کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
سی آئی اے: ایذا دہی کی بھیانک کہانی
کالم، زاہدہ حنا: اتوار 21 صفر 1436هـ - 14 دسمبر 2014م
اپنے ہی ہاتھوں اگر ہم غلطی سے ناخن گہرا تراش لیں تو بے ساختہ کراہ اٹھتے ہیں۔ ایک بوند لہو کی چھلک جائے تو ڈیٹول یا ٹنکچر آئیوڈین میں روئی کا پھایا بھگو کر اپنے زخم پر رکھتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں وہ لوگ کبھی یاد نہیں آتے جو دنیا کی مختلف جیلوں، عقوبت خانوں اور اذیت گاہوں میں صبح و شام بدترین اذیتوں سے گزرتے ہیں۔ ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ ان کے عفونت زدہ زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھتا اور ان بے بس اور بے کس انسانوں کو اذیت پہچانے والے تشدد اور ایذا رسانی کے نت نئے طریقے سوچتے ہیں اور اس کے عوض بھاری معاوضے پاتے ہیں۔
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں، جہاں ایذا دہی کا طاعون موجود نہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ سب کچھ کسی ایسے ملک میں ہو رہا ہو جس کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی اقدار کا سرخیل ہے۔ امریکا پر آج سے نہیں بہ طور خاص انیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی جنگ میں اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا۔ ایذا دہی کی یہ طولانی داستان فلپینی، کوریائی اور ویتنامی حریت پسندوں کے بدن پر لکھی گئی اور پھر اکیسویں صدی کے آغاز سے نائن الیون کی پاداش میں امریکی عقوبت گاہوں اور بہ طور خاص گوانتاناموبے میں بہت سے بے گناہ بدترین تشدد کا شکار ہوئے۔ اس بارے میں ہر طرف سے امریکی سراغ رساں ادارے سی آئی اے پر انگلیاں اٹھتی رہیں لیکن اس کے اعلیٰ عہدیدار ہمیشہ ان الزامات کی نفی کرتے رہے۔
چند دنوں پہلے صرف امریکا میں ہی نہیں پوری دنیا میں 600 صفحوں کی اس رپورٹ نے دھماکا کر دیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سی آئی اے کے عقوبت خانوں میں قیدیوں پر ہونے والے غیر انسانی تشدد کی کہانی سناتی ہے۔ اس رپورٹ نے امریکی انتظامیہ کو اپنی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے اور صدر اوباما نے واضح الفاظ میں یہ کہا کہ ایذا دہی کا یہ سلسلہ غیر سود مند ثابت ہوا ہے اور اس نے امریکا کی اخلاقی بنیادوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ صدر اوباما نے 2009ء میں واٹر بورڈنگ اور ایذا دہی کے کئی دوسرے طریقوں کو انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس صدارتی حکم کے باوجود یہ طریقے استعمال ہوتے رہے اور کیوں نہ ہوتے کہ سی آئی اے سے متعلق کچھ لوگوں نے بعض افراد اور اداروں کے لیے اسے روزگار اور کاروبار کا ذریعہ بنا دیا تھا ۔
انٹرویو لینے والے نے جب صدر اوباما کی توجہ اس طرف دلائی تو انھوں نے گہری ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹارچر رپورٹ میں تشدد کے جن طریقوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور جنھیں جان بوجھ کر مجھ سے پوشیدہ رکھا گیا، یہ صرف صد ر امریکا کو لاعلم رکھنے کی بات نہیں، یہ امریکی افواج کے سربراہ سے دروغ گوئی کا معاملہ بھی ہے کیونکہ میں نے یہ احکامات امریکی فوج کے کمانڈر انچیف کے طور پر دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس صورت حال میں سی آئی اے نے بہت سے اقدامات کسی سوچ بچار کے بغیر کیے۔ ایسے موقعوں پر جواب دہی کے جس نظام کو روبہ عمل لانا چاہیے، وہ نہ صرف یہ کہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ بہت سے اقدامات سود مند ثابت نہیں ہوئے۔
دنیا کو ان باضمیر امریکیوں کو کا شکرگزار ہونا چاہیے جنھوں نے تمام خطرات کے باوجود یہ رپورٹ مرتب کی اور ڈیموکریٹ سینیٹر مارک اوڈال کو داد دینی چاہیے جو انٹیلی جنس کمیٹی کے ایک رکن تھے اور ہمیشہ سے سی آئی اے کی غیر قانونی کارروائیوں کے ناقد رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ان کا موقف ہے کہ سی آئی اے کے جن اعلی عہدیداروں کے نام اس رپورٹ میں آئے ہیں ان سب کو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہیے۔
اس ٹارچر رپورٹ کے بارے میں امریکی انتظامیہ پر کڑی تنقید کرنے والے جسٹن ریمونڈو کی ایک تحریر چشم کشا ہے جو رپورٹ شائع ہونے کے فوراً بعد منظر عام پر آئی۔ ریمونڈو ایک ایسا سفید فام امریکی ہے جو آزاد خیال گروہ سے جڑا ہوا ہے اور جنگ کا شدید مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں عرصے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ امریکی صدر روز ویلٹ کی دروغ گوئی تھی جس نے امریکا کو دوسری جنگ عظیم کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اپنی کاٹ دار تحریروں کی وجہ سے وہ بہت سے روادار اور روشن خیال امریکیوں میں مقبول ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کپیٹل ہل میں نہایت ناپسندیدہ فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی آئی اے کی اس ٹارچر رپورٹ کے بارے میں اس نے لکھا کہ: ’امریکی حکومت سی آئی اے کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالتی ہے۔ لیکن سی آئی اے کے اندر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو سی آئی اے کی طرف سے اذیت رسانی کے منصوبے کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر اعتراض کرتے ہیں۔ بے گناہ اور بے بس قیدیوں کو اذیت دینے کا عمل، امریکی اشرافیہ کی ذہنی کجروی، ذہنی انتشار، لالچ اور دھوکے پر مشتمل رویوں کا عکاس ہے۔
سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے اپنے قائم کردہ اذیت دہی سینٹر مختلف اداروں کو تفویض کیے ہوئے تھے۔
2006ء میں ایک ایسی کمپنی جس کے ساتھ سی آئی اے نے معاہدہ کیا تھا، اسے 180 ملین ڈالر سے کہیں زیادہ رقم ادا کی گئی۔
2007ء میں سی آئی اے نے اس کمپنی اور اس کے ملازمین کو قانونی گرفت سے بچانے کے لیے استثنیٰ کی سند عطا کی۔ اس معاہدے کو برقرار رکھنے کی خاطر سی آئی اے اس وقت تک ایک ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے۔ اس ضمن میں دو ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو ماہرین نفسیات ہیں اور انھیں، سی آئی اے کے ایک ٹارچرسیل کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی کسی سے تفتیش کرنے کا تجربہ نہ تھا۔ انھیں القاعدہ کے متعلق بھی علم نہ تھا۔ بہرحال، اذیت رسانی کا جو منصوبہ سی آئی اے کی طرف سے شروع کیا گیا، یہ دونوں اس منصوبے سے منسلک تھے۔ یہ دونوں، امریکی فوجیوں کو اس امر کی تربیت دیتے تھے کہ اذیت کیسے دی جاتی ہے۔ انھوں نے اذیت رسانی کے مختلف طریقے ایجاد کیے جو قیدیوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔
یہ رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اپنے بجٹ اور اپنے بے پناہ اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے سی آئی اے کے افسران نے کس بڑے پیمانے پر دروغ گوئی سے کام لیا۔ زیر حراست افراد میں سے بیشتر بے گناہ تھے اور ان سے تفتیش کرنے والوں کو اپنے کام کی تربیت نہیں تھی۔ انھوں نے ان قیدیوں کو جنسی لذت کے لیے استعمال کیا اور کئی قیدی بے پناہ تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ وہ افسران جو ان قیدیوں کی ہلاکت کا سبب بنے، انھیں نہ حراست میں لیا گیا اور نہ ان کے خلاف کسی نوعیت کی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی۔ تفتیش کے کئی طریقے ایسے تھے جس کی محکمہ انصاف نے اجازت ہی نہیں دی تھی۔
وہ 119 لوگ جو زیر حراست رہے اور جن پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا گیا، ان کے بارے میں سی آئی اے کا کہنا تھا کہ ان میں سے صرف 5 لوگ ایسے تھے جنھیں حراست میں نہیں لینا چاہیے تھا جب کہ سینیٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان 119 لوگوں میں سے 26 قطعاً بے گناہ تھے۔ ان میں سے ایک ذہنی طور پر بیمار تھا۔ ایک ایسا بھی تھا جسے بعد میں رہا کر دیا گیا۔ اسے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ستم پر خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی اور اس کے لیے اسے بھاری رقم بھی ادا کی گئی۔
امریکی شہریوں پر سی آئی اے ٹارچر رپورٹ آہستہ آہستہ اثر کرے گی اور بے شمار افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ’حب وطن‘ کے نام پر انھیں کس طرح بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ انھیں دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کی آڑ میں کچھ جرائم پیشہ افسران نے بے گناہ افراد پر ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ یہ ٹارچر رپورٹ دنیا کی دوسری خفیہ ایجنسیوں کی ’کار گزاریوں‘ کے بارے میں بھی بہت سے سوال اٹھاتی ہے۔ شاید اکیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہم ایسے سماج کا خواب دیکھ سکیں جہاں ایذا دہی، تشدد اور ایذا رسانی کو ایبولا جیسی خوفناک بیماری خیال کیا جائے اور اس میں مبتلا افراد کو قرنطینہ میں رکھ کر ان کا علاج کیا جائے۔