• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زیرناف ہاتھ باندھنے سے متعلق ”عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی“ کی سخت ضعیف روایت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا حفص بن غياث، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن زياد بن زيد، عن أبي جحيفة، أن عليا رضي الله عنه، قال: «من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔[سنن أبي داود 1/ 201 رقم756 ،وأخرجه ابن أبي شيبة 1/ 391 وابن المنذرفی الأوسط 3/ 94 رقم 1290والدارقطنی فی سننہ 2/ 34 رقم 1102والضیاء فی المختارة 1/ 402 رقم 772(لکن ضعفہ فی السنن والأحكام 2/ 36)من طریق ابی معاویہ۔وأخرجه ایضا الطحاوی فی أحكام القرآن / 185رقم 327 من طریق حفص بن غیاث ۔وأخرجه ایضا الدارقطني فی سننہ 2/ 34 رقم 1102، ومن طریقہ البیہقی فی سننہ 2/ 48 رقم2341 وعبداللہ فی المسند 2/ 222 ومن طریقہ ابن الجوزی فی التحقيق في مسائل الخلاف 1/ 339 رقم 438 ۔ومن طریق ابن الجوزی اخرجہ المزی فی تهذيب الكمال للمزي: 9/ 473 والضیاء فی المختارۃ 1/ 401 (لکن ضعفہ فی السنن والأحكام 2/ 36)من طریق يحيى بن أبي زائدة۔کلھم (ابومعاویہ و حفص ويحيى بن أبي زائدة)من طریق ابن اسحاق بہ وأخرجه الدارقطني 1/186، ومن طريقه البيهقي 2/31 من طريق حفص بن غياث، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد(وھو مجھول)، عن علی بہ۔وعزاہ السیوطی للعدنی وابن شاھین فی الجامع الکبیرج17 ص261]

یہ حدیث سخت ضعیف ہے ۔پوری امت کے کسی بھی عالم نے اسے صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اس کے ضعیف ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ کابیان آگے آرہا ہے۔
ذیل میں ہم بارہ محدثین اور دیگر علمائے احناف کے حوالے پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف ومردودقراردیا ہے۔


امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے عبدالرحمن بن اسحاق کی یہ روایت اور اس کی کچھ اور روایت بیا ن کرنے کے بعد کہا:
سمعت أحمد بن حنبل: يضعف عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي
میں نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے سنا وہ عبدالرحمن بن اسحاق کوفی کوضعیف قراردیتے تھے[سنن أبي داود 1/ 201]
معلوم ہواکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد اس کے راوی پر جرح نقل کی ہے گویا کہ خود امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے بلکہ ضعیف گردانتے ہیں ۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
والذي روي عنه، تحت السرة، لم يثبت إسناده، تفرد به عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي، وهو متروك
علی رضی اللہ عنہ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی جوروایت مروی ہے اس کی سند ثابت نہیں ہے اسے بیان کرنے میں عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی اکیلا ہے اور یہ متروک ہے[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 2/ 341]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
وروي ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي ولا يثبت ذلك عنهم
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والا قول علی رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے لیکن یہ ان لوگوں سے ثابت نہیں ہے[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/ 75]

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وهذا لا يصح قال أحمد عبد الرحمن بن إسحاق ليس بشيء وقال يحيى متروك
یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔امام احمدرحمہ اللہ نے کہا:عبدالرحمن بن اسحاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اورامام یحیی ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: یہ متروک ہے[التحقيق في مسائل الخلاف 1/ 339]

امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
وھو ضعیف
اوروہ (عبدالرحمن بن اسحاق کی تحت السرہ والی روایت) ضعیف ہے۔[بیان الوھم : 5/ 690]

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
رواه عبد الله بن أحمد في المسند عن غير أبيه والدارقطني والبيهقي ، من رواية عبد الرحمن بن إسحاق -أبو شيبة الواسطي- قال فيه الإمام أحمد : ليس بشيء، منكر الحديث. وقال يحيى س : ضعيف. وقال يحيى - في رواية-: متروك.
اس حدیث کو عبداللہ بن احمدبن حنبل نے مسند میں اپنے والد کے واسطے کے بغیر اوردارقطنی اور بیہقی نے عبدالرحمن بن اسحاق ابوشیبہ الواسطی کے طریق سے روایت کیا ہے ۔اور اس کے بارے میں امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے کہا: اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کی حدیث میں نکارت ہوتی ہے ۔اورامام یحیی بن معین اور امام نسائی نے کہا: یہ ضعیف ہے ۔اورامام یحیی بن معین نے ایک روایت کے مطابق کہا: یہ متروک ہے۔[السنن والأحكام 2/ 36]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
ضعيف متفق على تضعيفه
یہ روایت ضعیف ہے ،اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے[شرح النووي على مسلم 4/ 115]

امام ابن عبد الهادي رحمه الله (المتوفى744)نے کہا:
وهذا لا يصح، قال أحمد: عبد الرحمن بن إسحاق ليس بشيء
یہ روایت صحیح نہیں ہے ،امام احمد نے کہا:عبدالرحمن بن اسحاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي 2/ 148]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وهذا لا يصح، عبد الرحمن واه
یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔عبدالرحمن بن اسحاق سخت ضعیف راوی ہے[تنقيح التحقيق للذهبي: 1/ 140]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وإسناده ضعيف
اس کی سند ضعیف ہے۔[فتح الباري لابن حجر 2/ 224،الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 128]

علامہ ابن حجرہیثمی رحمه الله (المتوفى974)لکھتے ہیں:
ضعیف اتفاقا
یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔[الایعاب : ق57 / أ]

امام زرقاني (المتوفى1122)نے کہا:
وإسناده ضعيف.
اس کی سند ضعیف ہے[شرح الزرقاني على الموطأ: 1/ 549]

معلوم ہوا کہ یہ بہت سارے محدثین نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے او ر امام نووی کے بقول اس کے ضعیف ہونے پر امت کااتفاق ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اس حدیث کے سخت ضعیف ہونے کے اسباب


یہ حدیث سخت ضعیف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اندر کئی علتیں ہیں اوربعض شدید ہیں ،تفصیل ملاحظہ ہو:

پہلی علت:
اس حدیث کا مرکزی راوی ”عبدالرحمن اسحاق الواسطی الکوفی “ سخت ضعیف ومتروک ہے بلکہ بعض نے اسے متہم قراردیا ہے۔چنانچہ:

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث تھا[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 361]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق الكوفى ضعيف
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ضعیف ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 324]

اورابوبشردولابی کے بقول ابن معین نے یہ بھی کہا:
متروك
یہ متروک ہے[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 5/ 495 ورجالہ ثقات ماعداالدولابی]

اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں یہ بھی کہا:
نیز امام ابن معین نے یہ بھی کہا:
ليس بشيء
اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 46،سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 320]

اور ’’ليس بشيء‘‘ یہ سخت قسم کی جرح ہے،جیسامتعددمحدثین نے صراحت کی ہے دیکھیں :[ألفاظ وعبارات الجرح والتعديل:307،فتح المغيث:2/ 123,تدريب الراوي:1/ 409,410.]
اورابن معین کے نزدیک بھی عام حالات میں یہ اسی معنی میں ہے، بلکہ بسااوقات آپ نے کذاب اور وضاع راویوں پربھی انہیں الفاظ میں جرح کی ہے،مثلاایک کذاب کے بارے میں فرماتے ہیں:''کذاب لیس بشیٔ'' [سؤالات ابن الجنيد: رقم 523و أيضا أرقام:293،417،484،]اورایک وضاع کے بارے میں فرماتے ہیں:''لیس بشیٔ یضع الأحادیث''[تاريخه ،رواية الدوري:رقم4213].
واضح رہے کہ امام ابن معین قلیل الحدیث کے معنی میں بھی یہ جرح کرتے ہیں لیکن یہاں اس معنی کے لئے کئی قرینہ نہیں ہے بلکہ قرینہ تو یہ ہے کہ انہوں نے یہاں شدید جرح مراد لی ہے کیونکہ ان سے اس راوی کی تضعیف بھی منقول ہے اور متروک کی جرح بھی ۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي، متروك الحديث
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ،متروک الحدیث ہے[العلل للأحمد، ت الأزهري: 2/ 31]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فيه نظر
اس کامعاملہ محل نظر ہے[التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 259، التاريخ الأوسط للبخاري: 2/ 43]
نیز کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي وهو ضعيف الحديث
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ،یہ ضعیف الحدیث ہے[العلل الكبير للترمذي: ص: 72]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
ضعيف جائز الحديث يكتب حديثه
یہ ضعیف ہے ،اس سے روایت کرنا جائز ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی[تهذيب التهذيب لابن حجر: 6/ 137 نقلہ عن العجلی، نیز دیکھیں:معرفة الثقات للعجلي: 2/ 72 زیادۃ من التھذیب]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
ليس بقوي
یہ قوی نہیں ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 213 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث منكر الحديث يكتب حديثه ولا يحتج به
یہ ضعیف الحدیث ہے ،اس کی حدیث میں نکارت ہوتی ہے ،اس کی حدیث لکھی جائے گی مگر اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 213]

امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 6/ 137نقلہ من تاریخ یعقوب وانظر: المعرفة والتاريخ 3/ 59]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
قد تكلم بعض أهل العلم في عبد الرحمن بن إسحاق هذا من قبل حفظه وهو كوفي
بعض اہل علم نے اس عبدالرحمن بن اسحاق کے بارے میں اس حافطہ کے لحاظ سے کلام کیا ہے اور یہ کوفی ہے[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 673]
واضح رہے کہ جن اہل علم نے حافظہ کے لحاظ سے جرح کی انہوں نے حافظہ پر معمولی جرح نہیں کی ہے بلکہ شدید جرح کرتے ہوئے اسے متروک تک کہا ہے ۔لہذا امام ترمذی کے کلام میں حافظہ کی جس جرح کا ذکرہے اس سے شدید جرح مراد ہے۔
یہ بھی یادرےکہ امام ترمذی نے جن بعض محدثین کے کلام کی طرف اشارہ کیا ہے ان محدثین کے خلاف کسی بھی محدث کا قول موجود نہیں ہے لہٰذا بعض محدثین کا یہ کلام متفق علیہ ہے اسی لئے امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر ائمہ جرح وتعدیل اتفاق نقل کیا ہے کماسیاتی۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 66]

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث ہے[التوحيد لابن خزيمة 2/ 545]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
كان ممن يقلب الأخبار والأسانيد وينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يحل الاحتجاج بخبره
یہ ان لوگوں میں سے تھا جو احادیث اور سندوں میں الٹ پلٹ کرتے تھے اور مشہور لوگوں نے منکر روایات بیان کرتے تھے اس کی حدیث سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔[المجروحين لابن حبان: 2/ 54]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق ضعيف
عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف ہے[سنن الدارقطني: 2/ 121]

نیزامام دارقطنی نے اسے متروک بھی کہا ہے دیکھئے:[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 145 نیز مقدمہ ص63]
امام ابن حمكان (المتوفى قبل385) اور امام برقاني (المتوفى425) نے بھی امام دارقطنی کے ساتھ اسے متروک کہا ہے،دیکھیے: [مقدمہ كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 63]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق متروك
عبدالرحمن بن اسحاق متروک ہے[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 48]

محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
متروك الحديث
یہ متروک الحدیث ہے[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 3/ 1374]

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
والمتهم به عبد الرحمن بن إسحاق وهو أبو شيبة الواسطي
اس حدیث کو گھڑنے والا عبدالرحمن بن اسحاق ہے اوریہ ابوشیبہ الواسطی ہے[الموضوعات لابن الجوزي، ت شكري: 3/ 584]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
هو ضعيف باتفاق أئمة الجرح والتعديل
یہ ضعیف ہے اس پر ائمہ جرح وتعدیل کا اتفاق ہے۔[المجموع 3/ 260]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الرحمن بن إسحاق كوفي ضعيف
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ضعیف ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 415]
نیز کہا:
واه
یہ سخت ضعیف ہے[تلخيص كتاب الموضوعات للذهبي ص: 353]

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[البدر المنير لابن الملقن: 2/ 405]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
كوفي ضعيف
یہ کوفی اور ضعیف ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3799]

بلکہ ایک دوسری کتاب میں زیربحث حدیث ہی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
وفيه عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي، وهو متروك
اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی ہے اور یہ متروک ہے[تلخيص الحبير لابن حجر: 1/ 490]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی بالاتفاق ضعیف ہے اوراس کا ضعیف شدید ہے کیونکہ امام بخاری نے اس کے بارے میں ”فیہ نظر“ کہاہے۔امام بخاری جس کے بارے میں یہ جرح کریں وہ امام بخاری کے نزدیک سخت ضعیف ومتروک ہوتاہے۔چنانچہ:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وقد قال البخاري: فيه نظر، ولا يقول هذا إلا فيمن يتهمه غالبا
امام بخاری نے کہا: ”فیہ نظر“۔اورامام بخاری عام طورسے ایسااسی راوی کو کہتے ہیں جو ان کے نزدیک متہم ہوتا ہے[الكاشف للذهبي: 1/ 68]

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
أن البخاري إذا قال، في الرجل: " سكتوا عنه "، أو " فيه نظر "، فإنه يكون في أدنى المنازل وأردئها عنده
امام بخاری جب کسی راوی کے بارے میں ”سکتواعنہ“ یا ”فیہ نظر“کہتے ہیں تو وہ ان کے نزدیک سب سے کم تراورسب سے بدتردرجہ کا ہوتا ہے[الباعث الحثيث إلى اختصار علوم الحديث ص: 106]

امام زين الدين العراقي رحمه الله (المتوفى806)نے کہا:
وفيه نظر وسكتوا عنه وهاتان العبارتان يقولهما البخارى فيمن تركوا حديثه
”فیہ نظر“ اور ”سکتواعنہ“ یہ دونوں عبارتیں امام بخاری اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں جو متروک ہوتا ہے[التقييد والإيضاح ص: 163]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قال البخاري فيه نظر وهذه العبارة يقولها البخاري في من هو متروك
اس کے بارے میں امام بخاری نے کہا:”فیہ نظر“یہ اور عبارت امام بخاری اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں جو متروک ہوتا ہے۔[القول المسدد ص: 10]

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه
امام بخاری ”فیہ نظر“اور ”سکتواعنہ“ کا اطلاق اس روای پر کرتے ہیں جو متروک ہوتا ہے[تدريب الراوي 1/ 349]

مولانا عبد الحي اللكنوي (المتوفى1304)نے کہا:
قول البخاري في حق احد من الرواة فيه نظر يدل على انه متهم عنده
امام بخاری کاکسی راوی کے بارے میں ”فیہ نظر“کہنا اس با ت کی دلیل ہے کہ وہ ان کے نزدیک متہم ہے[الرفع والتكميل ص: 388]

علامہ المعلمي اليماني (المتوفى 1386)نے کہا:
وقال البخاري «فيه نظر» معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري
اور امام بخاری نے کہا:”فیہ نظر“۔اور یہ امام بخاری کی اصطلاح میں شدید جرح شمارہوتی ہے۔[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 495]

ظفر أحمد التهانوي حنفي (المتوفى1394)نے کہا:
البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه
امام بخاری ”فیہ نظر“اور ”سکتواعنہ“کااطلاق اس راوی پر کرتے ہیں جو متروک ہوتا ہے[قواعد في علوم الحديث ص: 254]

ان محدثین اور اہل علم کے خلاف عصر حاضر کے بعض لوگوں کا امام بخاری کی اس جرح کی کوئی اورتفسیر پیش کرنا غیر مقبول ہے ۔

معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک یہ راوی سخت ضعیف اور متروک ہے
امام بخاری کے علاوہ امام أحمد بن حنبل رحمه الله،امام بيهقي رحمه الله ،محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله اور حافظ ابن حجر رحمه الله نے اسے متروک قراردیا ہے۔بلکہ ابوبشردولابی کی روایت کے مطابق امام معین رحمہ اللہ نے بھی اسے متروک کہا ہے۔
اورامام ابوحاتم نے اسے منکرالحدیث کہا ہے بلکہ ابن الجوزی نے تو اسے متہم کہا ہے۔لہٰذاایسا راوی سخت ضعیف اور اس کی روایت حسن لغیرہ کے باب میں بھی ناقابل قبول ہے۔

تنبیہ:
درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس راوی کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے جیساکہ امام نووی نے بھی اس کی صراحت کی ہے امام نووی کی اسی صراحت کے زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں نقل کیا اور کوئی تعاقب نہیں کیا لیکن نصب الرایہ کے محشی نے انتہائی ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے امام نووی کے کلام پرحاشیہ لگاتے ہوئے کہا:
هذا تهور منه كما هو دأبه في أمثال هذه المواقع وإلا فقد قال الحافظ ابن حجر في " القول المسدد " ص 35 : وحسن له الترمذي حديثا مع قوله : إنه تكلم فيه من قبل حفظه وصحح الحاكم من طريقه حديثا وأخرج له ابن خزيمة من صحيحه آخر ولكن قال : وفي القلب من عبد الرحمن شيء
انہوں (امام نووی )نے غوروفکرکے بغیر یہ بات کہہ دی ہے جیساکہ ایسے مواقع پر ان کا معمول ہے ورنہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے القول المسددص35 پر کہا کہ: امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے باوجود اس کے کہ انہوں نے اس راوی کے بارے میں کہا:اس کے حافظہ کے لحاظ سے اہل علم نے اس پر کلام کیا ہے ،اور اما م حاکم نے اس کے طریق سے ایک حدیث کو صحیح کہا ہے اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اس کی حدیث نقل کی ہے لیکن کہا: عبدالرحمان بن اسحاق کے بارے میں دل میں کھٹکا ہے[نصب الراية 1/ 251 حاشیہ 5]

عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس راوی کو ضعیف اور متروک کہا ہے اوراس کی زیربحث حدیث کو ضعیف قراردیا ہے جیساکہ حوالے پیش کئے جاچکے ہیں ۔
اس کے بعد عرض ہے کہ یہاں پرحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی کسی امام سے صریح توثیق پیش نہیں کی ہے بلکہ صرف امام ترمذی کی تحسین پیش کی ہے اورساتھ میں ان کی جرح بھی نقل کی ہے ۔اسی طرح امام حاکم کی تصحیح پیش کی ہے ۔اور امام ابن خزیمہ کی صرف تخریج کا حوالہ دیا کیونکہ اس روایت پران کی جرح بھی نقل ہے۔
مزید عرض ہے کہ جہاں تک امام ترمذی کی تحسین کی بات ہے تواول تو امام ترمذی متساہل ہیں اور دوسرے یہ کہ خود امام ترمذی نے اس راوی کو مجروح قراردیا ہے ۔لہٰذا ان کی تحسین یا تو تساہل پر مبنی ہے یا دیگرایسے شواہد یا متابعات کی روشنی میں ہے جو امام ترمذی کے نزدیک حسن درجے کے ہیں نہ کہ ضعیف ۔کیونکہ اس راوی کے سخت ضعیف ہونے کے سبب اس کے لئے ضعیف شاہد یا متابع کافی نہیں ہے۔
رہی امام حاکم کی تصحیح تو امام حاکم کی یہ تصحیح مستدرک میں ہے اور مستدرک میں ان کا تساہل بہت معروف ہے اسی لئے کئی مقامات پر جہاں امام حاکم نے اس راوی کی روایت کی تصحیح کی ہے وہیں پر امام ذہبی رحمہ اللہ نےامام حاکم پر تعاقب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس میں میں عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف ہے۔چنانچہ ایک مقام پر کہا:
بل عبد الرحمن لم يرو له مسلم ولا لخاله النعمان وضعفوه
بلکہ عبدالرحمن (بن اسحاق) سے امام مسلم نے روایت نہیں لی اور نہ ہے اس کے ماموں نعمان سے اورمحدثیں نے اسے ضعیف کہا ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 409]
ابن إسحاق ضعيف
ابن اسحاق ضعیف ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 466]
معلوم ہوا کہ اس راوی کی روایت کو صحیح کہنا امام حاکم کا تساہل ہے لہٰذا مبنی برتساہل تصحیح سے دیگرمحدثین کے متفقہ فیصلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
رہی بات امام ابن خزیمہ کی تخریج کی تو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی روایت کی تخریج تو کی ہے مگر اس کی تصحیح نہیں کی بلکہ تصحیح سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہے:
إن صح الخبر؛ فإن في القلب من عبد الرحمن بن إسحاق أبي شيبة الكوفي( شيء )
اگر یہ حدیث صحیح ہو تو کیونکہ عبدالرحمن بن اسحاق ابوشیبہ الکوفی کے تعلق سے دل میں کچھ کھٹکا ہے[صحيح ابن خزيمة، ت الأعظمي: 3/ 306 ،القول المسدد لابن حجرص: 34ومابین القوسین زیادۃ من نقل الحافظ ]
اور ایک دوسری کتاب میں واضح طورپر اسے ضعیف قراردیتے ہوئے کہا:
ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث ہے[التوحيد لابن خزيمة 2/ 545]
معلوم ہواکہ امام ابن خزیمہ کے نزدیک بھی یہ راوی ضعیف ہی ہے اور انہوں نے اس کی حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے بلکہ تصحیح سے انکار کیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ امام نووی کا اس راوی کے ضعیف ہونے پر ائمہ جرح وتعدیل کا اتفاق نقل کرنا بالکل صحیح ہے۔اور نصب الرایہ کے محشی کا اس پر واویلامچانا ہٹ دھرمی کے سواکچھ نہیں ہے۔
یادرہے کہ ایک دومحدث سے اگراس کی توثیق مل بھی جائے تو بھی یہ راوی ضعیف ہی رہے گا کیونکہ محدثین کی بڑی تعداد نے اسے ضعیف کہا ہے اور بعض نے سخت جرح کی ہے اور بعض نے مفسرجرح کی ہے لہٰذا اس قدر جروح کے ہوتے ہوئے ایک دو کی توثیق اسے ثقہ نہیں بناسکتی ۔اسی لئے نصب الرایۃ کے متعصب محشی نے بھی اس کی تضعیف میں صرف اختلاف ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے اور اسے ثقہ ثابت کرنے کا حوصلہ بالکل نہیں دکھا سکے۔


دوسری علت:
اس کی سند میں ایک دوسرا راوی ”زیادبن زید“ مجہول ہے ۔کسی بھی امام نے اسے ثقہ نہیں کہا ہے بلکہ :

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
مجهول
یہ مجہول ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 532]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
مجهول
یہ مجہول ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2078]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تیسری علت:
اس حدیث میں تیسری علت یہ ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں ”عبدالرحمن بن اسحاق “ا ضطراب کاشکار ہوا ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

سند میں اضطراب:
”عبدالرحمن بن اسحاق “اس روایت کی سند بیان کرنے میں شدید اضطراب کاشکار ہوا ہے چنانچہ کبھی تو اس نے اس حدیث کو ”زياد بن زيد، عن أبي جحيفة“کے واسطہ سے علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ جیساکہ گذشتہ سطور میں اس کی سند پیش کی گئی ہے دیکھئے:[سنن أبي داود 1/ 201 رقم756 ]

اورکبھی اس نے ”نعمان بن سعد“کے واسطے سے علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
حدثنا محمد بن القاسم , ثنا أبو كريب , ثنا حفص بن غياث , عن عبد الرحمن بن إسحاق , عن النعمان بن سعد , عن علي , أنه كان يقول: «إن من سنة الصلاة وضع اليمين على الشمال تحت السرة»[سنن الدارقطني 2/ 35 ومن طريقه البيهقي 2/31]

صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اس نے روایت کو علی رضی اللہ عنہ کے بجائے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیا ہے چنانچہ :
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي، عن سيار أبي الحكم، عن أبي وائل، قال: قال أبو هريرة: «أخذ الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة»، قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل: يضعف عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ:میں نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے سنا وہ عبدالرحمن بن اسحاق کوفی کوضعیف قراردیتے تھے[سنن أبي داود 1/ 201 ومن طریقہ اخرجہ الدارقطنی فی سننہ (2/ 31) رقم 1098 وابن المنذرفی الأوسط في السنن والإجماع (3/ 94) رقم1291 بہ ]

ان تمام سندوں میں مرکزی راوی ”عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی “ہی ہے اور یہ اپنے سے اوپرروایت کی سند بیان کرنے میں شدید اضطراب کا شکارہوا ہے لہٰذا اس روایت کے ضعیف ہونے کی یہ بھی ایک علت ہے۔

متن میں اضطراب:
بلکہ زیدشیعوں کی ایک کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ”عبدالرحمان بن اسحاق الو اسطی الکوفی“اس روایت کے متن کو بیان کرنے میں بھی اضطراب کا شکار ہواہے چنانچہ گذشتہ سطور میں اس روایت کا ایک سیاق گذرچکا ہے ۔لیکن زیدی شیعوں ہی کی ایک دوسری کتاب”رأب الصدع “میں یہ روایت عبدالرحمان بن اسحاق الو اسطی الکوفی ہی کی سندسے موجود ہے چنانچہ:
أبو جعفر محمد بن منصور بن يزيد المرادی الکوفی نے کہا:
حدثنا علي بن منذر، عن ابن فضيل، قال: حدثنا عبدالرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي -عليه السلام- قال: ثلاث من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضع الأكف على الأكف تحت السرة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:تین چیزیں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق میں سے ہیں افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنااور نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا۔[رأب الصدع :ج1ص319 ]۔

امام سیوطی نے انہیں الفاظ کے ساتھ اس روایت کے لئے اہل سنت کی کتابوں میں ابن شاہیں ، ابومحمدعبد الله بن عطاء الابراہیمی اور ابوالقاسم ابن مندہ کی کتابوں کے حوالہ دئیے ہیں دیکھئے:
ممکن ہے ان کتابوں میں بھی اس روایت کی سند یہی ہو اگر ایسا ہے یا شیعوں کی اس کتاب میں ”أبو جعفر محمد بن منصور بن يزيد المرادی الکوفی“ نے سند درست نقل کی ہے تو اس روایت میں اس نے اس کا متن الگ سیا ق میں بیان کیا ہے یہ بھی اس کا اضطراب ہے جو اس روایت کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
الغرض یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔بلکہ علی رضی اللہ عنہ سے ثابت شدہ عمل کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نماز میں سینے پرہاتھ باندھنا ہی ثابت ہے چنانچہ:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين، عن أبي بدر، عن أبي طالوت عبد السلام، عن ابن جرير الضبي، عن أبيه، قال: «رأيت عليا، رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة»
جناب ابن جریر ضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پہنچے (کلائی) کے پاس سے (یعنی جوڑ کے پاس) سے پکڑ رکھا تھا اور وہ ناف سے اوپر تھے۔[سنن أبي داود 1/ 201 رقم 757 واسنادہ حسن]دیکھئے:ص

اس ثابت شدہ روایت سے معلوم ہواکہ علی رضی اللہ عنہ نماز میں ناف کے اوپرہاتھ باندھتے اور ناف کے اوپر سے مراد سینہ ہی ہے جیساکہ علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر روایت سے معلوم ہوتا ہےچنانچہ علی رضی اللہ عنہ ہی سے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں یہ قول صحیح سند مروی ہے کہ :اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں یہ روایت سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جاچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تنبیہ بلیغ:
گذرشہ سطور میں تفصیل سے بتایا جاچکاہے کہ یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے منقول ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی مذکورہ روایت سخت ضعیف بلکہ باطل ہے۔
بعض احناف نے جب دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ حدیث باتفاق امت ضعیف ہے تو ان بے بچاروں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بھی اسی طرح کی حدیث گھڑ لی جس کا وجود پوری دنیا کسی بھی کتاب میں نہیں ہے۔
چنانچہ:
درھم السرۃ کے مؤلف لکھتے ہیں:
منها ماذکره صاحب المحيط البرهاني وصاحب مجمع البحرين في شرحه علي المجمع قالا: ((قال ابن عباس رضي الله عنهما: إن النبي صلي الله عليه وسلم قال:«من السنة وضع اليدين علي الشمال تحت السرة»))۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل میں ایک دلیل وہ بھی ہے جسے صاحب المحیط البرھانی اور صاحب مجمع البحریں نے مجمع کی شرح میں ذکرکیا کہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایاکہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:سنت میں سے ہے کہ دونوں ہاتھوں کو بائیں ہاتھ پر رکھ ناف کے نیچے رکھا جائے[درهم الصرة في وضع اليدين تحت السرةص31]

عرض ہے کہ دنیا کی کسی بھی کتاب میں اس حدیث کا کوئی وجود نہیں ، اس حدیث پر نظر پڑتے ہی ہمیں لگا کہ شایدشرح مجمع البحرین کے کسی نسخہ میں غلطی سے ابن عباس رضی اللہ کی طرف مرفوعامنسوب کردی گئی اوراصل میں یہ علی رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت ہی ہوگی ۔لیکن ہم نے شرح مجمع البحریں کے چارمخطوطات( قلمی نسخوں) کامراجعہ کیا چاروں میں یہ حدیث اسی طرح ہے ۔دیکھئے:نسخہ المكتبة الأزهرية (ق27/ ب)، دوسرانسخہ المكتبة الأزهرية(ق42/ أ)،نسخہ يحي بن احمد بن علي(ق44/ ب) اور نسخہ مکتبہ جامعہ الریاض(ق25/ أ)۔
معلوم ہواکہ یہ ناسخ کی غلطی نہیں ہے بلکہ اپنے مسلک کی تائید میں اسے گھڑا گیا ہے۔
اس روایت کے متن پر غور کیجئے اس میں کہا جارہا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من السنۃ) یعنی سنت میں سے یہ ہے ۔۔حالانکہ اس طرح کے الفاظ صحابہ یا تابعین بولتے ہیں ۔
مزید یہ کہ اس حدیث میں کہا گیا :(وضع اليدين علي الشمال)یعنی دونوں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا !
اب یہ کون سی بلا ہے؟ بھلا دونوں ہاتھ بائیں ہاتھ پر کیسے رکھیں جائیں گے ؟ کیا انسان کے تین ہاتھ ہوتے ہیں ؟
اگر یہ کہا جاتا کہ ہاتھوں کو بائیں ہاتھ پر کھنا ،تو اس کی یہ تاویل ہوسکتی تھی کہ سبھی لوگوں کے لئے تعلیم ہے کہ دائیں ہاتھوں کو بائیں پر رکھیں ۔مگر یہاں تثنیہ کے ساتھ ہے کہ دونوں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا ۔یہ انتہائی عجیب وغریب بات ہے ۔
یہ تمام باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ روایت خودساختہ ہے۔
اس روایت کے من گھڑت ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے خود عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں یہ قول صحیح سند مروی ہے کہ :اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں یہ روایت سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جاچکی ہے۔دیکھیے:
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top