• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زیرناف ہاتھ باندھنے سے متعلق ”مسندزیدبن علی“ کی روایت کاجائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوخالدعمروبن خالد الواسطی(المتوفی بعد 120 ھ) کذاب نے کہا:
(حدثنی ) زید بن علی عن ابیہ عن جدہ عن علی رضی اللہ عنھم قال :ثلاث من اخلاق الانبیاءصلاۃ اللہ وسلامہ علیھم ،تعجیل الافطار و تاخیر السحور،ووضع الکف علی الکف تحت السرہ
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:تین چیزیں انبیاء علیھم الالسلام کے اخلاق میں سے ہیں افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیرکرنااور دائیں ہتھیلی کوبائیں ہتھیلی پر رکھ کرزیرناف رکھنا۔[مسند زید بن علی :ص183 دار الکتب العلمیۃ]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
یہ روایت باطل اورجھوٹ ہے کیونکہ یہ ایسی کتاب سے نقل کی گئی ہے جوخود ساختہ اور من گھڑت ہے۔
چنانچہ ”مسند زیدبن علی“ کے نام سے یہ کتاب ” زيد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب القرشى الهاشمى (المتوفی 122ھ) کی طرف منسوب ہےجس میں زیدبن علی کو اپنے آباء اجداد( عن أبيه عن جده عن أمير المؤمنين علي ) کی سند سے احادیث بیان کرتےہوئے ظاہرکیا گیاہے ۔
لیکن یہ جھوٹی نسبت ہے کیونکہ کسی بھی ذریعہ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ زید بن علی رحمہ اللہ نے ایسی کوئی کتاب لکھی ہے ۔
مسند زیدبن علی کا جو موجودہ نسخہ ہے اس میں دو جگہ اس کتاب کی سند درج ہےجواس طرح ہے:
حدثني عبد العزيز بن إسحاق بن جعفر بن الهيثم القاضي البغدادي قال: حدثنا أبو القاسم علي بن محمد النخعي الكوفي. قال: حدثنا سليمان بن إبراهيم بن عبيد المحاربي. قال: حدثني نصر بن مزاحم المنقري العطار قال:حدثني إبراهيم بن الزبرقان التيمي قال:حدثني أبو خالد الواسطي رحمهم اللّه تعالى قال:حدثنی زیدبن علی ۔۔۔۔۔۔[مسندزید بن علی :ص 48،48 ایضا ص387]۔
اس سند کا ہرراوی متکلم فیہ ہے بلکہ بعض متروک اور خبیث مذہب والے ہیں لیکن سب کی تفصیل پیش کرنے کے بجائے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ ہی کی حقیقت بیان کردینا کافی ہے کیونکہ یہی وہ شخص ہے جس نے اس مجموعہ کو اپنی طرف سے گھڑا ہے اوراسے زیدبن علی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔
یعنی ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ نے زیدبن علی رحمہ اللہ کی کتاب روایت نہیں کی ہے بلکہ خود ہی یہ کتاب مرتب کی ہے ۔
یادرہے کہ زیدبن علی رحمہ اللہ کااپنی مسند مرتب کرنا ثابت نہیں ہے اور نہ ہی محدثین نے انہیں کسی مسند کا مصنف کہا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس مجموعہ کو مرتب کرنے والا یہی’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ ہے۔ اوراس نے اپنی طرف سے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے اس مجموعہ کو مرتب کرکے زیدبن علی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
كذاب ، يروي عن زيد بن علي ، عن آبائه ، أحاديث موضوعة ، يكذب
یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ،یہ زیدبن علی سے ان کے آباء واجداد( عن أبيه عن جده عن أمير المؤمنين علي )کے طریق سے من گھڑت احادیث بیان کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے [تهذيب الكمال للمزي: 21/ 605 نقلہ عن کتاب الاثرم وایضا الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 268 واسنادہ صحیح]

امام احمدرحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کا مرتب کیا ہوا ”مسندزید بن علی“ کے نام سے یہ پورا مجموعہ موضوع اورخودساختہ ہے جسے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ نے گھڑا ہے۔
یہی بات امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفى233)نے بھی کہیں چنانچہ آپ نے کہا:
شيخ كوفي كذاب يروى عن زيد بن علي عن ابائه عن علي
یہ کوفی شیخ اور بہت بڑا جھوٹا ہے ۔یہ زیدبن علی سے ان کے آباواجداد ( عن أبيه عن جده عن أمير المؤمنين علي )کے طریق سے علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتا ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدارمي: ص: 160]

معلوم ہوا کہ ابن معین رحمہ اللہ نے بھی زید بن علی سے ان کے آباء واجداد کے طریق سے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کی روایات کوجھوٹی اورمن گھڑت قراردیا ہے۔
یادرے کہ ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ نے یہ پورا مجموعہ زیدبن علی سے ان کے آباء واجداد( عن أبيه عن جده عن أمير المؤمنين علي )کے طریق سے بیان کیا ہے اوراس طریق سے زید بن علی سے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کی روایات کوامام احمداورامام ابن معین رحمہماللہ نے خصوصی طورپر موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے اس سے معلوم ہواکہ ”مسندزیدبن علی “کے نام سے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کا مرتب کیاہوا یہ پورا مجموعہ ہی موضوع اور من گھڑت ہے جسے ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ گھڑا ہے۔

’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کی اس مجموعہ روایات پر خصوصی جرح کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی دلائل ہیں جن سے اس مجموعہ کا موضوع اورمن گھڑت ہونا ثابت ہوتا ہے مثلا:
زیدبن علی رحمہ اللہ ،جن کے نام سے یہ مجموعہ گھڑا گیا ہے ان کی اولاد میں حسین بن زید یا عیسی بن زید یا روئے زمین کے کسی بھی فرد نے اس مجموعہ کی کوئی ایک بھی روایت اسی سند سے زیدبن علی سے بیان نہیں کی ہے ۔پھرپوری دینا میں تنہا ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ ہی کو یہ مجموعہ کہاں سے مل گیا؟

اسی طرح اس سے اوپر کے طبقہ میں دیکھیں کہ امام محمدباقر رحمہ اللہ یہ زیدبن علی ہی کے بھائی ہے یعنی یہ بھی علی بن الحسین کے بیٹے ہیں جن سے زیدبن علی نے یہ روایات بیان کیں ۔ لیکن امام باقر نے اس مجموعہ کی کوئی ایک بھی روایت اپنے والد سے بیان نہیں کی ہے ۔یعنی انہوں نے کسی بھی روایت میں زیدبن علی کی متابعت نہیں کی ہے حالانکہ یہ عمر میں زیدبن علی سے پچیس(25) سال بڑے ہیں ۔
اگر واقعتا زیدبن علی اور ان کے آباء واجدادسے یہ احادیث مروی ہوتیں تو ان کے بڑے بھائی امام باقر بھی اپنے والد علی بن الحسین سےان احادیث میں کچھ نہ کچھ ضرور بیان کرتے مگر انہوں نے اپنے والد علی بن الحسین سے اس مجموعہ کی ایک بھی روایت بیان نہیں کی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایات نہ تو امام باقر کے بھائی علی بن زید کے پاس تھیں اور نہ ہی ان کے والد علی بن الحسین کے پاس، بلکہ یہ سب ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ہی کی خود ساختہ ہیں۔
یہی حال سندکے اوپر کے طبقہ میں بھی ہے ۔اورپرکے طبقہ میں بھی نہ تو اہل بیت کے دیگر افراد کی متابعت ملتی ہے اور نہ ہی روئے زمین کے کسی فرد کی متابعت ملتی ہے۔

اوریہ بھی کیا عجیب تماشاہے کہ کتاب کی تمام احادیث جن کی تعداد چھ (600) سوہے یہ سب ایک ہی سند سے مروی ہیں جو یہ ہے:
حدثني زيد بن علي عن أبيه عن جده عن أمير المؤمنين علي (موقوفاأومرفوعا)

غورکریں ایک ہی کتاب کی ساری کی ساری احادیث ایک ہی سند سے مروی ہیں جس کے تمام طبقات یکساں ہیں!
کیا یہ سخت تعجب انگیز بات نہیں ہے؟ اورتعجب بالائے تعجب یہ کہ اس پوری کتاب کی کسی ایک بھی حدیث میں اس طریق کی متابعت پوری دینا کے کسی فرد سے نہیں ملتی !
کیا پوری دنیا سے حدیث کی کوئی ایک بھی کتاب ایسی دکھائی جاسکتی ہےجو ایک ہی سندسے تمام طبقات میں یکسانیت کے ساتھ مروی ہو ؟اورجس کی کسی ایک بھی حدیث کی روایت میں اس کے طریق کی متابعت پوری دنیا میں کسی بھی فرد سے نہ ملے؟

علم رجال کا معمولی طالب علم بھی کسی کتاب کی سندوں کی یہ کیفیت دیکھتے ہی پکار اٹھے گا کہ اس کا مصنف کذاب اور بہت بڑا جھوٹا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سارے محدثین نے اس کتاب کے مصنف ’’ابوخالدعمروبن خالد الواسطی “ کومتفق اللسان ہوکر حدیث گھڑنے والا اورکذاب یعنی بہت بڑا جھوٹاقراردیا ہے ۔امام احمد اورا مام ابن معین رحمہمااللہ کا حوالہ گذرچکا ہے مزید حوالے ملاحظہ ہوں:

امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
يضع الحديث
یہ حدیث گھڑتا ہے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 230 واسنادہ صحیح]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
كان يضع الحديث
یہ حدیث گھڑتاہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 230واسنادہ صحیح]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
هذا كذاب
یہ بہت بڑا جھوٹاہے[تهذيب الكمال للمزي: 21/ 606 نقلہ من الاجری]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عمرو بن خالد، أبو خالد، الواسطي.كَذَّاب
عمروبن خالد،ابوخالد الواسطی یہ بہت بڑا جھوٹاہے[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 159]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
عمرو بن خالد الواسطي معروف بوضع الحديث
عمروبن خالدالواسطی یہ حدیث گھڑنے میں معروف ہے[السنن الكبرى للبيهقي: 1/ 349]

محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507):نے کہا
عمرو بن خالد كذاب
عمروبن خالد ،یہ بہت بڑا جھوٹاہے[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 2/ 892]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
كذبوه
محدثین نے اسے جھوٹاقراردیاہے[الكاشف للذهبي: 2/ 75]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عمرو بن خالد الواسطي وهو كذاب
عمروبن خالد الواسطی ،یہ بہت بڑاجھوٹاہے[تلخيص الحبير لابن حجر: 1/ 259]

مزید تفصیل اور دیگر اقوال کے لئے عام کتب رجال دیکھیں۔

معلوم ہوا کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے جسے ”عمرو بن خالد الواسطي“نے گھڑا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تنبیہ:
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
عن علي قال : ثلاثة من أخلاق الانبياء : تعجيل الافطار ، وتأخير السخور ، ووضع الاكف علی الاکف تحت السرة في الصلاة (ابن شاهين، وأبو محمد الإبراهيمى فى كتاب الصلاة، وأبو القاسم بن منده فى الخشوع).
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:تین چیزیں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق میں سے ہیں افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنااور نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا۔[الجامع الکبیر للسوطی :ج17ص603 رقم 782 مسندعلی،مطبوعہ دارالسعادہ]
اورامام سیوطی رحمہ اللہ کی اسی کتاب سے یہ روایت نقل کرکے علاء الدين متقي الهندي (المتوفى975)نے کنزالعمال میں درج کیا دیکھئے:[كنز العمال 16/ 230 رقم 44271 ، نیز دیکھیں کنزالعمال مترجم : ج 16ص 499]

عرض ہے کہ امام سیوطی نےاس کی سند ذکر نہیں کی ہے اور بے سندباتیں حجت نہیں ہوتیں۔امام سیوطی نے ابن شاہیں ، ابومحمدعبد الله بن عطاء الابراہیمی اور ابوالقاسم ابن مندہ کی کتابوں کے حوالہ دئیے ہیں لیکن یہ کتابیں دستیاب نہیں ہے۔
بہت ممکن ہے کہ ان کتابوں میں بھی یہ روایت عمروبن خالد الواسطی الکوفی کذاب اور جھوٹے ہی کی سند سے ہو جیساکہ اس نے اپنی من گھڑت کتاب ”مسند زید “میں اسے زید بن علی اور ان کے آباء کی سند سے ذکر کیا ہے۔جس کی حقیقت گذشتہ سطور میں بتائی جاچکی ہے۔
یادرہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی زیدبن علی اور ان کے آباء واجداد کی سند سےعمروبن خالد الواسطی الکوفی کذاب کی روایت موجود ہے چنانچہ :
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
حدثنا محمد بن أبان البلخي قال: حدثنا عبد الرزاق قال: أنبأنا إسرائيل، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علي، عن أبيه، عن جده، عن علي بن أبي طالب، قال: انكسرت إحدى زندي، فسألت النبي صلى الله عليه وسلم، «فأمرني أن أمسح على الجبائر»[سنن ابن ماجه 1/ 215 رقم 657]

معلوم ہوا کہ اہل سنت نے بھی اسی سند سےعمروبن خالد الواسطی الکوفی کذاب کی روایت نقل کی ہے اس لئے بعید نہیں امام سیوطی کی ذکر کردہ کتابوں میں بھی یہ روایت اسی سند سے ہو۔

یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روایت اُسی عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی بالاتفاق ضعیف اور متروک کی سند سے ہوجس نے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے زیرناف ہاتھ باندھنے کو سنت کہا ہے جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔
چنانچہ زیدی شیعوں ہی کی ایک دوسری کتاب”رأب الصدع “میں یہ روایت عبدالرحمان بن اسحاق الو اسطی الکوفی ہی کی سندسے موجود ہے چنانچہ:
أبو جعفر محمد بن منصور بن يزيد المرادی الکوفی نے کہا:
حدثنا علي بن منذر، عن ابن فضيل، قال: حدثنا عبدالرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي -عليه السلام- قال: ثلاث من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضع الأكف على الأكف تحت السرة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:تین چیزیں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق میں سے ہیں افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنااور نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا۔[رأب الصدع :ج1ص319 ]۔

اسی سند سے اہل سنت کی کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں مثلا:
امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے کہا:
فإن ابن المنذر، حدثنا قال: حدثنا ابن فضيل، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن في الجنة لغرفا، يرى ظهورها من بطونها ۔۔۔ الخ [صحيح ابن خزيمة، ت الأعظمي: 3/ 306]
یادرہے کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عمومی تصحیح سے یہ حدیث مستثنی ہے کیونکہ امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو درج کرنے سے پہلے ہی ”عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی‘‘ کی وجہ سے اس کی تصحیح سے انکار کردیا ہے اورکہا:
إن صح الخبر؛ فإن في القلب من عبد الرحمن بن إسحاق أبي شيبة الكوفي
اگر یہ حدیث صحیح ہو تو کیونکہ عبدالرحمن بن اسحاق ابوشیبہ الکوفی پر دل مطمئن نہیں ہے[صحيح ابن خزيمة، ت الأعظمي: 3/ 306]

امام أبو علي ابن منصور الطوسيي رحمه الله (المتوفى312)نے کہا:
حدثنا علي بن منذر الكوفي ، قال : حدثنا ابن فضيل ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعد عن علي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن في الجنة لغرفا ۔۔۔الخ[مستخرج الطوسي على جامع الترمذي: 6/ 352]

معلوم ہوا کہ اہل سنت نے بھی اس سند سے روایت نقل کی ہے اس لئے بعید نہیں امام سیوطی کی ذکر کردہ کتابوں میں بھی یہ روایت اسی سند سے ہو۔

بہر حال معاملہ کچھ بھی بہرصورت یہ روایت مردود ہے کیونکہ امام سیوطی کی کتاب میں اس کی سند ذکر نہیں ہے اور جن کتابوں اس کی سند ملتی ہے اس کی رو سے یہ روایت سخت ضعیف ومردودبلکہ باطل ہے۔

اس روایت کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تحت السرۃ (زیرناف )کی زیادتی کے بغیر انہیں الفاظ کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اسی حدیث کو مرفوعا روایت کیا ہے لیکن ان کی روایت میں تحت السرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔اور ان کی سند صحیح ہے دیکھئے:[صحيح ابن حبان: 5/ 67 رقم 1770 عن ابن عباس واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]
غور کریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث تحت السرۃ (زیرناف )کی زیادتی کے بغیر صحیح سند سے ثابت ہے تو علی رضی اللہ عنہ اس میں تحت السرہ (زیرناف) کی زیادتی کیسے کرسکتے ہیں ؟یہ بھی اس بات کی دلیل ہے اس حدیث میں تحت السرہ (زیرناف)کااضافہ غلط وباطل ہے ۔

بلکہ بعض جگہ علی رضی اللہ عنہ ہی سے یہی روایت تحت السرہ کی زیادتی کے بغیر مروی ہے چنانچہ:
أبو محمد الحسن بن محمد بن الحسن بن علي البغدادي الخَلَّال (المتوفى: 439)نے کہا:
ثنا أبو الحسين عبيد الله بن أحمد بن يعقوب المقرئ، ثنا يحيى بن محمد بن صاعد، ثنا محمد بن عبد الرحمن المقرئ، ثنا مروان الفزاري، ثنا سعد بن طريف، عن الأصبغ بن نباتة، قال: أتينا علي بن أبي طالب عليه السلام وهو في قرى أبي موسى الأشعري وقد تسحرنا بالكوفة فسرنا إليه أربعة فراسخ، فوجدناه يغسل يده من السحور فقال: «يا همدان،» أقم الصلاة للصيام من هذه الساعة إلى الليل، من أخلاق الأنبياء عليهم السلام: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضع اليد على اليد في الصلاة فلما أمسى۔۔۔ الخ
اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ نے کہا:تین چیزیں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق میں سے ہیں افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنااور نماز میں ہاتھ کوہاتھ پررکھنا۔[المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال :ص: 44 رقم 44]
لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
تاہم ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہی روایت االلہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کے بغیرانہیں الفاظ کے ساتھ بیان کی ہوجن الفاظ کے ساتھ دیگر صحابہ نے اسے مرفوعا بیان کیا ہے اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی دیگر صحابہ کی طرح تحت السرہ کی زیادتی کے بغیر ہی اسے بیان کیا ہو لیکن متروک اور کذاب راویوں نے اس میں تحت السرہ کا اضافہ کردیا۔

اس اضافہ کے باطل اور جھوٹ ہونے کی ایک مزید دلیل یہ بھی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ہی سے{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں یہ قول صحیح سند مروی ہے کہ :اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں یہ روایت سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جاچکی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top