• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کا پہلا، دوسرا، اور تیسرا عشرہ

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا بخش کا اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ۔
اس حدیث کی درج ذیل تحقیق ہمیں ہر جگہ ملتی ہے:
امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث منکر ہے ۔''(العلل لابن ابی حاتم :١/٢٤٩)
امام عقیلی رحمہ اللہ نے کہا :''اس کی کو ئی اصل نہیں ہے ۔''(الکامل :٣/١١٥٧)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:اس حدیث کا دارو مدار علی بن زید پر ہے اور وہ ضعیف ہے (اتحاف المہرۃ :٥/٥٦١)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :''منکر'' (الضعیفہ :٨٧١)
شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث باطل ہے۔''(النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔١/٢٩١)

٭ کیا یہ تحقیق صحیح ہے؟
٭ اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ یہ روایت حدیث کی کس کتاب میں موجود ہے؟
ایک منہاجی مفتی کہتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ ابو بکر سلمی نیشاپوری نے اپنی صحیح اور ابوبکر احمد بن الحسن بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی مفسرین ومحدثین نے اس کو نقل کیا ہے،
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے کہا:
باب فضائل شهر رمضان إن صح الخبر
ثنا علي بن حجر السعدي، ثنا يوسف بن زياد، ثنا همام بن يحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: «أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: " يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة "[صحيح ابن خزيمة 3/ 191]


یہ حدیث بے شک ضعیف ہے سند میں علی بن زیدبن جدعان ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
علي بن زيد بن عبد الله بن زهير بن عبد الله بن جدعان التيمي البصري أصله حجازي وهو المعروف بعلي بن زيد بن جدعان ينسب أبوه إلى جد جده ضعيف [تقريب التهذيب 1/ 317]۔


ایک منہاجی مفتی کہتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ ابو بکر سلمی نیشاپوری نے اپنی صحیح۔۔
امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں ضرورنقل کیا ہے مگر نقل کرنے سے پہلے ”ان صح الخبر“ کہہ کراس کی تصحیح سے گریز کیا ہے۔جیساکہ اوپر ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے الفاظ نقل کئے گئے ہیں۔
اس لئے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی نظر میں یہ حدیث صحیح ہے۔


اور ابوبکر احمد بن الحسن بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے۔
نقل کرنے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان محدثین کی نظر میں یہ حدیث صحیح ہے۔


ان کے علاوہ بھی مفسرین ومحدثین نے اس کو نقل کیا ہے،
یہاں بھی وہی بات ہے ۔
بھلا نقل کرنے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اگر ایسا مان لیا جائے تب تو ضعیف حدیث کا وجود ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہرضعیف حدیث کو ئی نہ کوئی محدث ہی نقل کرتا ہے۔
 
Top