• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاہ اسماعيل شہيد

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
انقلاب پيدا کرنے والي شخصيتيں يا تو سپاہيانہ اوصاف کي مالک ہوتي ہيں اور تلوار کے زور سے قوموں کي تقديريں بدلتي ہيں، يا پھر ان کي زبان ميں اتنا اثر اور جادو ہوتا ہے کہ قوم کے دل و دماغ ميں تغير پيدا ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کي مسلم سوسائٹي اسي عالمگير قانون سے مستثنيٰ نہيں ہے۔ ليکن مسلم انقلابي شخصيتوں اور مصلحين کو ہميشہ دل و دماغ کي ان دونوں خوبيوں سے آراستہ ہونے کا امتياز حاصل رہا ہے۔ ان کے ايک ہاتھ ميں جادو اثر قلم اور دوسرے ہاتھ ميں امن عالم کي بقا کے لئے تيغ براں رہي ہے۔ ميدان جنگ ميں تو وہ سپاہيانہ جوہر دکھاتے تھے۔ ليکن اخلاقيات کے ميدان ميں بہت بڑے مصلح کي حيثيت سے جلوہ گر ہوتے تھے۔

ہندوستان کي مسلم انقلابي شخصيتوں ميں حضرت شاہ اسماعيل شہيد رحمہ اللہ کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے ايک ايسي تحريک کي بنياد رکھي جس کا مقصد اسلام کي سربلندي تھي۔ نيز وہ تمام ذرائع کليہ اسلامي تھے جو اس انقلاب کو پيدا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ ان کا مقصد ہندوستان ميں مسلمانوں کي حکومت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو اس سرزمين ميں خدا کي حکومت کا قيام چاہتے تھے جو عدل و انصاف، حق و صداقت اور خدا دوستي کي مضبوط بنيادوں پر کھڑي ہو۔ وہ انسانيت کو پستي سے نکال کر بلندي کي طرف لے جانا چاہتے تھے۔ سوال يہ نہيں کہ وہ اپنے ان مقاصد ميں کس حد تک کامياب ہوئے بلکہ ہميں ديکھنا يہ ہے کہ آيا ہندوستان کي تاريخ ميں مسلم انقلابي شخصيتوں ميں کوئي اور شخصيت ايسي نظر آتي ہے، جس نے اس بہادري اور بے جگري سے ايسے بلند نصب العين کے حصول کے لئے اپني جان تک کي قرباني پيش کي ہو۔

پيدائش اور تعليم:

آپ1193 ھ ميں پيدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ عبدالغني رحمہ اللہ تھے جو حضرت شاہ ولي اللہ دہلوي رحمہ اللہ کے صاحبزادے تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزيز رحمہ اللہ آپ کے چچا تھے۔ آپ کے والد بزرگوار صوفي منش ہونے کے علاوہ اسلامي علوم کے بہت بڑے ماہر اور دينيات کے استاد تھے۔ شاہ اسماعيل رحمہ اللہ نے اپني ابتدائي تعليم اپنے والد سے حاصل کي۔ ليکن ان کي وفات کے بعد آپ کي تعليم و تربيت آپ کے چچا عبدالعزيز کے سپرد ہوئي۔ استاد اپنے شاگرد کي ذہانت اور فطانت سے بہت خوش تھے۔ نتيجہ يہ ہوا کہ آپ نے نہ صرف اسلامي علوم و فنون کي تعليم حاصل کي، بلکہ علوم مروجہ ميں بھي کمال پيدا کر ليا۔ آپ کے تمام سيرت نگار اس بات ميں متفق الرائے ہيں کہ جغفرافيہ سے اتنا شغف تھا کہ کئي کئي گھنٹے ہندوستان کے نقشے کا مطالعہ کرتے رہتے۔

خدا نے آپ کو زبان اور قلم کي تمام خوبيوں سے سرفراز کيا تھا۔ آپ انتہائي طور پر سخت مزاج اور پتھر دل انسان کو بھي قائل کر ليتے۔ اسلامي عظمت و سربلندي کيلئے جو نور آپ کے سينے ميں روشن تھا، وہ دوسروں کے دلوں ميں بھي حرارت اور گرمي پيدا کرتا۔ چونکہ آپ نے ايک بہت بڑي انقلابي تحريک کي قيادت سرانجام ديني تھي، اس لئے آپ محض علمي سرگرميوں سے مطمئن تھے۔

آپ صحيح معنوں ميں باعمل بننا چاہتے تھے، اس لئے آپ ہر قسم کي فوجي ورزش کرتے۔ آپ نہايت عمدہ شاہسوار اور بہترين تير انداز تھے۔ نيزہ بازي ميں کمال حاصل تھا اور کشتي لڑنے ميں بھي بند نہ تھے۔ آپ بلا کے تيراک تھے۔ جمنا ميں دہلي سے آگرہ تک تيرتے ہوئے جاتے اور پھر تيرتے ہوئے واپس آتے۔ تکاليف اور مصائب سے محبت کا يہ عالم تھا کہ گرميوں ميں جامع مسجد کے تپتے ہوئے صحن ميں گھنٹوں ننگے پاؤں چلتے رہتے۔ آپ کئي کئي دن تک بھوک پياس کي کوفت سہتے تا کہ آپ ميں قوت برداشت پيدا ہو۔

اسلامي جھنڈے کي سربلندي آپ کي علمي اور فوجي سرگرميوں کا مرکز تھي۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو اس ذلت و نکبت سے نکالا جائے جو افلاس، جہالت اور سياسي اقتدار کے خاتمہ کا باعث پيدا ہو گئي تھي۔ جب آپ نے اسلام کے ہندي مريض کي نبض پر ہاتھ رکھا تو معلوم ہوا کہ يہ قوم جہالت، افلاس، بے بسي اور بے چارگي کے خوفناک مرض ميں مبتلا ہے۔ سياسي اقتدار کے خاتمہ نے ان کي روح کو کچل ديا ہے۔ ان ميں زندگي کي حرارت ختم ہو چکي ہے۔ آپ نے وحدت خيال اور وحدت عمل پيدا کرنے کے لئے اخلاقي اصلاح کا کام ہاتھ ميں ليا۔ کيونکہ آپ کو يقين تھا کہ اخلاقي جرات دنيا ميں حيرت انگيز کارنامے سرانجام دينے کي قوت رکھتي ہے، اور دل و دماغ کي غير تربيت يافتہ اور غير منظم صلاحيتوں کو برانگيختہ کيا جائے تو کاميابي حاصل ہو جاتي ہے۔ ليکن وہ ديرپا نہيں ہوتي۔ اس چيز کے پيش نظر آپ نے جگہ جگہ تقريروں کا جال پھيلا ديا۔ لوگوں کو خدا اور رسول کي طرف بلاتے۔ ان کو غير اسلامي اور مشرکانہ رسوم و اوہام سے منع کرتے۔

ليکن صديوں کي عادتيں دنوں ميں نہيں مٹ سکتيں۔ لوگوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے اور آپ کو ہر قسم کي تکليف ميں مبتلا کيا۔ ليکن اس مصلح صادق نے يہ تمام چيزيں خندہ پيشاني کے ساتھ برداشت کيں۔ کوئي سختي اور تکليف انہيں اپنے بلند مقصد سے نہ ہٹا سکي۔ آخر کار ان کي کوششيں بار آور ہوئيں اور مسلمان خواب غفلت سے بيدار ہوئے۔ انہيں اپني کمزوريوں کي اصلاح کا خيال پيدا ہوا۔ حضرت شہيد کي دعوت و ارشاد پر سينکڑوں بيوگان نے دوبارہ نکاح کر کے خدائي احکام کي اطاعت کي اوہام پرستي ختم ہو گئي۔ قحبہ خانے اور قمار خانے بند ہو گئے۔ لوگوں کي طبيعتوں ميں انقلاب پيدا ہوا۔ اور انہوں نے خدا اور رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف رجوع کرنا شروع کيا۔

اسي اثنا ميں شاہ اسماعيل رحمہ اللہ نے حضرت مولانا سيد احمد بريلوي کي بيعت کي۔ آپ وقت کے امام اور مجدد مانے جاتے تھے۔ شاہ اسماعيل شہيد رحمہ اللہ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کيا اور روحانيت کے مختلف مدارج طے کئے۔ آخر کار آپ اپنے روحاني پيشوا کے ساتھ پنجاب تشريف لائے، اور مہاراجہ رنجيت سنگھ کے خلاف جہاد کا اعلان کر ديا۔ ان کا مقصد سکھوں کو غلام بنانا نہيں تھا، بلکہ وہ خدا کي حکومت قائم کر کے ظلم اور استبداد کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ حضرت شاہ اسمٰعيل شہيد نے يہ عقيدہ اپنے دادا بزرگوار اور عم محترم سے حاصل کيا جنہوں نے آخري مغل بادشاہ کي موجودگي ميں ہي ہندوستان کو دارالحرب قرار دے ديا تھا۔ ميرا يقين محکم ہے کہ شاہ اسمٰعيل شہيد اور ان کي جماعت خدا کي حکومت قائم کر کے امن، انصاف اور سچائي کي حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔

اس ضمن ميں يہ اعتراض کيا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپني انقلابي سرگرميوں کے لئے پنجاب کو کيوں منتخب کيا؟ اس کي وجہ يہ ہے کہ پنجاب کو سر کرنے کے بعد صوبہ سرحد کو فتح کيا جا سکتا تھا، اور اس طرح اسلامي صوبوں کي تبليغ بلا کسي رکاوٹ کے ہو سکتي تھي۔ دوسرے پنجاب ميں سکھوں کے مظالم کے باعث بہت بے چيني پھيلي ہوئي تھي۔ مسلمانوں کي مذہبي روايات خطرے ميں تھيں۔ شاہ شہيد اور ان کي جماعت اس بارود ميں چنگاري پھينکنے کا انتظار کر رہي تھي۔ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا، اور رنجيت سنگھ کے خلاف جہاد کا اعلان کر ديا۔

ميدان جنگ ميں حضرت شاہ شہيد کي بہادري اور دليري و استقامت نے حضرت خالد بن وليد، حيدر کرار اور طارق بن زياد کي ياد تازہ کر دي۔ ابتدا ميں بہت سے مقامات فتح ہوئے ليکن قدرت کو مسلمانوں کي بدبختي کا خاتمہ منظور نہ تھا۔ ان کي قسمت ميں مصائب تکاليف کے امتحانات ابھي باقي تھے۔ چنانچہ اس اسلامي تحريک کا بھي وہي حشر ہوا جو ميسور ميں ٹيپو سلطان اور بنگال ميں سراج الدولہ کا ہوا تھا۔ دوسري تحريکوں کي طرح اس تحريک کي ناکامي کے اسباب ميں بھي مسلمانوں کي غداري کا ہاتھ نماياں تھا۔

فتح و شکست تو نصيب کي بات ہے اور يہ خدا کو معلوم ہے کہ اس شکست ميں کونسي مصلحت پوشيدہ تھي۔ ليکن اگر شاہ شہيد کي شاندار کوششوں پر نظر ڈالي جائے تو آپ سے بڑا ہيرو دکھائي نہ دے گا۔ ايک طرف وہ غير اسلامي رسوم و عقائد کے خلاف قلمي اور لساني جہاد ميں مصروف تھے۔ اور دوسري طرف ميدان جنگ ميں تلوار لئے گھوڑے پر سوار۔ ايسي پاکيزہ صفات کا ذات واحد ميں مجتمع ہونا بہت نادر چيز ہے۔

شاہ شہيد کو شہرت اور دولت سے محبت نہ تھي۔ وہ حقيقي خدائي خدمت گار تھے۔ وہ خدا کے جھنڈے کو بلند کرنا چاہتے تھے۔ رضائے ايزدي کي اطاعت اس درجہ موجود تھي کہ معرکہ کارزار ميں جب آپ کا سر جسد مبارک سے عليحدہ ہوا تو خون کا ہر قطرہ زبان حال سے پکار رہا تھا:
جان دي دي ہوئي اس کي تھي

حق تو يہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

مقالہ نگار: سعيد احمد اکبر آبادي
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیراً ناصر بھائی۔
 
Top