• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی حکمرانوں کے بد لتے رنگ

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
سعودی حکمرانوں کے بد لتے رنگ
محمد زکریا خان

کسی بھی سیکولر ملک کی طرح مملکت سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کسی کلیئے ضابطے یا عقیدے کی پابند نہیں بلکہ صرف شاہی مفادات کے تابع ہے۔ عراق کے ’مرد آہن‘ صدام حسین ہوں یا لیبیا کے ’معمر قزافی ‘بدلتی رتوں کے ساتھ ان کے القاب اور لاحقے سابقے بدلتے رہتے ہیں۔ ایران عراق جنگ کے دوران عراق کی ملحد پارٹی ’بعث ‘کا سربراہ صدام حسین دس سال تک صلا ح الدین ایوبی کے لقب سے نوازا جاتا رہا اورایران بظاہر شیعیت کی وجہ سے معتوب ٹھہرا‘ مسئلہ خلیج کے بعد وہی صدام حسین دنیا کا بد ترین کافر، دشمن حرمین اور ظالم و جابر کے القابات سے رگیدا جاتا ہے۔ معمر قزافی جو الکتاب الا خضر کے مؤلف اور نئے دین کو متعارف کرانے والے متجدد بھی ہیں۔ کبھی اپنے اشتراکی نظریا ت کی وجہ سے سعودی عرب میں کافر کی صفت سے موصوف ہوتے ہیں اور کبھی یکایک خانہ کعبہ کا دروازہ ان کے لیے چوپٹ کھول دیا جاتاہے۔ ان سربراہا ن کے پورٹریٹ کبھی ٹوپی اور تسبیح کے ساتھ جائے نماز پر بیٹھے ہوئے مارکیٹ اورمکا نوں کی زینت بنتے ہیں اور کبھی خو ن آشام تلوار لہراتے ہوئے ظلم کی تصویر بن جاتے ہیں۔ یہی سیماب صفت پالیسی افغانستان کے لیے بھی سعودی عرب نے اپنا رکھی ہے۔ کبھی امداد کا قرعہ طالبان کے نام نکلتاہے تو کبھی سیا ف ، مسعود ، اور ربانی کی قسمت جاگتی ہے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی صرف اپنے حکمرانوں کے مفادکی پابند ہوتی ہے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مملکت کے وظیفہ خوار مولوی ہر دو طرح کی پالیسی کے لئے شرعی دلائل فراہم کرنے کو ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔
ان کے پاس کسی حکمران کے کافر او رصلاح الدین ایوبی ہونے کے ریڈی میڈ دلائل مختصر نوٹس پر ہر وقت تیار اور دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ مولوی حضرات اپنے کام میں اس قدر مشاق ہیں کہ محکمہ خارجہ کو بریفنگ کے لیے اپنا قیمتی وقت خرچ نہیں کرنا پڑتا ۔ اب سعودی عرب کا محکمہ خارجہ ایران کے لیے خوش گوار فضا بنانے کے جتن کررہا ہے ۔ محکمہ خارجہ کے لیے پریشانی یہ تھی کہ گزشتہ برسوں میں ایران کے رافضی عقائد اس طرح بیان ہوتے رہے ہیں کہ عوام کے ذہنوں سے انہیں محو ہونے میں اتنا ہی عرصہ درکا رتھا لیکن محکمہ خارجہ کی یہ پریشانی دور کرنے کو ذرائع ابلاغ اور واعظوں کی صف میں ایسے لوگ مل ہی گئے جو ہر دور میں شاہ سے زیادہ شا ہ کے وفادار رہنے کی رسم نبھا تے ہیں۔
زیر نظر مضمون حالات کی اسی تبدیلی کی منظر کشی کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔
تہران‘ جب سے محمد خاتمی کا ١٩٩٧کے انتخابات میں چناؤ ہوا ہے‘ سعودی عمائدین کی آماج گاہ بناہو ا ہے۔ انقلا ب ایران کے بعد پہلی مرتبہ کسی سعودی ولی عہد نے ایران کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اب تک ایران کے دورے کی سعادت و زیر خارجہ سعود فیصل ، محمد بن جبیر کی سربراہی میں مجلس شوری کے ایک وفد اور سعودی وزیر دفاع و نائب وزیر ثانی امیر سلطان حاصل کرچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے’ دیرینہ ‘ خوشگوار تعلقات پر سرکاری بیانات آئے روز اخبارات کی زینت بنے رہتے ہیں۔
ایران کی طرف سے دوطرفہ تعلقات کے اظہار کے لیے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے ریاض کا دورہ کیا ، ایرانی وفد میں وزیر خارجہ کمال خزازی ، وزیر داخلہ عبداﷲ نوری اور اہم مذہبی شخصیات شامل تھیں۔ معزز مہمانوں کا سعودی عرب میں شان دار استقبال کیا گیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر کئی دنوں تک مذاکرات ہوتے رہے۔ مئی ١٩٩٩کے آخری عشرے میں بالآخر صدر خاتمی نے بھی شام اور قطر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا دورہ کر ہی لیا۔
ان مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کا فضائی رابطہ جو ایک عرصے سے منقطع تھا ازسر نو بحال ہوگیا ہے۔جدہ میں ایرانی مصنوعات کی ایک نمائش کا بھی افتتاح ہوا ہے۔ ایران نے دو طرفہ فوجی تعاون کی بھی پیش کش کی ہے جسے تا حال سعودی قیادت نے مؤخر کردیا ہے۔ مجلس شوریٰ کے ایک سابق رکن جو اہل تشیع سے تعلق رکھتے ہیں۔ تہران میں سعودی عرب کے سفیر مقرر ہوئے ہیں لیکن ایران کی طرف سے ریاض میں کسی " سنی العقیدہ " سفیر کی تعیناتی کی کوئی اطلاع موصو ل نہیں ہوئی۔
پڑوسی ملکوں میں شیعہ اقلیت کے حقوق کے لیے ضمانتیں یقینی بنانا ایران کی خارجہ پالیسی کا مستقل نقطہ ہے۔ لیکن باوجود اس کے کہ سعودیہ سنیوں کا سرپرست مانا جاتاہے سعودی ذرائع سے ابھی کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی کہ سعودی عمائدین نے سنی العقیدہ مسلمانوں کے حقوق پر ایران سے کوئی مذاکرات کیے ہوں یا اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہو ۔ یاد رہے کہ ایران میں سنی العقیدہ مسلمانوں کے حقوق جس طرح سلب کیے جاتے ہیں۔ وہ اب کوئی راز نہیں۔ وہ ان بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم ہیں جوہر شہری کا حق ہیں اور خود ایران میں مجوسی ، بہائی اور یہودی بلاامتیا ز ان حقوق سے مستفید ہوتے ہیں۔ سعودی عرب جو بظاہر دنیا میں مساجد کی تعمیر میں دلچسپی لیتاہے ۔ تہران میں تاحا ل سنیوں کے لیے ایرانی حکومت سے ایک بھی مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ نہیں لے سکا ہے۔ سعودی وفد سے یہ بھی نہیں بن پایا کہ اپنے میزبانوں سے تہران میں کسی ایک سنی مسجد کی زیارت کی فرمائش ہی کرتے۔
رفسنجانی نے اپنے وفد کے ساتھ جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ جنت البقیع میں مدفون صحابہ کرام کی قبور کی زیار ت کی ۔ زائرین نے وہاں روایتی نوحہ خوانی کی اور صحابہ کرام کو سب و ستم کا نشانہ بنایا لیکن میزبانوں نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایرانی وفد کی سر زنش مناسب نہ سمجھی ۔ صحابہ کرام کی یہ توہین خطیب مسجد نبوی، علی بن عبدالرحمن الخدیفی سے نہ دیکھی گئی اور خطبہ جمعہ میں انہوں نے ایرانی وفدکی موجودگی میں رافضہ کے کفر یہ عقائد اجاگر کیے جس کے جرم میں انہیں مسجد نبوی کی خطابت سے سبکدوش ہوناپڑا۔
ایران ایک عرصے سے امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتاہے اور تہران سمجھتاہے کہ اس دوستی کا وسیلہ سعودی عرب ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے مفادات بھی اسی بات کے متقاضی ہیں۔ مگر اعتدال پسندی کا نعرہ الاپنے کے باوجود صدر خاتمی کی خمینی سے وابستگی ایران امریکہ بلاواسطہ مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اغلب یہی ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان سعودی عرب کا واسطہ خود امریکہ نے تجویز کیا ہو۔ امریکہ کی ایران میں دلچسپی کی بڑی وجہ عراق میں حکومت کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ ایک خیا ل یہ بھی ہے کہ امریکہ عراق میں رافضی حکومت تشکیل دینا چاہتاہے۔ اور عراق میں یہ تبدیلی لانا بظاہر ایران کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔
محمد خاتمی کی بظاہر معتدل قیادت سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ایران کے نظریاتی مقاصد میں کوئی بڑی تبدیلی ہونے والی ہے۔ محمد خاتمی ایرانی انقلاب کے حامی رہے ہیں اور وہ اپنے نظریاتی اصولوں پر سختی سے کاربند ہیں۔ اگر کوئی تبدیلی آئی بھی تو وہ طریقہ کا ر میں ہوگی۔ بلکہ اس سے سنی العقیدہ مسلمانوں کی حالت زار بگڑنے کااور بھی قوی امکان ہے۔ پہلے سعودی عرب کے مخیر حضرات ان کی دل کھول کر امداد کیا کرتے تھے لیکن حکومت کی چندہ اکٹھا کرنے پر بندش کے قانون سے یہ امداد بھی منقطع ہو گئی ہے۔
دوسری طرف سعودی حکومت نے اہل تشیع کو اپنے ملک میں اس قدر آزادی دے رکھی ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔
ان دو طرفہ تعلقات پر صرف عرب امارات کے سربراہ زيد النہیان سیخ پا ہوئے ہیں اور انہوں نے جدہ میں منعقد ہونے والی "خلیج مشاورتی کونسل "کے اجلاس میں احتجاجاً شرکت نہیں کی ہے۔ یا د رہے کہ’ خلیج تعاون کونسل‘ کی سربراہی آج کل امارات کے پاس ہے۔
(عرب صفحا ت سے ماخوذ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا لنک
 
Top