محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
مترجم: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 19-شعبان-1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان "رمضان، خیر و برکت کی بہار" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے مسلمان کی زندگی پر ہونے والے عبادت کے اثرات پر گفتگو کی، اور بتلایا کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء و رسل کو بھی عبادت کا حکم دیا، بلکہ انہیں لوگوں کوعبادت کی طرف بلانے کیلئے ہی مبعوث فرمایا، اسی سلسلے میں اللہ تعالی نے رمضان المبارک کو پورے اسلامی سال پر فضیلت دی، پھر انہوں نے مسلمانوں کو نیکیوں کی رغبت دلاتے ہوئے رمضان المبارک کی فضلیت میں احادیث نبویہ بھی ذکر کیں تاکہ خیرو برکت کی بہار میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں لوٹ سکیں۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام ہوں۔
حمد اور درود و سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، خلوت و جلوت ہر حالت میں اسی سے ڈرو۔
مسلمانو!
اپنے خالق کی اطاعت تمام مخلوقات کیلئے باعث شرف و عزت عمل ہے، اور اسے اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا جو شخص عزت چاہتا ہے تو عزت تمام تر اللہ ہی کے لئے ہے [فاطر: 10]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "انسان جس قدر اللہ کی بندگی کرتا ہے اسی قدر کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے"
اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی تعریف بھی کی ہے، فرمایا: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ بلاشبہ ابراہیم بڑے بردبار، نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے [هود: 75]
جبکہ موسی کلیم اللہ کو عبادت کا حکم دیا تو فرمایا: إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہذا میری ہی عبادت کرو [طه: 14]
ایسے ہی داود علیہ السلام بھی بہت زیادہ عبادت گزار تھے، آپ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے ، اور آدھی رات آرام کرنے کے بعد تیسرے حصہ میں قیام کرتے اور پھر دوبارہ کچھ دیر آرام کرتے تھے۔
زکریا علیہ السلام کو نرینہ اولاد کی خوشخبری عبادت گزاری کے دوران ہی موصول ہوئی، جسکا تذکرہ قرآن مجید میں کچھ یوں ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى جب زکریا محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے تو انہیں فرشتوں نے پکارا اور کہا کہ: ''اللہ تعالیٰ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے '' [آل عمران: 39]
اور عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسی بات کا حکم دیا، وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ اور اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے لہذا اسی کی عبادت کرو [مريم: 36]
اور اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر کے بارے میں فرمایا: بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجئے اور اس کے شکرگزار بن کر رہئے [الزمر: 66] پھر اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو لمبا قیام کرتے جسکی وجہ سے آپکے قدم مبارک بھی سوج جاتے، اور ہر سال اعتکاف بھی کرتے، اللہ نے آپکو یہ حکم بھی دیا کہ آپ لوگوں کو بتلادیں کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا، فرمایا: قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ مجھے تو بس یہی حکم ہوا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں [الرعد: 36]
ایسے ہی اللہ تعالی نے کفارِ قریش سے بھی صرف اپنی عبادت کا مطالبہ قرآن مجید میں کیا فرمایا: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ انہیں چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے مالک کی (ہی) عبادت کریں [قريش: 3]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کثرتِ عبادت کی ترغیب دی، فرمایا: (کثرت سے اللہ کیلئے سجدے کیا کرو؛ کیونکہ ہر سجدے کے بدلے میں اللہ تعالی تمہارے درجات بلند کریگا، اور گناہوں کو مٹائے گا)مسلم
اسکے ساتھ ساتھ اللہ نے تمام مخلوقات پر اپنی عبادت لازم قرار دی ہے ؛ کیونکہ تمام مخلوقات پیدا کرنے کا مقصد ہی عبادت گزاری ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی کہ تم پرہیزگار بن سکو [البقرة: 21]
انبیاء کرام و رسل کے بعد تمام مؤمنین کو بھی عبادت گزاری کا حکم دیا، فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو [الحج: 77]
اسی لئے ابتداء ہی سے اگر کسی مسلمان کی پرورش عبادت گزاری پر ہو تو اللہ تعالی اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا۔
اللہ تعالی نے صحابہ کرام کا تذکرہ کثرتِ نماز کے ساتھ کیا، ان کے بارے میں فرمایا: تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں [الفتح: 29]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "صحابہ کرام کے اخلاص اور اعمال صالحہ کی وجہ سے جس کسی نے انہیں آنکھ بھر کر دیکھا تو انہیں بہترین چال چلن کیلئے ایک نمونہ پایا"
خشیتِ الٰہی ، اور کثرتِ عبادت کے اس بہترین راستہ پر تمام سلف صالحین نے اپنی زندگیاں گزار دیں، بزار رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ: "انکی عبادت کیا کہنے! ان جیسے لوگ بہت ہی نادر ہوتے ہیں؛ کیونکہ انہوں نے اپنی ساری زندگی عبادت گزاری ہی میں لگا دی، جب آپ نماز کیلئے تکبیر تحریمہ کہتے تھے تو پر سوز ی کی بنا پر ایسے لگتا تھا کہ ابھی دل پھٹ جائے گا"
ایسے ہی ابن کثیر رحمہ اللہ ابن قیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں: "میرے علم کے مطابق اسوقت آپ سے زیادہ عبادت گزار شخص کوئی نہیں"
حقیقت یہ ہے کہ عبادت ہی سعادت اور روحِ بندگی ہے، گرمی سردی ہر حالت میں اس پر صبر کرنا انتہائی ضروری ہے، فرمایا: فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ اسی کی بندگی کیجئے اور اسی کی بندگی پر ڈٹ جائیے [مريم: 65]
انسانی ضرورت کی بنا پر بندگی کیلئے وقت کی کوئی تحدید نہیں اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ اور اپنے پروردگار کی عبادت کیجئے تاآنکہ آپ کے پاس یقینی بات (موت)آجائے[الحجر: 99]
اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر فضل و کرم کرتے ہوئے انہیں ہر سال رمضان المبارک کی نعمت نصیب فرمائی، جسکے لیل و نہار عبادت سے معمور ہیں ، اور اللہ تعالی نے اس ماہ میں مختلف عبادات بھی مقرر کیں۔
خیر و برکات سے بھرپور دن اور راتیں ہمارے پاس آنیوالی ہیں، سرکار دو عالم کا ارشاد ہے: (تمہارے پاس رمضان آنیوالا ہے، بڑا ہی برکتوں والا مہینہ ، جسکے روزے فرض ہیں، اس ماہ میں آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتےہیں، شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اللہ تعالی نے اس ماہ میں ایک رات ایسی بھی رکھی ہے جو ہزار ماہ سے بھی افضل ہے، حقیقی محروم تو وہی ہے جو اس رات سے محروم ہو)مسلم
مسلمان اس ماہ میں اسلام کے ایک رکن کی ادائیگی کرتے ہیں، اس ماہ میں نیکیاں کمانے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوششیں کی جاتی ہیں، فرمانِ رسالت ہے: (رمضان کے داخل ہوتے ہی جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتاہے) بخاری مسلم
ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جنت کے دروازے جنت سے امیدیں وابستہ کرنے کیلئے کھولے جاتے ہیں، تاکہ ہمت اور کوشش کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عمل کیا جائے، جبکہ جہنم کے دروازے بند اس لئے کئے جاتے تا کہ شیاطین نادم ہوں اور گناہ کم ہوجائیں"
روزے کا ثواب ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں والا نہیں بلکہ روزے کا ثواب بلا حساب ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (اللہ تعالی نے فرمایا: روزے کے علاوہ ابن آدم کا ہر عمل اسی کیلئے ہے، کیونکہ وہ میرے لئے اس لئے میں خود ہی اسکا بدلہ دونگا)بخاری مسلم
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "روزے کے علاوہ تمام نیکیاں دس گُنا سے لیکر سات سو گُنا تک بڑھائی جاتی ہیں، کیونکہ روزے کا ثواب اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے اللہ تعالی اسے لاتعداد اور بے شمار گُنا تک بڑھائے گا"
جیسے روزہ دار کا اجر بے حساب ہے ، اس کے ساتھ ساتھ روزے کی وجہ سے اسکے گناہ بھی معاف کردئے جاتے ہیں، فرمانِ رسالت ہے: (جس مؤمن شخص نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اسکے سابقہ تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں)بخاری مسلم
رمضان المبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے جو اس میں قیام کرے اسکے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کے روزوں کو دیگرعظیم اعمال نے اپنے گھیرےلیا ہوتا ہے، چنانچہ قرآن مجید رمضان ہی میں نازل ہوا، جبریل علیہ السلام رمضان کی راتوں میں قرآن مجید کا دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرتے تھے، قرآن مجید کی جتنی تلاوت کی جائے اسی قدر برکت اور نورِ ہدایت حاصل ہوگا، اسی طرح اخلاص کی بنا پر ثواب میں مزید زیادتی ہوگی۔
روزہ دار اللہ تعالی کے سامنے عاجزی و انکساری پیش کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، (1)روزہ دار کی افطاری تک، (2)عادل حکمران، (3)جبکہ مظلوم کی دعا کو اللہ تعالی بادلوں سے بھی اونچا اُٹھاتا ہے اور اسکے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، پھر اللہ تعالی فرماتا ہے: مجھے میری عزت کی قسم؛ میں تیری ضرور مدد کرونگا چاہے کچھ دیر بعد)ترمذی
اللہ تعالی نے آیت مبارکہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ میں (ان کے) قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں [البقرة: 186] روزوں کے متعلق آیات کے درمیان نازل کی اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان المبارک میں کثرت سے دعائیں کی جائیں۔
کہا جاتا ہے، ایک نیکی دوسری نیکی کو اپنی طرف کھینچتی ہے، چنانچہ قرآن اور روزہ دونوں ہمہ قسم کی نیکیوں کا راستہ ہیں۔
رمضان المبارک میں کھلے دل والے لوگ صدقہ خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، صدقہ کرنے والے کیلئے اللہ کی جانب سے بخشش اور غنی ہونے کا وعدہ ہے ، فرمایا: الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں شرمناک کام کرنے کا حکم دیتا ہے،جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت وعدہ دیتا ہے [البقرة: 268]
صدقہ کرنے والے کیلئے تمام کام آسان ہو جاتے ہیں، فرمانِ الٰہی ہے: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى پھر جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور پرہیز گاری اختیار کی[5]اور بھلی باتوں کی تصدیق کی [6]تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے [الليل: 5- 7]
اسی لئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ صدقہ کرنے والے تھے، کچھ بھی آپکو ضرورت سے زائد نظر آتا اللہ کی راہ میں دے دیتے، کسی مانگنے والے کو رد نہیں کرتے تھے، آپ کو صدقہ کرنا، تحائف دینا بہت پسند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدقہ لینے والے سے بڑھ کر دیتے ہوئے زیادہ خوشی ہوتی تھی۔
زکوٰۃ دین کا اہم رکن ہے، یہ اسلام کی ایک بنیاد ہے، زکوٰۃ دینے سے مال پاک اور بڑھ جاتا ہے؛ لہٰذا زکوٰۃ دیتے ہوئے خوشی محسوس کرو، دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر دو، غریب مسکین، اور یتیموں پر خرچ کرو، دل میں اخلاص پیدا کرو، تمہیں نہیں معلوم تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس لئے زکوٰۃ کی ادائیگی کل پر مت ڈالو۔
رمضان میں مغفرت کے دروازے دن ہو یا رات ہمیشہ کھلے ہیں، اس لئے رات کے وقت نماز تراویح بھی مغفرت کا باعث ہے، فرمایا: (جس مؤمن نے ثواب کی امید کرتے ہوئے رمضان المبارک میں قیام کیا اسکے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں) بخاری مسلم
جس شخص نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اسکے لئے قیام اللیل کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے) بخاری مسلم، ایک روایت میں ہے کہ (میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے)
اطاعت گزاری مسلسل ہو تو فتح و کامرانی کی نوید یں ملتی ہیں، چنانچہ غزوہ بد ر کی شاندار فتح رمضان المبارک میں ہی ملی، غزوہ خندق کی تیاری پانچ سن ہجری کو رمضان المبارک ہی میں شروع ہوئی، فتح مکہ ، اور بیت اللہ سے بتوں کو رمضان المبارک ہی میں پاک کیا گیا، اسی ماہ میں لوگ جو ق در جوق اسلام میں داخل ہوئے، ایسے ہی مسجد ضرار بھی رمضان میں گرائی گئی۔
عقلمند کبھی بھی اپنی مختلف عبادات میں کمی نہیں آنے دیتا چاہے رمضان ہو یا نہ ہو، فرض روزہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب انسان جھوٹ، غیبت، وغیرہ ہمہ قسم کے نقائص سے بچے، حرام چیزیں مت دیکھے، لغو و لہو میں مشغول نہ ہو، اپنا وقت ضائع مت کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (روزہ برائی سے بچاؤ کیلئے ڈھال ہے، چنانچہ جب کسی روزہ رکھا ہو تو بے ہودگی اور چیخنے چلانے سے پرہیز کرے، پھر بھی اگر کوئی اسے گالی گلوچ سے مخاطب ہو تو اسے کہہ دے: "میں روزہ دار ہوں")بخاری
جو رمضان میں مغفرت نہ پا سکے یقینا وہ محروم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایسے شخص کی ناک خاک آلود ہو جو رمضان کی بہاریں پائے لیکن رمضان ختم ہونے سے پہلے مغفرت حاصل نہ کرسکے) ترمذی
مسلمانو!
عبادت گزاری کی ایک مسلمان اتنی چاہت کرتا ہےکہ عبادت کرنے پر اسے خوشی محسوس ہوتی ہے، عبادت کرے تو انتہائی اخلاص اور نبوی طریقہ کار کے مطابق کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ہاں بھی اسکی عبادت قابل قبول ہوتی ہے، اور اللہ تعالی اسے بڑھا چڑھا کر اجر عنائت فرماتا ہے۔
اللہ تعالی کے ساتھ ادب کا تقاضا ہے کہ تمام احکاماتِ الٰہیہ کو صد افتخار و مسرت سے قبول کیا جائے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں [الذاريات: 56]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
وقت سے پہلے عبادت کی تیاری کرنا اللہ کی جانب سے اطاعت کی توفیق ملنے کی علامت ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تا کہ افضل ترین ماہ کے روزے رکھنے کیلئے تیاری کی جاسکے، اسی لئے عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں: "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ میں روزے رکھتے نہیں دیکھا" بخاری مسلم
جس شخص نے شعبان کی ابتدا ء میں روزے رکھنے شروع کئے وہ شعبان کے آخر میں بھی رکھ سکتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبان کی فضیلت میں کثرتِ صوم کے علاوہ کوئی حدیث ثابت نہیں، نہ ہی اس ماہ میں کوئی خاص فضیلت والی رات ہے، نہ ابتداء میں نہ ہی درمیان اور نہ ہی آخر میں۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "15 شعبان کی رات کو قیام کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں ، نہ ہی آپ کے صحابہ کرام سے ثابت ہے"
بہترین طریقہ کارنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، کامیاب وہی ہے جس نے اخلاص اور اتباعِ نبوی کو جمع کر لیا۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: [arb]إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [/arb]اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
دعا:
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! پوری دنیا کے مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! انہیں ہمہ قسم کے فتنوں سے بچا، یا اللہ! ان کے درمیان حق پر اتحاد و اتفاق پیدا فرما، یا اللہ! یا قوی یا عزیز! انہیں تمام دشمنوں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ انکا حامی و ناصر بن جا، انکی مدد کرنے والا بن جا، یا اللہ! تباہی و بربادی مسلم دشمن قوتوں کا مقدر بنا دے ۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! اقوال و افعال میں تجھ سے اخلاص کا سوال کرتے ہیں۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201] اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
لنک