قرائن کی روشنی میں زیادتی ثقہ کے مردود ہونے کی مثالیں
پہلی مثال:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَمْلَاهُ عَلَيْنَا، حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَصْبَحْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ، صَائِمَتَيْنِ مُتَطَوِّعَتَيْنِ، فَأُهْدِيَ لَنَا طَعَامٌ، فَأَفْطَرْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صُومَا مَكَانَهُ يَوْمًا آخَرَ»
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نفل روزے سے تھیں تو ہمیں ہدیہ میں کھانا ملا تو ہم نے یہ روزے توڑ دیے ۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اس کی جگہ دوسرے دن روزہ رکھ لینا[صحيح ابن حبان : 8/ 284 واخرجہ ایضا النسائی فی الکبری رقم 3299 والطحاوی فی شرح معاني الآثار 2/109 و ابن حزم فی المحلى 6/270 من طریق جریر بہ]۔
اس حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی اہل فن سے اس روایت کو مردود قرار دیا ہے کیونکہ یہ روایت حقیقت میں منقطع ہے اور اورجریر بن حازم نے تنہا اسے موصول بیان کیا ہے یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن یہاں پر ثقہ کی زیادتی اس قرینہ کی روشنی میں مردود ہے کہ دیگر اوثق راوی نے اس حدیث کو مرسلا بیان کیا ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھئے [بحوث في المصطلح للدكتور ماهر الفحل ص: 173 نیز دیکھیں: سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة: 11/ 338]۔
دوسری مثال:
علي بن الجَعْد بن عبيد البغدادي (المتوفى230ھ) نے کہا:
أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ»
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اور سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے[مسند ابن الجعد:ص: 413]۔
اس حدیث کے بھی سارے راوی ثقہ ہیں لیکن آٹھ سے زائد رکعات بیان کرنے میں یزید بن خصیفہ منفرد ہیں یہ گرچہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں لیکن انہوں نے اپنے سے اوثق محمدبن یوسف کی مخالفت کی ہے لہٰذا اس قرینہ اور اس کے علاوہ اور بھی قرائن کی بنیاد پر ثقہ کی یہ زیادتی مردود ہے۔
تیسری مثال:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
اس روایت میں ہے کہ 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ کی بعثت ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی [الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔
محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس سند کے ظاہری رواۃ پر بھی جرح کی ہے حتی ایک راوی کا تعین بھی نہ کرسکے اور نہ اس کی توثیق پاسکے
ان ان شاء اللہ آگے مفصل طور پر اس روایت کے ظاہری سند کے رواۃ کا دفاع پیش کریں گے قارئین منتظر رہیں ۔
چوتھی مثال:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حَدَّثنا نصر بن علي قال أَخْبَرَنَا عَبد الله بن داود، قَال: حَدَّثنا سَعِيد بن عُبَيد الله، قَال: حَدَّثنا عَبد اللَّهِ بْنِ بُرَيدة، عَن أَبيهِ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: ثَلاثٌ مِنَ الْجَفَاءِ: أَنْ يَبُولَ الرَّجُلُ قَائِمًا، أَوْ يَمْسَحَ جَبْهَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَفْرَغَ مِنْ صَلاتِهِ، أَوْ يَنْفُخَ فِي سُجُودِهِ
ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تین چیزیں جفاء میں سےہیں ، ایک کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ، دوسرے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرنا اور تیسرے سجدہ میں پھونکنا[مسند البزار = البحر الزخار 10/ 305] ۔
اس حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی اہل فن سے اس روایت کو مردود قرار دیا ہے کیونکہ یہ روایت حقیقت میں موقوف ہے اوریہاں پر گرچہ ثقہ راوی نے اسے موصول بیان کیا ہے اورثقہ کیا زیادتی مقبول ہوتی لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پرثقہ کی زیاتی قابل قبول نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھے فتاوی حدیثیہ لابی اسحاق الحوینی ص 151 تا 152۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حديث بريدة في هذا غير محفوظ
اس سلسلے میں بریدہ کی حدیث غیرمحفوظ ہے[سنن الترمذي ت شاكر 1/ 18]۔
عرض ہے کہ بریدہ کی حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں انقطاع بھی نہیں اس کے باوجود بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے غیرمحفوظ قرر دیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مطلقا قابل قبول نہیں اور یہی موقف درست ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے [إرواء الغليل للألباني: 1/ 98]
اس حدیث کی ظاہری سند سے دھوکہ کھا کر علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہا:
رَوَاهُ الْبَزَّار بِسَنَد صَحِيح
یعنی اسے امام بزار نے صحیح سند سے روایت کیا ہے [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 3/ 135]۔
اور محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ نے اپنے اصول سے مجبور ہو کر اس روایت کو حسن قردیا ہے دیکھئے موطا مترجم۔
عرض ہے کہ اس حدیث کی سند گرچہ ظاہری طور پر صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت مردود ہے کیونکہ یہی روایت دیگراصح طریق سے مروی ہے اور اس میں موصول کی زیاتی نہیں ہے لہٰذا یہاں پر وصل کی زیادتی مردود ہے گرچہ یہ زیادتی ایک ثقہ ہی کی طرف سے ہے۔
.
پانچویں مثال:
حدثنا موسى بن إسحاق، قال: حدثنا منجاب بن الحارث، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل عن أسامة بن زيد، عن أبان بن صالح، عن مجاهدعن ابن عباس، رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن لله ملائكة في الأرض سوى الحفظة يكتبون ما سقط من ورق الشجر فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد: أعينوا عباد الله.
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین اللہ کے فرشتے ہوتے ہیں نامہ اعمال لکھنے والوں کے علاوہ ، زمین سے اگر ایک پتہ بھی گرتاہے تو یہ اسے لکھ لیتے ہیں اورجب تم کسی چٹیل میدان میں کسی مصیبت میں پھنس جاؤ تو اس طرح پکارو : اے اللہ کے بندو ! مدد کرو[مسند البزار = البحر الزخار 11/ 181]۔
بدعتی لوگ اس حدیث سے غیر اللہ کو پکارنے کی دلیل پکڑتے ہیں اور اس کی سند بظاہر صحیح ہے سند کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہ روایت ضعیف ہی ہے کیونکہ اس موصول بیان کرنا راوی کی ایسی زیادتی ہے جو قرائن کی روشنی میں مردود ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 2/ 108 رقم 655]۔
چھٹی مثال:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ خَالِدِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ قَالَ: نا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: نا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، يَرْفَعُهُ. قَالَ: «لَوْ أن بُكَاءُ دَاوُدَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبُكَاءُ جَمِيعِ أَهْلِ الْأَرْضِ، جَمِيعًا، يَعْدِلُ بِبُكَاءِ آدَمَ، مَا عَدَلَهُ»
ابن بریدہ اپنے والد سے مرفوعابیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر داؤد علیہ السلام کے رونے اور تمام زمین والوں کے رونے کا موازنہ آدم علیہ السلام کے رونے سے کیا جائے تو بھی برابری نہیں ہوسکتی [المعجم الأوسط للطبراني: 1/ 51]۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
رواه الطبراني في لأوسط، ورجاله ثقات.
امام طبرانی نے اسے اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے سارے رجال ثقہ ہیں[مجمع الزوائد للهيثمي: 8/ 128]۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ کی اس توثیق سے معلوم ہوا کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں لہٰذا أحمد بن بشير الهمداني کو مجہول کہنا بھی درست نہیں ۔
یعنی ظاہری سند بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ روایت مردود ہے کیونکہ دیگر طرق میں یہ موقوفا مروی ہے اور قرائن کی روشنی میں یہی راجح ہے لہٰذا یہاں پر جو ثقہ نے موصول بیان کرکے زیادتی کی ہے یہ زیادتی مرودو ہے اور یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے ۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے یہ روایت موقوفا ذکر کرکے فرمایا:
ولم يذكر فيه بريدة، ولا النبي صلى الله عليه وسلم، وهذه الرواية أصح
اس میں بریدہ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اوریہی روایت زیادہ صحیح ہے [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 271]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرفوع روایت کو تین علتوں کی بناکر پر ردکرتے ہوئے کہا:
وفيه ما علمت من الجهالة والوقف والنكارة
اس سند میں(1) ایک راوی مجہول ہے (2)اور دوسروں نے اسے موقوف بیان کیا ہے (3)اور اس میں نکارت بھی ہے۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 2/ 203]۔
عرض ہے کہ مجہول کی جرح درست نہیں ہے کیونکہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے توثیق کی ہے۔
البتہ بقیہ دونوں علتیں درست ہیں ۔
ساتویں مثال:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا عبيد بن غنام، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ح وحدثنا معاذ بن المثنى، ثنا مسدد قالا: ثنا إسماعيل بن إبراهيم ابن علية، ثنا يزيد الرشك، عن مطرف، عن عمران بن حصين قال: قال رجل: يا رسول الله، أعلم أهل الجنة من أهل النار؟ قال: «نعم» قال: ففيم العمل؟ قال: «اعملوا فكل ميسر لما خلق له من القول»
عمران بن حصیں رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا جنتی کون ہیں اورجہنمی کون ہیں کیا یہ پہلے سے معلوم شدہ ہے ؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علی و سلم نے فرمایا: ہاں ۔ تو اس شخص نے کہا: پر عمل کس لئے ؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو کیونکہ ہرشخص کے لئے وہ قول آسان کردیا گیا ہے جس کے لئے وہ پیداکیا گیاہے[المعجم الكبير للطبراني 18/ 130]
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ بلکہ بخاری ومسلم کے رجال ہیں لیکن اس میں ثقہ نے ’’من القول‘‘ کی جو زیادتی کی ہے وہ قرائن کی روشنی میں مردود ہے مفصل تحقیق کے لئے دیکھئے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 14/ 1127 رقم 7027]
آٹھویں مثال:
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ» ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الخِلَافَةَ فِيهِمْ؟ قَالَ: كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ،
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی پھر بادشاہت آ جائے گی سفینہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی خلافت گن لو یہ پورے تیس سال ہیں سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 503 رقم 2226]۔
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن یہاں پرثقہ نے جو یہ زیادتی کی ہے کہ
’’قال سعيد: فقلت له: إن بنى أمية يزعمون أن الخلافة فيهم، قال: كذبوا بنو الزرقاء، بل هم ملوك من شر الملوك‘‘( سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں ) یہ مردود ہے کیونکہ دیگراوثق رواۃ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
زاد الترمذي: " قال سعيد: فقلت له: إن بنى أمية يزعمون أن الخلافة فيهم، قال: كذبوا بنو الزرقاء، بل هم ملوك من شر الملوك ". قلت: وهذه الزيادة تفرد بها حشرج بن نباتة عن سعيد بن جمهان، فهي ضعيفة لأن حشرجا هذا فيه ضعف، أورده الذهبي في " الضعفاء " وقال:" قال النسائي: ليس بالقوي ". وقال الحافظ في " التقريب ": " صدوق يهم ". قلت: وأما أصل الحديث فثابت.
امام ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ( سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں ) ۔ میں (علامہ البانی) کہتاہوں کہ اس زیادتی کو سعيد بن جمهان سےنقل کرنے میں ’’حشرج بن نباتة‘‘ اکیلاہے اس لئے اس کی یہ زیاتی ضعیف ہے کیونکہ حشرج میں ضعف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ضعفاء میں نقل کرکے فرمایا کہ امام نسائی نے کہا: یہ قوی نہیں ہے ۔ اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: یہ صدوق ہے اور وہم کاشکار ہوتاہے۔ میں کہتاہوں کہ : اصل حدیث (مذکورہ زیادتی کے بغیرثابت ہے)۔[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 1/ 821]۔
اس حدیث کے دیگرطرق کے لئے الصحیحہ کا مذکورہ حوالہ دیکھیں۔
نوویں مثال:
إسحاق بن منصور المروزي نے کہا:
حدثنا محمد بن رافع قال: حدثنا حسين بن علي عن زائدة، قال: حدثنا عبد العزيز بن رفيع عن ابن مغفل المزني قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم إذا وجدتم الإمام ساجدا فاسجدوا أو راكعا فاركعوا أو قائما فقوموا ولا تعدوا بالسجود إذا لم تدركوا الركعة
ابن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : جب تم امام کو سجدہ کی حالت میں پاؤ تو سجد کی حالت میں شامل ہوجاؤ اور رکوع میں پاؤ تو رکوع کی حالت میں شامل ہوجاؤ اور قیام کی حالت میں پاؤ توقیام میں شامل ہوجاؤ اور جب رکوع نہ ملے تو رکعت شمار نہ کرو[مسائل اسحاق بن منصور بحوالہ :الصحيحة للالبانی 3/ 185 رقم 1188 ]۔
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں اوریہاں سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی یہ حدیث ضعیف و مردود ہی ہے کیونکہ زائدہ بن قدامہ کے علاوہ ایک پوری جماعت سفيان الثوري، شعبة بن الحجاج، جرير بن عبد الحميد، أبو بكر بن عياش، وزهير، اورشريك نے اس روایت کو عبدالعزیز کے شیخ کے ابہام کے ساتھ بیان کیا ہے [علل الدارقطني : 6/ 58 ، المصنف لابن ابی شیبہ1/ 284 ،مصنف عبدالرزاق2/ 281/رقم 3373 ، سنن الکبری للبیهقي:2/ 89 ]۔ لہٰذا ابہام والی سند ہی راجح ہے ۔
ایک اور طریق میں اس مبہم شخص کو دوسرا نام ذکر تھا تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے رد کردیا اور اس کے برخلاف ایک جماعت کی اس روایت کو ترجیح دی جس میں عبدالعزیز کے شیخ کا نام مبہم تھا چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
يَرْوِيهِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَفِيعٍ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛فَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذٍ.وَخَالَفَهُ الثَّوْرِيُّ، وَزُهَيْرٌ، وَجَرِيرٌ، وَشَرِيكٌ، فَرَوَوْهُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّحِيحُ. [علل الدارقطني : 6/ 58]۔
تنبیہ:
محترم حافظ زبیرعلی زئی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا لیکن وجہ ضعف کے طور پربڑی عجیب غریب بات ذکر کی ہے۔
زیربحث حدیث سے مشابہ ایک مثال
دسویں اور زبردست مثال:
محترم حافظ زبیرعلیزئی نے ابن عساکر کی تاریخ سے یزید کی مذمت میں ایک روایت نقل کی ہے عرض ہے کہ اسی ابن عساکر میں ’’عبداللہ‘‘ کی مذمت میں بھی ایک روایت منقول ہے ملاحظہ ہو:
امام أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أحمد بن أبي ثابت رحمه الله (المتوفى338)نے کہا:
حدثنا أَحْمَدُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: ثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَيْثُ حُوصِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، رَحِمَهُ اللَّهُ: إِنَّ عِنْدِي نَجَائِبَ قَدْ أَعْدَدْتُهَا، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيَكَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَكَ؟ قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَقُولُ: يُلْحَدُ بِمَكَّةَ كَبْشٌ مِنْ قُرَيْشٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ عَلَيْهِ مِثْلُ أَوْزَارِ النَّاسِ ".وَلَا أَرَاكَ إِلَّا إِيَّاهُ، أَوْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
خلیفہ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا جب محاصرہ کیا گیا تو ان سے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس عمدہ اونٹ ہیں جنہیں میں نے آپ کے لئے تیارکیا ہے تو کیا آپ ان پرسوار ہوکر مکہ جانا پسند کریں گے تاکہ جو آپ کے پاس آنا چاہے وہیں آجائے ؟ تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : نہیں ! میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکہ میں قریش کا عبداللہ نامی ایک شخص مکہ میں الحاد پھیلائے گا اس پرلوگوں کے گناہوں کا آدھا بوجھ ہوگا، اورمیرے خیال سے اس ’’عبداللہ ‘‘ سے مراد اے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تم ہی ہو یا پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں[الجزء الأول والثاني من حديث ابن أبي ثابت: رقم 46 ترقیم جوامع الکلم ، رجالہ ثقات کلھم واسنادہ ظاهره الصحة ، ابن ابزی ھنا یروی عن عبداللہ بن زبیر ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکر28/ 219 بہ ، ولہ شاہد عند البزار 6/ 348 رجالہ ثقات ماعدا محمد بن کثیر وھو صدوق کثیر الغلط واخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق 28/ 220 وحسنہ الالبانی فی الصحیحہ تحت الرقم 2462 ، تم تراجع عنہ فی الصحیحہ 7/ 297]۔
یہ حدیث محترم حافظ زبیرعلی زئی کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ اس میں ’’عبداللہ‘‘ نامی شخص کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے جو یزید سے متعلق حافظ موصوف کی پیش کردہ حدیث میں ہے ۔ اورصرف یہی نہیں بلکہ اس حدیث میں ’’عبداللہ‘‘ نامی شخص کے لئے بہت بڑے گناہ کی بھی بات ہے ۔ اور عبداللہ سے کون مراد ہیں اس سلسلے میں خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ کی تفسیر بھی اسی حدیث میں موجود ہے کہ اس سے مراد یا تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں یا عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ہیں ۔
اوربعد کے واقعات بتلاتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ایساکوئی کام سرے سے سرزد ہوا ہی نہیں البتہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی بعض سرگرمیوں کی بناپر مکہ کی حرمت پامال ہوئی اس لئے یہ طے ہوجاتاہے کہ اس حدیث سے مراد ’’عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ‘‘ ہی ہیں جیساکہ خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا۔
اب دیکھنا ہے کہ محترم حافظ زبیرعلی زئی کی تحقیق کیا رنگ لاتی ہے ؟ کیا جس طرح موصوف نے زیادتی ثقہ کے علی الاطلاق قبول کرنے والے مرجوح ومتروک اصول کو اپناکر یزید کو مطعون کرنے والی حدیث کو بڑی فراخدلی سے قبول کرلیا ہے کیا موصوف ’’عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے متعلق وارد ہونے والی اس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟؟
واضح رہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے والی یعنی ان پر حسن پرستی اور اسی کی خاطر کسی اور کی خوبصورت لونڈی کو غصب کرنے اور چھیننے کا الزام لگانی والی روایت کو پوری فراخدلی سے قبول کرلیا ہے ، واللہ المستعان۔
ہمارے نزدیک یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے کسی شخص سے متعلق یہ پیشین گوئی کی ہے کہ وہ مکہ کوحلال کرکے گا اور اس کے سبب مکہ کو حلال کیا جائے گیا لیکن یہ کون شخص ہوگا اس کی صراحت کسی بھی حدیث میں منقول نہیں ہے ، اور یہاں پر ہم نے جو روایت پیش کی ہے اس میں گرچہ ’’عبداللہ‘‘ نام کی صراحت اور عثمان رضی اللہ عنہ نے اس ’’عبداللہ‘‘ کی بھی تفسیر کردی ہے ۔اور اس کے سارے رجال ثقہ بھی ہیں اور سند میں بھی انقطاع نہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہماری نظر میں یہ روایت مردود ہے کیونکہ یہ رویات اصلا مرسل ہے اور یہاں پر گرچہ اسے ثقہ نے موصول بیان کیا ہے یعنی ثقہ نے وصل کی زیادتی کی ہے لیکن یہ ثقہ کی یہ زیادتی قرائن کی رو سے مردود ہے اورقرائین یہی ہے کہ دیگر مضبوط طرق میں یہ روایت مرسلا آئی ہے۔[اخرجہ احمد فی مسند ہ : 1/ 64 من طریق اسماعیل بروایۃ ابن ابزی عن عثمان ، قلت: رجالہ ثقات لکن قال ابوزرعہ : ابن بزی عن عثمان مرسل، ومن طریق احمد اخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق :28/ 218]۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔