محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 27 ذو الحجہ1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان " سالِ نو اور امتِ اسلامیہ کے دُکھ درد " ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے آنے والے سال کےمتعلق گفتگو کی اور مسلمانوں کے لئے انتہائی دردناک ، خطرات سے بھرے ہوئے سال کو الوداع کیا، پھر انہوں نے گذشتہ غلطیوں سے سیکھنے اور محاسبہ نفس کی ترغیب دلائی ، اور کہا کہ اگر دونوں جہانوں میں ہمیں کامیابی چاہئے تو اس کیلئے یہی راستہ ہے۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں آسمان و زمین کا وہی مالک ہے، یوم آخرت میں بھی حمد کا وہی مستحق ہوگا، وہ حکمت والا اور خبر دار ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ِ برحق نہیں وہ یکتا ہے، وہ انتہائی بلند اور بہت بڑا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں،انہوں نے پیغامِ رسالت پہنچا کر اپنے ذمہ امانت ادا کردی، انہوں نے امت کی خیر خواہی بھی کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کا حق بھی ادا کیا ، یا اللہ! اُن پر قیامت تک درود و سلام اور برکت فرما، انکی اولاد اور صحابہ کرام پر بھی ۔
حمد و صلاۃ کے بعد، مسلمانو!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ جو اس سے ڈرتا ہے اللہ اسکے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ [الطلاق: 2، 3]
مسلمانو!
مہینے اور سال گزرتے چلے جا رہے ہیں، زندگی اور عمریں اپنی اپنی انتہا کی جانب رواں دواں ہیں، اللہ تعالی کے پاس ہر چیز ایک مقرر وقت تک کیلئے ہے۔
سالِ نو کے استقبال اور گزرے سال کو الوداع کہتے ہوئے غور فکر کرنے والوں کیلئے بہت سے نصیحت آموز مواقع ہیں، اللہ تعالی نے فرمایا: يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ اللہ ہی رات اور دن کا ادل بدل کرتا رہتا ہے۔ بلاشبہ اہل نظر کے لئے ان نشانیوں میں عبرت کا سامان ہے۔ [النور: 44]
کامیاب اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو کتابِ زمانہ کے ایک ایک صفحے پر رک کر محاسبہ نفس کرتا ہے، اور کھڑا ہوکر اپنے اعمال پر نظر دوڑاتا ہے، یقینا ایک مؤمن کو ہر وقت محاسبہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے، تا کہ اپنے چال چلن کی پڑتا ل کرسکے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "محاسبہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے دل مردہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دلی خواہشات کے پیچھے چلنا بھی اسکی ہلاکت کا باعث بنتا ہے"
مسلمان بھائیو!
مؤمن کیلئے کامیابی اور فلاح محاسبہ نفس میں پوشیدہ ہے، اسکے بعد نفس کو گناہوں اور کسی بھی جرم کے ارتکاب سے روک کر نیکی ، اور بھلائی کی طرف اسے لے جانا ہوگا، اسی بات کی دعوت کیلئے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کےلئے کیا سامان کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقینا اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ [الحشر: 18]
ہمارے سلف صالحین کی زندگی میں محاسبہ نفس اور ہر وقت اسکا خیال کرنے کے متعلق بہت سے زریں اقوال ملتے ہیں ، جیسے حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "انسان اس وقت تک کامیاب رہتا ہے جب تک اسکا ضمیر اسے نصیحت کرتا رہے، اور محاسبہ اپنی عادت بنا لے"
مسلمان بھائی!
ایک سال کو الوداع اور نئے کا استقبال کرتے ہوئے یاد رکھنا، تمہاری نجات محاسبہ نفس میں ہے، کامیابی کیلئے اپنا خیال رکھو، محاسبہ ایسا کرو کہ جو تمہیں فضول اشیاء اور گناہوں سے روک کر ، احکاماتِ الٰہیہ کی تعمیل اور نیکی کیلئے تمہیں تیار کردے۔
مسلمان بھائی ! بغیر عمل کے آخرت سنورنے کے خواب مت دیکھنا ، اور لمبی زندگی کی امید پر توبہ کو لیٹ مت کرنا، فرمانِ باری تعالی ہے: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کےلئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل پسیج جائیں؟''اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں [الحديد: 16]
اسلامی بھائیو!
ہماری زندگی میں گنتی کے سال اور گھڑیاں ہوتی ہیں، اس دوران کامیاب مؤمن اپنے لئے نیکی ، اورتقوی اکٹھا کرتے جاتے ہیں، آخرت میں کامیابی کیلئے خوب تگ ودو کرتے ہیں، اسی لئے ہر سال متقی حضرات کی نیکی اور تقوی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے بہترین وہ ہے جسکی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوئے) ترمذی، اور کہا "یہ حدیث حسن صحیح ہے"
اے مسلم! اپنی زندگی کے سالوں کو ضائع مت کرنا، اللہ تعالی تم پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتا ہے: أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا؟ حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا (بھی) آیا تھا [فاطر: 37]
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "محققین اورابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسکا مطلب ہے کہ : کیا ہم نے تمہیں ساٹھ سالہ زندگی نہیں دی؟"
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے ایسے شخص سے عذر ختم کردیا جسے ساٹھ سالہ زندگی دے دی) نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "یعنی اگر کسی کو اتنی عمر مل جائے تو اسکے لئے مہلت نہ ملنے کا عذر ختم ہوچکا ہے"
مسلمانو!
سالِ نو کے آنے اور ایک سال کے جانے سے یہ بھی نصیحت ملتی ہے کہ ، یہ دنیا کسی صورت میں بھی باقی نہیں رہے گی، دنیاسے امید، اور تمنا سب جھوٹ ہیں، یہاں کی زندگی کوئی زندگی نہیں، حتی کہ اچھی زندگی میں بھی تکالیف ہیں، انسان کو ہر وقت کسی نہ کسی کا خطرہ لگا رہتا ہے، دنیا کے دو ہی احوال ہیں: زوالِ نعمت یا نزولِ نقمت، اس دنیا میں ملنے والی آسائش بھی آزمائش ہے، یہاں کی ہر نئی چیز نے بوسیدہ ہونا ہے، اور ہر ایک کی بادشاہت نے فنا ہونا ہے، دنیا کے دن گنتی کے دن ہیں، اور اس کی عمر بھی مقرر ہے۔
یہ دنیا سراب یا سایہ کی طرح ہے، یا پھر اسکی مثال خواب جیسی ہے، اس لئے اللہ سے مدد مانگو اور اُسی پر توکل کرو، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی تو بس چند روزہ ہے اور ہمیشہ کے قیام کا گھر آخرت ہی ہے۔ [غافر: 39]،
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا نیز ان کے لئے دنیا کی زندگی کی یہ مثال بیان کیجئے: جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہوگئی۔ پھر وہی نباتات ایسا بھس بن گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ [الكهف: 45]
وہ شخص مبارک باد کا مستحق ہے جسے دنیا نے آخرت کی تیاری سے نہیں روکا، خوش قسمت ہے وہ شخص جو رنگ برنگی دنیا ، اور چمک دمک سے دھوکہ نہیں کھاتا اور موت کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔
اللہ کے بندو!
کامیابی اسی شخص کے قدم چومے گی جس نے اس دنیا کو صرف گزر گاہ سمجھا، اور اسے نیک اعمال کیلئے مقابلے کا میدان تصور کیا، امام مسلم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقینا یہ دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اور اللہ تعالی نے تمہیں اس دنیا میں چھوڑا ہے تا کہ تمہارے اعمال کا جائزہ لیا جاسکے، اس لئے دنیا اور خواتین سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل کو سب سے پہلے خواتین کے فتنے میں ڈالا گیا تھا)
مسلمانو!
ہمارا یہ سال گزر چکا ہے، اور کچھ ہی دیر باقی ہے، اور مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ یہ گزرنے والا سال مسلمانوں سے اس حالت میں گزرا کہ امت ِ مسلمہ انتہائی سنگین بحرانوں کا شکار ہے، جسکی تفصیل آپ سب کو معلوم ہے۔
کیا مسلم حکمران اور رعایا، قائدین اور عوام اس بات کو سمجھے ہیں کہ امن و امان کی نعمت نفاذِ اسلام، حقائقِ قرآن اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے پر ہی ملے گی؟
کسی صورت بھی امت اسلامیہ بھر پور طاقت حاصل نہیں کر سکتی ، اور نہ ہی مقام و مرتبہ پا سکتی ، اور کبھی بھی شایانِ شان منزل تک پہنچ سکتی جب تک اپنی علمی اورعملی زندگی اور عقائد اور احکامات میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کیا جائے، اور اسی کو اپنے لئے دستور اور قانون نہ بنایا جائے۔
امتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل کی تعداد کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، امت اسلامیہ کو در پیش مسائل سے نجات، اور حالات کی درستگی اور بلند عالی شان مقام حاصل کرنے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ اسلام کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر راسخ کرنا ہوگا، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی ، معاشرتی ، معاملات اور لین دین سب امور میں اسلام کو منشور بنانا ہوگا، جس کے بارے میں قرآن میں ارشادِ باری تعالی ہے: فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (123) وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف اٹھائے گا[123] اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ [طه: 123، 124]
مسلمانوں کو درپیش چیلنجز، اور ان پر ہونے والے خارجی حملے بہت زیادہ ہوچکے ہیں، اور انہیں ہر وقت اور ہر جگہ زندگی بچانے کیلئے ادویات کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت تمام ضروریات سے بالا تر ہے، اور وہ دوا ہم ہر کانفرنس، ہر جلسےاور اجتماع میں سنتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان اور صرف اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسی کی طرف ہاتھ اٹھائے جائیں، ربانی عقیدے سے ہم لیس ہوں، یہی ایک طریقہ ہے جو ہمارے تمام معاشروں کی اصلاح کا ضامن ہے۔
چنانچہ علم و عمل ، دوستی و دشمنی ، محبت اور نفرت کیلئے اگر ان باتوں کو معیار بنا لیں تو امت پھر سے کامیابی و کامرانی اور غلبہ پا سکتی ہے، اور جس وقت تک یہ معیار باقی رہا، تنگی ترشی اور تربیت و اصلاح کیلئے اسلام ہی دستور رہا ، اس وقت تک مسلمان غالب رہیں گے، انکے حالات بھی درست ہونگے، اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں بھی ملیں گی، قرآن مجید میں اسکی ضمانت موجود ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں [الأنعام: 82]
بلکہ اللہ تعالی نے مذکورہ بالا معیار اپنانے پر ہمارے دفاع کی ذمہ داری لی ہے، اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا بیشک اللہ تعالی ایمان لانے والوں کا دفاع کرتا ہے۔[الحج: 38]
مسلمانو!
بہت ہوچکا!، بس کریں! بہت ہوچکا! مسلمانوں نے دشمنان اسلام سے بہت دھوکہ کھا لیا، وہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں دیکھنا چاہتے، وہ انہیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، انکی اس صفت کے بارے میں ہمیں اللہ نے نہیں بتلایا؟!: وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کفر میں مبتلا ہوجاؤ جیسے وہ ہو گئے تاکہ تم میں اور ان میں کوئی فرق باقی نہ رہے[النساء: 89]، وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ [آل عمران: 118]
اللہ سے ڈرو! امتِ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کے سپوتو! اپنے خون کی قدر کرو، ایک دوسرے کا احترام کرو؛ اللہ کے ہاں پوری دنیا کے زائل ہونے کے مقابلے میں ایک مسلمان کا قتل زیادہ مقام رکھتا ہے۔
اپنے ممالک اور اپنی طاقت کی حفاظت کرو، اپنے اتحاد کو محفوظ بناؤ، اس لئے کہ فتنے صرف تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں، وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً اور اس مصیبت سے بچ جاؤ جو صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص نہ ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو [الأنفال: 25]
مسلمانو!
نبی رحمت کو تمہاری طرف خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا، تم کیسے اختلافات میں پڑ گئے حالانکہ کہ قرآن مجید تمہارے پاس ہے؟!، اور نبی معصوم کے فرمودات تمہارے سامنے ہیں؟!
تم اس حالت تک کیسے پہنچ گئے کہ یہ حالت اللہ کو یقینا پسند نہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے تمہیں روکا بھی ہے: وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ اپنی جانوں کا قتل نہ کرو[النساء: 29]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تمہیں روکا تھا: (میرے جانے کے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن پر تلوار چلانے لگو)
اس دنیا کی لذتیں آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس لئے دین کو دنیا پر غلبہ دو، صلح صفائی کو لڑائی جھگڑے پر اور اختلاف کی جگہ اتفاق و اتحاد کو دو۔
آپس میں رحم کرو، اپنے بھائیوں کیلئے نرم گوشہ بن جاؤ، بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرو، صلح صفائی سے رہو، مفادِ عامہ کو ترجیح دو، ہمہ قسم کے اختلافات کو دور ہٹاؤ، کہ جن کی وجہ سے امت نے اتنا نقصان اٹھایا ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اسی لئے قرآن نے بھی کہا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ [الحجرات: 10]
جو کچھ سنا ہے اللہ تعالی اسے میرے اور آپ سب کیلئے برکت والا بنائے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو، وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں ، آپ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی دعوت دی، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اور تمام صحابہ کرام پر اپنی رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد! مسلمانو!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ تعالی نے پہلے اوربعد میں آنے والے سب لوگوں کو یہی نصیحت کی ہے۔
مسلمانو!
استقامت، اطاعت، اور احسان ہی میں اصل فائدہ ہے، جبکہ برائی اور نافرمانی میں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں۔
مسلمانوں کو درپیش مسائل میں سے سنگین ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان کئی سالہ زندگی پانے کے بعد بھی شرعی حدود کو پھلانگنے کی جرأت کرے، شرعی احکامات کی حرمت کو تار تار کردے، اپنی ذمہ داری اور حقوق کی ادائیگی میں سستی کرے۔
موجودہ سال کے حالات سے مسلمانوں کو بہت بڑی دلیل ملی ہے کہ انسانی حقوق کیلئے معیار کیا ہے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس امت سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ ان الفاظ کے دھوکے میں آگئے ہیں، جنہیں دلکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے، یہ اصطلاحات دوہری اصطلاحات ہیں، اپنے مفاد کی خاطر ان کے مفاہیم اور معانی کچھ ہوتے ہیں، اور جب انہی مفاہیم کا تقاضا مسلمانوں کیلئے کیا جائے تو بدل جاتے ہیں، اس وقت ان اصطلاحات کا کوئی معنی نہیں ہوتا جیسے کہ یہ دھول اور ریت مٹی ہیں؛ مسلمانو! کیا سمجھے ہو اس بات کو؟!
مسلمانو! اسلامی قوانین کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کوئی ترقی نہیں ہوگی، اسلامی قوانین ہی ایسے قوانین ہیں جو ہر ایک شخص کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، انہی قوانین سے زندگی سنورے گی، اور کائنات میں آباد کاری ہوگی، اسی سے نیک بختی ، سعادت اور ہمہ قسم کی خوشی میسر ہوگی، اسلام کے سپوتو! بہت دھوکہ کھا لیا دشمنوں کی باتوں میں آکر، اور انکے دوہرے معیار کے حامل شعار اور خوشنما اصطلاحات سے بہت نقصان اٹھا لیا۔
مسلمانو! اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے ، یا اللہ! ہمارے پیارے راہنما اور نبی مکرم محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر درود و سلام نازل فرما،یا اللہ اس درود کی وجہ سے ہمارے حالات درست فرما دے، یا اللہ تمام خلفاء راشدین ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی تمام سے راضی ہو جا، یا اللہ تمام آل بیت اور صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ انکے نقش قدم پر چلنے والے مسلمانوں سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عنائت فرما، یا اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما،یا اللہ! مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرما، یا اللہ!اپنی قدرت سے مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرما،یا اللہ! انکی عزت آبرو محفوظ فرما، یا ذالجلال والاکرام۔
یا اللہ! مسلمانوں سے برے حالات کے بادل چھٹ دے، یا اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کے غموں کو ختم کردے، یا اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کے غموں کو ختم کردے، یا اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کے غموں کو ختم کردے، یا اللہ! توں اُنکا ہو جا، یا اللہ! توں ہی انکی حفاظت فرما، یا اللہ! توں ہی انکا مدد گار بن ، یا اللہ! توں ہی انکا مدد گار بن، یا حیی یا قیوم۔
یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر جگہ پر مدد فرما، یا اللہ! کلمہ اسلام کو بلند کردے، یا اللہ! قرآنی تعلیمات کو بالا تر فرما دے، یا اللہ! قرآنی تعلیمات کو بالا تر فرما دے، یا اللہ! سنت کا نور ہر جگہ غالب فرما دے، یا اللہ! ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا نور غالب کر دے، یا اللہ ! جہاں تک آبادی ہے وہاں تک غالب کر دے۔
یا اللہ! سنت کے ذریعے ہماری آنکھوں کو منور فرما، یا اللہ! ہمارے حالات کو درست فرما، یاا للہ! مظلوموں کی مدد فرما، یا اللہ! مظلوموں کی مدد فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں کے حالات اچھائی میں بدل دے، یا حیی ! یا قیوم!
یا اللہ! شام میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکی مدد فرما، یا اللہ! ان کی تکالیف کو مٹا دے، یا اللہ! ان کی تکالیف کو مٹا دے، یا اللہ! ان کی تکالیف کو مٹا دے۔
یا اللہ! مصر میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ ! ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! حق پر ان میں اتحاد پیدا فرما۔
یا اللہ! یمن میں خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! نیکی و تقوی پر ان میں اتحاد پیدا فرما۔
یا اللہ! تیونس ، لیبیا، اور ہر جگہ پر مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرما۔
یا اللہ! ہمیں برے فتنوں سے بچا، یا اللہ! ہمیں برے فتنوں سے بچا، یا اللہ! ہمیں برے فتنوں سے بچا،
یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اس کی ہر اچھائی کیلئے راہنمائی فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں کے اچھے نیک سیرت حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے اچھے نیک سیرت حکمران نصیب فرما۔
یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما، یا اللہ! خلوت وجلوت کے گناہ بھی معاف فرما، یا اللہ! تو ہمارے گناہوں کو ہم سے زیادہ جانتا ہے ، یا اللہ! ہم پر ایسی رحمت کر کے اس کے بعد تیرے علاوہ کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔
یا اللہ! ہمیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں، یا اللہ! ہمیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں۔
اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على نبيِّنا ورسولِنا محمدٍ.
لنک