• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث ھلب الطائی کی مفصل تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني سماك ، عن قبيصة بن هلب ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ، ورأيته ، قال ، يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے کہا کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اوربائیں ہردو اطراف سے پھرتے تھے اورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہاتھ کواس ہاتھ پررکھ کراپنے سینے پر رکھتے تھے،یحیی بن سعید نے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پررکھ کرسینے پررکھ کربتایا''[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226واخرجہ ابن الجوزی فی التحقيق في مسائل الخلاف 1/ 338 من طریق احمد بہ]

حوالہ جات:
مسند أحمد:ـمسند الأنصار: حدیث ھلب الطائی ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة قرطبة):ـ ج 5ص 226 ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة الرسالة):ـ ج 36ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد(أحمدشاکروغیرہ):ـ ج 36 ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد:ـترقیم العالمیة 20961، ترقیم احیاء التراث21460۔
مسنداحمد(ط عالم الکتب): -ج7 ص337 حدیث نمبر22313
مسنداحمد(تحقیق محمدعبدالقادر عطا) :ج 9 ص112 حدیث نمبر22598
مسند احمد مع حاشیۃ السندی : ج13 ص72 حدیث نمبر9363 (21967)

یہ حدیث صحیح ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق روایات کے ضمن میں اسے بھی پیش کیا دیکھئے:[فتح الباري لابن حجر: 2/ 224]


فائدہ:
یہ روایت ترمذی میں سماک ہی کی سند سے ہے۔دیکھئے:[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 32 رقم 252]۔
اورترمذی کے بھی ایک نسخہ میں مسند احمد کی طرح سینے پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ ہیں چنانچہ:
محدث عبدالحق لکھتے ہیں:
”وہمچنین روایت کرد ترمذی ازقبیصہ بن ہلب ازپدرش کہ گفت دیدم رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی می نہد دست خود را برسینہ خود ‘‘
اسی طرح امام ترمذی نے قبیصہ بن ھلب سے روایت کیا ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا وہ اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھتے تھے[شرح سفر السعادت ص 44 بحوالہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص 41]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سند کی تحقیق


قبيصة بن الهلب الطائي
آپ صحابی رسول ھلب الطائی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اورثقہ ہیں۔چنانچہ:

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
قبيصة بن هلب كوفى تابعي ثقة
قبیصہ بن ھلب کوفی ، تابعی اورثقہ ہیں[الثقات للعجلي ط الدار 2/ 214]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے ثقات میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
قبيصة بن هلب الطائي
یعنی قبیصہ بن ھلب الطائی ثقہ ہیں[الثقات لابن حبان 5/ 319]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے ان کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حديث هلب حديث حسن
ھلب کی یہ حدیث حسن ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 32]

اورکسی راوی کی سند کی تصحیح یا تحسین اس سند کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے دیکھئے: ص

امام أبو علي ابن منصور الطوسيي رحمه الله (المتوفى312)نے ان کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حَدِيثٌ حَسَنٌ
یہ حدیث حسن ہے[مستخرج الطوسي على جامع الترمذي 2/ 176 ]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے ان کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
وَهُوَ حديث صحيح
یہ حدیث صحیح ہے[الإستيعاب لابن عبد البر: 4/ 1549]

امام أبو محمد البغوي رحمه الله (المتوفى516)نے ان کی حدیث کے بارے میں کہا:
هذا حديث حسن، وقبيصة بن هلب الطائي
یہ حدیث حسن ہے اورقبیصہ سے مراط قبیصہ بن ھلب الطائی ہیں[شرح السنة للبغوي 3/ 31]

تنبیہ اول:
امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
قال علي بن المديني ، والنَّسَائي : مجهول
علی بن المدینی اورامام نسائی نے کہا: یہ مجہول ہے[تهذيب الكمال للمزي: 23/ 493]

عرض ہے کہ امام علی بن المدینی اورامام نسائی سے یہ قول ثابت ہی نہیں ہے امام مزی نے ان اقوال کے لئے کوئی حوالہ نہیں دیا اور دیگر محدثین نے امام مزی کی اسی کتاب سے یہ بات نقل کی ہے۔

بالفرض اگر ان اقوال کو ثابت بھی مان لیں تو بھی کسی امام کا کسی راوی کو مجہول کہنا کوئی جرح نہیں ہے بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ مجہول کہنے والے امام کو اس راوی کے حالات نہیں ملے ۔لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر ائمہ کو بھی اس کے حالات معلوم نہیں ۔
لہٰذا جب دیگر ائمہ قبیصہ بن ھلب کے حالات سے آگاہ ہیں اور ان کی توثیق کررہے ہیں تو ان ائمہ کی بات ہی فیصلہ کن ہے۔

تنبیہ ثانی:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قبیصہ بن ھلب کو تقریب میں ’’مقبول‘‘ کہا ہے۔[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم5516]

عرض ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روای کوصراحتا کہیں بھی ضعیف نہیں کہا ہے اور تقریب میں اس راوی کو صرف مقبول کہنا یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تسامح ہے کیونکہ کئی محدثین نے ان کی توثیق کی ہے اور کسی نے بھی انہیں ضعیف نہیں کہا ہے۔ اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ سے اس طرح کا تسامح بہت سے رواۃ کے بارے میں ہوا ہے یعنی بہت سارے رواۃ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں صرف مقبول کہا ہے جبکہ وہ ثقہ ہیں ۔
بلکہ بعض ایسے رواۃ کو بھی مقبول کہہ دیا ہے جسے خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی نے دوسرے مقام پر ثقہ بتلایا ہے یا اس کی احادیث کی تصحیح وتحسین کی ہے۔حتی کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے اسی طرزعمل کی وجہ سے بعض محققین نے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جسے مقبول کہیں وہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: الراوي المقبول عند ابن حجر تطبیقات فی کتب الحدیث۔نیز دیکھیں: مصطلح مقبول عند ابن حجر وتطبيقاته على الرواة من الطبقتين الثانية والثالثة۔۔۔ : ص 108 تا 110۔
مؤخرالذکر مؤلف نے ایسی کئی مثالیں پیش کی ہیں کہ جس راوی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول کہا ہے خود اسی راوی کی روایت کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے حسن بھی کہا ہے ۔ایک مثال ملاحظہ ہو:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا عبد الله بن المبارك، عن وبر بن أبي دليلة، عن محمد بن ميمون، عن عمرو بن الشريد، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لي الواجد يحل عرضه، وعقوبته»
سیدنا عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مالدار کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا اس کی بے عزتی اور سزا کو حلال کر دیتا ہے۔[سنن أبي داود 3/ 313 رقم 3628]

اس روایت کی سند میں "محمد بن ميمون'' ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے تقریب میں "مقبول" کہا ہے دیکھئے:[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6051]

اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں کہا :
وإسناده حسن
اس کی سند حسن ہے[فتح الباري لابن حجر 5/ 62]

اورایک دوسری کتاب میں کہا:
وھو اسناد حسن
اوریہ سند حسن ہے[تغليق التعليق لابن حجر:ج3ص319]

معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جس راوی کومقبول بتلاتے ہیں اسی راوی کی روایت کوحسن بھی بتلاتے ہیں۔دریں صورت حافظ ابن حجر کا قبیصہ بن ھلب کو مقبول کہنا چنداں مضر نہیں ہے۔

نیزقبیصہ بن ھلب کو امام عجلی اورابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایسے راوی کی روایت کو حسن مانتے ہیں جس پر کسی نے جرح نہ کی ہو اور امام عجلی نے اس کی توثیق کی ہو یا امام عجلی کے ساتھ امام حبان نے بھی اس کی توثیق کی ہو ۔

حنفیوں کے شیخ ابوغدہ کے شاگرد دکتوراحمدمعبدعبدالکریم لکھتے ہیں:
فمن وثقہ العجلی وحدہ ، اوشارکہ ابن حبان بذکرہ للراوی نفسہ فی کتاب الثقات، او اخراج حدیثہ فی صحیحہ ، ولم یعرف لھذا الراوی غیر راو واحد عنہ ثم لم یعرف تضعیفہ من احد، فانی وجدت الحافظ ابن حجر یعتبر اقوی رتب حدیث مثل ھذا الراوی ان یکون حسنا لذاتہ
جس راوی کو صرف امام عجلی رحمہ اللہ ثقہ کہیں یا امام ابن حبان رحمہ اللہ بھی ان کی موافقت کریں یا تو اسی روای کو اپنی کتاب ثقات میں ذکر کرکے یا اپنی کتاب ’’صحیح ‘‘ میں اس کی حدیث روایت کرکے اور اس روای سے ایک کے علاوہ کسی اورنے روایت نہ کیا ہو اور نہ ہی کسی نے اسے ضعیف کہا ہو۔ تو میں نے پایا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایسے راوی کی حدیث کو کم از کم از حسن لذاتہ مانتے ہیں[ألفاظ وعبارات الجرح والتعديل:ص 233 نیز دیکھیں اسی صفحہ پر موجود حواشی]۔

معلوم ہوا کہ جس روای کو امام عجلی اکیلے یا ان کے ساتھ ان ثقہ کہیں اور اس کی تضعیف ثابت نہ ہو تو ایسا راوی حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک کم از حسن الحدیث ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس راوی کی اسی روایت کا تذکرہ فتح الباری میں کیا ہے اور اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔اورحافظ ابن حجرنے مقدمہ فتح الباری میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ فتح الباری میں جس روایت پرسکوت اختیار کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے دیکھئے:[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 4]

جناب ظفر احمدتھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
وفیہ دلیل علی ان سکوت الحافظ فی ''الفتح'' عن حدیث حجۃ ودلیل علی صحتہ اوحسنہ
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ ''فتح الباری'' میں حافظ ابن حجرکا کسی حدیث کے بارے میں خاموش رہنا اس کے صحیح یاحسن ہونے کی دلیل ہے۔[قواعد فی علوم الحدیث: ص90]

نوٹ: حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا فتح الباری میں کسی حدیث پر سکوت اختیارکرنا اس کے صحیح یاحسن ہونے کی لیکن صرف حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک ۔یعنی دوسرے محدثین کا اس سے اختلاف ہوسکتاہے۔

نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درایہ میں بھی قبیصہ کی روایت نقل کی ہے اور اس پر بھی سکوت اختیار کیا ہے حالانکہ اس سے ذرا سا پہلے اسی باب کی ایک حدیث ذکر کرکے اسے ضعیف بتلایا دیکھئے:[الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 129]
اوربعض لوگوں کا کہنا ہے کہ درایہ میں بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ کاسکوت ، حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بھی کم ازحسن الحدیث ہے۔

بالفرض یہ تسلیم کرلیں کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ نہیں ہے تو بھی محض حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی منفرد رائے سے یہ راوی ضعیف نہیں ہوجائے گا جب کہ دیگر کئی محدثین نے اس کی توثیق کی ہے کما مضی ۔
مزید یہ کہ اس کی توثیق کرنے والے سارے محدثین حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے دور سے پہلے کے ہیں اور جناب ظفر احمدتھانوی دیوبندی صاحب ایک اصول پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جرح المتاخر لایعتدبہ مع توثیق المتقدم
متقدم کی توثیق کے ہوتے ہوئے متاخر کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں [قواعد فی علوم الحدیث: ص399]

لہٰذا دیوبندی حضرات کے اصول ہی کی روشنی میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا اس راوی کو ثقہ نہ ماننا مضر نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سماك بن حرب
آپ بخاری شواہد ، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔
یہ ثقہ ہیں محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی توثیق کی ہے ۔ ان کی توثیق پر ہم نے ایک مفصل مقالہ ’’ازالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب‘‘ تحریر کیا ۔ قارئین تفصیل کے لئے یہ مقالہ ملاحظہ فرمائیں۔ دیکھئے: ص
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان بن سعید الثوری:
آپ بخاری ومسلم اورسنن اربعہ کے زبردست ثقہ راوی ہے۔ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ حدیث کے بہت بڑے امام تھے بلکہ حدیث اور جرح وتعدیل کے ایک بہت بڑے امام ابن معین رحمہ اللہ نے انہیں امیرالمؤمنین فی الحدیث کہا ہے چنانچہ:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
سفيان أمير المؤمنين في الحديث
سفیان ثوری امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 1/ 118 واسنادہ صحیح]

امام ابن معین رحمہ اللہ کے علاوہ اور بھی کئی اہل علم نے نہیں امیر المؤمنین کہا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے بارے ائمہ فن کے اقوال کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري أبو عبد الله الكوفي ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة من رؤوس الطبقة السابعة وكان ربما دلس
سفیان بن سعید بن مسروق الثوری ابوعبداللہ الکوفی ، ثقہ ، حافظ ، فقیہ ، عابد ، امام اور حجت تھے ، یہ ساتویں طبقہ کے امام تھے ، اور کبھی کبھی تدلیس کرتے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2445]

امام ثوری رحمہ اللہ قلیل التدلیس یعنی کبھی کبھار تدلیس کرنے والے تھے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہاہے۔ اورکبھی کبھار تدلیس کرنے والوں کا عنعنہ مقبول ہوتا ہے۔اس بارے میں بڑی عمدہ تحقیق کے لئے دیکھئے: مقالات راشدیہ ج 1 ص 304 تا 331 مقالہ تسکین القلب المشوش باعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والاعمش ۔
یادرہے کہ زیر بحث روایت میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے تدلیس کی صراحت کردی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
يحيى بن سعيد القطان:
آپ بھی بخاری ومسلم اورسنن اربعہ کے زبردست ثقہ راوی ہے۔ آپ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں انہیں بھی بہت سارے اہل علم نے امیرالمؤمنین فی الحدیث کہا ہے چنانچہ:
الإمام الكبير، أمير المؤمنين في الحديث
آپ بہت بڑے امام اور امیرالمؤمنین فی الحدیث تھے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 175]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے بارے ائمہ فن کے اقوال کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
يحيى بن سعيد بن فروخ بفتح الفاء وتشديد الراء المضمومة وسكون الواو ثم معجمة التميمي أبو سعيد القطان البصري ثقة متقن حافظ إمام قدوة من كبار التاسعة
یحیی بن سعید بن فروخ ، ابوسعید القطان البصری ، آپ ثقہ ، متقن ، حافظ ، امام ، قدوہ اور نویں طبقہ کے بڑے لوگوں میں سے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7557]

تنبیہ:
بعض لوگ انتہائی لایعنی اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں یحیی بن سعید نام کے کئی راوی ہیں اور یہاں کون ہے یہ معلوم نہیں ۔
عرض کہ علم حدیث مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ سند میں راوی کا تعین جن امور کی بنیاد پر ہوتا ہے ان میں سے ایک ہم چیز راوی کے اساتذہ وتلامذہ کا رشتہ ہے۔ یعنی راوی کے استاذوں اور شاگردوں کو دیکھ کر راوی کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس سند میں یحیی بن سعید کے استاذ سفیان ثوری ہیں اور ان کے شاگردا امام احمد رحمہ اللہ ہے۔
اورکتب رجال سے پتہ چلتا ہے کہ جن یحیی بن سعید کے استاذ سفیان ثوری رحمہ اللہ اور شاگرد امام احمد رحمہ اللہ ہیں وہ ’’یحیی بن سعید القطان ‘‘ ہیں دیکھئے:[تهذيب الكمال للمزي: 31/ 330 تا 332]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
متن پر پہلا اعتراض

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روایت کو سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے لیکن یحیی بن سعید کے علاوہ کسی اور راوی نے ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا ۔
اسی طرح سفیان کے استاذ سماک بن حرب سے بھی اسے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے لیکن سفیان ثوری کے علاوہ کسی نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیاہے۔

عرض ہے کہ یہ بات زیادتی ثقہ کے قبیل سے اور زیادتی ثقہ ہر جگہ رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ قرائن دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے جہاں پر رد کے قرائن ہوں گے وہاں زیادتی ثقہ کو رد کردیا جائے اور جہاں پر قبول کے قرائن ہوں گے وہاں زیادتی ثقہ کو قبول کیا جائے گا اس بارے میں مفصل تحقیق اور محدثین اقوال اور متعدد مثالوں کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص 195 تا 236 ۔

اور زیربحث حدیث میں قرائن اسی حق میں ہیں کہ یہاں زیادتی کو قبول کیا جائے ذیل میں یہ قرائن کی تفصیل اہل علم کے اقوال کے ساتھ ملاحظہ ہوں:

پہلا قرینہ:( روایات میں اختصار)
سماک بن حرب کی یہ روایت کئی چیزوں کے بیان پر مشتمل ہے لیکن ان سے روایت کرنے والوں میں کسی ایک نے بھی ایک ساتھ پوری روایت بیان نہیں کی ہے بلکہ ہرراوی نے بعض بعض حصہ ہی کو بیان کیا ہے۔
اگرمعاملہ یہ ہوتا کہ سفیان ثوری اور یحیی بن سعید کے علاوہ تمام کے تمام راوی اس روایت کو متفقہ طورپر ایک ہی الفاظ میں میں روایت کرتے تو یہ اشکال ہوسکتا تھا کہ جب سارے رواۃ ایک بیان پر متفق ہیں تو سفیان ثوری اوریحیی بن سعید نے ایک مزید بات کیسے بیان کردی(بشرطیہ کہ دیگررواۃ بھی ان کے ہم پلہ ہوں) ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں اس روایت کو بیان کرنے والے سارے راوی الگ الگ انداز میں الگ الگ چیزوں کو بیان کرتے ہیں اور ہرراوی کوئی نہ کوئی چیز چھوڑ دیتاہے جسے دوسرا کوئی اور بیان کرتا ہے۔ذیل میں ہم سماک بن حرب کے طریق سے مروی اس روایت میں مذکور تمام باتوں کو ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں:
  • (1) : روایت میں نماز کا ذکر ہے۔(مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح)
  • (2) : دائیں اوربائیں جانب سے مقتدیوں کی طرف پھرنے کا ذکر ہے۔(مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح)
  • (3) : اللہ کے نبی ﷺ کی امامت کا ذکر ہے۔(سنن الترمذي ت شاكر 2/ 98 رقم 301)
  • (4) : ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کا ذکر ہے۔(مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح)
  • (5) : دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا ذکر ہے۔(مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح)
  • (6) : دائیں ہاتھ سے بایاں ہاتھ پکڑنے کا ذکر ہے (مصنف عبد الرزاق: 2/ 240 واسنادہ صحیح)
  • (7) : دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کا ذکر ہے۔(مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 واسنادہ صحیح)
  • (8) : عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں نبی ﷺ سے سوال و جواب کا ذکر ہے۔(معجم الصحابة لابن قانع 3/ 199)
یہ تمام باتیں اس روایت میں بیان ہوئی ہیں لیکن ان تمام باتوں کو کسی ایک راوی نے مکمل بیان نہیں کیا بلکہ کسی نے ایک یا دو چیز بیان کی ہے تو بقیہ باتوں کو چھوڑ دیا ہے ۔لہٰذا جب اس روایت کے بیان میں تمام راویوں کا یہی طرزعمل ہے کہ وہ اس روایت کے بعض حصہ ہی کو بیان کرتے ہیں تو پھر یہ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ فلاں فلاں نے یہ بات بیان نہیں کی ہے کیونکہ اس روایت کے راویوں نے اس بات کا التزام کیا ہی نہیں ہے کہ وہ ساری باتوں کو بیان کریں گے بلکہ ہرایک نے صرف بعض حصہ ہی کو بیان کیا ہے اور بعض حصہ کو چھوڑدیا ہے اور اس طرزعمل سے ہر راوی نے خود اشارہ دے دیا کہ اس نے کچھ باتیں عمدا چھوڑ دیں ہیں۔
ذیل میں اس روایت کوبیان کرنے والے تمام راویوں کے الفاظ ہم پیش کرتے ہیں:

سفیان ثوری کے علاوہ سماک بن حرب کے دیگر شاگردوں کی روایات


شعبة بن الحجاج العتكي کی روایت:
حدثنا عبد الله ، حدثني أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثني غندر ، عن شعبة ، عن سماك ، عن قبيصة بن هلب ، عن أبيه ، قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف عن شقيه.
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا آپ دونوں جانب سے پھرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226]
اس روایت میں صرف دونوں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اوربقیہ ان سات(7) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے خود کہا:
إذا خالفني سفيان في حديث فالحديث حديثه
جب سفیان کسی حدیث میں میری مخالفت کریں تو سفیان ہی کی حدیث معتبر ہوگی[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 1/ 63 واسنادہ صحیح]
ہماری نظر میں امام شعبہ نے اپنی روایت میں سینے کا تذکرہ نہیں کیا ہے یہ فی الحقیقت کوئی مخالفت نہیں ہے لیکن اگر اسے مخالفت مان بھی لیں تو خود امام شعبہ رحمہ اللہ کی گواہی کے مطابق جب امام شعبہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے کی مخالفت کریں تو امام ثوری رحمہ اللہ ہی کی روایت کا اعتبار ہوگا۔
یادرہے کہ یہ بات صرف امام شعبہ رحمہ اللہ نے ہی نہیں کہی ہے کہ اسے تواضع پر محمول کرکے نذر انداز کردیا جائے بلکہ:
امام ابن معین رحمہ اللہ نے بھی کہا:
ليس أحد يخالف سفيان الثوري إلا كان القول قول سفيان قلت وشعبة أيضا إن خالفه قال نعم
جو کوئی بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خلاف روایت کرے گا تو سفیان ثوری ہی کی روایت معتبرہوگی۔ عباس الدورى کہتے ہیں میں نے کہا: کیا شعبہ بھی ثوری سے اختلاف کریں تو بھی سفیان ہی کی روایت معتبر ہوگی ؟ امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: جی ہاں ۔[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 364]
صرف ابن معین ہی نہیں بلکہ:
امام ابوحاتم رحمہ اللہ جیسے متشدد نے بھی کہا:
وهو احفظ من شعبة وإذا اختلف الثوري وشعبة فالثورى
سفیان ثوری رحمہ اللہ شعبہ سے بڑے حافظ ہیں اور جب سفیان ثوری اور شعبہ کے بیان میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری ہی کا بیان معتبرہوگا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 224]
حتی کہ امام أبو زرعة الرازي رحمه الله نے بھی کہا
كان الثوري احفظ من شعبة في إسناد الحديث وفى متنه
سفیان ثوری سند اور متن کو یاد رکھنے میں شعبہ سے بھی بڑھ کرتھے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 224]

ابوالاحوص ،سلام بن سليم الحنفي کی روایت:
حدثنا قتيبة قال: حدثنا أبو الأحوص، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا، فينصرف على جانبيه جميعا: على يمينه وعلى شماله
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے اور ہر دو جانب یعنی دائیں اور بائیں کی طرف سے پھرتے تھے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 98 رقم 301]
اس روایت میں صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اوربقیہ ان چھ(6) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

یادرہے کہ سفیان ثوری ابوالاحوص دونوں ثقہ ہیں لیکن حفظ واتقان میں ابوالاحوص سفیان ثوری کے ہم پلہ نہیں بلکہ امام ابوحاتم نے ابوالاحوص کو زائدہ اور زہیرسے بھی کم رتبہ بتلایا ہے۔چنانچہ کہا:
صدوق دون زائدة وزهير في الإتقان
یعنی ابوالاحوص یہ صدوق ہیں اور حفظ واتقان زائدہ اورزہیرسے کم تر ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 259]
جبکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں
سفيان فقيه حافظ زاهد امام أهل العراق وأتقن أصحاب أبى إسحاق وهو احفظ من شعبة وإذا اختلف الثوري وشعبة فالثورى
سفیان ثوری ، فقیہ ،حافظ ، اہل عراق کے امام ، ابواسحاق کے اصحاب میں سب زیادہ متقن اور شعبہ سے بھی بڑے حافظ ہیں ،اور جب سفیان ثوری اور شعبہ کے بیان میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری ہی کا بیان معتبرہوگا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 224]
نیز ماقبل میں حوالے پیش کئے جاچکے ہیں کہ متعدد ائمہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو امام شعبہ رحمہ اللہ سے بھی بڑا حافظ بتلایا تو بھلا ابوالاحوص کا سفیان ثوری سے کیا مقابلہ ہوسکتاہے۔لہٰذا سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خلاف ابوالاحوص کی بات نامعتبرہے۔

زائدة بن قدامة الثقفي کی روایت:
حدثنا حسين الجعفي ، عن زائدة ، عن سماك بن حرب ، عن قبيصة بن هلب الطائي ، عن أبيه ، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انفتل من الصلاة ، انفتل عن يمينه وعن شماله.
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے پھرتے تو جانب سے بھی پھرتے اوربائیں جانب سے بھی پھرتے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 227]
اس روایت میں صرف نماز اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اوربقیہ ان چھ(6) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ زائدة بن قدامة کا سماک سے اختلاط سے قبل روایت کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے یہ روایت سندا ضعیف ہے۔

حفص بن جميع العجلي(ضعیف) کی روایت:
حدثنا سهل بن موسى شيران الرامهرمزي، ثنا أحمد بن عبدة، ثنا حفص بن جميع، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يديه إحداهما على الأخرى في الصلاة»
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھتے [المعجم الكبير للطبراني 22/ 165]

اس روایت میں صرف نماز اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پررکھنے کاذکر ہے اوربقیہ ان چھ(6) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے حفص بن جمیع ضعیف ہے ۔جیساکہ حافظ ابن حجرحمہ اللہ نے کہا ہے دیکھئے:[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1401]
مزید برآں یہ کہ حفص بن جمیع نے سماک سے اختلاط کے بعد روایت کیا ہے دیکھئے: ص۔۔
لہٰذا یہ روایت سندا ضعیف ہے۔

زكريا بن أبي زائدة الوادعي کی روایت:
حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا محمد بن بشر، عن زكريا بن أبي زائدة، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن طعام النصارى فقال: «لا يتخلجن في صدرك طعام ضارعت فيه النصرانية
قبیصہ بن ھلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:"کوئی (حلال) چیز تیرے سینے میں شک و شبہ نہ ڈالے' اس سے تو نصرانیوں (راہبوں) کے مشابہ ہو جائے گا۔"[المعجم الكبير للطبراني 22/ 167]
اس روایت میں صرف عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں ذکر ہے اوربقیہ ان سات(7) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ زكريا بن أبي زائدة کا سماک سے اختلاط سے قبل روایت کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
علاوہ بریں زکریا نے عن سے روایت کیا ہے اوریہمدلس بھی ہیں اور دکتورمسفرالدمینی نے ان کے بارے میں تحقیق کرکے انہیں تیسرے طبقہ کا مدلس بتلایا کیونکہ ان سے بکثرت تدلیس ثابت ہے۔ دیکھئے: التدلیس فی الحدیث : ص297 -298۔

إسرائيل بن يونس السبيعي کی روایت:
حدثنا موسى بن الحسن بن أبي عباد، نا ابن رجاء، نا إسرائيل، عن سماك، عن قبيصة، عن أبيه قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه، وعن يساره»
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سے اوربائیں جانب سے پھرتے تھے[معجم الصحابة لابن قانع 3/ 198]
اس روایت میں صرف دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اوربقیہ ان سات(7) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ زائدة بن قدامة کا سماک سے اختلاط سے قبل روایت کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے یہ روایت سندا ضعیف ہے۔

أسباط بن نصر الهمداني کی روایت:
حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا عمرو بن حماد بن طلحة القناد، ثنا أسباط بن نصر، عن سماك، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه أنه: رأى النبي صلى الله عليه وسلم قام يصلي قال: فرأيته حين وضع إحدى يديه على الأخرى اليمين على الشمال "
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ۔ھلب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جب آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پررکھا تو دائیں کو بائیں پر رکھا[المعجم الكبير للطبراني 22/ 165]

اس روایت میں صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور ایک ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا ذکر ہے اوربقیہ ان چھ(6) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ أسباط بن نصر کا سماک سے اختلاط سے قبل روایت کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
علاوہ بریں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں صدوق کثیر الخطاء(سچے اور زیادہ غلطی کرنے والے) کہاہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 321]

شريك بن عبد الله القاضي کی روایت:
حدثنا عبد الله حدثني زكريا بن يحيى بن صبيح ، حدثنا شريك ، عن سماك ، عن قبيصة بن الهلب ، عن أبيه ، قال : سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن طعام النصارى ، فقال : لا يحيكن في صدرك طعام ضارعت فيه النصرانية.قال : ورأيته يضع إحدى يديه على الأخرى ، قال : ورأيته ينصرف عن يمينه ، ومرة عن شماله.
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:کوئی (حلال) چیز تیرے سینے میں شک و شبہ نہ ڈالے' اس سے تو نصرانیوں (راہبوں) کے مشابہ ہو جائے گا۔ ھلب کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک کو دوسرے پر رکھتے ۔ ھلب رضی اللہ عنہ نے مزید کہا کہ: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی دائیں جانب سے اور کبھی بائیں جانب سے پھرتے ہوئے دیکھا[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226]
اس روایت میں صرف عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال و جواب کا ذکر ہے۔اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کی بات ہے۔
اوربقیہ ان پانچ (5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ شریک بن عبداللہ نے سماک سے اختلاط کے بعد روایت کیا ہے دیکھئے: ص۔۔
لہٰذا یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
علاوہ بریں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں صدوق يخطىء كثيرا(سچے اور زیادہ غلطی کرنے والے) کہاہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2787]

زهير بن حرب الحرشي کی روایت:
حدثنا محمد بن أحمد بن البراء، نا معافى، نا زهير، عن سماك، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه
اس روایت میں بھی تقریبا گذشتہ روایت ہی کی باتیں ہیں[معجم الصحابة لابن قانع 3/ 199]
اس روایت کے الفاظ مذکور نہیں ہیں البتہ اس کے الفاظ کے لئے اس سے ماقبل روایت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں صرف عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال و جواب کا ذکر ہے۔نیزدائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کی بات ہے۔
اوربقیہ ان پانچ (5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ زہیربن حرب کا سماک سے اختلاط سے قبل روایت کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے یہ روایت سندا ضعیف ہے۔

اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفیان ثوری کے علاوہ صرف دو لوگوں شعبہ اور ابوالاحوص ہی کی سماک سے یہ روایت صحیح ہے۔اوربقیہ لوگوں کی روایات ضعیف ہیں۔ یادرہےتمام لوگ ایک ہی طرح کے الفاظ بیان کرنے پر متفق نہیں ہیں، اس لئے یہ آپس میں ایک دوسرے کے مؤید بھی نہیں ہیں۔
اورجن دولوگوں کی روایات ثابت ہیں ان میں سے ایک شعبہ ہیں جنہوں نے خود صراحت کردی کی سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے بیان کے مقابلہ میں ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اوریہی بات امام ابن معین رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نے بھی کہی ہے جیساکہ حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔
اب باقی بچے ابوالاحوص تو یہ حفظ و اتقان میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم پلہ نہیں ہیں جیساکہ امام ابوحاتم کے حوالے سے وضاحت گذرچکی ہے۔لہٰذا امام ثوری رحمہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے بیان کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بنابریں سفیان ثوری رحمہ اللہ جیسے متقن حافظ اور امیر المؤمنین فی الحدیث کے بیان کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔بالخصوص جبکہ کسی بھی محدث نے ان کی اس روایت پر تنقید نہیں کی ہے نیز عدم ذکر والے دونوں حضرات نے اس بات کا التزام بھی نہیں کیا ہے کہ وہ اس روایت کے تمام الفاظ بیان کریں گے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
یحیی بن سیعد کے علاوہ سفیان ثوری کے دیگر شاگردوں کی روایات


وكيع بن الجراح الرؤاسي کی روایت:
حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن قبيصة بن الهلب ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة ، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں کو بائیں پر رکھتے ہوئے دیکھا ۔ اور میں نے دیکھا آپ دائیں جانب سے پھرتے تھے اوربائیں جانب سے بھی پھرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 226 من زوائد عبداللہ]

اس روایت میں صرف نماز ، دائیں کو بائیں پر رکھنے کا ذکرہے ، اور دائیں اور بائیں جانب سےپھر نے کا ذکرہے۔اوربقیہ ان پانچ (5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جو دیگر روایات میں ہیں۔

واضح رہے کہ امام وکیع ہی سے امام احمدنے بھی یہ روایت بیان کی تو ان کے الفاظ میں صرف دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کا ذکر ہے۔چنانچہ :
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن قبيصة بن هلب الطائي ، عن أبيه ، قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف مرة عن يمينه ، ومرة عن شماله.
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں کو بائیں پر رکھتے ہوئے دیکھا ۔ اور میں نے دیکھا آپ دائیں جانب سے پھرتے تھے اوربائیں جانب سے بھی پھرتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 227]

معلوم ہوا کہ امام وکیع نے بھی پوری حدیث بیان نہیں کی ہے بلکہ جس قدر بیان کیا ہے اس میں بھی کبھی کمی وبیشی کی ہے، جو اس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ امام وکیع نے اس حدیث کی تمام باتوں کو بیان کرنے کا قصد ہی نہیں کیا۔

علاوہ بریں امام وکیع نے سفیان سے روایت کرنے میں کئی مقامات پر غلطی کی ہے چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) سفیان سے وکیع کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
ليس يرويه أحد غير وكيع ما أراه إلا خطأ
اسے وکیع کے علاوہ کوئی اورروایت نہیں کرتا میں یہی سمجھتاہوں کہ وکیع نے غلطی کی ہے[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 325]

اورایک دوسرے مقام پر امام أحمد بن حنبل رحمه الله نے سفیان سے وکیع کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
أخطأ فيه وكيع
اس میں وکیع نے غلطی کی ہے[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 2/ 401]

نیز امام احمد رحمہ اللہ نے سفیان ثوری سے روایت کرنے والوں میں یحیی بن سعید کو وکیع پر مقدم کیا ہے چنانچہ
امام مروذي رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
من اصحاب الثوري ؟ قال :یحیی ووكيع وعبد الرحمن وابو نعيم .قلت : قدمت وكيعا علي عبد الرحمن ؟ قال : وكيع شيخ
میں نے امام احمد سے پوچھا: سفیان ثوری کے اصحاب کون کون ہیں؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: یحیی بن سعید اور وکیع اور عبدالرحمن اور ابو نعیم ۔ میں نے کہا: آپ نے وکیع کو عبدالرحمن پر مقدم کردیا ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: وکیع شیخ ہیں۔[علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 60]

غورفرمائیں قول میں امام احمدرحمہ اللہ نے وکیع کو عبدالرحمن پر مقدم کیا لیکن یحیی بن سعید کو وکیع پر بھی مقدم کیا ۔
ان اقوال سے نتیجہ نکلا کہ اگر سفیان سے روایت کرتے ہوئے امام وکیع امام یحیی بن سعید کی مخالفت کریں تو امام یحیی بن سعید کی روایت راجح قرار پائے گی ۔

عبد الرحمن بن مهدي کی روایت:
حدثنا أبو محمد بن صاعد , نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي , ثنا عبد الرحمن بن مهدي , عن سفيان , ح وحدثنا محمد بن مخلد , نا محمد بن إسماعيل الحساني , ثنا وكيع , ثنا سفيان , عن سماك , عن قبيصة بن هلب , عن أبيه , قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة»
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں کو بائیں پر رکھتے ہوئے دیکھا[سنن الدارقطني 2/ 33 رقم 1100]

اس روایت میں صرف نماز کا ذکر ہے اور دائیں کو بائیں پررکھنے کاذکر ہے اوربقیہ ان پانچ(5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

یادرہے کہ یحیی بن سعید کے مقابلہ میں عبدالرحمن بن مہدی کی روایت کو مرجوح بتلایا گیا ہے چنانچہ
أبو عبد الرحمن السلمي (المتوفى412)نے کہا:
وسألته: من يقدم من يحيى بن سعيد وعبد الرحمن بن مهدي ؟فقال: يقدم يحيى بن سعيد؛ فإنه كان أسمح الناس؛ إذا كان في نفسه من الحديث شيء تركه.
میں نے امام دارقطنی سے پوچھا یحیی بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی میں سے کس ( کی روایت) کو مقدم کیا جائے گا؟ تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: یحیی بن سعید ( کی روایت) کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ یحیی بن سعید سب سے زیادہ محتاط تھے ان کے دل میں کسی حدیث کے تعلق سے کچھ بھی اندیشہ ہوتا تو وہ اسے ترک کردیتے [سؤالات السلمي للدارقطني ت الحميد ص: 328]

عبدالرزاق بن ھمام کی روایت:
عبد الرزاق، عن الثوري، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف مرة عن يمينه، ومرة عن شماله، وكان يمسك بيمينه على شماله في الصلاة»
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دائیں جانب سے پھرتے تھے اورکبھی بائیں جانب سے پھرتے تھے اور آپ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑے رہتے تھے[مصنف عبد الرزاق: 2/ 240]
اس روایت میں صرف نماز کاذکر ہے، دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اور دائیں ہاتھ سے بایاں ہاتھ پکڑنے کاذکر ہے اوربقیہ ان پانچ (5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

یادرہے کہ امام عبدالرزاق کے حافظہ پرجرح ہوئی ہے ، دیکھئے: یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 246 تا 250۔
اور عبدالرزاق حفظ واتقان میں امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے بہت کم تر ہیں لہٰذا امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی مخالف ان کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

الحسين بن حفص الهمداني کی روایت:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا أسيد بن عاصم، ثنا الحسين بن حفص قال: قال سفيان وحدثنا سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف مرة عن يمينه ومرة عن يساره ويضع إحدى يديه على الأخرى
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دائیں جانب سے پھرتے تھے اورکبھی بائیں جانب سے پھرتے تھے اور آپ نماز میں اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھتے تھے[السنن الكبرى للبيهقي 2/ 419 رقم 3613]

اس روایت میں صرف دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کاذکر ہے اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پررکھنے کا ذکرہے اوربقیہ ان چھ(6) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

یادرہے کہ حسین بن حفص ، حافظہ کے اعتبار سے امام یحیی بن سعید سے بہت کم تر ہیں ۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں صرف ”صدوق“ کہا ہے۔ دیکھئے:[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1319]

عبد الصمد بن حسان اور محمد بن كثير العبدي کی روایت:
حدثنا بشر بن موسى، نا عبد الصمد بن حسان، وحدثنا معاذ بن المثنى، نا محمد بن كثير قالا: نا سفيان الثوري، عن سماك، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، أنه قال: يعني للنبي صلى الله عليه وسلم قال: الطعام لا أدعه إلا تحرجا قال: «لا تختلج في نفسك إلا ما ضارعت فيه النصرانية» وقال: بيده هكذا " ووضع كفه اليمنى على اليسرى وقال: هكذا كان يصنع النبي صلى الله عليه وسلم في صلاته وينصرف عن يمينه وعن شماله "
ھلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: میں فقط حرج محسوس کرتے ہوئے بعض کھانے چھوڑ دیتاہوں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چیز تمہارے سینے میں شک و شبہ ڈالے گی تو تم نصرانیوں کے مشابہ ہو جاؤ گے۔اورآپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے یہ بات کہیں ۔ اور انہوں نے اپنے دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر رکھا اور کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اسی طرح کرتے تھے ۔ اوردائیں طرف سے بھی اوربائیں طرف سے بھی پھرتے تھے[معجم الصحابة لابن قانع 3/ 199]

اس روایت میں صرف عیسائیوں کے کھانے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال و جواب کا ذکر ہے۔نیزدائیں ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھنے اور دائیں اوربائیں جانب سے پھرنے کی بات ہے۔اوربقیہ ان پانچ (5) چیزوں کا ذکر نہیں ہے جسے دوسرے رواۃ نے بیان کیا ہے۔

یادرے کہ عبدالصمدبن حسان اور محمدبن کثیر یہ دونوں بھی امام یحیی بن سعد سے بہت ہی کم رتبہ والے ہیں دیکھیں عام کتب رجال ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام یحیی بن سعید کے ساتھ جن لوگوں نے بھی یہ روایت سفیان ثوری سے نقل کی ہے ان پر امام یحیی بن سعید ہی کی روایت راجح ہے ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر یحیی بن سعید کے ساتھ چار روایت کرنے والے راویوں پر امام یحیی بن سعید ہی کی روایت کو ترجیح دی چنانچہ ایک حدیث کے بارے میں کہا:
يرويه عبيد الله بن عمر ، واختلف عنه ؛ فرواه يحيى بن سعيد القطان ، عن عبيد الله ، عن سعيد المقبري ، عن أبيه ، عن أبي هريرة. وخالفه عبد الله بن نمير ، وأبو أسامة ، ومحمد بن بشر ، والحسن بن عياش فرووه ، عن عبيد الله ، عن سعيد ، عن أبي هريرة ، لم يقولوا فيه : عن أبيه ، والقول قول يحيى بن سعيد.
اسے عبیداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں اور ان سے روایت کرنے والے میں اختلاف واقع ہوا ہے ۔چنانچہ یحیی بن سعید القطان نے اسے عبیداللہ، عن سعید المقبری، عن ابیہ، عن ابی ھریرہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور ان کی مخالفت کرتے ہوئے عبداللہ بن نمر ، ابواسامہ ، محمدبن بشیر اورحسن بن عیاش نے اسے عن عبیداللہ ، عن سعید ، عن ابی ھریرہ کی سند سے روایت کیا اور ان لوگوں نے ’’عن ابیہ‘‘ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ۔ اور یحیی بن سعید نے جس طرح روایت کیا ہے وہی درست ہے۔[علل الدارقطني: 8/ 135]

تمام روایات کے الفاظ کاخلاصہ:
غورفرمائیں کہ سفیان ثوری کے علاوہ سماک بن حرب کے دیگر شاگردوں اسی طرح یحیی بن سعید کے علاوہ سفیان کے دیگر شاگردوں میں بھی کوئی ایک بھی ایسا شاگرد نہیں ہے جس نے اس روایت کی تمام باتوں کو ذکر کیا ہو اور کسی بات کو چھوڑا نہ ہو ۔
لہٰذا جب یہ طے شدہ بات ہے کہ سماک وسفیان کے تمام شاگردوں میں کسی بھی شاگرد نے اس بات کا التزام نہیں کیا ہے کہ وہ تمام الفاظ کو بیان کرے بلکہ ہرشاگرد نے روایت کی کئی باتیں چھوڑ دی ہیں تو پھر سفیان ویحیی بن سعید کے علاوہ باقی لوگوں نے اگر سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے انہوں نے دیگر باتوں کا ذکر نہیں کیا ۔
لہٰذا اس روایت کے کسی بھی راوی کا کوئی بات بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہے کہ وہ چیز اس روایت کا حصہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وقد اختلفت الروايات عن الشيباني في ذلك فأكثر ما وقع فيها أن المراجعة وقع ثلاثا وفي بعضها مرتين وفي بعضها مرة واحدة، وهو محمول على أن بعض الرواة اختصر القصة، ورواية خالد المذكورة في هذا الباب أتمهم سياقا وهو حافظ فزيادته مقبولة
اس سلسلے میں شیبانی سے روایات میں اختلاف واقع ہوا ہے چنانچہ مراجعت کا سب سے زیادہ تین بار تذکرہ ہوا ہے اوربعض روایت میں دو بار مراجعت کا تذکرہ ہوا ہے اور بعض روایت میں ایک بار مراجعت کا تذکرہ ہوا ہے اور یہ اس بات پر محمول ہے کہ بعض راویوں نے اس قصہ میں اختصار کیا ہے اور اس باب میں خالد کی مذکورہ روایت سب سے زیادہ مکمل سیاق میں ہے اور یہ حافظ ہیں اس لئے ان کی زیادتی مقبول ہے[فتح الباري لابن حجر: 4/ 198]

شیخ نادر بن السنوسی العمرانی نے زیادتی ثقہ کی قبولیت کے لئے اس قرینہ کو پیش کرتے ہوئے عنوان قائم کیا:
’’اختصار الراوی للحدیث مشعر بضبط من رواہ تاما‘‘
راوی کا حدیث میں اختصارکرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے مکمل روایت کیا ہے وہ ضابط ہے (یعنی اس کی روایت میں غلطی نہی ہوئی ہے)[قرائن الترجيح في المحفوظ والشاذ : ص 478].

اس کے بعد اس عنوان کے تحت کئی مثالیں پیش کرکے شیخ نادر نے اس قرینہ کو واضح کیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: قرائن الترجيح في المحفوظ والشاذ : ص 478 تا 500۔
نیز زیادتی ثقہ میں اس قرینہ کو امام بخاری ، امام ابوحاتم الرازی اور امام دارقطنی رحمھم اللہ نے بھی پیش نظر رکھا ہے دیکھئے قرائن الترجيح في المحفوظ والشاذ : ص 478 ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
دوسراقرینہ:(احفظ یعنی بڑے حافظ کی روایت)
زیادتی سے ثقہ کی قبولیت میں اس قرینہ سے بہت سارے محدثین نے استدلال کیا ہے چنانچہ:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)ایک جگہ یحیی بن سعید ہی کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں:
أَن يحيى بن سعيد أحفظ من سعيد بن عبيد وَأَرْفَع مِنْهُ شَأْنًا فِي طَرِيق الْعلم وأسبابه
یحیی بن سعید یہ سعیدبن عبیدسے بڑے حافظ ہیں اورعلم و روایت میں ان سے بڑے مقام و مرتبہ والے ہیں[التمييز لمسلم ص: 194]

اسی طرح أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے ایک جگہ سفیان ثوری ہی کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا:
وهو أشبه عندي؛ لأن الثوري أحفظهم
سفیان ثوری کی روایت ہی میرے نزدیک درست ہے کیونکہ سفیان ثوری دیگر لوگوں سے بڑے حافظ ہیں[علل الحديث لابن أبي حاتم 4/ 366]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) ایک جماعت کی روایت کے خلاف امام زہری کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں:
والقول قول الزهري ، لأنه أحفظ الجماعة.
صحیح روایت امام زہری ہی کی روایت ہے کیونکہ پوری جماعت میں سب سے بڑے حافظ ہیں[علل الدارقطني: 6/ 71]

عرض ہے کہ زیربحث حدیث کو یحیی بن سعید اورسفیان ثوری کے ساتھ جن لوگوں نے بھی روایت کیا ہے وہ سب کے سب امام یحیی بن سعد اور امام ثوری سے حفظ واتقان میں کم تر ہیں۔بلکہ بعض کی روایات ثابت ہی نہیں ہیں جیساکہ پہلا قرینہ کے ضمن میں تفصیل پیش کردی گئی ہے۔لہٰذا ان تمام روایات میں امام یحیی بن سعید اور سفیان ثوری رحمہماللہ ہی کی روایت راجح ہوگی ۔
امام یحیی بن معین کے ہم پلہ امام وکیع رحمہ اللہ کو کہاجاسکتاہے لیکن اس روایت میں امام وکیع سفیان سے روایت کررہے ہیں اور سفیان سے روایت کرنے میں امام وکیع نے کئی جگہ غلطیاں کی ہیں جیساکہ امام وکیع کی روایت پیش کرتے وقت امام احمد رحمہ اللہ کے حوالہ سے واضح کیا گیا دیکھئے: ص۔۔۔
لہٰذا سفیان سے روایت کرتے وقت امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی روایت امام وکیع سے راجح قرار پائے گی
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تیسرا قرینہ:(حافظ اور متقن کی روایت)

اگرزیادتی کو بیان کرنے والا حافظ اور متقن ہو تو زیادتی مقبول ہوگی بہت سارے محدثین نے اس قرینہ سے استدلال کرتے ہوئے زیادتی ثقہ کو مقبول قراردیاہے چنانچہ:

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
إذا زاد حافظ على حافظ قبل
جب ایک حافظ دوسرے حافظ کی بالمقابل کوئی زیادتی بیان کرے تو وہ مقبول ہوگی [علل الحديث لابن أبي حاتم 3/ 384]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
أو ما جاء بلفظة زائدة، فتقبل تلك الزيادة من متقن، ويحكم لأكثرهم حفظا وثبتا على من دونه
اگرکوئی راوی کسی لفظ کی زیادتی بیان کرے تو متقن کی طرف سے یہ زیادتی مقبول ہوتی اور راویوں میں جو زیادہ حفظ وضبط والا ہوگی اس کی روایت اس سے کمترحفظ وضبط والے کے بالمقابل مقبول ہوگی[النكت على ابن الصلاح 2/ 689 نقلا عن سؤالات السهمي]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463):
إنما تقبل الزيادة من الحافظ إذا ثبتت عنه وكان أحفظ وأتقن ممن قصر أو مثله في الحفظ
زیادتی اس وقت مقبول ہوتی جب اسے حافظ بیان کرے اور اس سے یہ ثابت ہو اور وہ ان لوگوں سے بڑا حافظ ومتقن ہو یا ان کے برابر ہو جن لوگوں نے زیادتی بیان نہیں کی ہے'[التمهيد لابن عبد البر: 3/ 306]

زيلعي حنفی رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
والصحيح التفصيل، وهو أنها تقبل في موضع دون موضع، فتقبل إذا كان الراوي الذي رواها ثقة حافظا ثبتا، والذي لم يذكرها مثله، أو دونه في الثقة، كما قبل الناس زيادة مالك بن أنس، قوله: من المسلمين في صدقة الفطر، واحتج بها أكثر العلماء،
زیادتی ثقہ کی قبولیت میں صحیح بات یہ ہے کہ اس میں تفصیل کی جائے اوربعض مقامات پر اسے قبول کیا جائے اور بعض مقامات پر قبول نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جب زیادتی کو روایت کرنے والا ثقہ ، حافظ اور ثبت ہو اور جو یہ زیادتی بیان نہ کرے وہ اس کے جیسا ہو یا اس سے کم تر ہو تو ایسی صورت میں زیادتی قبول کی جائے گی جیسے محدثین نے (صدقہ الفطر والی حدیث میں ) امام مالک کی زیادتی ’’من المسلمین‘‘ (مسلمانوں کی طرف سے صدقہ الفطر نکالاجائے) کو قبول کیا ہے اور اکثر اہل علم سے اس سے حجت پکڑی ہے[نصب الراية للزيلعي: 1/ 336]

عرض ہے کہ زیربحث حدیث میں زیادتی بیان کرنے والے امام یحیی بن سعید اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ صرف یہ کہ بہت بڑے حافظ ، متقن ، اور ثبت ہیں بلکہ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔ لہٰذا ان کی زیادتی بلاتامل قبول کی جائے گی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
چوتھا قرینہ:(زیادتی کا دیگر روایات کے منافی نہ ہونا)

زیادتی والی بات اگر دیگر روایت کے منافی نہ ہوتو مقبول ہوتی ہے ۔زیادتی ثقہ کی قبولیت میں اس قرینہ سے استدلال کرتے ہوئے:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ولا يخفى فساد هذه الدعوى فقتادة حافظ زيادته مقبولة لأن غيره لم يتعرض لنفيها فلم يتعارضا
اس دعوی کا فساد مخفی نہیں ہے کیونکہ قتادہ حافظ ہیں اوران کی زیادتی مقبول ہے کیونکہ دیگرلوگوں نے ان کی بیان کردہ بات کی نفی نہیں کی ہے اس لئے ان کی اور دوسروں کی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے[فتح الباري لابن حجر 12/ 200]

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
وليس في رواية مالك ومن تابعه ما ينفي الزيادة المذكورة فلا توصف والحالة هذه بالشذوذ
اورمالک اورجن لوگوں نے ان کی متابعت کی ہے ان کی روایات میں ایسی بات نہیں ہے جس سے مذکورہ زیاتی کا انکار لازم آتاہو ، لہٰذا جب یہ صورت حال ہے تو یہاں شذوذ کا حکم نہیں لگے گا[فتح الباري لابن حجر 2/ 6]


عرض ہے کہ زیربحث روایت کا بھی یہی حال کیونکہ امام یحیی بن سعید اورامام ثوری رحمھما اللہ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے اوران کے علاوہ دیگر لوگوں کی روایات میں سے کسی بھی روایت میں اس بات کا انکار نہیں ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top