• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید زندہ ہیں + بلند نصب العین۔۔

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷
اورجولوگ خدا کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم اس سے واقف نہیں۔۱؎(۱۵۴) اور کسی قدر خوف اور بھوک اور جانوں اورمالوں اور میوؤں کے نقصان سے ہم تم کو آزمائیں گے اور بشارت دے ان صابروں کو۔(۱۵۵) کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں کہ ہم خدا کا مال ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔(۱۵۶) ایسے ہی لوگو ں پر ان کے رب کی طرف سے رحمت اور مہربانی ہے اور وہی ہدایت پر ہیں۔۲؎(۱۵۷)
شہید زندہ ہیں
۱؎ جولوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں اور خدا کے حضور اپنے خون کا ارمغان ثمین پیش کریں، وہ ہرگز نہیں مرتے۔ تاریخ کے صفحات میں، دل کی گہرائیوں میں، بہادروں کے تذکرے میں اور اللہ کے ہاں وہ زندہ ہوتے ہیں یعنی میدانِ جنگ میں مرنا موت نہیں۔ بستر مرگ پر بزدلانہ جان دینا موت ہے ۔ کفار ان لوگوں کو جو جہاد میں شہید ہوجائیں، کہتے ہیں کہ وہ ناحق مرگیے۔منافقین کا خیال تھا کہ وہ اگر میدانِ جنگ میں نہ جاتے تو موت کے مضبوط چنگل سے بچ جاتے۔ قرآن حکیم کہتا ہے تم جسے موت سمجھتے ہو، اس پر ہزار زندگیاں قربان ۔ اللہ کے ہاں جو ان کے مرتبے ہیں وہ تمہارے نہیں۔ یہ زندگی جو شہدا کے لیے ہے ، عام مادی زندگی سے مختلف ہے ۔ یہ مدارج ومراتب کی زندگی ہے نہ معمولی محسوس زندگی، اس لیے فرمایا کہ تم اس زندگی کے لطف کو نہیں جان سکتے۔
بلند نصب العین
۲؎ الٰہی کتب کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ انسان کو کشاکش ہائے حیات کے لیے پوری طرح تیار کردے یعنی اس کے دل ودماغ کو اتنا بلند اور آمادہ صبر کردے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی مرکز عقل ودانش سے نہ ہٹیں۔قرآن حکیم نے اس مقصد کو جس خوبی سے پورا کیا ہے ، دنیا کی کوئی کتاب اس کی اس میں شریک وسہیم نہیں۔ قرآن حکیم کا نظریۂ حیات یہ ہے کہ دنیا میں مصائب وحوادث کا وقوع فطری اور ناگزیر ہے ۔ کبھی خوف وہراس سے دل دہل جاتے ہیں اور کبھی فاقہ وافلاس سے چہرو ں پر پژمردگی طاری ہوجاتی ہے اورپھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عزیزجانوں کا ضیاع ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ غرض کہ جب تک اس دنیا میں ہیں، ان مصائب سے خلاصی نہیں،البتہ وہ جو '' صابر'' ہیں، انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے لیے یہ ابتلاء امتحان کا یہ خارستان بھی گل کدہ عیش ہے، کیوں کہ وہ اپنے ذہنی افق کو اس درجہ بلند ابتلا کرلیتے ہیں کہ وہاں مصائب کا کوئی خیال تکدر پیدا نہیں کرسکتا، اس لیے یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی اور موت سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے،اس لیے اگر سکھی ہیں تو بہرحال اس کو اپنے فرائض عبودیت سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ایمان کے بعد کوئی بڑے سے بڑا دکھ بھی تکلیف دہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ الم کا تعلق ہونے والے واقعات سے نہیں بلکہ احساسات سے ہے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اس قسم کے لوگ ہی راہِ راست پر ہیں اور یہی وہ ہیں جو اللہ کی رحمتوں کے سزاوار اورمستحق ہیں۔
حل لغات
{اَمْوَاتٌ} جمع میت۔ مردہ۔ مراہوا۔{ نَبْلُوَن} مصدر بَلآء۔ آزمائیں گے۔ {خَوْفٌ} ڈر۔{صلوٰت} جمع صلوٰۃ بمعنی رحمت۔
 
Top