• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سی آئی اے: ایذا دہی کی بھیانک کہانی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سی آئی اے: ایذا دہی کی بھیانک کہانی​

کالم، زاہدہ حنا: اتوار 21 صفر 1436هـ - 14 دسمبر 2014م

اپنے ہی ہاتھوں اگر ہم غلطی سے ناخن گہرا تراش لیں تو بے ساختہ کراہ اٹھتے ہیں۔ ایک بوند لہو کی چھلک جائے تو ڈیٹول یا ٹنکچر آئیوڈین میں روئی کا پھایا بھگو کر اپنے زخم پر رکھتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں وہ لوگ کبھی یاد نہیں آتے جو دنیا کی مختلف جیلوں، عقوبت خانوں اور اذیت گاہوں میں صبح و شام بدترین اذیتوں سے گزرتے ہیں۔ ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ ان کے عفونت زدہ زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھتا اور ان بے بس اور بے کس انسانوں کو اذیت پہچانے والے تشدد اور ایذا رسانی کے نت نئے طریقے سوچتے ہیں اور اس کے عوض بھاری معاوضے پاتے ہیں۔

دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں، جہاں ایذا دہی کا طاعون موجود نہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ سب کچھ کسی ایسے ملک میں ہو رہا ہو جس کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی اقدار کا سرخیل ہے۔ امریکا پر آج سے نہیں بہ طور خاص انیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی جنگ میں اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا۔ ایذا دہی کی یہ طولانی داستان فلپینی، کوریائی اور ویتنامی حریت پسندوں کے بدن پر لکھی گئی اور پھر اکیسویں صدی کے آغاز سے نائن الیون کی پاداش میں امریکی عقوبت گاہوں اور بہ طور خاص گوانتاناموبے میں بہت سے بے گناہ بدترین تشدد کا شکار ہوئے۔ اس بارے میں ہر طرف سے امریکی سراغ رساں ادارے سی آئی اے پر انگلیاں اٹھتی رہیں لیکن اس کے اعلیٰ عہدیدار ہمیشہ ان الزامات کی نفی کرتے رہے۔

چند دنوں پہلے صرف امریکا میں ہی نہیں پوری دنیا میں 600 صفحوں کی اس رپورٹ نے دھماکا کر دیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سی آئی اے کے عقوبت خانوں میں قیدیوں پر ہونے والے غیر انسانی تشدد کی کہانی سناتی ہے۔ اس رپورٹ نے امریکی انتظامیہ کو اپنی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے اور صدر اوباما نے واضح الفاظ میں یہ کہا کہ ایذا دہی کا یہ سلسلہ غیر سود مند ثابت ہوا ہے اور اس نے امریکا کی اخلاقی بنیادوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ صدر اوباما نے 2009ء میں واٹر بورڈنگ اور ایذا دہی کے کئی دوسرے طریقوں کو انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس صدارتی حکم کے باوجود یہ طریقے استعمال ہوتے رہے اور کیوں نہ ہوتے کہ سی آئی اے سے متعلق کچھ لوگوں نے بعض افراد اور اداروں کے لیے اسے روزگار اور کاروبار کا ذریعہ بنا دیا تھا ۔

انٹرویو لینے والے نے جب صدر اوباما کی توجہ اس طرف دلائی تو انھوں نے گہری ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹارچر رپورٹ میں تشدد کے جن طریقوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور جنھیں جان بوجھ کر مجھ سے پوشیدہ رکھا گیا، یہ صرف صد ر امریکا کو لاعلم رکھنے کی بات نہیں، یہ امریکی افواج کے سربراہ سے دروغ گوئی کا معاملہ بھی ہے کیونکہ میں نے یہ احکامات امریکی فوج کے کمانڈر انچیف کے طور پر دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس صورت حال میں سی آئی اے نے بہت سے اقدامات کسی سوچ بچار کے بغیر کیے۔ ایسے موقعوں پر جواب دہی کے جس نظام کو روبہ عمل لانا چاہیے، وہ نہ صرف یہ کہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ بہت سے اقدامات سود مند ثابت نہیں ہوئے۔

دنیا کو ان باضمیر امریکیوں کو کا شکرگزار ہونا چاہیے جنھوں نے تمام خطرات کے باوجود یہ رپورٹ مرتب کی اور ڈیموکریٹ سینیٹر مارک اوڈال کو داد دینی چاہیے جو انٹیلی جنس کمیٹی کے ایک رکن تھے اور ہمیشہ سے سی آئی اے کی غیر قانونی کارروائیوں کے ناقد رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ان کا موقف ہے کہ سی آئی اے کے جن اعلی عہدیداروں کے نام اس رپورٹ میں آئے ہیں ان سب کو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہیے۔

اس ٹارچر رپورٹ کے بارے میں امریکی انتظامیہ پر کڑی تنقید کرنے والے جسٹن ریمونڈو کی ایک تحریر چشم کشا ہے جو رپورٹ شائع ہونے کے فوراً بعد منظر عام پر آئی۔ ریمونڈو ایک ایسا سفید فام امریکی ہے جو آزاد خیال گروہ سے جڑا ہوا ہے اور جنگ کا شدید مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں عرصے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ امریکی صدر روز ویلٹ کی دروغ گوئی تھی جس نے امریکا کو دوسری جنگ عظیم کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اپنی کاٹ دار تحریروں کی وجہ سے وہ بہت سے روادار اور روشن خیال امریکیوں میں مقبول ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کپیٹل ہل میں نہایت ناپسندیدہ فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی آئی اے کی اس ٹارچر رپورٹ کے بارے میں اس نے لکھا کہ: ’امریکی حکومت سی آئی اے کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالتی ہے۔ لیکن سی آئی اے کے اندر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو سی آئی اے کی طرف سے اذیت رسانی کے منصوبے کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر اعتراض کرتے ہیں۔ بے گناہ اور بے بس قیدیوں کو اذیت دینے کا عمل، امریکی اشرافیہ کی ذہنی کجروی، ذہنی انتشار، لالچ اور دھوکے پر مشتمل رویوں کا عکاس ہے۔

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے اپنے قائم کردہ اذیت دہی سینٹر مختلف اداروں کو تفویض کیے ہوئے تھے۔

2006ء میں ایک ایسی کمپنی جس کے ساتھ سی آئی اے نے معاہدہ کیا تھا، اسے 180 ملین ڈالر سے کہیں زیادہ رقم ادا کی گئی۔

2007ء میں سی آئی اے نے اس کمپنی اور اس کے ملازمین کو قانونی گرفت سے بچانے کے لیے استثنیٰ کی سند عطا کی۔ اس معاہدے کو برقرار رکھنے کی خاطر سی آئی اے اس وقت تک ایک ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے۔ اس ضمن میں دو ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو ماہرین نفسیات ہیں اور انھیں، سی آئی اے کے ایک ٹارچرسیل کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی کسی سے تفتیش کرنے کا تجربہ نہ تھا۔ انھیں القاعدہ کے متعلق بھی علم نہ تھا۔ بہرحال، اذیت رسانی کا جو منصوبہ سی آئی اے کی طرف سے شروع کیا گیا، یہ دونوں اس منصوبے سے منسلک تھے۔ یہ دونوں، امریکی فوجیوں کو اس امر کی تربیت دیتے تھے کہ اذیت کیسے دی جاتی ہے۔ انھوں نے اذیت رسانی کے مختلف طریقے ایجاد کیے جو قیدیوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔

یہ رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اپنے بجٹ اور اپنے بے پناہ اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے سی آئی اے کے افسران نے کس بڑے پیمانے پر دروغ گوئی سے کام لیا۔ زیر حراست افراد میں سے بیشتر بے گناہ تھے اور ان سے تفتیش کرنے والوں کو اپنے کام کی تربیت نہیں تھی۔ انھوں نے ان قیدیوں کو جنسی لذت کے لیے استعمال کیا اور کئی قیدی بے پناہ تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ وہ افسران جو ان قیدیوں کی ہلاکت کا سبب بنے، انھیں نہ حراست میں لیا گیا اور نہ ان کے خلاف کسی نوعیت کی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی۔ تفتیش کے کئی طریقے ایسے تھے جس کی محکمہ انصاف نے اجازت ہی نہیں دی تھی۔

وہ 119 لوگ جو زیر حراست رہے اور جن پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا گیا، ان کے بارے میں سی آئی اے کا کہنا تھا کہ ان میں سے صرف 5 لوگ ایسے تھے جنھیں حراست میں نہیں لینا چاہیے تھا جب کہ سینیٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان 119 لوگوں میں سے 26 قطعاً بے گناہ تھے۔ ان میں سے ایک ذہنی طور پر بیمار تھا۔ ایک ایسا بھی تھا جسے بعد میں رہا کر دیا گیا۔ اسے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ستم پر خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی اور اس کے لیے اسے بھاری رقم بھی ادا کی گئی۔

امریکی شہریوں پر سی آئی اے ٹارچر رپورٹ آہستہ آہستہ اثر کرے گی اور بے شمار افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ’حب وطن‘ کے نام پر انھیں کس طرح بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ انھیں دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کی آڑ میں کچھ جرائم پیشہ افسران نے بے گناہ افراد پر ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ یہ ٹارچر رپورٹ دنیا کی دوسری خفیہ ایجنسیوں کی ’کار گزاریوں‘ کے بارے میں بھی بہت سے سوال اٹھاتی ہے۔ شاید اکیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہم ایسے سماج کا خواب دیکھ سکیں جہاں ایذا دہی، تشدد اور ایذا رسانی کو ایبولا جیسی خوفناک بیماری خیال کیا جائے اور اس میں مبتلا افراد کو قرنطینہ میں رکھ کر ان کا علاج کیا جائے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
یہ کچھ معلومات جنرل نالج کے لئے

پُراَسرار اَموات

امریکی تحقیقاتی صحافی جیرالڈ پوزنر کی ایک کتاب "Why America Slept" کے کچھ مندرجات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے ستمبر 11 کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ان کے مطابق اس واقعے کی ذمہ داری ناقص انٹیلی جنس پر عائد ہوتی ہے۔

اس کتاب کے خلاصہ میں جس چیز نے مجھے چونکایا وہ القاعدہ کے ایک
ذمہ دار ”ابو زبیدہ“ کی گرفتاری اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات تھی۔


کہا جاتا ہے کہ ابو زبیدہ نامی شخص جو کہ ایک سعودی باشندہ تھا کو پاکستان کے علاقے فیصل آباد سے مارچ سن 2002 میں گرفتار کیا گیا۔ یہ ابھی "گوانتاناموبے" کی جیل میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

ابو زبیدہ سے معلومات کا حصول سی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص القاعدہ کی اعلیٰ قیادت اور آپریشنل ٹیم کے درمیان رابطہ کار کا فریضہ انجام دیتا تھا۔

معلومات کے حصول کے لیئے اسے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کہا جاتا ہے کہ تقریبا 82 دفعہ واٹر بورڈنگ کے عمل سے گذارا گیا۔ جب سی آئی اے اس سے معلومات حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تو ایک اور طریقہ آزمایا گیا جسے فالس فلیگ کہا گیا۔ اسے ایک ایسے ماحول میں رکھا گیا جو سعودی طرز کا تھا اور سی آئی اے کے عربی افسران نے سعودی بن کر اس سے باز پرس کی اور اسے انتہائی سخت سعودی تشدد کی دھمکی دی۔

خوفزدہ ہونے کے بجائے ابوزبیدہ بہت خوش ہوا اور اس نے ایک سعودی نمبر اپنے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ اس پر بات کرنا چاہتا ہے۔ یہ نمبر سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد کا تھا اور وہ اس کی رہائی کے احکامات جاری کر دے گا۔

یہ نمبر شہزادہ احمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا تھا۔

اس کے علاوہ تین اور سعودی شہزادوں کے نام بھی اس نے لیئے

جن میں شہزادہ سلطان بن فیصل بن ترکی،

شہزادہ فہد بن ترکی بن سعود الکبیر
اور شہزادہ ترکی جو کہ سعودی انٹیلیجنس چیف تھے۔

چونکا دینے والے ناموں میں
ایک نام ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کا بھی تھا۔

کہا جاتا ہے کہ 1996 میں ابوزبیدہ نے مصحف علی میر کے ذریعے آئی ایس آئی کو القاعدہ کو ہتھیاروں کی فراہمی اور اسامہ کے تحفظ کی بات کی تھی۔

سی آئی اے کے تحقیق کاروں کی امیدوں کے برعکس یہ نمبر بالکل درست ثابت ہوا اور اس طرح انہیں سعودی- پاکستانی اور القاعدہ کے مثلث کا ایک بڑا سراغ مل گیا۔

ابوزبیدہ کے مطابق اسامہ بن لادن نے اسے خود بتایا کہ شہزادہ ترکی اور اسامہ کا یہ معاہدہ 1991 میں طے ہوا تھا کہ اسامہ سعودیہ چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے تو اسے سعودی حکومت خاموشی سے امداد فراہم کرتی رہے گی شرط صرف یہ ہو گی کہ وہ سعودی عرب میں اپنے جہادی ایجنڈے کو فروغ نہیں دے گا۔

1998 میں قندھار میں شہزادہ ترکی، پاکستانی آئی ایس آئی ، طالبان اور اسامہ کے درمیان ایک ملاقات میں یہ بات پھر طے پائی گئی کہ سعودی امداد طالبان کو ملتی رہے گی اور اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ بھی نہی کیا جائے گا جب تک اسامہ اور طالبان اس جہادی ایجنڈے کو سعودی عرب سے دور رکھتے ہیں۔

چونکا دینے والے حصے میں مصنف کہتا ہے کہ

X جولائی 2002 کو شہزادہ احمد دل کا دورہ کے باّعث انتقال کر گئے ان کی عمر صرف 43 سال تھی۔

X دوسرے ہی دن شہزادہ سلطان بن فیصل بن ترکی تیز رفتار کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

X ایک ہفتے ہی بعد شہزادہ فہد بن ترکی بن سعود الکبیر ریاض کے قریب ایک ریگستان میں سفر کرتے ہوئے پیاس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔

X سات مہینے بعد فروری 2003 ائیرچیف مصحف علی میر ایک ناگہانی فضائی حادثہ میں اپنی بیوی اور دوسرے ہائی کمان افسران کے ہمراہ شہید ہو گئے۔

اس تمام لسٹ میں صرف شہزادہ ترکی الفیصل زندہ بچے کیونکہ مصنف کے بقول وہ اتنا کچھہ جانتے تھے کہ انہیں مارنا سعودیوں کے لیئے خطرناک تھا۔ انٹیلیجنس سے ہٹا کر انہیں برطانیہ میں سعودی سفیر کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیا، ساتھ ہی انہیں کسی بھی مجرمانہ پراسیکیوشن سے خصوصی سفارتی استشناّ دیا گیا ہے۔

ان تمام اموات کی وجوہات کو نہ تو سعودی حکومت اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے جانچنے کی کوشش کی۔ مصحف علی میر کے فضائی حادثے میں موسم اور پائلٹ کو قصور وار قرار دے دیا گیا۔

اسی سلسلے میں نیشنل جیوگرافی کی ایک ڈاکومینٹری بھی دیکھی جو کہ ان مندرجات سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

ویڈیو کلپس

خدا ہی جانے کیا سچ ہے اور کیا فکشن ۔۔۔۔
یہ کچھ حقائق میرے لیے خاصے چونکا دینے والے تھے ۔

محمد طاہر
١٨ /٠١/ ٢٠١٢
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آج تو آپ بڑے دھماکہ خیز قسم کے راز افشا کر رہے ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اگر یہ باتیں درست ہیں تو اس کا مطلب ہے سعودیہ اور پاکستان کی انٹیلی جنس کا موقف وہ نہیں جو بعض جہادی سمجھتے ہیں ۔
 

بیبرس

رکن
شمولیت
جون 24، 2014
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
43
گوانتانامو میں قید سمیر کی اپنے اوپر ڈھائے جانے والے سی آئی اے مظالم کی ہولناک داستان

کیوبا: سی آئی اے کی ظالمانہ ،انسانیت سوزاور دل دہلا دینے والی داستان کے راز تو امریکی سینیٹ نے افشا کردیئے ہیں لیکن امریکی خفیہ ایجنسی کے اس ظلم کا شکار قیدی کی زبان سے ان دہشت ناک سزاؤں کا ذکر سنا جائے تو سی آئی اے کے انتقام کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔
یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کو اسامہ بن لادن سے تعلق کے شبے میں گرفتار کرکے گوانتاناموبے میں لایا گیا جس نے اس بدنام زمانہ جیل میں 13 اذیت ناک سال گزارے اور پھر انہیں 2009 میں تمام الزامات سے بری کردیا گیا لیکن پھر بھی جیل میں ہی رکھاگیا، گزشتہ روزاس سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ریپرائیو کے وکلا نے ملاقات کی اوراس ملاقات میں سمیر نے سی آئی اے کی اذیت ناک سزاؤں کے راز سے پردہ اٹھایا۔
سمیر نے کہا کہ سنا ہے امریکی سینیٹ میں سی آئی اے کی ظالمانہ سزاؤں پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی ہے لیکن میری کہانی امریکا سے دور بہت دور گوانتاناموبے جیل سے تعلق رکھتی ہے، سی آئی اے کی کارکردگی پر سینیٹ کی رپورٹ اس ظلم کے رازوں سے پردہ اٹھنے کا آغاز ہے جو امریکی اپنے نام سے کرتے رہے ہیں، یہ اس چھوٹی اور سرد جیل کی خاموشی کے خاتمے کا آغاز ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو ہر لمحے یہ خوف رہتا ہے کہ اگلے لمحے آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہاں کوئی مددگار نہیں اور آپ کویہ بھی پتہ ہے کہ تمام دوست، خاندان اورزندگی آپ سے دور بہت دور ہے۔
یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کا کہنا تھا کہ پہلے 3 ماہ میں ہر روز 3 تفتیشی ٹیمیں میرے سیل میں داخل ہوتیں، ہر سیشن میں وہ آتے مجھ پر چیختے، میرے چہرے پراورکمر پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردیتے اور مکمل طور پر سونے سے محروم کردیا جاتا پھر ایک شخص میرے بازو میں انجیکشن لگاتا پھر مجھے ہوش نہیں رہتا، پھر کچھ دیربعد سیل کا دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا اور مجھ پر جنگلی جانوروں جیسی آوازیں نکالتا اور چلا جاتا۔ اگر میں کھانے سے انکارکردیتا تو کھانا میرے سر پر ماردیا جاتا پھر ایک شخص کو حکم دیا جاتا کہ وہ میرے جسم میں کھانا داخل کرے، وہ شخص میرے بازو پر دو مختلف جگہوں سے دوٹیوب داخل کرتا جس کے بعد بازو سے خون بہنا شروع ہوجاتا۔پھر دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا مجھے فرش پر دھکا دے کر کمر پر چڑھ کر کودنا شروع کردیتا۔
سمیر نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیشاب کے لیے واش روم جانے کی اجازت نہ تھی اورجب پیشاب کی شدت سے تکلیف بڑھ جاتی تو تفتیش کار قہقہےمار کر ہنستے اور ترجمان کے ذریعے کہتے کہ اسے بتادو اگر پینٹ میں پیشاب کیا تو اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ پھر مجھے ایک سینما نما ہال میں لے جایا جاتا اور دوسروں قیدیوں پر تشدد کی ویڈیوز دکھائی جاتی اور کہا جاتا کہ ہمارے لیے رقص کرو پھر میری ہتھکڑیوں کو کھینچتے اور حکم دیتے کہ دائرے میں گھومو اور جب میں انکار کردیتا تو میرے جسم کے مخصوص اعضا کو چھیڑتے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارش کے دوران سیل سے باہر لا کر کیچڑ میں چلنے پر مجبورکیا جاتا انکار کرنے پر زمین پر رگڑا جاتا، میری قید کے سب سے درد ناک لحات فحاشی کا کمرہ تھا جہاں ہر طرف عریاں تصاویر لگائی گئی تھیں یہاں میری داڑھی صاف کر کے عریاں حالت میں لایا جاتا اور ننگی عورتوں کی تصاویر دکھا کر میرے مذہب کا مذاق اڑایا جاتا اور مجھے جانوروں کی آوازیں نکالنے پر مجبور کیا جاتا جب کہ انکار کرنے پرمارا جاتا اور آخر میں انتہائی ٹھنڈا پانی پورے جسم پر پھینک دیا جاتا۔ اس خوفناک تشدد کے بعد جب انہیں یقین ہوگیا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تو 6 ماہ قبل 4 امریکی سیکورٹی ایجنسیز نے میرے کیس کا ایک بارپھر جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مجھے رہا کردیا جائے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بغیر کسی الزام کے براہ راست اس جیل میں لانا ظلم اور جیل ہر لہرانے والے امریکی پرچم کےلیے شرمناک بھی ہے۔
سمیر ناجی نے آخر میں کہا کہ مجھ جیسے 136 قیدی اب بھی گوانتاناموبے جیل میں ہولناک سزائیں بھگت رہے ہیں، امریکا اپنے ماضی اور حال کو چھپا نہیں سکتا ہماری کہانیاں اور مسلسل قیدوبند کودنیا نظر انداز نہیں کر سکتی۔
 
Top