• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت کا جدید مفہوم ، علمائے کرام توجہ فرمائیں

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جاوید چوہدری پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نویس ہیں۔ آپ کے کالم ہر طبقہ کے لوگ ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، جن میں حکمران طبقہ بھی شامل ہے۔ جاوید چوہدری پاکستان کے وہ واحد کالم نویس ہیں جن کے متعدد کالموں پر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لے کر فیصلے صادر کئے۔ ذیل کے دو کالموں میں موصوف نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ”غیر روایتی تصور“ پیش کیاہے۔ علمائے کرام سے درخواست ہے کہ جاوید چوہدری کے ان خیالات پر فوری ”سوموٹو ایکشن“ لے کر عوام الناس کو بتلائیں کہ ان کے خیالات میں کتنی صداقت ہے۔ اگر موصوف کے تصورات اسلامی تعلیمات سے دور ہیں تو بہتر ہوگا کہ کسی عالم دین یا دینی ادارہ کی جانب سے کی ایک جامع اور مدلل مضمون (جو عام کالم کی طوالت سے زائد نہ ہو، اور جس میں حوالہ جات عربی متن کی بجائے صرف اردو ترجمہ پر مبنی ہو) براہِ راست جاوید چوہدری کو ڈاک اور ای میل سے روانہ کیا جائے۔ اور یہ کام ارجنٹ بنیادوں پر کیا جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جاوید چوہدری ایسے مدلل جوابات کو بھی اپنے کالم میں ضرور شائع کرتے ہیں۔
www.javed-chaudhry.com/wp-content/uploads/2012/05/Sunnat.gif
www.javed-chaudhry.com/wp-content/uploads/2012/06/Sunnat-2.gif

http://www.javed-chaudhry.com/wp-content/uploads/2012/05/Sunnat.gif
http://www.javed-chaudhry.com/wp-content/uploads/2012/06/Sunnat-2.gif
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
عام آدمی کے لیے تو یہ تحریر شاید متاثر کن اور قابل قبول ہو ۔۔۔ لیکن جس کا مطالعہ سنت اور حدیث کے معاملے میں کافی وسیع ہو ، وہ اس تحریر کو مغالطے ہی سے تعبیر کرے گا۔
انسانی معاملات اور انسانی خصائل و عادات کو اس خوبی سے مکس کر دیا گیا ہے کہ شاید دین کا تھوڑا بہت علم رکھنے والے بھی ابہام کا شکار ہو جائیں۔

مسواک کے مسئلے پر آنجناب کے بیان کو دیکھ کر حیرت ہوئی ۔۔۔ حالانکہ احادیث میں باقاعدہ لفظ اسواک کا ذکر ہے۔ اگر صرف دانت صاف کرنا مقصود ہوتا تو کسی خاص شئے کا باقاعدہ نام لے کر ذکر ہی کیوں کیا جاتا بھلا؟
حتیٰ کہ صحیح بخاری میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک منہ کو پاک کرتی ہے اور پروردگار کو پسند ہے۔
تو جو چیز پروردگار کو پسند ہے اس کو کیسے محض "عرب ریت و رواج" کہہ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟
پھر مسواک کی اس قدر شدت کے ساتھ اہمیت کا بیان کہ دربار رسالت سے فرمایا جاتا ہے :
اگر مجھے اپنی امت کی یا لوگوں کی تکلیف کا ڈر نہ ہوتا تو میں ان کو یہ حکم دیتا کہ ہر نماز میں مسواک کیا کریں۔ (صحیح بخاری)

جاوید چودھری صاحب کی نیک نیتی پر ہمیں ہرگز شک نہیں۔ اللہ انہیں ان کی نیک نیتوں پر اجر سے نوازے۔ مگر ہمارا مودبانہ مشورہ ہے کہ دین سے متعلق اگر آپ ادنیٰ سی بھی بات کریں یا لکھیں تو پہلے متعلقہ ماہرین سے ضرور گفت و شنید کر لیں یا اصل کتب سے تحقیق کر لیں۔
ایسے معاملات جو متقدمین و متاخرین ائمہ کے نزدیک متفقہ طور طے شدہ ہوں ، ایسے معاملات میں یہ کہنا درست نہیں کہ "میں نے یہ سمجھا ہے۔۔۔" یا "میں ایسا سمجھتا ہوں ۔۔۔" یا "میری یہ رائے ہے ۔۔۔"

میں نے کافی عرصہ قبل کچھ یوں لکھا تھا ۔۔۔ نقل کئے دیتا ہوں ۔۔۔۔۔
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جب کسی موضوع پر ایک بات واضح کر کے بیان فرما دی ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ ۔۔۔
فرمانِ نبوی کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو حق ہے کہ اس "موضوع" پر تفکر کرے؟؟
تفکر کیوں کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے۔
تو جو لوگ نبی سے ثابت شدہ نتائج کو جاننے کے بعد بھی "تفکر" کا راگ الاپ رہے ہیں ، کیا وہ نبی کے تفکر کا انکار کرنا چاہتے ہیں؟؟
انکار تو کوئی بھی بندہ کھلے عام نہیں کرتا بلکہ ویسا ہی طریقہ اپناتا ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے کے معزز روشن خیال مفکرین قرآن اپناتے رہے ہیں اور اپنا رہے ہیں !!
کاش کہ یہ معززین و مفکرین و مدبرین ، قرآن کو بھی کچھ سمجھ کر پڑھے ہوتے جو ببانگ دہل کہتا ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے

اور یہی قرآن فرماتا ہے :
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوْا فِىْ أنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
تمہارے ربّ كى قسم يه كبھى مومن نہيں ہو سكتے جب تک اپنے باہمى اختلافات ميں آپ كو فيصلہ كرنے والا نه مان ليں- پھر جو كچه آپ فيصلہ كريں اس پر اپنے دلوں ميں كوئى تنگى بهى محسوس نه كريں بلكه دل و جان سے اسے تسليم كرليں-

اور اہل سنت کے ائمہ اربعہ تو ساری عمر یہ کہتے اور سمجھاتے رہے کہ :
لوگو! دین میں اپنی عقل سے بات کرنے سے بچو اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کرلو، جو کوئی سنت سے ہٹا، وہ گمراہ ہو گیا۔
ونیز یہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیثِ صحیحہ اور متقدم مفسرین و محدثین و ائمہ دین کے حوالے سے جب کوئی اجماعی و اتفاقی بات پیش کی جائے تو آج کے فہم کو قبول نہ ہونے کے سبب اس کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ تو پھر ہم بھی کیونکر اس "فکر" پر اعتراض نہ کریں جو اہل علم کی متفقہ رائے کے خلاف نظر آتی ہو؟
فقہاء و علماء و محدثین کی کورانہ تقلید کی دعوت قطعاً نہیں دی جا رہی بلکہ ہمارے نزدیک تو تجدید و اجتہاد ، اور تحقیق و اکتشاف ، وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ لیکن استدعا صرف یہ ہے کہ بحث و نظر کا دائرہ کار ، اجماعی و اتفاقی مسائل کے بجائے وہ امور ہونے چاہئے جو واقعتاً حل طلب ہیں۔ امت کے مابین ہمیشہ سے طے شدہ امور میں "اجتہاد" کا نتیجہ سوائے انتشار و افتراق کے کچھ نہیں جو امت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
درست رویہ یہ ہونا چاہئے کہ ۔۔۔۔۔۔
اہل علم کی متفقہ رائے کے بالمقابل کوئی نیا نقطہ نظر پیش کرنے کے بجائے ان کے دلائل پر غور و فکر کیا جائے اور گہرائی میں اتر کر اس کی معنویت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے ، اس سے یقیناً صحیح نتیجے تک رسائی ہو جاتی ہے اور انسان شذوذ و تفرد سے محفوظ رہتا ہے !!

"اجماع" کی اہمیت اور "اجماع" کی مسلمہ حیثیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر ہم امت مسلمہ کے اجتماعی دھارے سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ یہ ایک غیرمناسب رجحان ہے اور مطالعۂ شریعت کے اس طریقہ کے منافی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف الصالحین رحمہم اللہ عنہم نے امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ کسی استفسار کے بارے میں ایک عالم دین یا فقیہہ کو کیا رویہ اپنانا چاہئے ؟ اس کے متعلق عظیم المرتبت صحابئ رسول عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کا قول ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
" إذا سئل أحدكم فلينظر في كتاب الله فإن لم يجده ففي سنة رسول الله فإن لم يجده فيها فلينظر فيما اجتمع عليه المسلمون وإلا فليجتهد "
جب تم میں سے کسی سے کوئی سوال کیا جائے تو اسے چاہئے کہ قرآن مجید سے اس کا حل تلاش کرے ، اگر وہاں نہ پائے تو سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں دیکھے ، اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر ان مسائل کو دیکھے جن پر مسلمانوں کا اتفاق ہے ، اور اگر یہاں بھی اس کا حل میسر نہ ہو تو پھر اجتہاد کرے ۔۔۔
بحوالہ : المقاصد الحسنة ، امام سخاوی
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
کون سی مسواک سنت ہے؟

امام شافعیٌ جب تک عراق میں تھے تو انہوں نے پیلو کی مسواک کو واجب قرار دیاتھا کیونکہ وہاں یہ درخت کثرت سے تھا،لیکن جب وہ مصر تشریف لائے تو وہاں یہ درخت نایاب تھا تو انہوں نے پیلو کی مسواک کو صرف مستحب فرمایا۔(بحوالہ سائٹ :ویکیبیدیا الموسوعۃ الحرۃ)بندہ جب تک پاکستان میں تھا پیلو کی مسواک ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا اور چند ہی دنوں میں اس کو کھاجاتا تھا (کثرت استعمال سے ختم ہوجاتی تھی) لیکن جب یو اے ای آنا ہوا تو مسواک تلاش بسیار کے بعد نہ دستیاب ہوئی ۔ اب بندہ نماز کے وقت مسواک کی جگہ برش بغیر پیسٹ کے استعمال کرلیتا ہے ۔ایک مرتبہ ایک عرب بھائی نے بندہ کو ٹوکا کہ کیا تمہارا ٹھکانہ نہیں ہے ؟گھر نہیں ہے جو یہاں برش کرتے ہو؟میں نے عرض کیا حضور ﷺ نے فرمایا ہے السواک مطہرۃ الفم مسواک منہ کی صفائی کا ذریعہ ہے، نیز فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا توہر نماز کے وقت مسواک کولازم کردیتا۔اور یہاں وہ پیلو کی مسواک ملتی نہیں تو آپ ہی بتائیے کیامنہ کو یونہی گندہ چھوڑے رکھیں؟اور دنیا کے جن خطوں میں کوئی مسواک نہ ملے اوروہاں کوئی سنت کا متوالا سنت پر چلنے کا خواہش مند ہوتو کیا وہ اس سے محروم ہی رہے گا؟نیزبندہ کا سوال ہے کیا نبی ﷺ نے کسی لکڑی کی مسواک کو لازم قرار دیا ہے ،ہرگز نہیںبلکہ مسواک سے متعلق احادیث سے خوب واضح ہوتا ہے کہ اس سے مقصود صرف منہ کی صفائی مقصود ہے ۔ورنہ مسواک تو صرف پیلو کے درخت کی ہی کہلاتی ہے ۔اگر آپ مسواک ہی کو ل،ازم کہتے ہیں تو پیلو کی مسواک کو ہی لازم کہنا ہوگا جس کا میرے خیال میں کوئی قائل نہیں بلکہ ہر ایک کا یہی خیال ہے کہ جس کسی لکڑی کی مسواک کرلی جائے تو سنت ادا ہوجائے گی۔ تو مسواک کا لغوی معنی آپ لازم نہیں کرتے جوصرف پیلو کی نوع کو شامل ہے بلکہ آپ اس کو جنس لکڑی تک بڑھالیتے ہیں تواگر کو اس کو اس جنس سے دوسری جنس پلاسٹک وغیرہ تک متعدی کرلیتا ہے تو آپ اس کو کس قاعدے سے منع کرسکتے ہیں ۔یقیناً اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کی وجہ سے حضورﷺ نے ہمیشہ پیلو کی مسواک استعمال کے باوجود پیلو کی مسواک کو لازم نہیں کیا۔ بندہ کابھی خیال آپ کے خیال سے ہم آہنگ تھاکبھی لیکن حالات سے انسان کی سوچ وسیع ہوجاتی ہے۔الصواب من اللہ والخطامنی وہذا لیس فتوی بل منی رائ
اصغر
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مسواک کے متعلق جاوید چودھری صاحب کا موقف ٹھیک ہے، البتہ دینی امور کے بارے میں جاوید چودھری صاحب کا مطالعہ کافی ناقص ہے، ان کا خیال ہے کہ شائد انہیں ہی سب سے پہلے ان اُمور پر غور کرنے کا موقعہ ملا ہے، فرماتے ہیں:

ہمارے علمائے کرام کو سنت کی تشریح کیلئے آگے آنا چاہئے، انہیں سنت کی وضاحت کرنی چاہئے پھر انہوں نے سواری، جوتا اور سر ڈھانپنے وغیرہ پر اظہار خیال کیا ہے۔

حالانکہ علمائے کرام﷭ آج کیلئے سینکڑوں سال پہلے ان امور پر تفصیل سے غور فرما چکے ہیں

وہ یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ بہتر مسواک تو اراک نامی درخت کی مسواک ہی ہے، جو نبی کریمﷺ نے استعمال فرمائی ہے، لیکن مسواک کا اطلاق ہر اس آلے پر ہوتا ہے جس سے دانتوں کی صفائی ہو خواہ وہ لکڑی ہو یا برش وغیرہ، بوقت ضرورت انگلی سے بھی صفائی ہو سکتی ہے۔ وغیرہ
تفصیل کیلئے دیکھئے:
Muhaddis
موقع الإسلام سؤال وجواب - ما هي السنة في السواك ؟ (یہ لنک عربی میں ہے) ہیڈنگ ما يستاك به کے تحت مفتی صاحب نے اس مسئلے کو واضح فرمایا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک سنت کی تقسیم کی حوالے سے جاوید چودھری صاحب کا موقف ہے وہ انتہائی کمزور اور فتنہ پرور ہے۔

انہوں نے سنت کی چار قسمیں بیان کی ہیں، بڑی انکساری کے ساتھ فرماتے ہیں

کہ یہ تقسیم حتمی نہیں، مجھ نا چیز کی رائے ہے

جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ شائد وہ بات کو سمجھانے کی غرض سے یہ بات کر رہے ہیں، اس تقسیم سے اصل مقصد (اتباعِ سنت) میں کوئی فرق نہیں آتا، لیکن در اصل اپنی یہ خود ساختہ تقسیم کرکے انہوں نے سنت کی پہلی دو قسموں کو ویسے ہی خارج کر دیا ہے، اور اگلی دو قسموں پر عمل پر زور دیا ہے۔

اس طرح گویا انہوں نے بہت سی سنتوں مثلاً داڑھی، ہر کام دائیں ہاتھ سے کرنا اور داہنی جانب کو پسند كرنا، سادگی وانکساری، تجارت، تعددِ ازواج، چھوٹی عمر کی خاتون سے شادی، صبرواستقلال کے ساتھ دنیاوی آزمائشوں کا سامنا کرنا وغیرہ وغیرہ سے جان چھڑانے کی سعی نا مسعود کی ہے،

ابھی تو یہ صرف بعض مثالیں ہیں، نہ جانے آگے جا کر کس کس شے کو پہلی دو قسموں میں شامل کرکے دین کے کتنے احکامات سے ہی دستبردار ہوجائیں گے۔

حالانکہ اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اللہ اور رسول کی ہر بات مانے، کسی ایک بات کا انکار بھی سب باتوں کا انکار ہوتا ہے، جیسے کسی ایک نبی کا انکار سب نبیوں کا انکار ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ٢٠٨ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة

در اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو کسی معاملے میں اہمیت ملتی ہے، تو ایسے معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، جس کے بارے میں اسے علم نہیں ہوتا، جو اس کا میدان نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی تجربہ کار انجینئر لوگوں کے کینسر کا علاج شروع کر دے۔ یا مثلاً ایک شخص جرنیل ہو، عربی زبان، قرآن وحدیث سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ لیکن ریٹائر ہونے کے بعد وہ سمجھے کہ میں نے بڑی کام کی مصروف زندگی گزاری ہے، لہٰذا مجھے دین اسلام کو بھی اس تجربے سے سرفراز کرنا چاہئے، وہ ایک تفسیر لکھنا شروع کر دے، تو واضح سی بات ہے کہ بغیر کسی دینی علم کے تفسیر لکھنے والا خواہ وہ اپنے دُنیوی فیلڈ میں کتنا ہی تجربہ کار اور کام کا ہی کیوں نہ ہو، دین اسلام کا بیڑہ ہی غرق کر دے گا۔

جاوید چودھری صاحب نے سنت کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1۔ جو کام نبی کریمﷺ عربی کلچر کے تحت کیے۔ اس کے تحت انہوں نے داڑھی، دائیں ہاتھ سے کھانا، دائیں ہاتھ سے کام کرنا، تجارت، تعددِ ازواج، چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرنا وغیرہ وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے، جس کا تعلق ہرگز ہرگز عربی کلچر کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ان کا تعلق دین کے عمومی احکامات سے ہے۔
نہ جانے چودھری صاحب کے نزدیک ان اُمور کو عربی کلچر کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل کیا ہے؟ شائد انہیں ان میں بعض امور پر عمل کرنا مشکل لگتا ہو یا بعض امور پر غیروں (مستشرقین) کے اعتراضات کا جواب نہ آتا ہو تو انہوں نے اس کا آسان حل یہ نکالا ہو کہ اسے ویسے عربی کلچر میں شامل کر دیا جائے تاکہ ان جیسے نام نہاد عاشق جنہیں یہ سنتیں مشکل لگتی ہیں کو ان پر عمل کرنا ضروری نہ رہے۔
حالانکہ تعددِ ازواج ہمیشہ سے موجود ہے، اس کی کوئی خصوصیت عربی کلچر کے ساتھ نہیں، تمام انبیائے کرام﷤ نے اس پر عمل کیا ہے، اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہمیشہ سے اس پر عمل ہوتا رہا ہے، اسلام میں اس سلسلے میں غلط چیزوں اور ظلم وزیادتی وغیرہ کو ضرور ختم کیا ہے۔
داڑھی کے بارے میں نبی کریمﷺ نے بار بار حکم دیا کہ یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں اور مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی رکھو، پھر بھی اسے عربی کلچر کے ساتھ خاص کرنا بہت بڑی زیادتی اور نبی کریمﷺ اور دیگر تمام انبیاء کی اس عظیم سنت سے جان چھڑانا ہے۔

پیغمبری سنت: اس میں چودھری صاحب نے معراج، وحی، چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا شامل کیا ہے۔ حالانکہ یہ تینوں کام نبی کریمﷺ کی سنت ہے ہی نہیں، کیونکہ یہ معجزات ہیں اور معجزات اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، نبی کی طرف سے نہیں ہوتے، البتہ وہ نبی کی نبوت کی دلیل ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں اس قسم میں انہوں نے پوری پوری رات عبادت کرنا شامل کیا ہے، حالانکہ یہ نبی کریمﷺ پر الزام ہے، یہ رہبانیت ہے جس سے نبی کریمﷺ نے بار بار منع فرمایا ہے، احادیث مبارکہ میں صراحت ہے کہ آپ سوتے بھی تھے اور عبادت بھی کرتے تھے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ خواہشات سے آزاد تھے، جو بالکل غلط بات ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں، نبی کریمﷺ انسان تھے، اور آپ میں انسانوں والی خواہشات تھیں، جس پر آپ کنٹرول رکھتے تھے۔
اس قسم میں بھی تعدد ازواج، آزمائشیں اور اس پر صبر وغیرہ کا ذکر ہے، چودھری صاحب انہیں پیغمبری سنتیں کہہ کر ان سب سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ یہ پیغمبری سنتیں صرف نبی ہی سر انجام دے سکتا ہے، ہم کمزور اور عام لوگ انجام نہیں دے سکتے۔ ہم جان بھی لڑا دیں تو شائد اس فیز کی ایک آدھ سنت تک پہنچ سکیں باقی 99 اعشاریہ 99 فیصد پیغمبری سنتیں ہماری حدود سے بہت دور ہیں
سوال یہ ہے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ہمارے لئے اسوہ کیوں بنایا ہے؟ اگر چودھری صاحب کی بات مان لی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکلیف ما لا یطاق کا حکم دیا ہے۔

نبی اسی لئے بشر ہوتا ہے تاکہ امت میں سے کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ جی وہ تو فرشتے تھے اس لئے انہوں نے یہ کام کر لیا، ہم تو بشر ہیں لہٰذا ہم تو یہ کام نہیں کر سکتے۔

تیسری اور چوتھی قسم انہوں نے شرعی احکام اور انسانی احکام کی قرار دی ہے، بقول ان کے ہم شائد عربی رسول اور پیغمبر رسول کی سنتوں پر عمل نہ کر سکیں کیونکہ ہم میں سے کوئی شخص پیغمبر نہیں، ہم عربی بھی نہیں ہیں، ہم دوسرے کلچر کے لوگ ہیں لیکن ہمیں رسول کریمﷺ کی اچھے انسان کی سنتوں اور شرعی احکامات سے متعلق سنتوں پر ضرور عمل کرنا چاہئے کیونکہ جب تک ہم اچھا انسان نہیں بنتے، ہم مکمل مسلمان نہیں بنتے، ہم اس قت تک رسول اللہﷺ کے سچے عاشق اور اصلی امتی نہیں کہلا سکیں گے۔

لیجئے سنتوں کے بخیے اڈھیر کر چودھری صاحب جن سنتوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں انہیں پہلی دو قسموں میں شامل کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود پکے عاشق رسول ہیں اور قیامت کے دن نبی کریمﷺ کی سفارش کے بھی متمنی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بغیر علم کے اس قسم کی موشگافیوں سے محفوظ رکھیں، آمین!
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ‌ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ٣٦ ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے (36)

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
برادرم انس نضر !
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
جاوید چوہدری کا دینی تصور ناقص ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ سماجیات، سیاسیات اور اخلاقیات پر اس کی تحریریں نہایت پُر اثر اور دلوں کو چھو لیتی ہیں۔ وہ حالاتِ حاضرہ کا ماہر ہے، چنانچہ جب وہ اسلامی معاملات پر اسی انداز میں گفتگو کرتا ہے تو اپنے لاکھوں قارئین کو ”متاثر“ کرتا ہے۔ اس کے قارئین عام مسلمان ہیں، جن تک علمائے کرام کی بالعموم رسائی نہیں ہے۔ لہٰذا اس بات کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث اور علمائے کرام کی صحبت سے دور ، عام پڑھا لکھا اور جاوید چوہدری کے طلسم میں گرفتار طبقہ، موصوف کے ذاتی افکار کو ہی ”اصل اسلام“ سمجھ بیٹھے۔ جاوید چوہدری نے یہ پہلی کوشش نہیں کی ہے۔ اس سے قبل بھی موصوف اس قسم کے کالم لکھتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علم انہی کے کالم کی معرفت انہی کے قارئین کو حقیقی صورتحال سےآگاہ کریں۔ اور اگر جاوید چوہدری علماء کرام کا موقف شائع نہ کریں (جس کا امکان کم ہے) تو اسی اخبار میں جوابی مضمون شائع کرایا جاسکتا ہے۔ اصل ضرورت یہی ہے کہ ابلاغ عامہ کے ذرائع میں جب کبھی اور جہاں کہیں اسلام کا غلط مؤقف پیش ہو، اسی پلیٹ فارم پر اس کا جواب بھی دیا جائے۔ میرے اس دھاگہ کا اصل مقصد اسی جانب توجہ دلانا تھا۔ صرف یہاں مکالمہ کر کے جاوید چوہدری کے موقف کو قرآن و حدیث سے غلط ”ثابت کرنا“ نہیں تھا کہ اسلامی مؤقف تو صدیوں سے ”ثابت شدہ“ ہیں۔ اصل مقصود ثابت شدہ اسلامی مؤقف کا اُس پلیٹ فارم سے ”ابلاغ “ کرنا ہے، جہاں سے لاکھوں لوگوں کو غلط تصور اسلام سے آگاہ کیا جارہا ہے۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
دراصل ہمارے معاشرے میں ہمارے اکثراہل علم کی وجہ سے ایک انتہائی خوفناک وباء پھیل چکی ہے ، وہ یہ ہےکہ کوئی بھی شخص جو دین سے محبت رکھتا ہے وہ دین میں رائے دہی کو اپنا حق سمجھتا ہے ، اور پھر صحیح دین اسی کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ ریت معاشرے کے ان اہل علم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو ما وشما خواہ وہ جو کوئی ہوں کی رائے کو بھی اللہ ورسول کے حکم کی طرح اہمیت دیتا ہے اور اس کو دین قرار دیتا ہے ،حالآنکہ قرآن وحدیث صرف اپنی ہی اتباع کا حکم دیتے ہیں ،تو جب اہل علم کہلانے والے اپنی یا کسی کی رائے کو دین قرار دے سکتے ہیں تو آپ عامۃ الناس کو کس قانون سے اس حق سے دستبردار ہونے پر مجبور کرسکتے ؟ کیا یہ کلیسا کے ارباب کی طرح صرف پیشوایان کا ہی حق ہے ؟لہٰذا اولاً ہم برصغیر کے تمام اہل علم کو اس بات پر مجبور کریں کہ کوئی بات قرآن وحدیث کی دلیل کے بغیر پیش نہ کیا کریں اور عوام کو چاہئے کہ جب وہ کسی سے مسئلہ دریافت کریں تو قرآن وحدیث سے دلیل مانگنا اپنا شرعی ولازمی حق سمجھیں۔ تب جاکر اس فتنہ کا سد باب ہوسکتا ہے کہ ہر کوئی قلم اٹھا کر دین میں رائے زنی سے بچے ۔ کیونکہ جب اہل علم کی آراء بھی دلیل سے خالی ہوتی ہیں تو ماوشما سب ہی کوقلم کا زور آزمانے کا شوق جاگ اٹھتا ہے ۔
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
مسواک کے مسئلے پر آنجناب کے بیان کو دیکھ کر حیرت ہوئی ۔۔۔ حالانکہ احادیث میں باقاعدہ لفظ اسواک کا ذکر ہے۔ اگر صرف دانت صاف کرنا مقصود ہوتا تو کسی خاص شئے کا باقاعدہ نام لے کر ذکر ہی کیوں کیا جاتا بھلا؟
حتیٰ کہ صحیح بخاری میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسواک منہ کو پاک کرتی ہے اور پروردگار کو پسند ہے۔
باذوق بھائی صحیح بخاری میں یہ روایت کہاں پر ہے ؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
باذوق بھائی صحیح بخاری میں یہ روایت کہاں پر ہے ؟
وَقَالَتْ عَائِشَةُ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ
صحيح البخاري » كتاب الْصَوْمِ » بَاب : سِوَاكِ الرَّطْبِ ، وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ ...

قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " السواك مطهرة للفم مرضاة للرب "
الراوي: عائشة - خلاصة الدرجة: صحيح - المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/133
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
وَقَالَتْ عَائِشَةُ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ
صحيح البخاري » كتاب الْصَوْمِ » بَاب : سِوَاكِ الرَّطْبِ ، وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ ...


قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " السواك مطهرة للفم مرضاة للرب "
الراوي: عائشة - خلاصة الدرجة: صحيح - المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/133
جزاک اللہ خیرا
اسے امام المحدثین رحمہ اللہ نے تعلیقاً روایت کیا ہے
اللہ مالک الملک آپ کے علم،عمر اور عمل میں برکت دے
آمین
 
Top