• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث وائل بن حجر کی مفصل تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام ابن خزيمة رحمہ اللہ (المتوفى311)نے کہا:
نا أبو موسى، نا مؤمل، نا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره»
وائل بن حجر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کرانہیں اپنے سینے پررکھ لیا۔[صحيح ابن خزيمة 1/ 243 رقم 479]

حوالہ:
صحیح ابن خزیمة (ج 1ص243):ـکتاب الصلوة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر479۔
صحیح ابن خزیمہ (اردو ترجمہ) :ج1 ص 472 حدیث نمبر479۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
كليب بن شهاب الجرمي کا تعارف:
آپ ثقہ ہیں آپ کا تعارف ہوچکا ہے دیکھئے:ص۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
عاصم بن کلیب کا تعارف:
آپ بھی ثقہ ہیں آپ کا تعارف ہوچکا ہےدیکھئے:ص۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان بن سعید الثوری:
آپ بہت بڑے ثقہ امام بلکہ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔آپ کا تعارف بھی ہوچکا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مؤمل بن اسماعیل:
آپ بخاری شواہد اور ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ کے رجال میں سے ہیں ۔ بعض نے آپ پرکلام کیاہے لیکن اکثر محدثین نے آپ کی توثیق کی ہے اور راجح قول میں آپ ثقہ ہیں۔ آپ کی توثیق پر مفصل معلومات کے لئے دیکھئے ہمارا مقالہ: اثبات الدلیل علی توثیق مؤمل بن اسماعیل۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوموسی محمد بن المثنى العنزي:
آپ بخاری ومسلم اور سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں اور بہت بڑے ثقہ وثبت ہیں ۔ ان پرکسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان ثقة ثبتا احتج سائر الأئمة بحديثه
یہ ثقہ اورثبت تھے ،تمام ائمہ نے ان سے احتجاج کیا ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 3/ 284]

بہت سارے محدثین نے ان کی زبردست توثیق کی ہے تفصیل کے لئے عام کتب رجال دیکھیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت
یہ ثقہ اورثبت ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6264]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
کلیب کے متن پر اعتراض

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وائل بن حجرسے اسی روایت کو دیگر لوگوں نے بھی نقل کیا ہے مگر ان لوگوں نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
عرض ہے کہ کلیب کے علاوہ یہ روایت صرف چار لوگوں سے مروی ہیں جن میں ایک کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ ہے ۔ اوردوسری روایت سندا ثابت ہی نہیں ہے اور تیسری روایت میں حددرجہ اختصار ہے یہاں تک اس میں ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں۔البتہ چوتھی روایت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے مگراس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے خلاف بھی کوئی بات نہیں ہے نیز یہ روایت درجہ وقوت میں کلیب کی روایت کے ہم پلہ نہیں ہے ۔لہٰذا صرف ایک روایت جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے خلاف بھی کچھ نہیں ہے، اس کی بنیاد پر کلیب کی روایت پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
أم يحيی کی روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد الصوفي، أنبأ أبو أحمد بن عدي الحافظ، ثنا ابن صاعد، ثنا إبراهيم بن سعيد، ثنا محمد بن حجر الحضرمي، حدثنا سعيد بن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه، عن أمه، عن وائل بن حجر قال: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أو حين نهض إلى المسجد فدخل المحراب، ثم رفع يديه بالتكبير، ثم وضع يمينه على يسراه على صدره
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہو اجب آپ مسجد کارخ فاچکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسندامامت پر پہنچ تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کواپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھ لیا۔[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 46]

یہ روایت کلیب بن شہاب کی روایت کے مخالف نہیں بلکہ موافق ہے کیونکہ اس میں بھی پوری صراحت کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اس کی سند ضعیف ہے لیکن صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے ساتھ مل کر یہ روایت بھی صحیح قرار پاتی ہے۔

اس کے بعد بچیں تین روایات ملاحظہ ہو:

عبد الرحمن بن اليحصبي کی روایت:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن أبي البختري ، عن عبد الرحمن بن اليحصبي ، عن وائل بن حجر الحضرمي قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه مع التكبير.
وائل بن حجررحمہ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 316]

عرض ہے کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں بلکہ ضعیف ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والا ’’عبد الرحمن بن اليحصبي‘‘ اوراسے ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ۔ اورابن حبان توثیق میں اکیلے ہوں تو ان کی توثیق غیرمقبول ہوتی ہے کیونکہ وہ متساہل ہیں ۔
مزید یہ کہ اس روایت ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ راوی نے اختصار سے کام لیا ہے لہٰذا راوی نے جب سرے سے ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر نہیں کیا تو وہ ہاتھ باندھنے کی جگہ کا ذکر کیسے کرے گا؟ لہٰذا یہ مختصر روایات دوسری روایات کے خلاف حجت نہیں بن سکتی ۔

اب بچیں دو روایات:
حجر بن العنبس الحضرمي کی روایت:
ان سے اس روایت کو سلمہ بن کہیل نے نقل کیا ہے اور سلمہ سے شعبہ اور سفیان ثوری نے بیان کیا ہے اور شعبہ نے اپنی روایت میں سندا ومتنا دونوں اعتبار سے سفیان ثوری کی مخالفت کی ہے اور گذشتہ سطور میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ جب شعبہ اور سفیان ثوری میں اختلاف ہو امام سفیان ثوری ہی کی روایت راجح ہوگی ۔لہٰذا ہم امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طریق سے یہ روایت دیکھتے ہیں:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سلمة، عن حجر أبي العنبس الحضرمي، عن وائل بن حجر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ {ولا الضالين} قال: «آمين»، ورفع بها صوته
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (سورۃ فاتحہ کے آخر میں) «ولا الضالين» کہتے تو «آمين» کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتے۔[سنن أبي داود 1/ 246 واسنادہ صحیح]

اس روایت میں اختصار ہے اور سرے سے ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر نہیں ہے لہٰذا یہ مختصر روایت دیگر روایت میں ذکر کردہ باتوں کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔

اب بچی ایک روایت:
علقمة بن وائل الحضرمي کی روایت:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا عفان، حدثنا همام، حدثنا محمد بن جحادة، حدثني عبد الجبار بن وائل، عن علقمة بن وائل، ومولى لهم أنهما حدثاه عن أبيه وائل بن حجر: أنه " رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر، - وصف همام حيال أذنيه - ثم التحف بثوبه، ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، فلما أراد أن يركع أخرج يديه من الثوب، ثم رفعهما، ثم كبر فركع، فلما قال: سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما، سجد سجد بين كفيه
صحابی رسول وائل بن حجر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوئے تکیبر کہی اور ہمام نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اوڑھ لی پھر دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو چادر سے نکالا پھر ان کو بلند کیا تکبیر کہہ کر رکوع کیا جب آپ نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔[صحيح مسلم 2/ 301]

صرف یہی ایک روایت ہے جس میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے لیکن ہاتھ باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں ۔لیکن اس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا انکار بھی نہیں ہے نہ اس کے خلاف کسی چیز کا ذکر ہے ۔
لہٰذا صرف ایک روایت میں ہاتھ باندھنے کے ساتھ سینے کا ذکر نہ ہونے سے دوسری ایسی روایت کاانکار نہیں کیا جاسکتا جس میں ہاتھ باندھنے کا ساتھ اس کی جگہ کا بھی یعنی سینے کا ذکر ہے۔
مزید یہ کہ جس راوی نے سینے کا ذکر نہیں کیا ہے وہ ’’علقمة بن وائل الحضرمي‘‘ اور امام ابن سعید رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں کہا:
كان ثقة قليل الحديث
یہ ثقہ اور قلیل الحدیث تھے [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 312]

جبکہ ان کے مقابل میں ’’كليب بن شهاب‘‘ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے اوران کے بارے میں امام ابن سعد رحمہ اللہ نے کہا:
كان ثقة كثير الحديث ۔۔۔رأيتهم يستحسنون حديثه ويحتجون به
یہ ثقہ اور زیادہ احادیث والے تھے ، میں نے محدثین کو دیکھا وہ ان کی حدیث کو اچھی کہتے تھے اور اس سے حجت پکڑتے تھے۔[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 123]

لہٰذا کثیرالحدیث ثقہ کے مقابلہ میں قلیل الحدیث ثقہ کا بیان نہیں پیش کیا جاسکتا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان ثوری کے متن پر پر اعتراض


بعض لوگ کہتے کہ اسی حدیث عاصم سے سفیان ثوری کے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں نے روایت کیا ہے اوران میں سے کسی نے بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے علاوہ عاصم بن کلیب سے دیگر جن لوگوں کی روایات ہیں ان میں کئی روایات توثابت ہی نہیں ہیں نیز جو ثابت ہیں ان میں سے کئی روایات میں ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔بلکہ جن رواۃ نے ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے انہوں نے کبھی اس کاذکر ہے اور کبھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
نیز ان سب کی روایات دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی روایت کے راوی نے یہ التزام نہیں کیاہے کہ وہ اس حدیث کے تمام الفاظ ذکر کرے گا۔
لہٰذا جب یہ معاملہ ہے تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے علاوہ باقی لوگوں نے اگر سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے انہوں نے دیگر باتوں کا ذکر نہیں کیا ۔
لہٰذا دیگررواۃ کا کوئی بات بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہے کہ وہ چیز اس روایت کا حصہ نہیں ہے۔ نیز دیکھئے: ص۔۔۔

ثانیا:
سفیان ثوری کے علاوہ جو رواۃ بھی عاصم سے یہ حدیث بیان کررہے ہیں ان میں سے کوئی بھی حفظ واتقان میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے برابر نہیں ہے لہٰذا ان میں سے کسی کی روایت بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے برابر نہیں ہوسکتی۔دیکھئے:ص ۔۔
ثالثا:
سفان ثوری رحمہ اللہ حافظ متقن ہیں اور حافظ متقن کی زیادتی مقبول ہوتی ہے دیکھئے: ص ۔۔۔
رابعا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر راویوں کی روایات سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے منافی نہیں ہیں ، یعنی ان میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کا انکار ان کے بالکل خلاف کوئی بات نہیں ہے بلکہ عدم ذکر ہے ۔اور ایسے حالات میں ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی دیکھئے:
خامسا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بیان کردہ الفاظ کے شواہد بھی ہیں جیساکہ اس کتاب میں پیش کئے گئے ہیں ۔
لہٰذا شواہد کے ہوتے ہوئے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جیسے حافظ ومتقن کی زیادتی ہر حال میں قبول ہوگی ۔
سادسا:
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ کرنے میں منفرد ہیں کہ سفیان ثوری کے استاذ عاصم ہی سے اسی روایت کو زائدہ نے بھی نقل کیا ہے اور ان کے الفاظ میں بھی معنوی طورپر سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے دیکھئے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مؤمل بن اسماعیل کے تفرد پر اعتراض اور اس کا جواب


بعض لوگ کہتے ہیں کہ مؤمل کو گرچہ ثقہ مان لیں لیکن چونکہ اس پر جرح ہوئی ہے اس لئے یہ جن الفاظ کے بیان میں منفرد ہوگا اسے قبول نہیں کیا جائے گا ، اور سفیان ثوری سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ صرف مؤمل ہی بیان کررہا ہے اور سفیان ثوری دیگر شاگردوں میں کسی بھی شاگرد نے سفیان ثوری سے یہ روایت کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس لئے ان تمام شاگردوں کے خلاف تنہا مؤمل بن اسماعیل کا بیان معتبر نہیں ہے کیونکہ یہ متکلم فیہ ہے۔

جوابا عرض ہے کہ زیربحث روایت میں مؤمل بن اسماعیل کے بیان پر یہ اصول فٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں پر فی الحقیقت مؤمل بن اسماعیل کی مخالف ثابت ہی نہیں ۔ چنانچہ مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ جن لوگوں نے بھی سفیان ثوری سے یہ روایت نقل کی ہے انہوں نے حددرجہ اختصار سے کام لیا ہے حتی کہ انہوں نے ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے لہذا جب دیگر راویوں نے اس حدیث کے ہاتھ باندھنے والے حصہ ہی کوبیان نہیں کیا تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ہاتھ باندھنے کی جگہ کا بیان کریں ۔
ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کی جگہ یعنی سینے کے ذکر کی نوبت کسی راوی کے یہاں تب آئے گی جب وہ ہاتھ باندھنے کا ذکر کرے ۔ لیکن جب راوی سرے سے ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر نہ کرے بلکہ اس پوری کیفیت کو چھوڑ کر دوسری چیز بیان کرکے اپنی بات ختم کردے تو کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ سینے کے لفظ کا مخالف ہے؟ اگر اس نے سینے کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے تو اس نے ہاتھ باندھنے کا بھی تو ذکر نہیں کیا ہے ! تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ وہ ہاتھ باندھنے والے الفاظ کا بھی مخالف ہے ؟؟؟
مؤمل بن اسماعیل نے سفیان ثوری سے جس سیاق میں روایت بیان کی ہے اگر دیگررواۃ بھی سفیان ثوری سے یہ روایت اسی سیاق میں نقل کرتے یعنی سب کے سب ہاتھ باندھنے والی کیفیت کا ذکرکرتے لیکن ان میں سے کوئی بھی ہاتھ باندھنے کی جگہ یعنی سینے کا ذکر نہ کرتا تو یہ اشکال ہو سکتا تھا کہ اس سیاق میں ان الفاظ کا اضافہ صرف مؤمل بن اسماعیل کر رہا ہے اور وہ حافظ ومتقن نہیں ہے کہ اس کی زیادتی قبول کرلی جائے وہ بلکہ متکلم فیہ ہے۔ لہٰذا متکلم فیہ راوی کی زیادتی نہیں قبول کی جاسکتی ۔
مگر چونکہ دیگر رواۃ نے اس سیاق کے ساتھ یہ روایت بیان ہی نہیں کہ حالانکہ یہ سیاق یعنی باندھنے کی کیفیت اس روایت میں ثابت شدہ ہے ۔ لہٰذا ایسی صورت میں مؤمل بن اسماعیل کا اسے تنہا بیان کرنا چنداں مضر نہیں ہے کیونکہ فی الحقیقت ان کا کوئی مخالف ہے ہی نہیں ۔

ذیل میں مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ سفیان ثوری سے اسی حدیث کو بیان کرنے والے دیگر راویوں کے الفاظ نقل کردیتے ہیں تاکہ بات بالکل صاف ہوجائے ، ملاحظہ ہو:

اسحاق بن راھویہ کی روایت:
أخبرنا الثوري عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر، قال: رمقت النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سجد وضع يديه حذاء أذنيه
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے برابر رکھے[نصب الراية للزيلعي: 1/ 381 بحوالہ مسند اسحاق بن راھویہ]

اس میں صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

عبد الرزاق بن ھمام کی روایت:
عن الثوري، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «رمقت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سجد كانت يداه حذو أذنيه»
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابرتھے[مصنف عبد الرزاق: 2/ 175]

اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
نوٹ: عبدالرزاق کی بعض دیگر روایات میں کچھ مزید باتوں کا ذکر ہے مگر ہاتھ باندھنے کا ان کی کسی بھی روایت میں نہیں ہے۔

وکیع بن الجراح:
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل الحضرمي ، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم حين سجد ، ويداه قريبتان من أذنيه.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے قریب تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 316]

اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

یحی بن آدم اور ابونعیم کی روایت:
حدثنا يحيى بن آدم ، وأبو نعيم ، قالا : حدثنا سفيان ، حدثنا عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل بن حجر قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد جعل يديه حذاء أذنيه.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے برابر رکھتے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 318]

اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

الحسين بن حفص کی روایت:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا أسيد بن عاصم، ثنا الحسين بن حفص، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا سجد يكون يداه حذاء أذنيه
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابرہوتے[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 160]

اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

علی بن قادم کی روایت:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أحمد بن يحيى الصوفي، ثنا علي بن قادم، ثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام اتكأ على إحدى يديه»
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک پر ٹیک لگاتے[المعجم الكبير للطبراني 22/ 39]

اس میں صرف نمازسے اٹھنے کی کیفیت کا ذکر ہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

محمد بن يوسف الفريابي
أخبرني محمد بن علي بن ميمون الرقي قال نا محمد وهو بن يوسف الفريابي قال نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر : أنه رأى النبي صلى الله عليه و سلم جلس في الصلاة ففرش رجله اليسرى ووضع ذراعيه على فخذيه وأشار بالسبابة يدعو
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ نماز میں بیٹھے اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے دونوں بازؤوں کو اپنی دونوں ران پر رکھا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے دعاء کرنے لگے[سنن النسائي الكبرى 1/ 374]

اس میں صرف نمازسے اٹھنے کی کیفیت کا ذکر ہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔

عبد الله بن الوليد کی روایت:
حدثنا عبد الله بن الوليد ، حدثني سفيان ، عن عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل بن حجر قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم حين كبر ، رفع يديه حذاء أذنيه ، ثم حين ركع ، ثم حين قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، ورأيته ممسكا يمينه على شماله في الصلاة ، فلما جلس حلق بالوسطى والإبهام وأشار بالسبابة ، ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ، ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھاتے ، پھر جب آپ رکوع کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ، اور میں نے آپ کو نماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے ہوئے دیکھا۔ پھر جب آپ بیٹھے تو آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی کا حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور آپ نے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 318]

صرف اور صرف اسی ایک روایت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہیں اور سینے کا ذکر نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ صرف ایک راوی کے عدم ذکر سے مؤمل کی ذکر کردہ بات پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا بالخصوص جبکہ عدم ذکر والے عبداللہ بن الولید ہیں اور یہ بھی متکلم فیہ ہیں اور مؤمل سے کم رتبہ والے ہیں چنانچہ:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)ان کے بارے میں کہا:
شيخ يكتب حديثه ولا يحتج به
یہ شیخ ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی اوراسے حجت نہیں لی جائے گی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 188]

جبکہ مؤمل کے بارے میں امام ابوحاتم نے کہا:
صدوق شديد في السنة كثير الخطأ يكتب حديثه
یہ سچے اور کٹرسنی ہیں ، زیادہ غلطی کرنے والے ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 374]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے عبداللہ بن الولید کے بارے میں صرف یہ کہا:
شيخ
یہ شیخ ہیں [الكاشف للذهبي: 1/ 606]

جبکہ مؤمل کے بارے میں امام ذہبی نے کہا:
كان من ثقات البصريين
یہ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں تھے[العبر في خبر من غبر 1/ 350]

لہٰذا مؤمل کے مقابلہ میں عبداللہ بن الولید کی روایت نہیں پیش کیا جاسکتی ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top