• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زیرناف ہاتھ باندھنے سے متعلق ”خلافیت للبیہقی “ کی روایت کاجائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
اخبرنا ابوالحسین بن الفضل ببغداد،انباابوعمرابن السماک،ثنا محمدبن عبیداللہ بن المنادی،ثناابوحذیفہ ثناسعیدبن زربی عن ثابت عن انس قال :من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطاروتاخیرالسحورووضعک یمینک علی شمالک فی الصلاۃ تحت السرۃ۔
صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:نبوت کے اخلاق میں سے ہے افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیرکرنااورنمازمیں تمہارا دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کرزیرناف رکھنا۔[خلافیات البیہقی ، ط الروضہ : ج2 ص253۔254 ۔ خلافیات البیہقی (مخطوط) : 37/ب۔ مکتبہ ظاہریہ ، مختصر خلافيات البيهقي 2/ 34 مكتبة الرشد ،المحلى لابن حزم: 3/ 30 بدون سند۔نیزدیکھیں بریلوی کتاب :نصرت الحق : ج1 ص376]

یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے اووہ بھی ثابت نہیں بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے۔
اس کی سند میں ایک راوی ”سعیدبن زربی “ہے۔یہ متروک اور شدید مجروح ہے بلکہ محدثین نے اسے موضوع اور من گھڑت احادیث بیان کرنے والا بتلایا ہے۔ذیل میں اس کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
سعيد بن زربي ليس بشيء
سعید بن زربی کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 88]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
ليس بقوي
یہ قوی نہیں ہے[التاريخ الكبير للبخاري: 3/ 369]
نیز کہا:
صاحب عجائب
یہ عجیب وغریب روایات والا ہے[التاريخ الكبير للبخاري: 3/ 473]

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
صاحب عجائب
یہ عجیب وغریب روایات والا ہے[الكنى والأسماء للإمام مسلم: 2/ 758]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود: ص: 310]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
سعيد بن زربى ضعيف الحديث منكر الحديث عنده عجائب من المناكير
سعیدبن زربی ضعیف اور نکارت والی حدیث ولاہے،اس کے پاس عجیب وغریب منکر روایات ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 23]

امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
سعيد بن زربي ، ضعيف
سعید بن زربی ضعیف ہے[المعرفة والتاريخ للفسوي: 2/ 660]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
سعيد بن زربي أبو معاوية ليس بثقة
سعید بن زربی ابومعاویہ یہ ثقہ نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 53]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن يروي المضوعات عن الأثبات على قلة روايته
یہ قلیل الروایہ ہونے کے ساتھ ثقہ راویوں سے موضوع اور من گھرٹ روایات بیان کرتا تھا[المجروحين لابن حبان: 1/ 318]

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
هو يأتي عن كل ما يروي عنه بأشياء لا يتابعه عليه أحد وعامة حديثه على ذلك
یہ ہرایک سے ایسی روایات بیان کرتا ہے جس کی متابعت کوئی نہیں کرتا اس کی اکثر حدیثیں اسی طرح ہیں [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 412]

امام أبو أحمد الحاكم رحمه الله (المتوفى378)نے کہا:
منكر الحديث جدا
اس کی حدیث میں بہت زیادہ نکارت ہوتی ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 28 نقلہ من الکنی]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
متروك
یہ محدثین کے نزدیک ترک کیا گیا ہے[الضعفاء والمتروكون للدارقطني: 2/ 156]

امام ابن حمكان (المتوفى قبل385)اور امام برقاني رحمه الله (المتوفى425)نے بھی امام دارقطنی کی اس بات سے متفق ہیں دیکھئے:
[مقدمہ كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 63]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[السنن الكبرى للبيهقي: 1/ 563]

نیز دوسری کتاب میں کہا:
سعيد بن زربي من الضعفاء
سعید بن زربی ضعفاء میں سے ہیں [شعب الإيمان للبيهقي: 4/ 324]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے خلافیات ہی میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فورا کہا:
وذربی لیس بالقوی
[خلافیات البیہقی : 37/ب۔ مکتبہ ظاہریہ ، مختصر خلافيات البيهقي 2/ 34 مكتبة الرشد نیزدیکھیں بریلوی کتاب :نصرت الحق :ج1ص376]
لیکن اس سند میں ذربی نہیں ہےبلکہ سعیدبن زربی ہے،غالبا امام بیہقی نے سبقت قلم سے ایسا لکھ دیا یا ناسخ کی غلطی ہے۔
نصرت الحق کے بریلوی مصنف نے امام بیہقی کی اس جرح ”لیس بالقوی“ کا جواب دیتے ہوئے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا کلام نقل کیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ”لیس بالقوی “ سے ضعیف کی جرح مراد نہیں ہوتی ہے ۔ دیکھیے:[نصرت الحق ج1ص376]
عرض ہے کہ عمومی طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ ”لیس بالقوی“سے ضعیف کی جرح مراد نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں پر ایسا معاملہ نہیں ہے کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ ہی کی دیگر صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہاں ضعیف ہی کے معنی میں ”لیس بالقوی “ کہا ہے ۔
چنانچہ خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اسے ”لیس بقوی“ کہا ہے اور اس سے روای کی تضعیف مراد ہوتی ہے۔چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا:
زياد النميري ويزيد الرقاشي، وسعيد بن زربي ليسوا بأقوياء
زیاد نمیری ،یزید رقاشی اور سعید بن زربی ،یہ سب ”لیس بقوی“ ہیں [التخويف من النار :ص: 234 ،استدراكات البعث والنشور ص: 124]

بلکہ ایک دوسرے مقام پر صراحت کے ساتھ اسے ضعیف کہتے ہوئے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[السنن الكبرى للبيهقي: 1/ 563]

بالفرض اگر تسلیم بھی کرلیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ضعیف نہیں ہے تو بھی دیگر محدثین نے اس پر سخت ،اور شدید جرح کی ہے نیز بعض نے مفسر جرح بھی کی ہے اس لئے امام بیہقی رحمہ اللہ کی رائے غیر مسموع ہے۔لیکن صحیح بات یہی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ہی کہا ہے۔

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وكان ضعيفا
اور یہ ضعیف تھا[التحقيق في أحاديث الخلاف 1/ 308]

عبد الحق الأشبيلي (المتوفى581)نے کہا:
سعيد بن زربي عنده غرائب لا يتابع عليها، وهو ضعيف الحديث
سعیدبن زربی کے پاس غرائب ہیں ، اس کی متابعت نہیں کی جاتی ہے یہ ضعیف الحدیث ہے[الأحكام الوسطى 1/ 342]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ضعفوه
محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے[الكاشف للذهبي: 1/ 435]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے۔[فتح الباري لابن حجر 2/ 103]

نیز کہا:
منكر الحديث
اس کی حدیث میں نکارت ہوتی ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2304]

علامه عينى رحمه الله (المتوفى855)نے کہا:
وهو ضعيف
اوریہ ضعیف ہے[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 5/ 175]

سعید بن زربی کے علاوہ اس سند میں ”ابوحذیفہ “ بھی ہے۔
اس کے بارے میں کتب رجال میں ہمیں کچھ بھی نہیں ملا ۔

تنبیہ:
اسی روایت کو کچھ لوگ محلی لابن حزم سے پیش کرتے ہیں ۔عرض ہے کہ محلی میں اس روایت کی سند ہی مذکورنہیں[المحلى لابن حزم: 3/ 30]
لہٰذا یہ حوالہ غیرمستند ہے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اس پوری تفصیل کے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
اس کے راوی سعید بن زربی پرجہان بہت ساری جرح کی گئی ہے وہیں اسے متروک اور موضوع احادیث بیان کرنے والا بھی بتلایا گیا ہے اس لئے اس لئے یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔کیونکہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
اس روایت کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تحت السرۃ (زیرناف )کی زیادتی کے بغیر انہیں الفاظ کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اسی حدیث کو مرفوعا روایت کیا ہے لیکن ان کی روایت میں تحت السرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔اور ان کی سند صحیح ہے دیکھئے:[صحيح ابن حبان: 5/ 67 رقم 1770 عن ابن عباس واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]
غور کریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث تحت السرۃ (زیرناف )کی زیادتی کے بغیر صحیح سند سے ثابت ہے تو انس رضی اللہ عنہ اس میں تحت السرہ (زیرناف) کی زیادتی کیسے کرسکتے ہیں ؟یہ بھی اس بات کی دلیل ہے اس حدیث میں تحت السرہ (زیرناف)کااضافہ غلط وباطل ہے ۔

بلکہ بعض جگہ انس رضی اللہ عنہ ہی سے یہی روایت تحت السرہ کی زیادتی کے بغیر مروی ہے چنانچہ:
أبو محمد الحسن بن علي بن محمد، الجوهري (المتوفى: 454)نے کہا:
أخبرناه أبو عمر بن حيوة قراءة عليه وأنا حاضر أسمع ، قثنا أبو عبيد الصوفي محمد بن أحمد ، قثنا أبي ، قثنا بشر هو ابن محمد السكري ، قثنا عبد الحكم ، عن أنس بن مالك ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من أخلاق النبوة تعجيل الإفطار وتأخير السحور ووضع اليمين الأيدي على الأيدي في الصلاة "
صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:نبوت کے اخلاق میں سے ہے افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیرکرنااورنمازمیں تمہارا دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھنا۔[ السابع و الحادي عشر من أمالي لجوهري:ق9/ب ،ق10/أ]
لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
تاہم ممکن ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی روایت االلہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کے بغیرانہیں الفاظ کے ساتھ بیان کی ہوجن الفاظ کے ساتھ دیگر صحابہ نے اسے مرفوعا بیان کیا ہے اور انس رضی اللہ عنہ نے بھی دیگر صحابہ کی طرح تحت السرہ کی زیادتی کے بغیر ہی اسے بیان کیا ہو لیکن متروک راوی نے اس میں تحت السرہ کا اضافہ کردیا۔

اس اضافہ کے باطل اور جھوٹ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں یہ نقل کیا کہ :اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں یہ روایت سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جاچکی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top