• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی سیاست کے بارہ میں عصر حاضر کے چند مسائل -۲

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
شرعی سیاست کے بارہ میں عصر حاضر کے چند مسائل -۲
٣۔سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد(Alliance) اور تنسیق(Coordination)
اتحاد (تحالف) کا مطلب ہے طرفین میں کچھ ایسے امور پر اتفاق ہونا جن کی بابت دونوں ایک دوسرے کی نصرت اور پشت پناہی کریں۔ رہی تنسیق تو جیسا کہ لسان العرب (١٢/٢٣٠)میں آیا ہے ۔ ہر چیز میں نسق کا مطلب ہے اشیاءمیں کسی امر کا ایک ہی نظام اور قانون پر ہونا۔ تنسیق کا مطلب ہے تنظیم کرنا، جو کہ اتحاد(تحالف) سے زیادہ قوی لفظ ہے۔ اب یہ تنسیق جو ہوگی جمہوریت کی نصرت کےلئے ، تعدد افکار و احزاب کےلئے، اپنی اور دوسرے کی رائے کےلئے اور پر امن طور پر اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ باری لینے کےلئے۔ جیسا کہ متعدد ملکوں میں اسلامی جماعتیں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتے کرتی رہی ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال یمن میں یمنی اتحاد برائے اصلاح نامی جماعت کا عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے۔ تو یہ اتحاداور یہ تنسیق اسلام میں حرام ہے۔ کیونکہ یہ ا ثم اور عدوان پر تعاون ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ٢)
ترجمہ: اور (دیکھو) آپس میں مددکیا کرو نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں، اور نہ مددکیا کرو گناہ اور ظلم کے کاموں میں۔
وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ (ھود١١٣)
ترجمہ:
اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا ، نہیں تو تمہیں(دوزخ کی) آگ آلپٹے گی۔
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ (آل عمران١١٨)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے علاوہ کسی اور (مذہب کے آدمی) کو اپنا ولی(رازدان، دوست) نہ بنائو یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔ اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو)تمہیں تکلیف پہنچے انکے مونہوں سے تو یقینا دشمنی ظاہر ہوچکی ہے، اور جو (کینے) ان کے سینوں میں محفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کر سناد ی ہیں۔
مزید برآں یہ کہ اس تنسیق او ر اس اتحاد کے لوازم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ایک دوسرے سے اظہار قربت و مودت کریں، جبکہ یہ امر اسلامی عقیدہ ولا ءوبراءمیں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ ولاء(اللہ کے دوستوں سے دوستی) اور براء(اللہ کے دشمنوں سے برات) تو ایمان کی زنجیر کے مضبوط ترین جوڑ ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔ رسول اللہ فرماتے ہیں :”المرءمع من احب“( متفق علیہ) آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرے۔
غیر اسلامی قوتوں سے اتحاد و تنسیق کرنے والے بعض دلائل سے استدلال بھی کرتے ہیں جبکہ یہ دلائل ان کا دعوی ثابت نہیں کرتے۔
ان حضرات کی ایک دلیل تویہ ہے کہ-:
(١) ُپہلی دلیل :رسول اللہ کا یہود کا حلیف ہونا

اس کا جوا ب متعدد پہلوئوں سے ہے
١۔ سند کے لحاظ سے یہ ثابت ہی نہیں کیونکہ یہ روایت معضل ہے
٢۔ اس وثیقہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تب بھی اس کی شقیں موجود ہ سیاسی اتحاد کے مضمون سے مماثلت نہیں رکھتیں۔
٣۔ اسلامی شریعت میں یہود کا حکم ان لوگوں کے حکم سے مختلف ہے جو اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
٤۔ ان لوگوں سے اتحاد کےلئے اضطرار بھی درپیش نہیں کیونکہ شرعی معنی میں اضطرار کی صورتحال واقع نہیں ہوتی اور شرط اضطرار مفقود ہے۔
٥۔ اگر ایسا اتحاد رسول اللہ سے صحیح ثابت ہو تو بھی (بعد میں نازل ہونے والے) جزیہ کے احکام کی رو سے منسوخ ہوگا۔
٦۔ رسول اللہ اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جبکہ دعوت الی اللہ کے مرحلہ میں کسی جماعت یا کسی پارٹی کو یہ حق نہیں کہ وہ خود کوریاست اسلامی کا قائم مقام ٹھہرالے۔
٧۔ یہود ریاست اسلامی کی رعایا کا حصہ تھے۔ یہ کسی ہمسر کا اپنے ہمسر سے اتحاد نہ تھا۔
(٢)دوسری دلیل :ان کی دوسری دلیل ہے بنو خزاعہ کا رسول اللہ کا حلیف ہونا
جواب:
١۔ صحیح یہ ہے کہ بنو خزاعہ مسلمان تھے جیسا کہ بنو خزاعہ کا یہ قول آتا ہے ثم اسلمنا فلم ننزع یداوقتلو نا رکعا
و سجدا۔ پھر ہم مسلمان ہوئے ہم اس سے دشت کش نہ ہوئے ۔ ان لوگوں نے ہمیں رکوع اورسجدہ میں پڑے ہوئوں کو قتل کیا۔
٢۔ ان (خزاعہ) کو مشرک فرض کر لیا جائے۔ تب بھی ایک اصلی کافر کا حکم ان لوگوں سے مختلف ہوگا جو
اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کریں۔
٣۔ اس وقت جو اتحاد کیا جاتا ہے اسکا مضمون حلف خزاعہ کے مضمون سے مختلف ہے۔ چنانچہ ان پارٹیوں کے سیاسی اتحاد کاجو مضمون ہے اس کی طرف تو پیچھے اشارہ کردیا گیا ۔ رہا حلف خزاعہ تو اس میں نہ تو کسی حق بات سے دستبرداری ہوتی تھی اور نہ کسی باطل امر پر رضامندی ظاہر کی گئی ۔
(٣)تیسری دلیل :ان کی تیسری دلیل ہے کہ مطعم بن عدی اور ابو طالب نے رسول اللہ کو پناہ دی تھی۔

اس کا جوا ب یہ ہے کہ :
موجودہ سیاسی اتحاد میں حق سے دستبرداری ہوتی ہے ۔ جبکہ سیاسی اتحاد کرنے والوں کے متعارض موقف ہیں۔ کبھی کہتے ہیں :یہ سیکولر پارٹیاں ہیں ، کبھی کہتے ہیں یہ تعدد و اختلاف منشوروں کاہے نہ کہ مسلکوں کا۔ کبھی کہتے ہیںفلاں پارٹی اپنی موجود حالت میں مرتد تو ہے مگر اب وہ توبہ کر آئی ہے تب وہ پارٹی والوں کو مسلمان اور ان کی توبہ کودرست قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ دلیل دینے کی کیا ضرورت کہ نبی یہود اور مشرکین کے حلیف بنے تھے؟ اور اگر ان کو مرتد قرار دیتے ہیں تو ان سے تحالف(اتحاد) کیسے کرلیا؟ یہ صاف تعارض ہے۔!! حقیقت یہ ہے کہ اگر ان(سیکولر پارٹیوں) کا تائب ہونا فرض کرلیا جائے تب بھی شرعاً ان پارٹیوں پر یہ باتیں لازم تھیں۔
(الف) یہ (سیکولر ) لوگ اپنے سابقہ عقیدہ اور مشہور عام رویے سے برات اور بیزاری کا اعلان کرتے اور کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے کہ جو منہج انہوں نے پہلے اختیار کررکھا تھا وہ غلط ہے۔
(ب) (یہ سیکولرقوتیں) ایسی ہر بات سے دستبردار ہوجاتیں جو اسلام سے ظاہر ی یا باطنی طور پر متصادم ہو۔
(٤)چوتھی دلیل:صلح حدیبیہ

اسکا جواب یہ ہے کہ:
١۔ وہ اسلای ریاست تھی جسے اپنے جنگی دشمنو ں سے صلح (جنگ بندی) کا ہر ایسا معاہدہ کرنے کا حق
تھا جسے وہ مفسدت کے مقابلے میں راجح مصلحت سمجھتی ہو۔
٢۔ (سیکولر) پارٹیوں کے اسلامی اتحادیوں کی صورتحال کے برعکس ، صلح حدیبیہ میں اسلام کی کسی بات سے جوہری دستبرداری نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ آپ نے الرحمن الرحیم کی جگہ(با سمک اللھم) لکھ دیا۔
رہی یہ بات کہ آپ نے (اس وثیقہ میں) رسول اللہ نہ لکھا تو اس بات سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اپنی رسالت کی نفی کردی تھی۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا:”واﷲ انی لرسول اﷲ“ اللہ کی قسم میں یقینااور بے شک اللہ کا رسول ہوں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
سیاسی انتخابات کا حکم



جمہوری طریقہ سے عمل میں آنے والے انتخابات بھی حرام اور ناجائز ہیں۔ کیونکہ نہ تو منتخب ہونے والوں میں اور نہ منتخب کرنے والوں میں ان شرعی مواصفات کی شرط لگائی جاتی ہے جو اسلامی شریعت میں ولایت عامہ یا ولایت خاصہ کےلئے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ انتخابات اس طریقہ سے اس بات کاسبب بنتے ہیں کہ مسلمانوں پر اقتدار کا حق ان لوگوں کو ملنے لگے جن کو یہ اقتدار سونپنا جائز نہیں بلکہ ان کوشریک مشورہ تک کرنا جائز نہیں۔ مزیدبرآں یہ کہ اس کو منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قانون ساز مجلس نمائندگان اور ان نمائندہ ایوانوں کار کن بنے جو اپنا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے نہیں بلکہ اکثریت سے طے کرتے ہیں۔ بنابریں یہ طاغوتی ایوان ہیںان کو سرے سے تسلیم کرنا جائز نہیں کجا یہ کہ ایک مسلمان ان کو وجود میں لانے کےلئے دوڑ دھوپ کرے اور انکو قائم کرنے میں تعاون کرے۔ درآں حالیکہ یہ (ایوان) اللہ کی شریعت سے مصروف جنگ ہوں۔ مزید برآں یہ کہ یہ مغربی طریقہ کار ہے اور یہود و نصاری کی پیداوار جبکہ ان سے مشابہت رکھنا شرعا ناجائز ہے۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت میں حکمران کے چناؤ کی بابت کوئی طے شدہ طریقہ کار ثابت نہیں اور اس بنا پر انتخابات میں کوئی حرج نہیں۔ ۔۔۔ تو اسے کہا جائے گا کہ یہ غلط ہے کہ یہ بات شریعت سے ثابت نہیں بلکہ حکمرانوں کے انتخاب کے طریق ہائے کار کی بابت صحابہ نے جو کچھ کیا وہ سب کے سب شرعی طریق ہائے کار ہیں۔

رہا سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار تو اس کی ممانعت کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کےلئے کوئی(شرعی) ضابطے مقرر نہیں اور(جو مقرر ہیں) وہ اس بات کا موجب ہیں کہ ایک غیر اسلامی قوت کو اقتدار ملے جبکہ فقہاءمیں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کو جائز کہتا ہو۔

سیاسی معاملات کا حکم​

احترام باہمی کاسمجھوتہ​

اس سمجھوتے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قوتیں جمہوری اصولوں کوپختہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کفر کا حکم نہ لگائیں جبکہ اس معاملہ میں اسلام کاحکم یہ ہے کہ جس کو اللہ اور اس کا رسول کافر قراردے اسے کافر ہی قرار دیا جائے، جسے اللہ اور اس کا رسول فاسق قرار دے اسے فاسق ہی قرار دیا جائے۔ اور جسے اللہ اور اس کا رسول گمراہ کہے اسے گمراہ ہی کہا جائے۔ اسلام میں (عیسائیت کی طرزپر) نہ تو مغفرت کے چیک ملتے ہیں اور نہ مغفرت سے محروم کرنے کے۔ ایک گناہ گار مسلمان کی تکفیر کرنا تو، جب تک وہ کسی معصیت کو روا نہ کرلے، اہل سنت والجماعت کے منہج میں نہیں۔ رہی انسانی وضع کردہ آئینوں اور دستوروں کی بات جن میں ایک جمہوریہ یمن کا آئین بھی ہے۔ تو علماءیمن نے اس میں موجود رخنوں اور شریعت سے متصادم امور کی اتنی وضاحت کررکھی ہے کہ ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارا دعوت الی اللہ کا طریق کار جو سب کو جان لینا چاہیے


١۔ فہم سلف کی بنیادپر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔

٢۔ ہم اپنا یہ اہم ترین دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ درآمد شدہ افکار اور درآئندہ بد عات کا مقابلہ علم نافع اور دعوت الی اللہ کے ساتھ کیا جائے اس کے لئے بیداری پید ا کی جائے۔ عقائد اور مفہومات درست کئے جائیں اور اس پر مسلمانوں کی وحدت مجتمع ہو۔

٣۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تختے الٹنا قاتلانہ حملے اور فتنے امت کی ضرورت نہیں، بلکہ امت کی ضرورت یہ ہے کہ اس کوایمانی تربیت دی جائے اور فکر کو صاف ستھرا بنایا جائے، امت کو اپنی شوکت رفتہ اورعظمت کی راہ پر پھر سے گامزن کرنے کےلئے یہی سب سے کامیاب ذریعہ ہے۔

آخر میں ہم متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بیان شائع کرنے کاایک سبب یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کچھ حلقے ، یمن میں اسلام اور علماءکی ترجمانی کرتے ہوئے کچھ ایسے مسائل میں کلام فرمارہے ہیں جو کچھ اسلامی پارٹیوں نے اپنا رکھے ہیں۔ یہ حلقے ان جماعتوں کو ان کی سیاسی روش میں موجود تناقضات اور شرعی انحرافات کے باوجود ، شرعی جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔سو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حضرات صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں یا پھر اس پارٹی کی جس کی یہ رکنیت رکھتے ہیں، اعتبار بہرحال دلیل کاہوگا نہ کہ کسی کی کثرت کا یا کسی قیل و قال کا۔

وصلی اﷲ علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔ والحمد ﷲرب العالمین​


فتوى از قلم : امام العصر علامه ناصر الدين الألباني رحمه الله تعالى
 
Top