محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صلاح البدیر حفظہ اللہ نے 26-شعبان- 1434کا خطبہ جمعہ بعنوان " رمضان اور با سہولت عبادات "ارشاد فرمایا،جس میں انہوں نے ماہِ رمضان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس میں کثرت سے اطاعتِ الہی اور قربِ الہی حاصل کرنے کی جانب ترغیب دلائی ، اس کیلئے انہوں نے اپنے خطبہ کے شروع میں اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے حج ، و عمرہ وغیرہ میں عنائت شدہ آسان شرعی احکامات کا تذکرہ کیا۔پہلا خطبہ:
ہمہ قسم کی حمد اللہ کیلئے ہے، جس نے انتہائی حکمت و دانائی سے حلال و حرام کے احکامات جاری کئے، اُسی نے ہمیں پڑھایا سیکھایا اِسی لئے ہم اسکی حمد و ثناء کرتے ہیں، اُسی نے دین کی سمجھ بوجھ عطا کی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد - صلی اللہ علیہ وسلم - اسکے بندے اور رسول ہیں ،اللہ تعالی ان پر، انکی اولاد ، اور صحابہ کرام پر قیامت کی دیواروں تک درود و سلام بھیجے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد، مسلمانو!
اللہ سے ڈرو، کیونکہ تقوی سے برکت حاصل ہوتی ہے، اور علم ہی سے طرزِ زندگی حاصل ہوتا ہے اور انسان تباہی سے بچ جاتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف ایمان کی حالت میں آئے۔ [آل عمران: 102]
مسلمانو!
عالمِ اسلام میں ہر شخص کعبۃ اللہ کے دیدار اور اسکے طواف کیلئے تڑپ رہا ہے، نفلی حج و عمرے کرنا بہت افضل ہے، سادہ کپڑوں میں بیت اللہ کا طواف کرنا بھی عبادت ہے، اور رمضان میں عمرہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کرنے کے برابر ہے۔
صرف اس مقصد سے ان تمام نفلی عبادات کو ترک کرنا کہ دوسروں کو بھی موقع دیا جائے اور بھیڑ بھاڑ کم کی جاسکے، رش کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشقت اور تنگی کو کم کیا جاسکے، نیکی اور خیر کے زیادہ قریب ہے۔
کمزور، ضعیف ، اور عمر رسیدہ افراد جب فرض حج یا عمرہ کی ادائیگی کر رہے ہوں تو ان کیلئے جگہ چھوڑنا عقلمند اور سمجھدار لوگوں کا شیوا ہے، عقلمندی اور شرعی حکمت و فہم انسان کو دوسروں اور اپنے لیے ایذا رسانی کے اسباب سے بھی روکتی ہے، اگرچہ عبادت کے دوران تھکاوٹ بھی سنت ہے، لیکن اچھے ہدف کے باعث اسے چھوڑ دینا بھی ایک عبادت اور قربِ الہی کا ذریعہ ہے۔
ہمارے شیخ محترم ابن باز رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: "امید ہے کہ ایک شخص کیلئے حج کرنے کی بجائے حج نہ کرنے میں زیادہ اجر و ثواب ہوگا جو بار بار حج صرف اس نیت سے نہیں کرتا کہ دیگر حجاج کرام کو موقعہ دیا جائے اور ازدحام و رش کم ہوسکے" انتہی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی نماز پڑھانے کی چاہت کے باوجود مختصر نماز پڑھائی ، صرف اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کے رونے کی آواز سُنی، تا کہ بچے کی مامتا پریشان نہ ہو، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں نماز لمبی نماز پڑھانا چاہتا ہوں پھر مجھے بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر نماز پڑھانا پڑتی ہے کہ کہیں بچے کی ماں پریشان نہ ہو جائے) بخاری
مسلمانو!
شریعت نے حادثاتی حالات و واقعات کا خیال کرنے کا حکم دیا ہے، عقل بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے، علمائے کرام نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ طواف کرنے والا حجر اسود کا بوسہ رش و ازدحام کی حالت میں چھوڑ دے، تا کہ دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے، اور صرف اشارے و تکبیر پر اکتفاء کرے، چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے حجر اسود کا استلام کیسے کیا؟) میں نے عرض کی: "کبھی بوسہ دے دیا اور کبھی چھوڑ دیا"آپ نے فرمایا: (تم نے ٹھیک کیا) ابن حبان
مطلب یہ ہے کہ رش کی حالت میں انہوں نے بوسہ نہ دیا، اور رش نہ ہونے کی حالت میں دے دیا ، اور آپ کے اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درست قرار دیا۔
عطاء کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: "جب حجرِ اسود کے پاس رش ہو تو وہاں مت کھڑے رہو، آگے چلتے بنو"
ابن القاسم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا امام مالک رحمہ اللہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کیلئے رش لگانے کا حکم دیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، بشرطیکہ ایذا رسانی نہ ہو، بشرطیکہ ایذا رسانی نہ ہو "
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کوئی شخص اپنے آپ اور دوسروں کو تکلیف دئے بغیر حجرِ اسود کا استلام کرے تو یہ میرے نزدیک اچھا ہے، اور اگر استلام کرنے سے اپنے آپ یا دوسروں کو تکلیف ہوگی تو استلام نہ کرے"
ایسے ہی سرخسی کہتے ہیں: "حجرِ اسود سے طواف شروع کرو اور اگر ممکن ہو تو کسی کو تکلیف دئیے بغیر اسکا استلام کرو، کیونکہ حجرِ اسود کا استلام سنت ہے جبکہ مسلمان کو تکلیف نہ دینا واجب ہے، لہذا سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی کو تکلیف دینا مناسب نہیں "
منصور بن یونس البَھوتی حنبلی کہتے ہیں: "اگر حجرِ اسود کا استلام اور بوسہ دینا مشکل ہو تو رش مت کرے" اور کتاب "الفروع" میں ہے کہ "رش اس لئے نہ کرے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو"
اسی طرح "رمل" بھی پہلے تین چکروں میں کرنا صرف مَردوں کیلئے سنت ہے، اور "رمل" ایسی ہلکی سی دوڑ کو کہتے ہیں جو قدموں کو قریب قریب رکھ کر لگائی جائے۔
علمائے کرام نے یہ بات بالکل وضاحت سے کہی ہے کہ طواف کرنےوالے کو رش کی وجہ سے کھلی جگہ نہ میسر ہو، چلنے کیلئے بھی راستہ نہ ہو، یا ڈر ہو کہ اگر رمل کیا تو لوگوں کو تکلیف ہوگی اور دھکم پیل ہوگا تو پھر رمل نہ کرے کیونکہ رمل کرنا سنت ہے جبکہ تکلیف دینا حرام ہے۔
ایسے ہی رش کی وجہ سے طواف کی دو رکعت مقام ابراہیم کے پیچھے مت ادا کرے، اگرچہ وہاں ادا کرنا سنت ہے ، کیونکہ وہاں نماز ادا کرنا طواف کرنے والوں کیلئے باعثِ اذیت ہے، یہ دو رکعات رش سے دور مسجد الحرام میں کہیں بھی ادا کر سکتا ہے، جو پھر بھی دو رکعت مقام ابراہیم پر ادا کرنے کیلئے اصرار کرےوہی ظلم و زیادتی اور گناہ کا مستحق ہے۔
شرعی اصول ہے کہ : "آدمی کے ذاتی مفاد کیلئے اگر شریعت نےکسی چیز کو جائز قرار دیا ہے تو وہ سلامتی کی شرط کیساتھ مقید ہے" یعنی: اس کام کے کرنے سے دوسروں کو تکلیف مت ہو، اسی لئے کسی کو تکلیف دینا شرعی طور پر منع بھی ہے اور اس سے روکا بھی گیا ہے، چنانچہ مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ اشیاءکو ہٹانا اور دور کرنا واجب ہے۔
مسلمانو!
مفادِ عامہ اور شرعی ضرورت دونوں ہی حکومتِ خادم الحرمین الشریفین -اللہ تعالی انکا حامی و ناصر ہو-کی جانب سے کئے گئے حجاج اور معتمرین کی تعداد کم کرنے کے حکیمانہ فیصلے کی تائید کرتے ہیں، یہ فیصلہ محدود مدت کیلئے کیا گیا ہے جو مطاف کی توسیع کے بعد ختم ہو جائے گا، ایسے ہی یہ حجاج کرام کی سلامتی اور مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، اس فیصلے پر عملد ر امدکرنا شرعی طور پر بھی ضروری ہے، اس فیصلے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا عقلمند، دانا، امانتدار، اور ذمہ دار شخصیت کی علامت ہے۔
میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کےتمام گناہوں اور خطاؤں کی بخشش چاہتا ہوں،تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو،یقینا وہ توبہ و استغفار کرنے والوں کے معاف کرنے والاہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا ہے، اللہ کے ہم پر فضل و کرم کے باعث میں اسی کی حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر اور انکے صحابہ کرام پر بہت زیادہ درود و سلام نازل فرمائے۔
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچےلوگوں کا ساتھ دو [التوبة: 119]
مسلمانو!
علمائے کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق فقر و فاقہ اور قحط سالی ، بھوک افلاس یا تنگ دست ، محتاج رشتہ داروں پر صدقہ خیرات نفلی حج و عمرہ کرنے سے افضل ہے۔
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ ایک بار سفر حج پر نکلے تو ایک بچی کو دیکھا کہ گندگی کے ڈھیر سے مردہ پردہ اٹھائے جارہی تھی، تو بچی نے پوچھنے پر بتایا کہ میں اپنی بہن کیساتھ یہاں رہتی ہوں اور ہمیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا، جو لوگ اس گندگی کے ڈھیر پر ڈال جاتے ہیں اسی میں سے ہم کچھ چُن کر کھا لیتی ہیں، یہ سن کر ابن مبارک رحمہ اللہ نے اونٹ سے سامانِ سفر اتارنے کا حکم دیا اور اپنے حج کا تمام زادِ راہ اس بچی کو دے دیا اور کہا: "یہ ہمارے لئے اس سال کے حج سے بہتر ہے"اور واپس آگئے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: نفلی حج کرے یا اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے؟ انہوں نے جواب دیا: "وہ محتاج ہیں تو مجھے ان پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے" پھر کہا: "بھوکے لوگوں کیلئے اگر کھانے کیلئے کچھ کر دے تو بہتر ہے" اس سے معلوم ہوتا ہے رشتہ دار وغیر رشتہ دار دونوں برابر ہیں۔
اللہ کے بندو! خرچ کرو ، اللہ کے بندو! خرچ کرو ، اللہ کے بندو! خرچ کرو ، مجاہدین پر ، پناہ گزینوں پر ، بے گھر افراد پر ، مسلمان غریبوں اور مسکینوں پر، آپ سب سامعین کو شام، برما، اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی حالت کا علم ہے، کیونکہ
"حقیقی مناظر ، الفاظ سے زیادہ معنی خیزی رکھتے ہیں"۔
اللہ تعالی انکے لیے فتح لکھ دے، اور انکے دشمن کو برباد کرے۔
مسلمانو!
ہر شخص رمضان المبارک کے چاند کی انتظار میں ہے، اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو اپنے فضل وکرم سے رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرمائے، ماہِ رمضان میں گناہوں سے توبہ کرو، اللہ کی طرف لوٹ آؤ، رشتہ داروں سے میل جول اپناؤ، قطع رحمی ختم کردو، لڑائی جھگڑے بھول جاؤ، مصافحہ کرو کینہ و بغض ختم ہو جائے گا، معاف کرنے کی عادت ڈالو، دشمنی اور نفرت ختم ہو جائے گی، خاندان اور پورے معاشرے میں پیار و محبت اور الفت کی فضا پیدا ہوجائے گی۔
"بہترین شخص وہ ہے جو سلام سے ابتدا کرے اور دلوں کو ملائے"
آخر میں خیر الوری نبی رحمت پر درود و سلام بھیجو، جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں دس رحمتیں بھیجے گا۔
اے اللہ! اپنے بندے اور رسول پر درود و سلام بھیج ، اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر ، عثمان، علی ،تمام صحابہ کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، اے اللہ رب العالمین ! انکے ساتھ ساتھ اپنے احسان، کرم اور رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ !اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! ظالم سرکشوں کو تباہ وبرباد فرما۔
یا اللہ! غاصب یہودیوں کو تباہ فرما، یا اللہ دھوکے باز صہیونیوں کو تباہ فرما۔
یا اللہ !فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی جلد از جلد مدد فرما۔
یا اللہ!ملک شام میں مجاہدین کی مدد فرما، یا اللہ!ملک شام میں مجاہدین کی مدد فرما،یا اللہ!دین کے دشمنوں کے خلاف انکی مدد فرما، یا اللہ! عقیدہ توحید کے دشمنوں کیخلاف انکی مدد فرما، یا اللہ! صحابہ کرام کے دشمنوں کیخلاف انکی مدد فرما، یا اللہ! کفار پر انکی مدد فرما۔
یا اللہ! انکے فوت شدگان کو شہدا ء میں قبول فرما، یا اللہ! مریضوں کو صحت یاب فرما، یا اللہ! زخمیوں کو شفا عنائت فرما۔
یا اللہ !صرف تجھ ہی سے امید ہے ، تجھ پر ہی بھروسہ ہے ، یا اللہ! انکی مدد فرما، یا اللہ! انکے دشمنوں کو نیست و نابود فرما۔
یا اللہ !تمام مسلم ممالک میں امن ، شان و شوکت اور استقرار کو ہمیشہ بر قرار رکھ۔
یا اللہ! ہمارے حکمران اور ولی عہد کو اپنے پسندیدہ اعمال کرنے کی توفیق دے، یا اللہ !اسکی نیکی اور بھلائی کے کاموں پر رہنمائی فرما، اے اللہ !اسے صحت بھی عنایت کر، اے اللہ! ان دونوں کی حفاظت فرما، اس کے ذریعے اپنے دین کی مدد فرما۔
اے اللہ !ہمارے مریضوں کو شفا یاب فرما، سب کی مصیبتوں کو دور فرما، یا اللہ !جتنے فوت شدگان ہیں سب پر اپنا رحم فرما،یا جو قید و بند کی صعوبت میں مبتلا ہیں انہیں چھٹکارا نصیب فرما۔ اے اللہ !ہمارے دشمنوں پر ہمیں غلبہ نصیب فرما۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
لنک