- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں:
پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔
اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عہنما سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ "یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" بالکل غلط ہے۔
بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے یہ کبھی نہین فرمایا کہ "حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" رسول اللہ ﷺ کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔
ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔ تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت ونصر ت کرنی چاہیے اور ظاہرہے حسنین اس کے زیادہ مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ آیت:
پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی و غیر ہاشمی، سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں۔"وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا " (النساء ۹۳/۴)
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔
اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عہنما سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ "یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" بالکل غلط ہے۔
بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے یہ کبھی نہین فرمایا کہ "حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" رسول اللہ ﷺ کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔
ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔
اگر یہ مطلب بیان کیاجائے کہ نبی ﷺ نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔1۔ یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جاتاہے اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جاسکتے۔
2۔ یا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ تو یہ صورت بھی یہان درست نہیں ہوسکتی کیونکہ بچپن میں حسنین اپنے والدین کی گود میں تھے۔ اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خودمختار اور اپنےذمہ دار ہوگئے۔
اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔ تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت ونصر ت کرنی چاہیے اور ظاہرہے حسنین اس کے زیادہ مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ آیت:
حسنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، بالکل جھوٹ ہے کیونکہ یہ آیت سورۃ شوریٰ کی ہے اور سورة شوریٰ مکی ہے اور حسنین کیا معنی ؟ حضرت فاطمہ کی شادی سے بھی پہلے اتری ہے۔ آپ کا عقد ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہوا اور حسن و حسین ہجرت کے تیسرے اور چوتھے سال پیدا ہوئے۔ پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔؟" قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى" (الشوری ۲۳/۴۲)
"میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتاہوں صرف رشتہ داری کی محبت چاہتا ہوں۔"
(منہاج السنہ از صفحہ: ۲۳۷ تا ۲۵۶، ج: ۲، طبع قدیم)