• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف اور سلفیت؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
سلف اور سلفيت
ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادريس رحمہ اللہ

نظر ثانی و اضافہ
ڈاکٹر عبداللہ سلفی​

پیش لفظ​
اسلام علیکم ورحمۃاللہ

ہمارے موجودہ زمانے میں لوگ کم علمی اور بے احتیاطی کی وجہ سے بہت سے وہمات اور اشکالات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر جب ایک مرتبہ وہ اپنے آپ کو ان وہمات کے سپرد کرتے ہیں تو معمولی فقہی اختلاف بھی ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
یہاں سے ہی وہ نا سور پیدا ہوتا جو تنقید و رد سے ہوتا ہوا ، با ہمی اتحاد و بھائی چارے کو چاک چاک کرتا ہوا بغض و عناد کو جنم دیتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال کا سامناآج صحیح العقیدہ اور سنت نبوی ﷺکے پیروکاوں، شرک و بدعت سے اعلان برات کرنے والے افراد کو ہے۔
اہل حق میں یہ اختلاف لفظ ’سلف ‘ کا استعمال کرنے میں ہے!
اسی طرح ایک عام مسلمان بھی لفظ سلف کے معنی و مفہوم سے نا وقف و نابلد ہے یہ مختصر رسالہ ایک عام مسلمان کو لفظ سلف اور اس کے مفہوم سے متعارف کروتا ہے اور اس مسئلے میں ایک اہل حق کے اتحاد و اتفاق کی تڑپ رکھنے اور اس تنازعہ کےشکار افراد کے لیے انشأ اللہ مفید اور رہنماء ثابت ہو گا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اگر اس کاوش میں کوئی کمی بیشی رہ گئی تو اس سے در گزر فرما کر اسے قبول فرمائے۔


والسلام
ڈاکٹر عبداللہ سلفی

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
لفظ‘‘سلف’’ ، يہ عربي زبان کاايک کثيرالاستعمال لفظ ہے۔
قرآن کريم ميں چند جگہ استعمال ہواہے:مثلا
‘‘ فجعلناھم سلفا ومثلاً للآخرين ’’
(سورہ زخرف:26)
ہم نے انہيں بعد ميں آنے والوں کے ليے پيش رواورنمونہ عبرت بناديا۔
وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِيْلًا 22؀ۧ
( سورۃ النساء : 22)
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے یہ بےحیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے۔
یعنی ان دونوں آ یات میں لفظ سلف استعمال ہوا ہے۔ پہلی آیت میں ‘سلفا ’ اور دوسری میں ‘سلف’۔ دونوں الفاظ ایک ہی معنی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ، ‘پیش رو ’ یا ‘گزرا ہوا ’۔ یعنی لفظ سلف سے مراد گزشتہ و سابقین کے ہیں۔
جب یہی لفظ ،کتب دینیہ و محافل دینیہ میں استعمال کیا جاتاہے جیسا کہ
‘‘سلف ’’یا ‘‘اسلاف’’ تو اس مراد مسلمانوں میں پہلے گزر جانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسولﷺ کی بلکل اسی طریقہ سے پیروی کی کہ جس طرح آپﷺ نے کیا یا کرنے کا حکم دیا۔جن میں سب سے پہلے صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم آتے ہیں اور پھر قرآن و سنت اور فہم صحابہ کی روشنی میں عمل کرنے والے تابعین، تبع تابعین ،آئمہ عظام و علماء صالحین جو کے ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔
مذہب سلف
‘‘مذہب سلف’’سے مراد وہ طريقہ ہے جس پرصحابہ کرام ، تابعين عظام،تبع تابعين اوربعد ميں آنے والے وہ ائمہ دين گامزن تھے جن کا تدين اعليٰ درجہ کوپہنچاہواتھا، اورجن کي امامت امت کے نزديک مسلم ہے، اورجن کے اقوال وافعال لوگوں کے نزديک مقبول ہيں۔ ان لوگوں کا راستہ نہيں جوبدعت کے کاموں ميں ملوث ہيں اورلوگوں کے نزديک ناپسنديدہ القاب سے ياد کيے جاتے ہيں، جيسے خوارج، روافض ، قدريہ، مرجيہ ، جبريہ ، جہميہ اورمعتزلہ وغيرہ۔
(قواعد المنہج السلفي ص:253، لوامع الانوار :20)
قرآن میں اللہ تعالی صحابہ اکرام اور انکی اچھی طریقہ سے اتباع کرنے والوں کے لئے فرماتا ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ١٠٠؁
( سورۃ توبہ : 100)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،یہ بڑی کامیابی ہے۔
معلوم ہوا کہ ہر پيش رو ہمارے ليے قابل اقتدا نہيں ہوسکتا۔ بلکہ نمونہ اورقدوہ وہي سلف صالح ہوسکتے ہيں جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہوں گے ، يعني صحابہ کرام، تابعين عظام، اورتبع تابعين جنہوں نے ايسے مبارک عہد ميں زندگي گزاري جس کي فضيلت اوربرتري کي شہادت خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے دي ہے۔ اورساتھ ہي ان ائمہ دين کوبھي قدوہ اورنمونہ کي حيثيت حاصل ہے جن کاکتاب وسنت سے تعلق لوگوں کے نزديک معروف اورجن کي امامت وديانت داري امت کے نزديک مسلم ہے۔ جوخود بدعت کے کاموں سے گريز کرتے اورلوگوں کوبازرکھنے کي جدوجہد فرماتے تھے۔ اس بناپر ہروہ شخص جوائمہ مذکورين کے عقائد، فقہ اوراصول کولازمي طورپر اپناتاہے ، اسے ائمہ سلف کي جانب منسوب کياجائے گا ۔ زماني يامکاني اعتبار سے کتني ہي دوري کيوں نہ پائي جاتي ہو ۔ اورہروہ شخص جو ان کي مخالفت کرتاہے اسے سلف کي جانب نہيں منسوب کياجائے گا ، خواہ وہ سلف کے درميان ہي موجود رہاہو اورزماني يامکاني اعتبار سے کوئي بُعد اوردوري نہ پائي جاتي ہو۔
(اہل السنہ والجماعہ معالم الانطلاقة الکبريٰ ص:52)

سلف کي اتباع کيسے ہو:
جب ہم ائمۂ سلف کي اقتدا کي بات کرتے ہيں تواس کامطلب يہ ہوتاہے کہ اپنے آپ کوکسي ايک شخصيت کاپابندبنائے بغيرکتاب وسنت سے جن مسائل واحکام کوسلف نے سمجھااورمستنبط کياہے انہيں اختيار کرنا۔ عقيدہ وسلوک، عبادات ومعاملات غرضيکہ تمام ديني امور ميں بالخصوص اُن امور ميں جوبعد ميں چل کرغير اسلامي تاثيرات کاشکارہوکر مختلف فيہ مسائل بن گئے، ان کے افکار ونظريات، آرائ واقوال کونہ صرف تسليم کرنا، بلکہ کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنے کے ليے انہيں مشعل راہ بنانا، عملي زندگي ميں ان کے طوروطريق کواپنانا اوران کے نقش قدم پرچلنا۔
‘‘سلفي’’ نسبت جائز يا ناجائز؟:
اللہ تعاليٰ نے اپنے آخري دين کے ليے ‘‘اسلام ’’ کا لفظ پسند فرمايا ہے :
‘‘ اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الاسلام دينا’’
(سورہ مائدہ :3)
‘‘جوآج ميں نے تمہارے دين کوپوراکرديا، تم پراپنااحسان تمام کرديا’’
اوردين اسلام کوتمہارے ليے پسند کيا۔اوراسلام کے ماننے والوں کومسلمين کے نام سے ياد کياہے:
’’ملة أبيکم ابراہيم ھو سماکم المسلمين من قبل وفي ھذا ‘‘
(سورہ حج:78)
‘‘يہ دين تمہارے باپ ابراہيم کادين ہے اسي نے پہلے سے (قرآن اترنے سے پہلے) تمہارانام مسلمان رکھاہے اوراس (قرآن) ميں بھي۔‘‘نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:اللہ کے رکھے ہوئے ناموں ‘‘مسلمين’’،‘‘مومنين’’عباد اللہ‘‘کے ذريعہ آپس ميں ايک دوسرے کوپکارو۔’’
(ترمذي:کتاب الامثال:5148، حديث نمبر:2863، 2864 ، مسند ابي يعلي:3140142، حديث نمبر:1571)
جب اللہ رب العزت نے امت محمديہ کے ليے ‘‘اسلام’’ اور‘‘مسلم’’ (مسلمان) کالقب منتخب کيا اورپسند فرماياہے ، توپھراس لقب کے بعد مزيد کسي دوسرے لقب کي ضرورت کيسے اورکيوں پيش آئي؟اسے سمجھنے کے ليے ہميں پيچھے لوٹ کر فتنۂ کبريٰ خليفہ راشد سوم حضرت عثمان ذي النورين رضي اللہ عنہ کي شہادت اوراس پرمرتب ہونے والے اثرات پرغور کرنا ہوگا۔
حضرت عثمان کي مظلومانہ شہادت کے بعد امتِ مسلمہ مختلف جماعتوں اورکيمپوں ميں منقسم ہوگئي ۔ شروع ميں يہ اختلافات سياسي نوعيت کے تھے، جوبعد ميں چل کرديني شکل اختيار کرگئے، اوراسي کے بعد سے نئي نئي جماعتوں اورفرقوں کاظہور ہونے لگا۔ ہرجماعت اورہر فرقہ اپنے آپ کو اسلام کاعلمبردار کہتااوراسلام سے وابستگي کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنےآپ کوحق پرثابت کرتا۔ لہٰذا علمائے کرام نے باطل فرقوں اورراہِ حق سے برگشتہ جماعتوں سے اہل حق کوممتاز کرنے کے ليے ٬٬ اہل السنة والجماعة٬٬ کي اصطلاح ايجاد کي۔ اس اصطلاح سے خوارج، اہل تشيع، روافض اورمعتزلہ وغيرہ سے تميز مقصود تھي۔ اس اصطلاح سے تمام علمائے حق راضي اورمتفق تھے۔ ليکن پھر ٬٬اہل السنہ والجماعة٬٬ کے درميان بھي اختلاف رونما ہوئے۔ فلسفہ اورعلم الکلام سے اشتغال رکھنے کي وجہ سے مختلف مکاتب فکر اورجماعتيں ظہور پذيرہوئيں۔ جنہوں نے اپنے ليے الگ الگ اصول وضابطے متعين کرليے، اور٬٬اہل السنہ والجماعة٬ سے وابستگي ظاہر کرتے ہوئے ہرايک نے اپنے آپ کو کتاب وسنت کا حامل وعلمبردار قرارديا۔ ان حالات ميں اُن تمام باطل اورمنحرف جماعتوں اورمکاتب فکر سے امتياز کے ليے اہلِ حق نے لفظ ‘‘سلف’’کاااانتخاب کرتے ہوئے اس کي طرف اپني نسبت کي۔ مطلب‘‘سلف’’ اور‘‘سلفي’’کي اصطلاح بھي ايک ضرورت کے تحت ايجاد کي گئي ہے۔
اگر ہم اس حقيقت کوتسليم کرتے ہيں کہ سلفيت ياسلفي دعوت کامفہوم خالص اسلام اورسنتِ نبوي کي دعوت ہے، اس اسلام کي طرف لوٹنے کي دعوت ہے جواسلام نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم اس دنيا ميں لے کرآئے تھے اورجس کوصحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے آپ سے حاصل کياتھا۔ اگرسلفيت کايہي مفہوم ہے۔ اورحقيقتاً يہي ہے بھي توسلفي دعوت حق ہے اوراس کي طرف نسبت کرنابھي حق ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ‘‘سلفي ’’نسبت اختيار کرنے ميں شرعي اعتبار سے کوئي قباحت نہيں۔ ايسے شخص کے بارے ميں جويہ کہتاہے :ميں مذہب سلف‘‘ پرہوں، شيخ الاسلام ابن تيميہ فرماتے ہيں:
‘‘ايسے شخص کومطعون نہيں کياجائے گا جومذہب سلف کے التزام کوظاہر کرتاہے اورمذہب سلف کي طرف اپناانتساب کرتاہے ۔ اوراتفاق رائے سے اس کي بات کوقبول کياجائے گا، کيونکہ سلفي مذہب حق ہے۔’’
علامہ ذہبي نے بھي شيخ الاسلام ابن تيميہ کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے: ‘‘ولقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية، واحتج لھا ببراھين ومقدمات لم يسبق اليھا’’
‘‘ابن تيميہ نے سنتِ محضہ اورسلفي طريقہ کي حمايت کي، اوراس کے ليے ايسے دلائل اورمقدمات سے احتجاج کيا جوان سے پہلے کسي سے بھي بن نہ پڑے تھے۔’’
(مقالات دائود غزنوي ، ص:255، 231)
ابن خلدون نے بھي قديم علمائے متقدمين کے ليے‘‘العقائد السلفية’’کالفظ کئي جگہ استعمال کياہے۔
(مقدمہ ابن خلدون ، ص:496، شيخ عبدالرحمن بن يحييٰ معلمي ،1386ھ ، نے بھي اپني کتاب‘‘ القائد الي تصحيح العقائد’’،ص:47، 51، 55،119،ميں ، محدث عصر علامہ ناصرالدين الباني نے ‘‘مختصر العلو’’ ،ص:122، اور‘‘التوسل’’ ،ص:156، ميں اورشيخ عبدالعزيز بن باز نے:‘‘ تنبيہات ہامة علي ماکتبہ محمد علي الصابوني في صفات اللّٰہ عزّوجل’’ ،ص:34، 35، ميں، اسي طرح اورديگر اہل علم وفضل نے منہج سلف اورطريقۂ سلف پرگامزن لوگوں کے حق ميں‘‘سلفي’’يا ‘‘سلفيين’’کي اصطلاح استعمال کي ہے۔
سعودي عرب کے ايک عالمِ دين ڈاکٹر عبداللہ بن صالح عبيلان اسي موضوع پر ايک سوال کاجواب ديتے ہوئے فرماتے ہيں :
‘‘اس سلسلے ميں سب سے پہلي بات جس کاجاننا ضروري ہے وہ يہ ہے کہ ہم القاب کوباعث تقرب الي اللہ نہيں سمجھتے، ہم ‘‘اہل السنہ والجماعة ’’کے لقب کواس ليے اہميت ديتے ہيں کہ ہمارے سلف صالح نے اس اصطلاح کواہميت دي ہے اورحقيقت ميں وہي (اہل حق کي)جماعت ہے۔ اس ليے جوانہوں نے کہا وہي تم بھي کہو۔ جس سے وہ باز رہے، تم بھي باز رہو۔ انہوں نے اس نام کومستحن قرارديا، اورديکھاکہ يہ نام ان کومبتدعہ اورگمراہ لوگوں سے الگ کرتاہے ۔ ورنہ حقيقت يہ ہے کہ ہم مسلمان ہيں اورقرآن ميں بھي يہي کہاگياہے : ‘‘ھوسماکم المسلمين من قبل وفي ھذا ’’
بالکل يہي معاملہ لفظ‘‘سلف’’،‘‘سلفي’’ اور‘‘سلفيون’’ کابھي ہے۔اگرہم اپنے آپ کو سلفي کہتے ہيں توبوقت ضرورت دوسروں سے تميز کے ليے ، جس طرح اللہ رب العزت نے انصار کو ’’انصار‘‘ لفظ سے ممتاز کيا اورمہاجرين کو‘‘مہاجرين’’لفظ سے۔ اوراس تميز پروہ راضي ہوا ۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ انصار اورمہاجردونوں ايک ہي امت تھے اورسب کے سب مسلمان تھے۔ معلوم ہواکہ اگرہم کوتميز کي ضرورت پيش آئے تو(اپنے آپ کو‘‘سلفي’’ لفظ کے لقب سے)ممتاز کرسکتے ہيں۔
(مجلہ الفرقان ، الکويت، مجريہ بابت شوال 1417ھ ، شمارہ 83، ص:27)
سلفيت کي ابتدا ء:
اس لفظ کا استعمال بطور اصطلاح ،‘‘اہل السنة والجماعة’’ کي طرح نياہے۔ جس ضرورت کے پيش نظر ٬٬اہل السنہ والجماعة٬٬ کي اصطلاح وجود عمل ميں آئي، اسي ضرورت کے تحت ‘‘سلفيت’’کاوجود بھي ظہور پذيرہوا۔ ليکن يہ اصطلاح کب وجود ميں آئي؟ اس کي تحديد اورتعيين قدرے مشکل ہے۔ ليکن اتناطے ہے کہ يہ بھي قديم اصطلاح ہے۔ اس کوعصر حاضر کي پيداوار بتلانا، ياشيخ محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کي اصلاحي تحريک سے مربوط کرنا ،يامغربي استعمار سے منسلک کرنا قطعاً غلط ہے۔ يہ ايک قديم اصطلاح ہے اورزمانہ قديم سے اس نام سے ايک جماعت کاوجود رہاہے۔ ے علامہ سمعاني (562ھ) نے اس اصطلاح کاذکر اپني کتاب ‘‘الانساب ’’(7273) ميں کياہے ۔ علامہ ابن اثير(630ھ )نے بھي ’’اللباب (2126)ميں لکھاہے کہ ‘‘اس نسبت سے ايک جماعت معروف ہے۔يہ تواپني جگہ طے ہے کہ کم سے کم علامہ سمعاني کے زمانہ 562ھ ميں يااس سے پہلے سلفيوں کي جماعت موجود تھي۔ کچھ لوگوں کايہ کہنا ہے کہ سعودي عرب اورديگر خليجي ممالک سے دولت کے حصول کي غرض سے ہندوستان کے اہل حديثوں نے بھي سلفيت کا لبادہ اوڑھ لیا، حالانکہ ذرا غور کرنے سے اس بہتان کی قلعی کھل جاتی ہے کہ بہت پہلے سے اورجبکہ پٹرول وڈالر کي چمک دمک ابھي پردۂ خفا ميں تھي، يہ لفظ مستعمل ہوچکاتھا۔ مولاناعبدالعزيز رحيم آبادي نے 1336ھ مطابق8 191؁ ميں دربھنگہ ميں‘‘مدرسہ سلفيہ’’کے نام سے ايک مدرسہ قائم کيا۔ پھرجب ‘‘مدرسہ احمديہ ’’ آرہ مولانا عبداللہ غازي پوريکے دہلي چلے جانے کے بعد بے رونق ہوگيا، توعظيم آبادي نے اسے دربھنگہ منتقل کرکے مدرسہ سلفيہ ميں ضم کرديا اوراس کانام ‘‘دارالعلوم احمديہ سلفيہ’’ دربھنگہ رکھا۔ ’’سلفيہ’’کے اضافے کاسبب احمديوں (مرزائيوں) سے اشتباہ کودور کرناتھا۔(تحريک اہل حديث تاريخ کے آئينے ميں ، ص:492) اسي طرح دربھنگہ ميں ہي ڈاکٹر محمدفريد نے 1933ھ ميں ’’مطبع سلفي‘‘ دربھنگہ کے نام سے ايک پريس قائم کياتھا ۔ جس ميں دارالعلوم احمديہ سلفيہ دربھنگہ کاترجمان‘‘ماہنامہ مجلہ سلفيہ’’ چھپتاتھا، جواب ‘‘الھدي’’ کے نام سے جاري ہے۔
عربي زبان کے نامور اديب مولانا عبدالعزيز ميمني (1978ی)اپني نسبت ‘‘سلفي اثري’’لکھاکرتے تھے، جيساکہ ان کي مختلف تاليفات ميں ديکھاجاسکتاہے۔ ان کي طباعت کي نوبت1342ھ ، 1343 اور1345ھ ميں آئي، جبکہ مضامين بہت پہلے کے لکھے ہوئے تھے۔ کياان کے بارے ميں کہاجاسکتاہے کہ انہوں نے بھي سلفي نسبت کسي مقصد کے حصول کي خاطر اختيار کي تھي؟
شہر بنارس ميں مقيم رياست ٹونک کے جيد عالم دين ، صاحب علم وفضل مولاناعبدالکريم (1886ھ) اپنے ليے‘‘سلفي’’ نسبت اختيار کيے ہوئے تھے۔ موصوف سيد احمد شہيد کے تربيت يافتہ اوراسماعيل شہيد (رحمہم اللہ) کے شاگرد تھے۔ 1886ھ ميں بنارس ميں وفات پائي۔
مولانا محمداسماعيل گوجرانوالہ (1968ئ) بھي سلفي نسبت کرتے تھے۔
مولاناعبدالحق محدث بنارسي (1286ھ ) بھي سلفي نسبت کرتے تھے۔
اللہ تعاليٰ نے امت محمديہ کانام ‘‘مسلمين ’’ رکھاہے ۔‘‘ھوسماکم المسلمين’’اس کے باوجود انہيں مومنين، قانتين، صابرين، عابدين، ساجدين جيسے صفاتي ناموں سے پکاراہے۔؛ نبي کريم ﷺ کے دونام ہيں محمد اوراحمد۔ پھربھي آپ کو بشير، نذير،سراج منير، وغيرہ صفاتي ناموں سے ياد کيا۔ بہرحال مختلف اوقات ميں ياايک ہي وقت ميں مختلف نام والقاب اختيار کرلينے سے شريعت ميں کسي قسم کي مخالفت لازم نہيں آتي۔ يہي حال ‘‘محمدي’’،‘‘اہل الحديث’’اور‘‘اہل الاثر’’ جيسے القاب کابھي ہے۔
لہذا ، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں حق کو پہچاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اہل حق کو باہمی منافرت و انتشار سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
وما توفیقی الا با للہ!​

کتابچے اور پی ڈی ایف فائل لنک
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
السلام و علیکم
برادر عبداللہ ،سلفیت سے متعلق یہ اہم مضمون پیش کرنے کا بہت شکریہ۔ مجھے یہ تو کسی حد تک معلوم تھا کہ سلف کا معنی ہمارے وہ آباء واجداد جو ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں ہوتا ہوگا۔ لیکن اس کے اسلامی مفہوم و معانی کی تفصیل مضمون میں بڑی تفصیل اور وضاحت سے کی گئی ہے۔ یہ مضمون پڑھنے سے قبل میں یہ سمجھتا تھا کہ سلفیت کوئی خاص مذہب یا فرقہ ہوتا ہو گا اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے اس بارے میں زیادہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ لیکن یہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرے بڑے اسی قسم کا عمل رکھتے ہیں جیسا کہ مضمون میں بتایا گیا ہے لیکن انھوں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ سلفی یا سلافی کا لاحقہ نہیں استعمال کیا۔ میرے بزرگوں کے خیال میں ایسا کرنا تفرقہ بازی پیدا کرنا تھا۔
بہرحال آپ کا پیش کردہ مضمون میری معلومات میں اضافے کا باعث بنا اور مجھے اس پر کسی حد تک اطمینان بھی ہے۔ اللہ کریم آپ کو جزائے کثیر سے نوازے۔آمین
والسلام و علیکم
 
Top