جہاں تک سنت کی تقسیم کی حوالے سے جاوید چودھری صاحب کا موقف ہے وہ انتہائی کمزور اور فتنہ پرور ہے۔
انہوں نے سنت کی چار قسمیں بیان کی ہیں، بڑی انکساری کے ساتھ فرماتے ہیں
کہ یہ تقسیم حتمی نہیں، مجھ نا چیز کی رائے ہے
جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ شائد وہ بات کو سمجھانے کی غرض سے یہ بات کر رہے ہیں، اس تقسیم سے اصل مقصد (اتباعِ سنت) میں کوئی فرق نہیں آتا، لیکن در اصل اپنی یہ خود ساختہ تقسیم کرکے انہوں نے سنت کی پہلی دو قسموں کو ویسے ہی خارج کر دیا ہے، اور اگلی دو قسموں پر عمل پر زور دیا ہے۔
اس طرح گویا انہوں نے بہت سی سنتوں مثلاً داڑھی، ہر کام دائیں ہاتھ سے کرنا اور داہنی جانب کو پسند كرنا، سادگی وانکساری، تجارت، تعددِ ازواج، چھوٹی عمر کی خاتون سے شادی، صبرواستقلال کے ساتھ دنیاوی آزمائشوں کا سامنا کرنا وغیرہ وغیرہ سے جان چھڑانے کی سعی نا مسعود کی ہے،
ابھی تو یہ صرف بعض مثالیں ہیں، نہ جانے آگے جا کر کس کس شے کو پہلی دو قسموں میں شامل کرکے دین کے کتنے احکامات سے ہی دستبردار ہوجائیں گے۔
حالانکہ اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اللہ اور رسول کی ہر بات مانے، کسی ایک بات کا انکار بھی سب باتوں کا انکار ہوتا ہے، جیسے کسی ایک نبی کا انکار سب نبیوں کا انکار ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ٢٠٨ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
در اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو کسی معاملے میں اہمیت ملتی ہے، تو ایسے معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، جس کے بارے میں اسے علم نہیں ہوتا، جو اس کا میدان نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی تجربہ کار انجینئر لوگوں کے کینسر کا علاج شروع کر دے۔ یا مثلاً ایک شخص جرنیل ہو، عربی زبان، قرآن وحدیث سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ لیکن ریٹائر ہونے کے بعد وہ سمجھے کہ میں نے بڑی کام کی مصروف زندگی گزاری ہے، لہٰذا مجھے دین اسلام کو بھی اس تجربے سے سرفراز کرنا چاہئے، وہ ایک تفسیر لکھنا شروع کر دے، تو واضح سی بات ہے کہ بغیر کسی دینی علم کے تفسیر لکھنے والا خواہ وہ اپنے دُنیوی فیلڈ میں کتنا ہی تجربہ کار اور کام کا ہی کیوں نہ ہو، دین اسلام کا بیڑہ ہی غرق کر دے گا۔
جاوید چودھری صاحب نے سنت کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1۔ جو کام نبی کریمﷺ
عربی کلچر کے تحت کیے۔ اس کے تحت انہوں نے داڑھی، دائیں ہاتھ سے کھانا، دائیں ہاتھ سے کام کرنا، تجارت، تعددِ ازواج، چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرنا وغیرہ وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے، جس کا تعلق ہرگز ہرگز عربی کلچر کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ان کا تعلق دین کے عمومی احکامات سے ہے۔
نہ جانے چودھری صاحب کے نزدیک ان اُمور کو عربی کلچر کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل کیا ہے؟ شائد انہیں ان میں بعض امور پر عمل کرنا مشکل لگتا ہو یا بعض امور پر غیروں (مستشرقین) کے اعتراضات کا جواب نہ آتا ہو تو انہوں نے اس کا آسان حل یہ نکالا ہو کہ اسے ویسے عربی کلچر میں شامل کر دیا جائے تاکہ ان جیسے نام نہاد عاشق جنہیں یہ سنتیں مشکل لگتی ہیں کو ان پر عمل کرنا ضروری نہ رہے۔
حالانکہ تعددِ ازواج ہمیشہ سے موجود ہے، اس کی کوئی خصوصیت عربی کلچر کے ساتھ نہیں، تمام انبیائے کرام نے اس پر عمل کیا ہے، اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہمیشہ سے اس پر عمل ہوتا رہا ہے، اسلام میں اس سلسلے میں غلط چیزوں اور ظلم وزیادتی وغیرہ کو ضرور ختم کیا ہے۔
داڑھی کے بارے میں نبی کریمﷺ نے بار بار حکم دیا کہ یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں اور مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی رکھو، پھر بھی اسے عربی کلچر کے ساتھ خاص کرنا بہت بڑی زیادتی اور نبی کریمﷺ اور دیگر تمام انبیاء کی اس عظیم سنت سے جان چھڑانا ہے۔
2۔
پیغمبری سنت: اس میں چودھری صاحب نے معراج، وحی، چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا شامل کیا ہے۔ حالانکہ یہ تینوں کام نبی کریمﷺ کی سنت ہے ہی نہیں، کیونکہ یہ معجزات ہیں اور معجزات اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، نبی کی طرف سے نہیں ہوتے، البتہ وہ نبی کی نبوت کی دلیل ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں اس قسم میں انہوں نے پوری پوری رات عبادت کرنا شامل کیا ہے، حالانکہ یہ نبی کریمﷺ پر الزام ہے، یہ رہبانیت ہے جس سے نبی کریمﷺ نے بار بار منع فرمایا ہے، احادیث مبارکہ میں صراحت ہے کہ آپ سوتے بھی تھے اور عبادت بھی کرتے تھے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ خواہشات سے آزاد تھے، جو بالکل غلط بات ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں، نبی کریمﷺ انسان تھے، اور آپ میں انسانوں والی خواہشات تھیں، جس پر آپ کنٹرول رکھتے تھے۔
اس قسم میں بھی تعدد ازواج، آزمائشیں اور اس پر صبر وغیرہ کا ذکر ہے، چودھری صاحب انہیں پیغمبری سنتیں کہہ کر ان سب سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ
یہ پیغمبری سنتیں صرف نبی ہی سر انجام دے سکتا ہے، ہم کمزور اور عام لوگ انجام نہیں دے سکتے۔ ہم جان بھی لڑا دیں تو شائد اس فیز کی ایک آدھ سنت تک پہنچ سکیں باقی 99 اعشاریہ 99 فیصد پیغمبری سنتیں ہماری حدود سے بہت دور ہیں
سوال یہ ہے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ہمارے لئے اسوہ کیوں بنایا ہے؟ اگر چودھری صاحب کی بات مان لی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکلیف ما لا یطاق کا حکم دیا ہے۔
نبی اسی لئے بشر ہوتا ہے تاکہ امت میں سے کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ جی وہ تو فرشتے تھے اس لئے انہوں نے یہ کام کر لیا، ہم تو بشر ہیں لہٰذا ہم تو یہ کام نہیں کر سکتے۔
تیسری اور چوتھی قسم انہوں نے
شرعی احکام اور
انسانی احکام کی قرار دی ہے، بقول ان کے
ہم شائد عربی رسول اور پیغمبر رسول کی سنتوں پر عمل نہ کر سکیں کیونکہ ہم میں سے کوئی شخص پیغمبر نہیں، ہم عربی بھی نہیں ہیں، ہم دوسرے کلچر کے لوگ ہیں لیکن ہمیں رسول کریمﷺ کی اچھے انسان کی سنتوں اور شرعی احکامات سے متعلق سنتوں پر ضرور عمل کرنا چاہئے کیونکہ جب تک ہم اچھا انسان نہیں بنتے، ہم مکمل مسلمان نہیں بنتے، ہم اس قت تک رسول اللہﷺ کے سچے عاشق اور اصلی امتی نہیں کہلا سکیں گے۔
لیجئے سنتوں کے بخیے اڈھیر کر چودھری صاحب جن سنتوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں انہیں پہلی دو قسموں میں شامل کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود پکے عاشق رسول ہیں اور قیامت کے دن نبی کریمﷺ کی سفارش کے بھی متمنی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بغیر علم کے اس قسم کی موشگافیوں سے محفوظ رکھیں، آمین!
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ٣٦ ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے (
36)
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!