• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سمیعہ کا قتل

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
گل زیب مہمند پشاور

یہ سراسر جھوٹ ہے کہ جبیب الرحمن نے سمیعہ کو قتل کیا۔ ہم پٹھان ہیں، ہم اپنی بیٹیوں کو ملازموں سے قتل نہیں کراتے ، عاصمہ جہانگیر جھوٹ بکتی ہے اصل حقیقت یہ ہے:
’’۲۰ مارچ ۱۹۹۹ء؁ کو جب سرور خاں مہمند اپنی بیوی اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حج بیت اللہ کو روانہ ہوگئے تو اس دوران میں ایک شیطان جس کا نام نادر کپتان ہے، اس کی جواں سال مگر شادی شدہ بیٹی سمیعہ خان جو عمران کی بیوی تھی، کو گمراہ اور اغوا کر کے لاہور لے گیا۔ لاہور جا کر اس بے غیرت نے سمیعہ عمران کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے کر دیا جو گھر سے لڑکیوں کو فرار کرانے کے متعلق پورے ملک میں بدنام ہے۔ یہ عورت جو لاہور میں وکیل ہے، نے لڑکیوں کو بے حیائی کی تعلیم دینے کیلئے ’’دستک‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہی۔ بالآخر سمیعہ عمران کو ’’دستک‘‘ میں داخل کر دیا گیا۔ وہاں یہ دلال عورت عاصمہ ہر روز سمعیہ اور نادر کی آپس میں ملاقات کراتی رہی۔ یہ شیطان روزانہ کئی کئی گھنٹے ’’دستک‘‘ میں سمیعہ سے ملتا رہا۔
سمیعہ کے والدین جب حج سے واپس ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے خاندان کی عزت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ انہوں نے تلاش شروع کر دی تو پتہ چلا کہ سمیعہ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کے ’’دستک‘‘ میں موجود ہے۔ سرور خان مہمند نے چوہدری اعتزاز احسن ایڈوکیٹ اور دیگر با اثر لوگوں کے ذریعے سمیعہ کو عاصمہ جہانگیر کی قید سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
وہ تو سمیعہ جیسی لڑکیوں کو سونے کی مرغی سمجھتی ہے، سنا ہے ایسی لڑکیوں کے نام پر وہ یورپ سے کڑوروں روپے فنڈز لیتی ہے۔ اس بے غیرت کا اصل کاروبار یہی بتلایا جاتا ہے۔
اپنی کوششوں میں ناکامی کے بعد سمیعہ کے والد، والدہ اور چچا سمیعہ کو لینے کیلئے خود لاہور آئے۔ ۵ اپریل کو سمیعہ کی والدہ، اس کا چچا یونس مہمند اور ایک خاندانی ملازم حبیب الرحمن عاصمہ جہانگیر کے گلبرگ میں واقع دفتر گئے تاکہ سمیعہ کی واپسی کراسکیں۔ وہاں عاصمہ جہانگیر کی بہن حنا جیلانی بیٹھی ہوئی تھی۔ سمیعہ بھی اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ سمیعہ کی والدہ نے اسے کہا ’’بیٹی آؤ میرے ساتھ چلو۔ اس نے کہا کہ مجھے خوف ہے اپنے بابا سے۔ میں اسے کیسے منہ دکھاؤں گی؟ اس دوران میں حنا جیلانی نے مداخلت کی کہ آپ ہماری اجازت کے بغیر یہاں سے سمیعہ کو نہیں لے جا سکتیں۔ سمیعہ کی والدہ نے اسے کہا ’’تم کون ہوتی ہو میری بیٹی کو اجازت نہ دینے والی۔ میں اپنی بیٹی کی مالک ہوں، میں اسے لے کر جاؤں گی، تم مجھے نہیں روک سکتیں‘‘۔اس پر حنا جیلانی غصہ میں آگئی ۔ اس نے کہا اچھا میں تمہیں ابھی بتاتی ہوں کہ میں کون ہوں۔ اس پر اس نے اپنے باڈی گارڈ کو بلایا۔ وہ فوراً آگیا۔ باڈی گارڈ کو دیکھتے ہی حبیب الرحمن نے کہا کہ وہ دور چلا جائے اور ماں بیٹی کے معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ اس دوران میں حبیب الرحمن نے سمیعہ کو بازو سے پکڑ کر زبردستی باہر لے جانے کی کوشش کی اور کہا کہ تمھیں شرم آنی چاہئے کہ تمہاری بوڑھی والدہ پشاور سے چل کر تمہیں لینے آئی ہیں اور تو آتی کیوں نہیں ہے۔
حنا جیلانی نے حبیب الرحمن کو چیخ کر کہا کہ خوچے! چھوڑ دو سمیعہ کو ورنہ میں اپنے باڈی گارڈ کو حکم دونگی کہ وہ تمھیں گولی مار دے۔ حبیب الرحمن نے کہا کہ میں پٹھان کا بچہ ہوں ۔ گولی سے نہیں ڈرتا۔ اس نے دوبارہ سمیعہ کو کھینچنا شروع کیا۔ حنا جیلانی نے غصہ سے کہا کہ اسے چھوڑ دو اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو۔ یہ میں تمہیں آخری وارننگ دے رہی ہوں۔ حبیب الرحمن نے سمیعہ کو نہ چھوڑا اور زبردستی کھینچنے لگا۔ اس پر حنا جیلانی نے اپنے باڈی گارڈ کو حبیب الرحمن پر ’’فائر‘‘ کرنے کا حکم دیا۔ حبیب الرحمن کے پاس پستول تھا، وہ ابھی نکال ہی رہا تھا کہ حنا جیلانی کے باڈی گارڈ نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ گولیاں حبیب الرحمن اور سمیعہ دونوں کو لگیں چونکہ حبیب نے سختی سے سمیعہ کو پکڑا ہوا تھا۔ گولیاں لگنے کے بعد دونوں گر پڑے۔ سمیعہ کی والدہ نے دھاڑیں مارنا شروع کردیں کہ ہائے میری بیٹی قتل ہوگئی۔ حنا جیلانی نے اسے دھمکی دی کہ وہ فوراً اس کے دفتر سے دفع ہوجائے ورنہ اس کو بھی گولی مار دی جائے گی۔ خوف کے مارے سمیعہ کی والدہ اور چچا دونوں لاشیں چھوڑ کر حنا جیلانی کے دفتر سے نکل آئے۔
رکشہ کر کے وہ فلیٹز ہوٹل پہنچے جہاں سرور مہمند ان کے انتظار میں بیٹھا تھا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سراسر جھوٹ ہے کہ حبیب الرحمن نے سمیعہ کو قتل کیا۔ ہم پٹھان ہیں۔ ہم اپنی بیٹیوں کو ملازموں سے قتل نہیں کراتے۔
یہ تھی اصل کہانی سمیعہ عمران کے قتل کی جس کو عاصمہ جہانگیر اور اس کی بہن حنا جیلانی نے اپنی جان بچانے کیلئے توڑ موڑ کر بیان کیا اور ڈرامہ کیا کہ سمیعہ کو حبیب الرحمن نے قتل کر دیا ہے۔ شاہ تاج کے اغواء اور بعد میں اس کی واپسی کا بھی ڈرامہ رچایا گیا۔ دوسرے دن عاصمہ نے این جی اوز کی عورتوں کو جمع کر کے پنجاب سیکرٹریٹ پر دھاوا بول دیا۔ یہ عورتیں پولیس کا گھیرا توڑ کر سیکرٹریٹ میں داخل ہوگئیں اور خوب ہنگامہ کیا۔ بہت افسوس ہے کہ پنجاب کا ہوم سیکرٹری بھی عاصمہ کے ڈرامہ کا شکار ہوگیا ۔ اس نے حنا جیلانی کے باڈی گارڈ کو جو پولیس کا سپاہی تھا کو شاباش کہ اس نے حبیب الرحمن کو قتل کر دیا۔ پنجاب کے اخبارات نے بھی عاصمہ کے غلط بیان کو خوب اچھال کر شائع کیا۔
عاصمہ نے اس دوہرے قتل کو چھپانے کیلئے اقبال حیدر کے ذریعے سینٹ میں اس کیس کو اچھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ وہاں پر سینیٹر عبد الرحمن، سینیٹر اجمل خٹک، سینیٹر الیاس بلور اور صوبہ سرحد کے دیگر غیور پٹھانوں نے بے غیرت پنجابی عورت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جو انسانی حقوق کا ڈرامہ کر کے لڑکیوں کو اغواء اور گمراہ کرتی ہے۔
لاہور کی پولیس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے عاصمہ جہانگیر کی حمایتی بنی ہوئے ہے اور عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں کر رہی۔ الٹا سمیعہ کے والدین کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ یہ اندھیر نگری نہیں تو اور کیا ہے۔
ہم صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے خلاف سمیعہ کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیں۔ عاصمہ جہانگیر کی بیگناہی کا فیصلہ پنجاب پولیس کی بجائے عدالت کو کرنا چاہئے یہی عدل اور قانون کا تقاضا ہے۔ اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو پھر اسکی ذمہ دار حکومت پنجاب ہوگی۔ ہم اپنی عزت کا بدلہ لینا جانتے ہیں۔ اور یہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔
 
Top