• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی معاشی نظام

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
معاشی نظام پر بات سے پہلے تمہیدا کچھ نظام کے بارے بات کروں گا
نظام یا سسٹم ایسے طریقہ کار کو کہتے ہیں جس میں مخصوص مقاصد کے بہتر اور آسان حصول کے لئے کچھ مخصوص اصولوں کے تحت کام ہوتا ہے
مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کے نظام ہوتے ہیں مثلا نظام تنفس، نظام انہضام، نظام حکومت، نظام معیشت، نظام معاشرت وغیرہ
ان نظاموں کا مقصد مختلف چیزوں کی کارکردگی بہتر کرنا ہوتا ہے کاکردگی کی بہتری کا انحصار اس نظام کے لئے مخصوص کئے گئے اصولوں پر ہوتا ہے

اگرچہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام آپس میں بہت زیادہ جڑے اور ایک دوسرے میں گھسے ہوتے ہیں اور ایک قسم کے معاشی نظام سے اسی جیسے معاشرتی یا سیاسی نظام کو زیادہ تقویت ملتی ہے مگر بنیادی طور پر یہ علیحدہ ہی ہیں

معاشرتی نظام:
جس میں معاشرے کے آپس میں تعامل کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

سیاسی نظام:
جس میں معاشرے کے تمام نظاموں کو چلانے کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

معاشی نظام:
جس میں چیزوں کی پیداوار انکی ترسیل اور استعمال کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

معاشی نظام کو پھر دو درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں
1-بنیادی اصول: یعنی سرمایہ کی ملکیت و غیرہ کے اصول
2-فرعی اصول: یعنی سرمایہ کے استعمال کے اصول

پہلی قسم میں سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظام تینوں آپس میں مختلف ہیں
اگرچہ دوسری قسم میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کچھ ایک جیسا رویہ رکھتے ہیں البتہ اسلام اس میں بھی باقی دونوں سے مختلف ہے
مزید اگلی فرصت میں ان شاء اللہ
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
1-بنیادی اصول: یعنی سرمایہ کی ملکیت و غیرہ کے اصول

1-سرمایہ دارانہ نظام
ایسا نظام جس میں سرمایہ پر مکمل کنٹرول (یعنی جملہ حقوق) ملک کی بجائے نجی شعبے کا (یعنی انفرادی مالکوں کا) ہوتا ہے اور انکو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے منافع وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی منڈیاں آزاد ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ
ایک آئیڈیل سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں کہیں بھی نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ممالک نے بھی لازمی کچھ چیک لگائے ہوتے ہیں جن کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں مثلا ملک چلانے کے لئے سیاستیں بشمول خارجہ پالیسیاں اور اخراجات کے ایداف وغیرہ (اس کے لئے برامداد وغیرہ کے چیکس اگیرہ شامل ہیں)- اسی طرح غریب کے فائدے اور فراڈ کے خاتمے کے لئے کچھ قوانین مثلا مناپلی آرڈیننس وغیرہ-
اب ہمارے ہاں جس سرمایہ دارانہ نظام کا نام لیا جاتا ہے اس سے مراد وہ نظام ہے جو آئیڈیل نظام سے قریب تر ہو جیسے ایک مسلمان کو جب مسلمان کہا جا ریا ہوتا ہے تو وہ ادخلوا فی اسلم کافۃ کے پس منظر میں نہیں بلکہ باقیوں سے موازنے کے لحاظ سے کہا جا رہا ہوتا ہے

2-اشتراکی نظام:
ایسا نظام جس میں سرمایہ پر کنٹرول نجی شعبہ کی بجائے ملک کا ہوتا ہے یعنی سرمایہ کو قوم کی مشترکہ ملکیت بنا دیا جاتا ہے تاکہ دولت کی پیداوار اور تقسیم ملکی اور غریبوں کے مفاد میں ہو
سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں (مثلا پیسے کا چند لوگوں کے پاس جمع ہونا اور غریبوں کا استحصال وغیرہ) کے ردعمل میں یہ نظام پیدا ہوا جیسے خارجیوں کے مقابلہ میں مرجیئہ پیدا ہوئے تھے اس نظریے کی منظم بنیاد کہا جاتا ہے کہ کارل مارکس (جرمنی) نے رکھی اور انقلاب روس میں لینن کے ذریعے اس نظریئے کو تقویت ملی

اشتراکی نظام کا پس منظر

شروع میں جب سرمایہ داری پھیلی تو اور پیسہ چند لوگوں میں اکٹھا ہونا شروع ہوا جس سے ظاہر ہے فساد بڑھنا شروع ہوا- جیسے آج کل جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے تو غریب کہتا کے کہ مرنا تو ویسے ہی ہے تو اگر کسی سے چھین کر جیل میں چلے جائیں یا مر جائیں تو کیا فرق پڑے گا جیسے اجکل افریقہ کے کچھ غریب ممالک میں لوٹ مار ہوتی ہے یا پھر پاکستان میں بھی کسی سیاستدان نے بیان دیا ہے کہ اگر اس طرح مہنگائی بڑھتی رہی تو ایک دن آئے گا کہ امیر غریب کو لوٹ کھائے گا
اسی پس منظر میں اشتراکی نظریہ کو لوٹ مار کرنے کی بجائے ایک منظم تحریک کی صورت میں پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی-

اشتراکی نظام کی بھی خرابی

اگرچہ اشتراکی نظام بظاہر ایک اچھی سوچ کے تحت عمل میں لایا گیا تھا مگر اس میں بھی شیطان نے اپنی اتباع کروائی اور اللہ کے آدم علیہ السلام کے لئے فرمان کو بھلا دیا گیا
قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم---- (یعنی ھدایت تو اللہ کی وحی میں ہے)
پس جب لوگوں نے دیکھا کہ جو کم کام کرتا ہے اسکو بھی اور جو زیادہ محنت کرتا ہے اسکو بھی ایک جیسا فائدہ ہوتا ہے تو کام میں بیزاری پیدا ہونا شروع ہوئی- اس کے لئے پھر متبادل باتیں لائی گئیں اسکے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام نے بھی اس مقابل نظام کے سامنے کھڑا ہونے کے لئے اس میں شامل ہونے کی جبائے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کو ختم کرنے پر زور دیا اور متبادل قوانیں بنائے مثلا مناپلی آرڈینس وغیرہ-
اس طرح ان میں جنگ جاری ہو گئی مگر چانکہ دونوں اللہ کی وحی سے ھداہت نہیں لے رہے تھے تو فساد ختم نہ کر سکے
ایک نظام سب کچھ لوگوں کے کنٹرول میں دے رہا تھا اگرچہ کچھ چیکس بھی لگا دیئے گئے تھے تو دوسری طرف دوسرا نظام سب کچھ ملک کے کنٹرول میں دینے پر تل گیا تھا جیسے بھٹو دور میں تمام اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا اس کو آپ جانتے ہوں گے کیونکہ بھٹو اشراکی گروپ کا حامی تھا اور اسکے تعلقات اشتراکی ممالک سے زیادہ تھے
اب اسلامی معاشی نظام کیا ہے اور پہلے دو نظاموں پر اسکو کون سی برتری حاصل ہے اس پر ان شاء اللہ اگلی فرصت میں بات کروں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
1-
اب اسلامی معاشی نظام کیا ہے اور پہلے دو نظاموں پر اسکو کون سی برتری حاصل ہے اس پر ان شاء اللہ اگلی فرصت میں بات کروں گا

اسلامی نظام
اسلام سرمایہ(سوائے کچھ مخصوص چیزوں کے) کی نجی ملکیت کا تو انکار نہیں کرتا البتہ اس پر کچھ شرائط لگاتا ہے
قرآن میں اللہ فرماتا ہے
وفی اموالھم حق للسائل والمحروم (یعنی انکے نجی سرمایہ میں کچھ اور لوگوں کا بھی حق ہے
یعنی اموالھم سے نجی ملکیت تو ثابت ہے البتہ ساتھ ہی زکوہ اور صدقات کی صورت میں کچھ شرائط بھی منسلک ہیں اسلام کے معاشی نظام کی بنیادی خوبیاں یہ ہیں
1-سرمایہ کی نجی ملکیت (سوائے چند کے) تسلیم کی گئی ہے
2-نجی ملکیت میں سے معاشرے کی بہتری اور غریبوں کی فلاح کے لئے ایسے حقوق رکھے گئے ہیں کہ جو متوازن اور بہترین نتیجہ (optimal out put) دینے والے ہیں
3-ان حقوق کے قواعد ایسی ہستی(اللہ) نے رکھے ہیں جو انسان کی خالق ہے نہ کہ اس ہستی (انسان) نے جس پر خود قانون لاگو ہونے ہیں اور جس کی نیچر ہر انسان کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے
4-ان اصولوں کی پیروی سے تشکیل پانے والا ایک معاشی طور پر کامیاب اور بے نظیر معاشرے کی مثال موجود ہے جیسے آہستہ آہستہ اثر ہوتے ہوتےعمر بن عبدالعزیز کے دور میں زکوۃ لینے والے کا نہ ملنا
5-ان حقوق کو خالی لفظوں تک نہیں چھوڑا گیا بلکہ پورے اسلامی نظام میں ایسا ربط (coherence) ہے کہ باقی پورا اسلامی نظام ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے جیسے چوری کو روکنے کے لئے خالی گناہ کہ کر بس نہیں کی گئی بلکہ اس کو تقویت دینے کے لئے حد لاگو کی گئی ہے پھر مزید تقویت کے لئے غریبوں کی مدد پر ابھارا اور غریبوں کی مدد پر ابھارنے کے لئے آخرت کا عقیدہ اور جنت جہنم کا عقیدہ ہے پھر توحید کا عقیدہ بھی اسی لئے ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو گا کہ مجھے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں بچا سکتا تو پھر اسکے دیئے ہوئے پورے دین پر عمل آسان ہو گا کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ یعنی اسلام کے علاوہ قیامت کو کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا

اشتراکی نظام کے حامیوں کا غلط علاج

جب سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کی وجہ سے معاشرے میں فساد پیدا ہوا تو اشراکی نظام کی بنیاد رکھنے والوں نے اس کے علاج کی طرف توجہ دی مگر علاج کے لئے اصل خرابی اور ماضی کے بہترین مثالی معاشروں کو دیکھ کر بیماری کی تشخیص کرنے کی بجائے اپنی عقل سے علاج شروع کر دیا پس چاہے تو یہ تھا کہ سرمایہ کی نجی ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے زکوۃ اور صدقات کے نظام کو صحیح کیا جاتا اور پھر ان سب کو تقویت دینے والے پورے کے پورے اسلامی نظام کو ہی پروان چڑھایا جاتا مگر شیطان کے پیچھے لگ کر تشخیص کیے بغیر انسان نے خود ہی ایک علاج شروع کر دیا
جس سے بہتری کی بجائے خرابی ہی آئی اور الٹا انسان اللہ سے دور ہو گیا اور اسی دولت کو ہی سب کچھ بنا لیا
باقی اگلی فرصت میں ان شاء اللہ
 
Top