مؤمل بن اسماعیل کے تفرد پر اعتراض اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مؤمل کو گرچہ ثقہ مان لیں لیکن چونکہ اس پر جرح ہوئی ہے اس لئے یہ جن الفاظ کے بیان میں منفرد ہوگا اسے قبول نہیں کیا جائے گا ، اور سفیان ثوری سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ صرف مؤمل ہی بیان کررہا ہے اور سفیان ثوری دیگر شاگردوں میں کسی بھی شاگرد نے سفیان ثوری سے یہ روایت کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس لئے ان تمام شاگردوں کے خلاف تنہا مؤمل بن اسماعیل کا بیان معتبر نہیں ہے کیونکہ یہ متکلم فیہ ہے۔
جوابا عرض ہے کہ زیربحث روایت میں مؤمل بن اسماعیل کے بیان پر یہ اصول فٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں پر فی الحقیقت مؤمل بن اسماعیل کی مخالف ثابت ہی نہیں ۔ چنانچہ مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ جن لوگوں نے بھی سفیان ثوری سے یہ روایت نقل کی ہے انہوں نے حددرجہ اختصار سے کام لیا ہے حتی کہ انہوں نے ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے لہذا جب دیگر راویوں نے اس حدیث کے ہاتھ باندھنے والے حصہ ہی کوبیان نہیں کیا تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ہاتھ باندھنے کی جگہ کا بیان کریں ۔
ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کی جگہ یعنی سینے کے ذکر کی نوبت کسی راوی کے یہاں تب آئے گی جب وہ ہاتھ باندھنے کا ذکر کرے ۔ لیکن جب راوی سرے سے ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر نہ کرے بلکہ اس پوری کیفیت کو چھوڑ کر دوسری چیز بیان کرکے اپنی بات ختم کردے تو کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ سینے کے لفظ کا مخالف ہے؟ اگر اس نے سینے کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے تو اس نے ہاتھ باندھنے کا بھی تو ذکر نہیں کیا ہے ! تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ وہ ہاتھ باندھنے والے الفاظ کا بھی مخالف ہے ؟؟؟
مؤمل بن اسماعیل نے سفیان ثوری سے جس سیاق میں روایت بیان کی ہے اگر دیگررواۃ بھی سفیان ثوری سے یہ روایت اسی سیاق میں نقل کرتے یعنی سب کے سب ہاتھ باندھنے والی کیفیت کا ذکرکرتے لیکن ان میں سے کوئی بھی ہاتھ باندھنے کی جگہ یعنی سینے کا ذکر نہ کرتا تو یہ اشکال ہو سکتا تھا کہ اس سیاق میں ان الفاظ کا اضافہ صرف مؤمل بن اسماعیل کر رہا ہے اور وہ حافظ ومتقن نہیں ہے کہ اس کی زیادتی قبول کرلی جائے وہ بلکہ متکلم فیہ ہے۔ لہٰذا متکلم فیہ راوی کی زیادتی نہیں قبول کی جاسکتی ۔
مگر چونکہ دیگر رواۃ نے اس سیاق کے ساتھ یہ روایت بیان ہی نہیں کہ حالانکہ یہ سیاق یعنی باندھنے کی کیفیت اس روایت میں ثابت شدہ ہے ۔ لہٰذا ایسی صورت میں مؤمل بن اسماعیل کا اسے تنہا بیان کرنا چنداں مضر نہیں ہے کیونکہ فی الحقیقت ان کا کوئی مخالف ہے ہی نہیں ۔
ذیل میں مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ سفیان ثوری سے اسی حدیث کو بیان کرنے والے دیگر راویوں کے الفاظ نقل کردیتے ہیں تاکہ بات بالکل صاف ہوجائے ، ملاحظہ ہو:
اسحاق بن راھویہ کی روایت:
أخبرنا الثوري عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر، قال: رمقت النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سجد وضع يديه حذاء أذنيه
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے برابر رکھے[نصب الراية للزيلعي: 1/ 381 بحوالہ مسند اسحاق بن راھویہ]
اس میں صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
عبد الرزاق بن ھمام کی روایت:
عن الثوري، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «رمقت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سجد كانت يداه حذو أذنيه»
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابرتھے[مصنف عبد الرزاق: 2/ 175]
اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
نوٹ: عبدالرزاق کی بعض دیگر روایات میں کچھ مزید باتوں کا ذکر ہے مگر ہاتھ باندھنے کا ان کی کسی بھی روایت میں نہیں ہے۔
وکیع بن الجراح:
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل الحضرمي ، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم حين سجد ، ويداه قريبتان من أذنيه.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے قریب تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 316]
اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
یحی بن آدم اور ابونعیم کی روایت:
حدثنا يحيى بن آدم ، وأبو نعيم ، قالا : حدثنا سفيان ، حدثنا عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل بن حجر قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد جعل يديه حذاء أذنيه.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے برابر رکھتے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 318]
اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
الحسين بن حفص کی روایت:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا أسيد بن عاصم، ثنا الحسين بن حفص، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا سجد يكون يداه حذاء أذنيه
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابرہوتے[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 160]
اس میں بھی صرف سجدہ کے ذکرہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
علی بن قادم کی روایت:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أحمد بن يحيى الصوفي، ثنا علي بن قادم، ثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام اتكأ على إحدى يديه»
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک پر ٹیک لگاتے[المعجم الكبير للطبراني 22/ 39]
اس میں صرف نمازسے اٹھنے کی کیفیت کا ذکر ہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
محمد بن يوسف الفريابي
أخبرني محمد بن علي بن ميمون الرقي قال نا محمد وهو بن يوسف الفريابي قال نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر : أنه رأى النبي صلى الله عليه و سلم جلس في الصلاة ففرش رجله اليسرى ووضع ذراعيه على فخذيه وأشار بالسبابة يدعو
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ نماز میں بیٹھے اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے دونوں بازؤوں کو اپنی دونوں ران پر رکھا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے دعاء کرنے لگے[سنن النسائي الكبرى 1/ 374]
اس میں صرف نمازسے اٹھنے کی کیفیت کا ذکر ہے اورحدیث کے بقیہ حصوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
عبد الله بن الوليد کی روایت:
حدثنا عبد الله بن الوليد ، حدثني سفيان ، عن عاصم بن كليب ، عن أبيه ، عن وائل بن حجر قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم حين كبر ، رفع يديه حذاء أذنيه ، ثم حين ركع ، ثم حين قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، ورأيته ممسكا يمينه على شماله في الصلاة ، فلما جلس حلق بالوسطى والإبهام وأشار بالسبابة ، ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ، ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى.
صحابی رسول وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھاتے ، پھر جب آپ رکوع کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ، اور میں نے آپ کو نماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے ہوئے دیکھا۔ پھر جب آپ بیٹھے تو آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی کا حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور آپ نے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 318]
صرف اور صرف اسی ایک روایت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہیں اور سینے کا ذکر نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ صرف ایک راوی کے عدم ذکر سے مؤمل کی ذکر کردہ بات پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا بالخصوص جبکہ عدم ذکر والے عبداللہ بن الولید ہیں اور یہ بھی متکلم فیہ ہیں اور مؤمل سے کم رتبہ والے ہیں چنانچہ:
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)ان کے بارے میں کہا:
شيخ يكتب حديثه ولا يحتج به
یہ شیخ ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی اوراسے حجت نہیں لی جائے گی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 188]
جبکہ مؤمل کے بارے میں امام ابوحاتم نے کہا:
صدوق شديد في السنة كثير الخطأ يكتب حديثه
یہ سچے اور کٹرسنی ہیں ، زیادہ غلطی کرنے والے ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 374]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے عبداللہ بن الولید کے بارے میں صرف یہ کہا:
شيخ
یہ شیخ ہیں [الكاشف للذهبي: 1/ 606]
جبکہ مؤمل کے بارے میں امام ذہبی نے کہا:
كان من ثقات البصريين
یہ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں تھے[العبر في خبر من غبر 1/ 350]
لہٰذا مؤمل کے مقابلہ میں عبداللہ بن الولید کی روایت نہیں پیش کیا جاسکتی ۔