بالفرض )سن ہی لیں ، تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے آپ کوکوئی بھی حق تعالی جیسا خبردار خبریں نہ دے گا)۔
اور اللہ عزوجل کافرمان ہے: وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ۝۰ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝۱۱۷
(جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ، پس اس کاحساب تواس کے رب کے اوپر ہی ہے بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں )۔
اس مفہوم کی آیتیں بہت زیادہ ہیں ۔
اللہ کے سوا غیروں سے مدد طلب کرنا یہ مشرکین اولین کفار قریش وغیرہ کادین تھا، اللہ عزوجل نے اسی باطل عقیدہ کی تردید ، اور اس سے ڈرانے کے لئے تمام تررسولوں کو بھیجا ، اور آسمانی کتابیںنازل کیں۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔(النحل: ۳۶)
'' ہم نے ہرامت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ کی عبادت کرو ، اوراس کے سوا تمام معبودوں کی عبادت سے بچو''۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵
(تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف بھی وحی نازل فرمائی ، کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،پس تم سب میری ہی عبادت کرو)۔
'' الر۔ یہ ایک کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں ، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے ، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو،میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا، اور بشارت دینے والاہوں''۔
نیز فرمان الہی ہے: تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۱
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۲ۭ
اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ فِيْ مَا ہُمْ فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۰ۥۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۝۳

'' اس کتاب کااتارنا اللہ تعالی غالب و حکمت والے کی طرف سے ہے، یقیناً ہم نے اس کتاب کوآپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے، پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ،خبردار ، اللہ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے، اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنارکھے ہیں (اور کہتے )کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ)اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کررہے ہیں، اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود)کرے گا، جھوٹے اور ناشکرے لوگوں کو اللہ تعالی راہ نہیں دکھاتا''۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے مذکورہ بالا آیات میں واضح فرمادیا ہے کہ رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نازل کئے جانے کامقصد یہ تھا کہ ہر طرح کی عبادت مثلاً دعا، مدد طلب کرنا ، خوف، امید ، نماز ، روزہ ، ذبح اور اس کے علاوہ تمام تر عبادتیں صرف اور صرف ایک اللہ کے لئے انجام دی جائیں ، جس کاکوئی شریک و ساجھی نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے مذکورہ آیات میں یہ بھی بتلا دیا کہ مشرکین مکہ وغیرہ کو جب انبیاء و رسل اور دیگر داعیان حق ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے ، تووہ ان کے جواب میں کہتے تھے:ہم ان اولیاء کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے ۔
مفہوم یہ ہوا کہ مشرکین مکہ ان اولیاء کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ ان کے ذریعہ انہیں اللہ کاقرب حاصل ہوجائے اور یہ اللہ کے یہاں ان کی سفارش کر دیں، یہ سمجھ کر ان کی عبادت نہیں کرتے تھے کہ یہ خالق ، رازق ، اور مدبر کائنات ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کے جھوٹ کوواشگاف کردیا، اور اس عقیدہ کی بناپر انہیں کافر قرار دیا ، اللہ سبحانہ و تعالی کافرمان ہے: اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ فِيْ مَا ہُمْ فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۰ۥۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۝۳
'' یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کررہے ہیں اس کا(سچا)فیصلہ اللہ (خود) کرے گا، جھوٹے اور ناشکرے لوگوں کو اللہ تعالی راہ نہیں دکھاتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے واضح فرمادیا کہ کفار اپنی اس بات میں جھوٹے ہیں کہ یہ اولیاء جن کی اللہ کے سوا پوجا کی جاتی ہے وہ انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے، ان کے اس اعتقاد کی وجہ سے اللہ نے ان پر کافر ہونے کاحکم لگایا، اللہ سبحابہ و تعالی نے فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۝۳
'' جھوٹے اور ناشکرے لوگوں کو اللہ تعالی راہ نہیں دکھاتا ''۔
اور اللہ تعالی نے سورہ یونس کی ایک دوسری آیت کریمہ میں (مشرکین مکہ کاعقیدہ) بیان کیا، کہ وہ اپنے معبودان باطلہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہیں ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے: وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۔
'' اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہونچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہونچا سکیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ''۔
پھر اللہ تعالی نے ان کے جھوٹ کوواضح کردیااور فرمایا : قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۱۸
'' آپ کہہ دیجئے کہ کیاتم اللہ تعالی کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو، جو اللہ تعالی کو معلوم نہیں نہ آسمانوں میں ، نہ زمین میں ، وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے''۔
اللہ تعالی نےسورہ الذاریات میں بیان فرمایا کہ جن و انس کی پیدائش کامقصد یہ ہے کہ
وہ غیروں کی عبادت سے بچتے ہوئے تن تنہا صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے''۔
لہذا تمام جنوں اور انسانوں پر خالص ایک اللہ تعالی کی عبادت کرنا، اور اس کے علاوہ انبیاء وغیرہ سے مدد طلب کرنا، یاکسی بھی طرح کی عبادت ان کے لئے انجام دینے سے اجتناب کرناضروری ہے، تاکہ مذکورہ بالا اور اس مفہوم کی دوسری دیگر آیات اور نبی کریم ﷺ اور دیگر انبیاء و رسل سے اللہ کی عبادت سے متعلق ثابت چیزوں پر عمل ہوجائے، کیونکہ تمام تر انبیاء نے لوگوں کو توحید اور اس کے سوا تمام تر معبودوں کی عبادت سے بچتے ہوئے صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی ، اور انہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے ، اور ان کی عبادت سےمنع فرمایا ، یہی دین اسلام کی جڑاور بنیاد ہے، جسے دے کر اللہ نے تمام تر رسولوں کو بھیجا ، کتابیں نازل کیں، اور اسی کے لئے جن و انس کو پیدا فرمایا۔
لہذا جس نے انبیاء وغیرہ سے فریاد رسی کی ، اور ان سے مدد کاسوال کیا، یاان کاتقرب چاہنے کے لئے کچھ عبادتیں ان کے لئے انجام دیں، تو یقیناً اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اور اس کے ساتھ دوسروں کی پوجا کی، اور وہ اللہ تعالی کی ان وعیدوں میں شامل ہوگیا جن کو اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل آیات میں بیان فرمایا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۸۸
'' اگر بالفرض یہ حضرات (انبیاء کرام )بھی شرک کرتے توجوکچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے''۔
نیز اللہ عزوجل کافرمان ہے : وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ
لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۶۵

'' ( اے نبی ﷺ) یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی کہ اگر تونے شرک کیاتوبلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائیگا، اور بالیقین تونقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا''۔
نیز فرمان الہی ہے : اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ
'' یقیناً اللہ تعالی اپنے ساتھ شرک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ۔
نیز اللہ سبحانہ و تعالی کافرمان ہے : اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲
'' یقین مانو جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے ، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ''۔
مذکورہ آیات اور ان کی وعیدوں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے ، الا یہ کہ جسے دعوت توحید مسلمان خطوں سے بہت دور ہونے کی وجہ سے نہ پہونچی ، نہ تواسے قرآن کریم اور نہ ہی نبی ﷺ کی احادیث پہونچیں ، تو اس کا معاملہ اللہ سبحانہ و تعالی کے حوالہ ہے ۔
اس بارے میں اہل علم کی رائیں مختلف ہیں ان میں صحیح قول یہ ہے کہ بروز قیامت میدان حشر میں اس کاامتحان لیاجائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں ، اور جونافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا۔
اسی طرح بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے کفارو مشرکین کے بچوں کی بابت اہل علم کے مابین اختلاف ہے، ان میں سے دو اقوال صحیح ہیں ، جو ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
پہلا قول : بروز قیامت میدان محشر میں ان کاامتحان لیاجائیگا جو حکم الہی کومان لے گا وہ جنت میں ، اور جونافرمانی کریگا جہنم میں جائے گا کیونکہ جب نبی ﷺ سے مشرکوں کے بچون کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :'' وہ جو کچھ کرنے والے تھے اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے ''۔ (اس حدیث کی صحت پر محدثین کااتفاق ہے )۔
چنانچہ جب قیامت کے دن ان کاامتحان لیاجائیگا توان کے بارے میں اللہ کاعلم ظاہر ہوجائیگا۔
دوسرا قول : مشرکوں کے بچے جنتی ہیں ، کیونکہ وہ شرعی احکام کے مکلف ہونے سے پہلے ہی فطرت اسلام پر انتقال کرگئے جیسا کہ نبی ﷺ سے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :'' ہر بچہ دین اسلام کی فطرت پر پیداہوتا ہے ، اب اس کے والدین یاتواسے یہودی یانصرانی یامجوسی بنالیتے ہیں ''۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کفار و مشرکین کے بچوں کے بارے میں دوسرا قول سب سے صحیح ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے : وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵
'' اور ہماری سنت نہیں ہے کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب دینے لگیں ''۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، جیسا کہ فتح الباری (ج ۳ ص ۷۴۲) کتاب الجنائز ماقیل فی اولاد المشرکین کی شرح میں رقمطراز ہیں :
(یہی قول صحیح اور پسندیدہ ہے جس کو علماء محققین نے اختیار کیا ہے )نیز زندہ حاضر شخص کو کسی ایسی چیز میں مدد کے لئے پکارنا جس کے انجام دینے کی وہ قدرت رکھتا ہو شرک نہیں ہے ۔
اس کی دلیل اللہ عزوجل کایہ فرمان ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کے آدمی نے موسیٰ سے اس کے خلاف جو ان کے دشمنوں میں سے تھا فریاد کی، اس لئے کہ ہر انسان جہاد میں اور ہر اس معاملہ میں دوسروں کی مدد کامحتاج ہوتاہے جس میں وہ اس کی مدد کی طاقت رکھتے ہوں، یہ چیز شرک کی قبیل سے نہیں ، بلکہ جائز امور میں سے ہے ، اور شرعی دلائل کے مطابق کبھی یہ باہمی تعاون مسنون اور کبھی واجب بھی ہوتا ہے ، واللہ ولی التوفیق۔
 
Top