کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
رسول رحمتﷺ کی ایک اہانت اور ہماری ذمہ داری
يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
حافظ حسن مدنی
اسلام انسانیت کے لئے ربّ ذوالجلال کا پسند فرمودہ آخری دین ہے۔ اپنی تعلیمات وتفصیلات کے اعتبار سے اسلام ہی ایک کامل واکمل اور متوازن و معتدل دین کہلانے کا حق دار ہے جس میں رہتی دنیا تک فلاحِ انسانیت کی ضمانت موجود ہے۔ دنیا میں آج بھی اگرکسی دین پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے تو وہ صرف دینِ اسلام ہے، یہ خصوصیت بلاشرکت ِغیرے صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل دیگر مذاہب کا دعویٰ کرنے والے گو اپنی تعداد کے اعتبار سے کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن عملاً ان کی حیثیت ایسے ’مذاہب ِمُنتسبہ‘ سے زیادہ نہیں جسے محض عقیدتاً اپنی فطرت کی تسکین کے لئے بطورِ مذہب ذکر کردیا جاتا ہے۔
دورِجدید میں ریاست کاادارہ غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے، اورعصری مفکرین ہر قسم کے حقوق پر ریاست کے حقوق کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ریاست کا یہ جدید تصور ایک قوم ونسل اور ارضِ وطنکی خدمت سے عبارت ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کا تصورِ ریاست زمین اور نسل سے بالا تر ہوکر عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے،جس میں سب سے محترم استحقاق اس ذاتِ مقدسﷺ کو حاصل ہے جس پر اس دین کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس لحاظ سے جدید مفکرین کا ریاست کے حقوق کو بالا تر قرار دینے کے نظریہ کے بالمقابل اسلام میں اس شخصیت کا حق سب سے بالاتر قرار پاتا ہے جو مسلم قوم کی یکجہتی اور اجتماعیت کے علاوہ انکے عقیدہ ونظریہ کا مرکز و محور ہو۔مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر ارضِ وطن کے حقوق سے برتر عائد ہونے والا حق اس ذاتِ مصطفویت کا ہے جنہیں قرآن نے ’رحمتہ للعالمین‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔اس دین کا دار ومدار اور مرکز و محور سید الانس والجن حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ کی ذاتِ ستودئہ صفات انسانیت کے لئے لازوال تحفہ اور عدیم المثال منارئہ رُشد وہدایت ہے۔ اسلام میں سب سے متبرک حیثیت تصورِ نبوت کو حاصل ہے جس کے گرد تمام عقائد ونظریات گھومتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپؐ کی ذات پر ایمان وایقان کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے تمام عقائد و نظریات حتیٰ کے اللہ تعالیٰ کی مشیت و منشا تک رسائی حاصل کرتے ہیںـ۔ محمدﷺ پر اس ایمان میں اگر کوئی کمی اور شک و شبہ لاحق ہوجائے تو نہ صرف قرآنِ کریم پر ایمان متزلزل ہوجائے بلکہ اسلام کے تمام نظریات میں گہری دراڑیں پڑ جائیں۔ اس اعتبار سے دین میں سب سے مرکزی حیثیت منصب ِرسالت کو حاصل ہے اور منصب ِرسالت کی یہی مرکزیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ کی ذاتِ گرامیؐ ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں کا مرکز و محور قرار پائے اور ایمان کواس سے مشروط کردیا جائے۔
اس دور میں بسنے والے انسان اس لحاظ سے انتہائی قابل رحم ہیں کہ ان کی زندگیوں میں محسن انسانیت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو وسیع پیمانے پر سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ ظلم وستم دنیا کے ایسے ممالک میں وقوع پذیر ہوا جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے چمپئن قرار دیتے ہیں۔ سکنڈے نیویا کے ان ممالک کو شخصی آزادیوں اور فلاحی معاشروں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ذاتِ نبویؐ کی اہانت کی کوششوں نے جہاں ان ممالک میں بسنے والوں کی تہذیب وشائستگی کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے، وہاں اس مغربی تہذیب وفلسفہ کے دعووں کا تارو پود بھی بکھیر دیا ہے جو روا داری، انسانیت دوستی، باہمی احترام و آشتی، مذہبی مفاہمت،وسیع النظری، وسعت ِقلبی اور توازن واعتدال کے خوبصورت نعروں سے بھری پڑی ہے۔ تہذیب ِمغرب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ایسے دیدہ زیب نعروں پر قائم ہیں جو مفہوم ومعانی سے محروم ہیں۔آج کا دور حقوق کے نعروں اور آزادی کے غلغلوں کا دورہے۔ اس دور کا آزاد منش انسان اپنے حقوق کے حصول کے لئے سرگرم ہے، انسانی حقوق کا چارٹر اقوامِ متحدہ نے اس کے ہاتھ میں دے کر انسانیت کو گویا ایک متوازی مذہب تھما دیا ہے لیکن یہ نادان انسان اپنے حقوق کے غلغلے میں اس شرفِ انسانیت سید المرسلینﷺ کے حقوق کو پامال کرنے پر تلا بیٹھا ہے جو انسانیت کی معراج اور اعزاز وتکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔ اپنے چند خود ساختہ حقوق کی رو میں انسان کو محسنِ انسانیتﷺ کے ’اُمّ الحقوق‘ کا بھی کوئی پاس نہیں رہا جو ذات انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر رشد وہدایت پر فائز کرنے کے لئے مبعوث کی گئی ۔